پاسپورٹ بحران پر کیسے قابو پایا گیا
ایک روز بچپن کا ایک دوست دفتر آگیا ۔میرا خیال تھا کہ صرف ملنے آیا ہو گا، مگراس نے بھی ٹوکن نکال کر تھما دیا۔
اُن دنوں دفتر میں میرا یہ حال ہوتا تھا کہ صبح آتے ہی پہلے درخواست گزاروں سے ملتا ، پھر کائونٹرز پر جاکر صورتِ حال کا جائزہ لیتا، پھر ٹاپ فلور پر پرنٹنگ مشینوں پر جا کر پروڈکشن اسٹاف کو ملتا اور ان کا حوصلہ بڑھاتا، اس کے بعد ہیلپ لائن پہنچ جاتا اور شام کو ڈلیوری ہال میں جا کر دیکھتا کہ لوگوں کو پاسپورٹ صحیح طریقے سے مل رہے ہیں یا نہیں ۔ ڈائریکٹرجنرل کا طرزِ عمل دیکھ کر اسٹاف کا طرز ِعمل بھی تبدیل ہو نے لگا اور وہ جوش اورجذبے سے کام کرنے لگے۔
ایک روز میں دفتر پہنچاہی تھاکہ اردلی نے آکر کہا سر! دفتر کے چند ملازمین آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ میں نے کہا بلائو۔ میراخیال تھا کہ ان کے کچھ مسائل یا مطالبات ہوںگے ۔چند لوگ اندر آئے جن میں پروڈکشن مینیجر ہارون جمیل اور رائے رضا بھی تھے ، میں نے پوچھا بتائو کیا مسئلہ ہے؟ ہارون اور رضاکہنے لگے ''سر! کوئی مسئلہ نہیں، ہم تو یہ کہنے آئے ہیں کہ ہم اِس مشن کی تکمیل کے لیے دل وجان سے آپ کے ساتھ ہیں، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ بحران کے خاتمے کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے ''۔ میں کرسی سے اٹھا اور جا کر انھیںگلے لگا لیا ۔ ٹیکنیکل ونگ کے مینیجر وسیم اور ممتاز نے بھی دن رات ایک کر دیا تاکہ پروڈکشن میں کوئی وقفہ یا تاخیر نہ ہو، شاہد ریاض اور رابعہ جمیل نے بھی زبردست کام کیا۔ شکیل ، طلعت ، جہانگیر اور راحیل نے بھی بڑے جوش و جذبے سے کام کیا،نئے ولولوں سے سرشار نوجوان افسر سلمان ایک روز رات کوڈلیوری سیکشن میں نظر آیا تومیں نے پوچھا ''ابھی تک یہیں ہو ؟''کہنے لگا ''سر! ہنگامی حا لات ہیں، ساری رات بھی اِدھر رہنا پڑے تو کوئی پرواہ نہیں'' ۔ ڈی ایم جی کے نوجوان افسر یحییٰ اور فواد کا بھی یہی حال تھا۔ محکمے کے پرانے اور تجربہ کار افسروں میںنور الرحّمان تنولی اور اخلاق قریشی نے بڑی محنت، لگن اور ولولے سے کام کرکے بحران کے خاتمے میں حصہ ڈالا ۔ خواتین کا جوش و جذبہ بھی بڑا قابلِ رشک تھا۔ توصیف ضیاء ، عائشہ ، زارا،اسمہ اور نور کی محنت اور لگن ناقابلِ فراموش ہے۔ زیادہ تر لوگ ایک نئے جذبے سے لبریز تھے ، وہ اب نوکری نہیں مشن سمجھ کر کام کررہے تھے۔ بہت سے ایسے پرجوش ورکر تھے جن کے نام یاد نہیں آرہے۔
ان دنوں پاسپورٹ کے محکمے میں ڈائریکٹر جنرل کے بعد سب سے اہم عہدہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کا ہوتا تھا۔ نئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے لیے میں نے (ڈی ایم جی اور پولیس سمیت) کئی سروسز کے افسروں کے انٹرویو کیے مگر مطلوبہ معیار کا کوئی افسر نہ ملا، پھر ایک روزپولیس کے نیک نام افسر احسان صادق نے انکم ٹیکس سروس کے محمد صفدر کا نام تجویز کیا،متعلقہ افسر کو بلا کر ملاقات کی تو وہ پہلی ملاقات میں ہی بھا گیا وہ اُس وقت ایف بی آر میں سیکریٹری تھا،بڑی مشکل سے اُسے( کئی سیکریٹری صاحبان سے ملکر) وہاں سے ریلیو کرایا اور اپنے محکمے میں تعینات کرایا۔ محمد صفدرتوقع کے عین مطابق نکلے۔ انتہائی ایماندار،بے پناہ محنتی اور ایسے قابلِ اعتمادکہ جن پر ادارے فخر کرتے ہیں۔ وہ پاسپورٹ بحران کے خاتمے کے لیے چوبیس چوبیس گھنٹے جاگتے رہے۔ محمد صفدربعد میں اُسی محکمے یعنی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے قائم مقام ڈی جی بھی رہے۔
