ترقی یافتہ ممالک کی خواتین میں ماں بننے سے گریز کا بڑھتا ہوا رجحان

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ماں نہ بننے والی خواتین میں عموماً لڑکپن برقرار رہتا ہے۔

رقی یافتہ ممالک یورپ ، امریکا وغیرہ میں عورتوں میں ماں نہ بننے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

ماہرین عمرانیات کے مطابق عورت اور مرد وہ بنیادی اکائی ہیں، جو آگے چل کر ایک معاشرے کی بنیاد بنتے ہیں، یوں عورت کی معاشرے میں اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، اس کی یہ اہمیت اس وقت تقدس کا روپ دھار لیتی ہے جب اسے ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ اس طرح وہ نسلوں کی امین بنتی ہے، تما م مذاہب میں بھی عورت کو بطور ماں بہت زیادہ عزت و احترام دیا گیا ہے۔

مگر حیران کن بات یہ ہے کہ آج کے جدید معاشرے خصوصاً ترقی یافتہ ممالک یورپ ، امریکا وغیرہ میں عورتوں میں ماں نہ بننے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ 1945ء میں لاطینی امریکا کے ملک چلی کی پہلی نوبیل پرائز حاصل کرنے والی شاعرہ گیبرائیل مسٹرال کہتی ہیں کہ ہمارا بدترین جرم بچوں کو ترک کرنا اور زندگی کے چشمے کو نظرانداز کرنا ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ماں نہ بننے والی خواتین میں عموماً لڑکپن برقرار رہتا ہے، گڑیا کے ساتھ کھیلنے کے لئے ان میں دلچسپی کم ہوتی ہے یا پھر دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا بہانہ بنا لیتی ہیںحتیٰ کہ وہ بچوں کا شور بھی پسند نہیں کرتیں لیکن ان میں سے کئی خواتین بچوں کو پڑھانے یا بچوں کی کونسلرز کے طور پر کام کا انتخاب کر لیتی ہیں۔ عام طور پر ایسی خواتیں کہتی ہیں کہ ہمیں بچوں سے پیار ہے لیکن ہمیں اپنے بچے پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ خواتین نوعمری میں ہی بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہیں۔ اگر ایسی خواتین سے کہا جائے کہ بچے پیدا کرنا حیاتیاتی ضرورت ہے تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ابھی یہ بات دریافت ہی نہیں ہوئی۔ ملائیشیا کے وزیراعظم نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے مختلف شعبہ جات کے سربراہوں کو تجویز دی کہ وہ اپنے سٹاف کو اپنے خاندانوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے وقت دیں۔ انہوں نے کہا کہ خاندانی توازن اور جذباتی استحکام کیلئے یہ ضروری ہے۔

امریکا میں ماں بننے، نہ بننے کی بحث

سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس اس بارے میں کہتی ہیں کہ میں ایک مذہبی خاتون ہوں اور دل سے یقین کرتی ہوں کہ چیزوں کو ویسے ہی جاری رہنا چاہیے جیسا ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے۔ ایکٹریس جینیٹ جیکسن نے انٹرویو میں بتایا کہ اگر میرے بچے ہوتے تو یہ میرے لئے ایسے اچھا ہوتا۔ امریکا میں بچے پیدا کرنے کے بارے میں ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے۔ ایک خاتون مصنفہ کا کہنا ہے کہ اگر آپ بچے پیدا نہیں کرتیں تو آپ کو بحث سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔ ایک مصنف کے مطابق بچے پالنے سے پسپائی انتہائی جدت کا نتیجہ ہے۔ ایک اور خاتون مصنفہ کے بقول اب طبی طور پر بچے پیدا نہ کر سکنے والی خواتیں بھی بچے پیدا کر سکتی ہیں، اس لئے اب خاتون پر ماں بننے کے فرض کیلئے دبائو بھی بڑھ گیا ہے۔کیرولینا پاپولیشن سنٹر کے ڈائریکٹر فلپ مورگن کہتے ہیں کہ ایک سروے میں جب خواتین سے پوچھا گیا کہ آپ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ کوئی بھی دو بچوں سے زیادہ پیدا نہیں کرنا چاہتی۔ وہ کہتے ہیں کہ خواتین نے تعلیم یا کام یا پھر مطلوبہ ساتھی نہ ملنے کی وجہ سے بچے پیدا کرنا چھوڑ دیے ہیں۔ نیو یارک یونیورسٹی کی سوشیالوجی کی پروفیسر کیتھلین کے مطابق بچے پیدا نہ کرنا زیادہ پیچیدہ اور حیاتیاتی قاعدے کے خلاف ہے۔ ایک تھراپسٹ پارشیا اولافلن کے مطابق ایسی خواتین جن کی متضاد خواہشات ہوتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ بچے پیدا نہ کرنا انتہائی تکلیف دہ ہے اس کے بغیر شناخت ختم ہو جاتی ہے۔