اس دوران میڈیا کے لوگ بار بارانٹر ویو کے لیے ہیڈ آفس آتے رہے مگر میںان سے معذرت کرلیتا کہ ''ابھی آپ کو بتانے کے لیے میرے پاس کوئی خاص خبر نہیںہے ، تین مہینوں کے بعد آپ سے ملوںگا تو پھر کوئی خوش خبری سنا نے کے قابل ہوںگا''۔مجھ سے مایوس ہو کر میڈیا والے ڈیپارٹمنٹ کے سینئر افسران سے ملتے اور پوچھتے کہ '' کیا ہو رہا ہے؟ایک تھر تھلی سی آئی ہوئی ہے، ہر چیز متحرک ہوگئی ہے۔ ''
محکمے کے ایک نیک نام اور تجربہ کار افسر نے انھیں مختصرجواب دیا جو اخبارات میںبھی چَھپ گیا کہ '' اتنے بڑے کرائسسز پر قابو پانے کے لیے اِس وقت محکمے کو ڈائریکٹر جنرل کی نہیں ایک لیڈ ر کی ضرورت تھی، وہ مل گیا ہے جو روایتی افسروں کی طرح اپنی ٹیم اور عوام سے کٹا ہوا نہیں ہے، وہ ایک ورکر کی طرح کام کرتا ہے اور لیڈر کی طرح چیلنج سے نبرد آزما ہو تاہے۔ اس لیے اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہم بحران پر قابوپالیں گے''۔
شہریوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے ہر روز نئے اقدامات کیے جانے لگے ، چند ہی دنوں میں لوگوں نے خوشگوار حیرت سے دیکھا کہ دفتر کے باہر سودے بازی کرتے ہوئے ایجنٹ غائب ہو چکے ہیں، اور دیواروں سے چمٹنے والے لوگ ایک قطار میں کھڑے ہیں کیونکہ ان کے لیے بیرونی دیوار کے ساتھ علیحدہ کائونٹر بنا دیا گیا تھا۔ وی آئی پی کلچر ختم کر دیا گیا۔ مریضوں ،طلباو طالبات اور بیرونِ ممالک میں اپنی نوکری (Jobs) پر پہنچنے والوں کے ترجیحی بنیادوں پر پاسپورٹ بنانے شروع دیے گئے۔
میں ہر روز پروڈکشن ونگ ( جہاں پاسپورٹ تیار ہوتے ہیں اور جو دفتر کی چوتھی منزل پر تھا) میں ضرور جاتا،وہاں کسی سے مصافحہ کرتا ، کسی کو تھپکی دیتا ، کسی سے سوال جواب کرتا اور ہر طریقے سے ان کے جذبے اور ولولے بڑھانے کی کوشش کرتا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اس کمرے میں(جہاں میں ہر روز جاتا تھا) ماضی میں عرصہ دراز سے کسی ڈائریکٹر جنرل صاحب نے جانے کی زحمت نہیں کی تھی۔
پروڈکشن اسٹاف کے لیے اسی منزل پر نہایت صاف ستھرا واش روم بنوادیا گیا۔ باقی اسٹاف کے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ دی جانے لگی ۔اوور ٹائم لگانے والوں کے لیے مالی معاوضے کے علاوہ کھانے کا بندوبست کر دیا گیا۔ اورپھر جب ہم نے اسٹاف سے پوچھا کہ اس غیر معمولی صورتِ حال میں ہمیں اپنی ہفتہ وار چھٹیوں کی بھی قربانی دینا ہو گی ۔ تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے ۔ اسٹاف کو محنت کی ترغیب ملی اور حوصلہ افزائی ہوئی تو انھوں نے شفٹیں بڑھا دیں اور چھٹیوں کی قربانی دے دی ۔ انھیں اوور ٹائم کا معاوضہ اور نقد انعامات دیے جانے لگے تو وہ نئے جذبوں سے سرشار ہوگئے۔