ماں نہ بننے کی خواہشمند خواتین کیا کہتی ہیں؟

نسوانیت پسند آئی کون گلوریا رسٹینم کہتی ہیں کہ میں بچے نہ ہونے پر مکمل خوش ہوں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ضروری نہیں کہ ایک گائیگ رقص بھی کرے۔ ضروری نہیں ہر خاتون بچے پیدا کرے، ہر کوئی ایک ہی طرز پر نہیں رہ سکتا۔ مصنفہ مارگریٹ چو نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ مجھے کسی چیز سے زیادہ بچے ڈراتے ہیں۔ اوپرا ونفرے کے مطابق میرا کوئی بچہ نہیں اور مجھے اس بارے میں کوئی پچھتاوا نہیں۔ ڈولی پارٹن کہتی ہیں کہ میرے گیت میرے بچوں کی طرح ہیں، بڑھاپے میں یہی میرا سہارا ہوں گے۔ جوں جوں بچے پیدا نہ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ان کے رابطے بھی آپس میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ سماجی اجتماع میں بھی کئی ایک لوگ مل جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے سماجی رابطے کی اپنی ویب سائٹ بھی بنالی ہے جس کے 20 ہزار اراکین ہیں اور اس طرح ان کے تنہا ہونے کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک چیز ہے جس پر وہ بات نہیں کرتے وہ ہے بچے۔ 15 سالوں میں چار مختلف یونیورسٹیز کے طلباء سے ڈیموگرافر سٹیفنی یوہن نے پوچھا کہ کیا آپ بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو سب نے ہاں میں اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیوں تو پھر کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ سٹیج ایکٹریس اور مصنفہ ایمرالڈ فلورز جس نے بچے پیدا نہ کرنے پر ڈرامہ لکھا، وہ کہتی ہیں کہ ہمارے خاندان میں ماں بننا ایک پسند یا خواہش کے طور پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ یہ خواہش کی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ کی ثقافت آپ کو ایک منشور سونپتی ہے، وہ ہے آپ کا خاندانی فخر اور آپ کی کامیابی۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ سارا خطرہ اس لئے مول لیا جاتا ہے کہ آپ کی نسل جاری رہے۔ وہ اپنی بچوں کے بغیر شناخت پر بضد ہیں اگرچہ وہ اپنی پندرہ سالہ بیٹی اور شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔ لارا سکاٹ جو کہ مرضی سے بچے پیدا نہ کرنے کا ڈاکومنٹری منصوبہ چلاتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ بچے پیدا نہ کرنے کے انتخاب کیلئے آپ کو تمام مفروضات سے نمٹنے کیلئے انتظام کرنا ہوگا۔آپ کو صدیوں سے قائم صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا۔

ماں بننے کی خواہش مند خواتین کی رائے؟


کیتھرائن گتھری اپنی کتاب ''دی مومی برین'' میں لکھتی ہیں کہ ماں بننا ہمیں سمارٹ بناتا ہے۔ ماں بننے کے فوائد پر کیتھرائن گتھری الیسن جو کہ پلٹزر پرائز وننگ رپورٹر ہیں، ان کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ مجھے خدشہ تھا کہ میں فیڈر اورپیمپر میں الجھ جائوں گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ پہلے بیٹے کی پیدائش پر مجھے عجیب وغریب خواب آتے تھے لیکن بعد میں سیکھنے کے عمل اور یاداشت میں اضافہ ہوا۔ وہ کہتی ہیں میں آپ کو ماں بننے کی وجہ سے دماغ کی بڑھنے والی پانچ صلاحیتیں بتاتی ہوں جو کہ درج ذیل ہیں؛ لچک یا نرمی، تحریک یا ترغیب، ادراک، کارکردگی یا لیاقت اور جذباتی ذہانت۔ ان صلاحیتوں میں اضافہ جانوروں اور انسانوں کے مطالعہ سے ثابت ہو چکا ہے۔ مزید تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ تحریک اور نڈر پن میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ تنائو سے نمٹنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ عموماً خواتین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں رہتی ہیں لیکن ماں بننے سے فوکس مستقبل کی طرف ہو جاتا ہے۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ میں نے تخلیقی کام ماں بننے کے بعد کیا حتیٰ کہ میں نے کتاب بھی ماں بننے کے بعد لکھی۔ خواتین ماں بننے کے بعد اپنی ترجیحات جان لیتی ہیں۔ خواتین کو ماں بننے کے فائدے عارضی نہیں بلکہ 80 سال تک رہتے ہیں جو کہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ نواسوں اور نواسیوں سے ملنے والی خوشی سے نہ صرف ذہنی اور جسمانی صحت برقرار رہتی ہے بلکہ وقت بھی اچھا گزرتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ماں بننے کا صلہ مرنے تک ملتا ہے۔ اس کے علاوہ مائیں بچوں کیلئے معلومات جمع کرتی ہیں جس سے ان کی تازہ ترین معلومات ماں نہ بننے والی خواتین سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ انہوں نے بچوں کو ہر سطح کے مقابلے کیلئے تیار کرنا ہوتا ہے۔ ماں بننے کا ایک اور فائدہ ٹائم مینجمنٹ ہے۔ خواتین بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ جاب کیلئے بھی وقت نکالتی ہیں۔

ماہرہن کے مطابق بچے پیدا کرنا ایک قدرتی عمل ہے اس لئے یہ رکنا نہیں چاہیے۔ ایسا کرنا قدرت کے خلاف ہے۔ ردعمل کے طور پر نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ایک تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ آکسیٹوسن ہارمون سے یاداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماں بچے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتی ہے، وہ ہر ایک سے دور بھاگ سکتی ہے لیکن اپنے بچے سے نہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے سائنسدانوں نے بے اولاد اور بچوں والے والدین کے دماغ کے سکین کا موازنہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ بچوں کے رونے کی آواز سن کر والدین کے دماغ چست ہو جاتے ہیں جبکہ بے اولاد والدین کے دماغ بچوں کے ہنسنے پر چست ہو جاتے ہیں۔ ایک سائنسدان نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ماں بننا خواتین کو قدر شناسی ، ہم آہنگی یا حلول کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ دراصل وہ ادراکی صلاحیت بچے سے سیکھتی ہے۔ ایک اور تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ بچے کے رونے کے وقت ماں کے دماغ کے وہ حصے ردعمل دیتے ہیں جو کہ خوشگوار سرگرمیوں کے دوران جیسا کہ اچھا کھانا اور رقم ملنا۔ مرد باپ بننے کے بعد قدر شناس بن جاتے ہیں اور ان میں تحمل بھی آجاتا ہے اور یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی ثابت ہو چکی ہے۔ کنازوا نے یوکے کے نیشنل ڈویلپمنٹ سٹڈی میں پچاس سال تک کام کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بچے پیدا نہ کرنے والی خواتین کی عمر لمبی اور وہ انتہائی ذہین ہوتی ہیں۔ کنازوا نے دیکھا کہ مائیں بننے والی خواتین کا آئی کیو لیول 25 فیصد کم ہوتا ہے جبکہ اس کے کئی اراکین کو ایسی باتوں کے شواہد نہیں ملے جس کی وجہ سے یہ تحقیق متنازع ہوگئی۔ ''دی بی بی میٹرکس'' کی مصنفہ لارا کیرل کہتی ہیں کہ بچے پیدا نہ کرنے کی وجہ سے مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے کیونکہ بچے پیدا نہ کرنے کو ''کمی'' کہا جاتا ہے جبکہ ثقافتی ناقدہ لارا کپنس کہتی ہیں یہ کمی نہیں بلکہ بچہ پیدا نہ کرنے سے زندگی مکمل نہیں ہوتی۔



دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین میں بچے پیدا نہ کرنے کی مختلف وجوہات ہیں۔جاپان میں مہنگائی نے خواتین کو بچے پیدا نہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ جب تک دونوں والدین کام نہ کر یں بچے پالنا ناممکن ہے۔ وہاں تنہا زندگی اس لئے بھی مثالی ہے کہ خواتین گھر میں رہتی ہیں جبکہ مرد بیس بیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 70 فیصد خواتین شادی کے بعد ملازمت ترک کردیتی ہیں اور ایسا قدامت پسند سوچ کی وجہ سے ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک لڑکی کو شادی کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور چالیس فیصد لڑکیاں بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ 90 فیصد خواتیں اکیلے رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔آبادی کی ماہر پروفیسر ٹومومی یماگوچی کہتی ہیں کہ مذہبی رحجان کی کمی ، زلزلے، جنسی بے راہ روی کا شکار کرنے والی فلموں اور مہنگی ترین رہائش نے بچے پیدا کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ تائیوان میں بھی صورت حال جاپان جیسی ہے۔ مہنگائی نے یہاں پر خواتین کے لئے بچے پیدا کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ روس میں معاملات کچھ مختلف ہیں۔ روس میں ماں کو بچے کی پیدائش کے تھوڑے دنوں بعد ہی ملازمت پر جانا پڑتا ہے تو پھر وہ بچے کیسے پیدا کرے گی۔ ایسے ممالک میں اگر خواتین مائیں بننا بھی چاہیں تووہ نہیں بنتیں کیونکہ وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ کئی صنعتی اور زرعی ممالک میں خواتین سے دونوں کاموں کی توقع کی جاتی ہے یعنی وہ بچے بھی پیدا کرے اور ملازمت بھی کرے جس کی وجہ سے ان میں بچے پیدا نہ کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ چین میں معاملہ تمام ممالک کے برعکس ہے۔ چین میں ساس اور ماں دونوں بچے کی دیکھ بھال کرتی ہیں بلکہ رشتہ دار بھی ان کے اس کام میں مدد دیتے ہیں۔ یہاں بچے کو ننھا شہنشاہ کہا جاتا ہے۔ چین میں صر ف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ بھارت میں اس معاملے میں ثقافت کا بڑا عمل دخل ہے ۔ بھارت میں لڑکے کی پیدائش کو اہمیت دی جاتی ہے اور بچے پیدا کرنا مذہب اور ثقافت کا حصہ ہے۔ یہاں خاندانی تسلسل کیلئے بھی بچے کی پیدائش ضروری ہے لیکن حال ہی میں اس رحجان میں قدرے کمی آئی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں یہ تصور ہی نہیں کہ بچے پیدا نہیں کرنے، البتہ یہ رجحان اب بڑھتا جا رہا ہے کہ کتنے بچے پیدا کرنے ہیں اور بچوں کی پیدائش میں وقفہ کتنا ہونا چاہیے۔ ابھی یہ ثقافت بھی غالب ہے کہ دادیاں اور نانیاں اپنی مثالیں دیتی ہیں کہ ہم نے نو، نو بچے پیدا کئے وہ بھی ہسپتال جائے بغیر اور ان کی عمر بھی 90 سال سے کم نہیں ہوتی۔ پڑھی لکھی خواتین شادی کے بعد بچے پیدا کرنے کے حوالے سے خود فیصلہ کرتی ہی۔ حتیٰ کہ کچھ خواتین نے منصوبہ بندی کے جدید طریقے بھی استعمال کرنا شروع کردیے ہیں کیونکہ اب وہ سوچنے لگ گئی ہیں بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے یہ ضروری ہے، ساتھ ہی وہ مہنگائی اور کم ہوتے ہوئے کمروں کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولتیں اس لئے اب وہ تعین کرنے لگ گئی ہیں کہ بچہ کب پیدا کرنا ہے۔ اعلیٰ طبقے کی خواتین کی سوچ میں کافی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ سوچتی ہیں کہ جب تک ہم بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر پاتیں تب تک ہمیں آزادی نہیں مل سکتی۔ ایک اور بدلتا رجحان بھی بڑا نمایاں ہے۔ اب خواتین نے گھریلو کاموں، بچوں کی تعلیم وتربیت اور اپنے کردار میں فرق کرنا شروع کردیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بچے پیدا نہ کرنے کا تصور ناپید ہے۔