شہریوں کی سہولت کے لیے ہیلپ لائن بنادی گئی اور اس کے نمبروں کی تشہیر کی گئی۔ لوگ ہیلپ لائن پر فون کرکے اپنی درخواست کا اسٹیٹس پوچھتے تو انھیں واضح طور پربتایا جاتاکہ '' آپ کا پاسپورٹ فلاں تاریخ کو بنے گا اور آپ کے ریجنل آفس میں فلاں تاریخ کو پہنچے گا''۔ عوام کی بے چینی کم ہونے لگی۔ لوگوں کے رویوں میں ایک ٹھہرائو آنے لگا۔
اسلام آباد ہیڈ آفس میں واضح بہتری آنے کے بعد میں نے ریجنل دفاتر کے دورے شروع کر دیے۔ مجھے یا د ہے کہ میں لاہور آفس پہنچا تو بہت سے پریشان حال passport seekers میرے گرد جمع ہوگئے۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی نے روتے ہوئے کہا '' انکل بڑی مشکل سے مجھے امریکا کی top class Universityمیں داخلہ ملا ہے، اب میرا سکالر شپ ضایع ہو جائیگا اور میں پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے لیے نہیں جا سکوںگی ، اس کا ذمے دار کون ہوگا؟''
''اس کا ذمے دار میں ہوںگا''۔ میں نے بلند آواز میں جواب دیاجس پر شور ایک دم تھم گیا، پھر میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، '' بیٹی آپ ضرور جائیں گی، مجھ پر اعتماد رکھیں۔ٹھیک ایک ہفتے بعد پاسپورٹ آپ کے ہاتھ میں ہوگا'' اور ایسا ہی ہوا۔
ایک نوجوان نے تلخ لہجے میں کہا کہ '' مجھے جرمنی میں بڑی اچھی جاب ملی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ آپ کے محکمے کی نااہلی کی و جہ سے مجھ سے یہ Jobچھن جائے گی''۔ ''ایساہر گز نہیں ہوگا ،آپ فکر نہ کریں، آپ کا پاسپورٹ چند دنوں میں بن جائے گا۔ یقین رکھیں جرمنی کی طاقتور چانسلرمرکل بھی آپکی job نہیں چھین سکتی'' میرا جواب سن کر وہ ہنس پڑااور ماحول خوشگوار ہو گیا ۔ایک صاحب اور ان کی بیگم حسرت بھر ے لہجے میں کہنے لگے ''کئی مہینوں سے مارے مارے پھر رہے ہیں ، پاسپورٹ ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے ہماری حج کی آرزو پوری نہیں ہو سکے گی''۔
میں نے کہا ''آپ حج پر ضرور جائیں گے مگر اس کے لیے آپ کوا سپیشل نذرانہ اداکرنا ہوگا'' وہ کیا؟انھوں نے چونک کر پوچھا، ''آپ کو اﷲ کے گھر میں اور رسولﷺ کے روضہء اقدس پر وطن عزیر پاکستان کے لیے اور میرے لیے بھی دعا کرنا ہوگی۔'' آٹھویں روزدونوں کے فون آئے۔ ان کے منہ سے دعائیں اور آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ اس کے بعد میں نے سیالکوٹ ، فیصل آباد ، سرگودھا اور کراچی آفس کے بھی دورے کیے، ہر جگہ محسوس ہوا کہ اسٹاف کی سوچ تبدیل ہوئی ہے اور عام لوگ اب اس ادارے پر اعتمادکرنے لگے ہیں۔
یہ تو چارج لیتے ہی اندازہ ہوگیا تھاکہ پاسپورٹ اب ہر گھر کی ضرورت بن چکا ہے اور اس کی عدم دستیابی ہر گھر کا مسئلہ ہے ، اس لیے میں جہاں بھی جاتا لوگ جیبوں سے ٹوکن نمبر نکال کر مجھے تھما دیتے کہ یہ پاسپورٹ بہت ضروری ہیں، یہ ضرور بنوادیجیے ۔ کبھی کوئی دوست یا واقف کار آجاتا اور رسما خیر خیریت پوچھنے لگتا تو میں اسے کہتا خیریت کو چھوڑ و، کا م کی بات پر آئو اور ٹوکن نمبر نکالو ۔اس پر اُس کا ہاتھ جیب میں چلا جاتا ۔
ایک روز بچپن کا ایک دوست دفتر آگیا ۔میرا خیال تھا کہ صرف ملنے آیا ہو گا، مگراس نے بھی ٹوکن نکال کر تھما دیا، میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ تم بھی کام سے ہی آئے ہو ! ناراض ہوکر میں نے اس کا ٹوکن پھاڑ دیا۔ اِس پر اُس نے مختلف جیبوں سے کئی اور ٹوکن نکالے اور ساتھ ہی بولا۔
ہر جیب سے ٹوکن نکلے گا تم کتنے ٹوکن پھاڑو گے
(جاری ہے)
ایک روز میں دفتر پہنچاہی تھاکہ اردلی نے آکر کہا سر! دفتر کے چند ملازمین آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ میں نے کہا بلائو۔ میراخیال تھا کہ ان کے کچھ مسائل یا مطالبات ہوںگے ۔چند لوگ اندر آئے جن میں پروڈکشن مینیجر ہارون جمیل اور رائے رضا بھی تھے ، میں نے پوچھا بتائو کیا مسئلہ ہے؟ ہارون اور رضاکہنے لگے ''سر! کوئی مسئلہ نہیں، ہم تو یہ کہنے آئے ہیں کہ ہم اِس مشن کی تکمیل کے لیے دل وجان سے آپ کے ساتھ ہیں، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ بحران کے خاتمے کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے ''۔ میں کرسی سے اٹھا اور جا کر انھیںگلے لگا لیا ۔ ٹیکنیکل ونگ کے مینیجر وسیم اور ممتاز نے بھی دن رات ایک کر دیا تاکہ پروڈکشن میں کوئی وقفہ یا تاخیر نہ ہو، شاہد ریاض اور رابعہ جمیل نے بھی زبردست کام کیا۔ شکیل ، طلعت ، جہانگیر اور راحیل نے بھی بڑے جوش و جذبے سے کام کیا،نئے ولولوں سے سرشار نوجوان افسر سلمان ایک روز رات کوڈلیوری سیکشن میں نظر آیا تومیں نے پوچھا ''ابھی تک یہیں ہو ؟''کہنے لگا ''سر! ہنگامی حا لات ہیں، ساری رات بھی اِدھر رہنا پڑے تو کوئی پرواہ نہیں'' ۔ ڈی ایم جی کے نوجوان افسر یحییٰ اور فواد کا بھی یہی حال تھا۔ محکمے کے پرانے اور تجربہ کار افسروں میںنور الرحّمان تنولی اور اخلاق قریشی نے بڑی محنت، لگن اور ولولے سے کام کرکے بحران کے خاتمے میں حصہ ڈالا ۔ خواتین کا جوش و جذبہ بھی بڑا قابلِ رشک تھا۔ توصیف ضیاء ، عائشہ ، زارا،اسمہ اور نور کی محنت اور لگن ناقابلِ فراموش ہے۔ زیادہ تر لوگ ایک نئے جذبے سے لبریز تھے ، وہ اب نوکری نہیں مشن سمجھ کر کام کررہے تھے۔ بہت سے ایسے پرجوش ورکر تھے جن کے نام یاد نہیں آرہے۔
ان دنوں پاسپورٹ کے محکمے میں ڈائریکٹر جنرل کے بعد سب سے اہم عہدہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کا ہوتا تھا۔ نئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کے لیے میں نے (ڈی ایم جی اور پولیس سمیت) کئی سروسز کے افسروں کے انٹرویو کیے مگر مطلوبہ معیار کا کوئی افسر نہ ملا، پھر ایک روزپولیس کے نیک نام افسر احسان صادق نے انکم ٹیکس سروس کے محمد صفدر کا نام تجویز کیا،متعلقہ افسر کو بلا کر ملاقات کی تو وہ پہلی ملاقات میں ہی بھا گیا وہ اُس وقت ایف بی آر میں سیکریٹری تھا،بڑی مشکل سے اُسے( کئی سیکریٹری صاحبان سے ملکر) وہاں سے ریلیو کرایا اور اپنے محکمے میں تعینات کرایا۔ محمد صفدرتوقع کے عین مطابق نکلے۔ انتہائی ایماندار،بے پناہ محنتی اور ایسے قابلِ اعتمادکہ جن پر ادارے فخر کرتے ہیں۔ وہ پاسپورٹ بحران کے خاتمے کے لیے چوبیس چوبیس گھنٹے جاگتے رہے۔ محمد صفدربعد میں اُسی محکمے یعنی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے قائم مقام ڈی جی بھی رہے۔