آمدنی، اخراجات اور بچوں کی پیدائش

امریکا میں 18 سال کی عمر تک پرورش کرنے کے لئے 2لاکھ 34ہزار 9 سو ڈالر خرچ آتا ہے اور اگر آمدنی ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے تو یہ خرچ 3 لاکھ 90 ہزار ڈالر تک بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے خواتین کیلئے بچے پیدا کرنا خوف کی صورت اختیار چکا ہے۔ امریکا میں اس وقت بچے پیدا کرنے کی شرح 2007 ء سے 2011 ء تک 9 فیصد کم ہو گئی ہے۔ 1970 ء میں 10 میں سے ایک خاتون جبکہ 2010 ء میں 5 میں سے ایک خاتون چاہتی تھی کہ وہ ماں نہ بنے۔ 1976 ء میں 40 سے 44 سالہ خواتین جنہوں نے کبھی بھی بچے پیدا نہیں کئے وہ 10 سے 18 فیصد جبکہ 2008 ء میں ایسی خواتین 80 فیصد ہو گئیں۔ 33 فیصد امریکی یقین کرتے ہیں کہ شادی کرنے سے سماجی معیار بڑھتا ہے جبکہ 40 سے 44 سالہ 49 فیصد خواتین رضاکارانہ طور پر مائیں نہیں بنتیں۔ یورپی ممالک میں صورتحال مختلف ہے مثلاً اٹلی میں ایک تہائی خواتین نے کبھی بچے پیدا ہی نہیں کئے۔ امریکا میں شرح پیدائش تو کم ہو گئی ہے لیکن بچوں کی ضروریات کی اشیاء کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ 2013ء میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری 49 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین میں بچوں کے پیدا کرنے کی شرح مختلف ہے۔ یہ شرح نائیجر میں 7 فیصد، افغانستان 5.5 ، بھارت 2.6، میکسیکو 2.3، امریکہ 2 ، برطانیہ 1.9، ناروے 1.8، چین 1.6جبکہ جرمنی، اٹلی اور جاپان میں یہ شرح 1.4 فیصد ہے۔ امریکہ میں زیادہ آمدنی والی 8 میں سے ایک خاتون بچے نہ پیدا کرنے کی توقع کرتی ہے۔ درمیانی آمدنی والی 14 میں سے ایک اور کم آمدنی والی 20 میں سے ایک خاتون ایسی توقع کرتی ہے۔ امریکا میں ''مامز مارکیٹ'' 2.4 کھرب ڈالر تک ہے جوکہ امریکا کے دفاعی بجٹ سے دگنی ہے۔2007 ء میں بچوں کی نگہداشت پر آنیوالا خرچ 62.3 ارب ڈالر تھا۔ اعدادوشمار کے مطابق 1984ء سے 2008 ء تک ماں نہ بننے والی سیاہ فارم خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں مسیچوسٹس یونیورسٹی کی سوشیالوجسٹ جینیفر ہکس کہتی ہیں کہ سیاہ فام خواتین روایتی بننے سے انکار کر رہی ہیں۔
Load Next Story