اس دوران میڈیا کے لوگ بار بارانٹر ویو کے لیے ہیڈ آفس آتے رہے مگر میںان سے معذرت کرلیتا کہ ''ابھی آپ کو بتانے کے لیے میرے پاس کوئی خاص خبر نہیںہے ، تین مہینوں کے بعد آپ سے ملوںگا تو پھر کوئی خوش خبری سنا نے کے قابل ہوںگا''۔مجھ سے مایوس ہو کر میڈیا والے ڈیپارٹمنٹ کے سینئر افسران سے ملتے اور پوچھتے کہ '' کیا ہو رہا ہے؟ایک تھر تھلی سی آئی ہوئی ہے، ہر چیز متحرک ہوگئی ہے۔ ''
محکمے کے ایک نیک نام اور تجربہ کار افسر نے انھیں مختصرجواب دیا جو اخبارات میںبھی چَھپ گیا کہ '' اتنے بڑے کرائسسز پر قابو پانے کے لیے اِس وقت محکمے کو ڈائریکٹر جنرل کی نہیں ایک لیڈ ر کی ضرورت تھی، وہ مل گیا ہے جو روایتی افسروں کی طرح اپنی ٹیم اور عوام سے کٹا ہوا نہیں ہے، وہ ایک ورکر کی طرح کام کرتا ہے اور لیڈر کی طرح چیلنج سے نبرد آزما ہو تاہے۔ اس لیے اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہم بحران پر قابوپالیں گے''۔
شہریوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے ہر روز نئے اقدامات کیے جانے لگے ، چند ہی دنوں میں لوگوں نے خوشگوار حیرت سے دیکھا کہ دفتر کے باہر سودے بازی کرتے ہوئے ایجنٹ غائب ہو چکے ہیں، اور دیواروں سے چمٹنے والے لوگ ایک قطار میں کھڑے ہیں کیونکہ ان کے لیے بیرونی دیوار کے ساتھ علیحدہ کائونٹر بنا دیا گیا تھا۔ وی آئی پی کلچر ختم کر دیا گیا۔ مریضوں ،طلباو طالبات اور بیرونِ ممالک میں اپنی نوکری (Jobs) پر پہنچنے والوں کے ترجیحی بنیادوں پر پاسپورٹ بنانے شروع دیے گئے۔
میں ہر روز پروڈکشن ونگ ( جہاں پاسپورٹ تیار ہوتے ہیں اور جو دفتر کی چوتھی منزل پر تھا) میں ضرور جاتا،وہاں کسی سے مصافحہ کرتا ، کسی کو تھپکی دیتا ، کسی سے سوال جواب کرتا اور ہر طریقے سے ان کے جذبے اور ولولے بڑھانے کی کوشش کرتا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اس کمرے میں(جہاں میں ہر روز جاتا تھا) ماضی میں عرصہ دراز سے کسی ڈائریکٹر جنرل صاحب نے جانے کی زحمت نہیں کی تھی۔
پروڈکشن اسٹاف کے لیے اسی منزل پر نہایت صاف ستھرا واش روم بنوادیا گیا۔ باقی اسٹاف کے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ دی جانے لگی ۔اوور ٹائم لگانے والوں کے لیے مالی معاوضے کے علاوہ کھانے کا بندوبست کر دیا گیا۔ اورپھر جب ہم نے اسٹاف سے پوچھا کہ اس غیر معمولی صورتِ حال میں ہمیں اپنی ہفتہ وار چھٹیوں کی بھی قربانی دینا ہو گی ۔ تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے ۔ اسٹاف کو محنت کی ترغیب ملی اور حوصلہ افزائی ہوئی تو انھوں نے شفٹیں بڑھا دیں اور چھٹیوں کی قربانی دے دی ۔ انھیں اوور ٹائم کا معاوضہ اور نقد انعامات دیے جانے لگے تو وہ نئے جذبوں سے سرشار ہوگئے۔
شہریوں کی سہولت کے لیے ہیلپ لائن بنادی گئی اور اس کے نمبروں کی تشہیر کی گئی۔ لوگ ہیلپ لائن پر فون کرکے اپنی درخواست کا اسٹیٹس پوچھتے تو انھیں واضح طور پربتایا جاتاکہ '' آپ کا پاسپورٹ فلاں تاریخ کو بنے گا اور آپ کے ریجنل آفس میں فلاں تاریخ کو پہنچے گا''۔ عوام کی بے چینی کم ہونے لگی۔ لوگوں کے رویوں میں ایک ٹھہرائو آنے لگا۔
اسلام آباد ہیڈ آفس میں واضح بہتری آنے کے بعد میں نے ریجنل دفاتر کے دورے شروع کر دیے۔ مجھے یا د ہے کہ میں لاہور آفس پہنچا تو بہت سے پریشان حال passport seekers میرے گرد جمع ہوگئے۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی نے روتے ہوئے کہا '' انکل بڑی مشکل سے مجھے امریکا کی top class Universityمیں داخلہ ملا ہے، اب میرا سکالر شپ ضایع ہو جائیگا اور میں پاسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے لیے نہیں جا سکوںگی ، اس کا ذمے دار کون ہوگا؟''
''اس کا ذمے دار میں ہوںگا''۔ میں نے بلند آواز میں جواب دیاجس پر شور ایک دم تھم گیا، پھر میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، '' بیٹی آپ ضرور جائیں گی، مجھ پر اعتماد رکھیں۔ٹھیک ایک ہفتے بعد پاسپورٹ آپ کے ہاتھ میں ہوگا'' اور ایسا ہی ہوا۔
ایک نوجوان نے تلخ لہجے میں کہا کہ '' مجھے جرمنی میں بڑی اچھی جاب ملی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ آپ کے محکمے کی نااہلی کی و جہ سے مجھ سے یہ Jobچھن جائے گی''۔ ''ایساہر گز نہیں ہوگا ،آپ فکر نہ کریں، آپ کا پاسپورٹ چند دنوں میں بن جائے گا۔ یقین رکھیں جرمنی کی طاقتور چانسلرمرکل بھی آپکی job نہیں چھین سکتی'' میرا جواب سن کر وہ ہنس پڑااور ماحول خوشگوار ہو گیا ۔ایک صاحب اور ان کی بیگم حسرت بھر ے لہجے میں کہنے لگے ''کئی مہینوں سے مارے مارے پھر رہے ہیں ، پاسپورٹ ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے ہماری حج کی آرزو پوری نہیں ہو سکے گی''۔
میں نے کہا ''آپ حج پر ضرور جائیں گے مگر اس کے لیے آپ کوا سپیشل نذرانہ اداکرنا ہوگا'' وہ کیا؟انھوں نے چونک کر پوچھا، ''آپ کو اﷲ کے گھر میں اور رسولﷺ کے روضہء اقدس پر وطن عزیر پاکستان کے لیے اور میرے لیے بھی دعا کرنا ہوگی۔'' آٹھویں روزدونوں کے فون آئے۔ ان کے منہ سے دعائیں اور آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ اس کے بعد میں نے سیالکوٹ ، فیصل آباد ، سرگودھا اور کراچی آفس کے بھی دورے کیے، ہر جگہ محسوس ہوا کہ اسٹاف کی سوچ تبدیل ہوئی ہے اور عام لوگ اب اس ادارے پر اعتمادکرنے لگے ہیں۔
یہ تو چارج لیتے ہی اندازہ ہوگیا تھاکہ پاسپورٹ اب ہر گھر کی ضرورت بن چکا ہے اور اس کی عدم دستیابی ہر گھر کا مسئلہ ہے ، اس لیے میں جہاں بھی جاتا لوگ جیبوں سے ٹوکن نمبر نکال کر مجھے تھما دیتے کہ یہ پاسپورٹ بہت ضروری ہیں، یہ ضرور بنوادیجیے ۔ کبھی کوئی دوست یا واقف کار آجاتا اور رسما خیر خیریت پوچھنے لگتا تو میں اسے کہتا خیریت کو چھوڑ و، کا م کی بات پر آئو اور ٹوکن نمبر نکالو ۔اس پر اُس کا ہاتھ جیب میں چلا جاتا ۔
ایک روز بچپن کا ایک دوست دفتر آگیا ۔میرا خیال تھا کہ صرف ملنے آیا ہو گا، مگراس نے بھی ٹوکن نکال کر تھما دیا، میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ تم بھی کام سے ہی آئے ہو ! ناراض ہوکر میں نے اس کا ٹوکن پھاڑ دیا۔ اِس پر اُس نے مختلف جیبوں سے کئی اور ٹوکن نکالے اور ساتھ ہی بولا۔
ہر جیب سے ٹوکن نکلے گا تم کتنے ٹوکن پھاڑو گے
(جاری ہے)