لوڈواسٹارکے ذریعے دوست بننے والاجوڑا شادی کے بندھن میں بندھنے کوتیار
دوستی کے چند ہفتوں بعد ہی سلمان نے شادی کی پیش کش کردی
کورونالاک ڈاؤن کے دوران جہاں شہریوں نے گھروں میں بیٹھ کرمختلف مشاغل اپنائے وہیں ایک جوڑے کی لاک ڈاؤن کے دوران لوڈو اسٹارپردوستی ہوئی اور اب وہ شادی کے بندھن میں بندھنے جارہے ہیں۔
لاہورکے علاقہ اچھرہ کی رہائشی ہمنہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس فائنل ائیرکی طالبہ ہیں، کورونالاک ڈاؤن کے دوران جب یونیورسٹی بند ہوگئی توہمنہ کو تمام وقت گھر میں گزارنا پڑتا تھا۔ اس دوران اس نے موبائل فون پر لوڈواسٹارگیم کھیلنا شروع کی جس سے اس کا وقت اچھا گزرجاتا تھا۔
ہمنہ کے مطابق لوڈوسٹار پر گیم کھیلتے ہوئے اس کا رابطہ جہلم کے رہائشی سلمان سے ہوا جو جلدہی دوستی اورپھرمحبت میں بدل گیا اوراب دونوں شادی کے بندھن میں بندھنے جارہے ہیں۔ ہمنہ کہتی ہیں جب وہ گیم کھیلتی تھیں اس دوران سلمان بھی آن لائن ہوجاتے، چند دن وہ اکھٹے گیم کھیلتے رہے۔ پھرسلمان نے انہیں میسیج کیا تھا تاہم میں نے چند دن بعد جواب کیا تھا۔ پھر ہمارے مابین بات چیت ہونا شروع ہوئی اورایک دوسرے سے واٹس ایپ نمبرشیئر کئے گئے۔
ہمنہ کے مطابق دوستی کے چندہفتوں بعد ہی سلمان نے شادی کی پیش کش کردی، تاہم میں نے کہا کہ اپنے گھروالوں کو بھیجیں اورمیرے والدین سے بات کرلیں۔ اپریل میں ان کے مابین رابطہ ہوا تھا اورپھرستمبر میں سلمان نے اپنے والدین کورشتہ دیکر ان کے گھربھیج دیا۔ سلمان کا تعلق جہلم سے ہے، وہ تین بہن بھائی ہیں ،سلمان خود گاڑیوں کی سیل، پرچیزکا کام کرتے ہیں۔
ہمنہ کے مطابق انہوں نے پہلی بارسلمان کواسی وقت دیکھا جب وہ اپنے والدین کے ساتھ رشتہ لیکران کے گھرآئے تھے، سلمان کودیکھ کران کی محبت اورپختہ ہوگئی اب جلدہی دونوں کی شادی ہونے جارہی ہے۔ ہمنہ کے والدین کے مطابق وہ ان کی اکلوتی بیٹی ہیں اورانہیں اپنی بیٹی کی پسند پرکوئی اعتراض نہیں ہے، ویسے بھی اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ شادی کرتے وقت بچوں سے ان کی رضامندی پوچھ لی جائے، وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی خوش رہے۔
معاشرے کی اس تبدیلی کا ذمے دارسوشل میڈیا، موبائل فون کا بڑھتا ہوااستعمال اورکوایجوکیشن کو قراردیا جاتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں پسند کی شادی کا رحجان بڑھ رہا ہے اورکسی حد تک اب والدین بھی بچوں کی پسند کوقبول کرلیتے ہیں
دوسری طرف پسندکی شادیوں کا یہ افسوسناک اورتاریک پہلویہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اکثرپسند کی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں۔ شادی کے چندماہ اورسال توہنسی خوشی گزرتے ہیں پھر لڑائی جھگڑے اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے ، لاہورکے دارالامان میں اس وقت کئی ایسی لڑکیاں ہیں جنہوں نے پسند کی شادی کی خاطرگھرچھوڑا اورپھرشوہرنے بھی بیوفائی کی اوراب وہ دارالامان میں مقیم ہیں۔
دارالامان کی سپرٹنڈنٹ مصباح رشید نے بتایا کہ زیادہ ترکیسز ایسے ہیں جن میں لڑکا،لڑکی چند ملاقاقوں اورمیل ملاپ کومحبت کانام دیکر فوری شادی کرلیتے ہیں لیکن جلدہی اس وقتی محبت کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسے واقعات میں اکثر لڑکے ،دھوکا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا پسند کی شادی سب کا حق ہے لیکن شادی سے قبل اگروالدین کوبھی اس فیصلے میں شامل کرلیا جائے اورایک دوسرے سے متعلق اچھی طرح چھان بین کرلی جائے توپھر معاملات خراب نہیں ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے لڑکا،لڑکی جذباتی فیصلہ کرتے ہیں
لاہورکے علاقہ اچھرہ کی رہائشی ہمنہ پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس فائنل ائیرکی طالبہ ہیں، کورونالاک ڈاؤن کے دوران جب یونیورسٹی بند ہوگئی توہمنہ کو تمام وقت گھر میں گزارنا پڑتا تھا۔ اس دوران اس نے موبائل فون پر لوڈواسٹارگیم کھیلنا شروع کی جس سے اس کا وقت اچھا گزرجاتا تھا۔
ہمنہ کے مطابق لوڈوسٹار پر گیم کھیلتے ہوئے اس کا رابطہ جہلم کے رہائشی سلمان سے ہوا جو جلدہی دوستی اورپھرمحبت میں بدل گیا اوراب دونوں شادی کے بندھن میں بندھنے جارہے ہیں۔ ہمنہ کہتی ہیں جب وہ گیم کھیلتی تھیں اس دوران سلمان بھی آن لائن ہوجاتے، چند دن وہ اکھٹے گیم کھیلتے رہے۔ پھرسلمان نے انہیں میسیج کیا تھا تاہم میں نے چند دن بعد جواب کیا تھا۔ پھر ہمارے مابین بات چیت ہونا شروع ہوئی اورایک دوسرے سے واٹس ایپ نمبرشیئر کئے گئے۔
ہمنہ کے مطابق دوستی کے چندہفتوں بعد ہی سلمان نے شادی کی پیش کش کردی، تاہم میں نے کہا کہ اپنے گھروالوں کو بھیجیں اورمیرے والدین سے بات کرلیں۔ اپریل میں ان کے مابین رابطہ ہوا تھا اورپھرستمبر میں سلمان نے اپنے والدین کورشتہ دیکر ان کے گھربھیج دیا۔ سلمان کا تعلق جہلم سے ہے، وہ تین بہن بھائی ہیں ،سلمان خود گاڑیوں کی سیل، پرچیزکا کام کرتے ہیں۔
ہمنہ کے مطابق انہوں نے پہلی بارسلمان کواسی وقت دیکھا جب وہ اپنے والدین کے ساتھ رشتہ لیکران کے گھرآئے تھے، سلمان کودیکھ کران کی محبت اورپختہ ہوگئی اب جلدہی دونوں کی شادی ہونے جارہی ہے۔ ہمنہ کے والدین کے مطابق وہ ان کی اکلوتی بیٹی ہیں اورانہیں اپنی بیٹی کی پسند پرکوئی اعتراض نہیں ہے، ویسے بھی اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ شادی کرتے وقت بچوں سے ان کی رضامندی پوچھ لی جائے، وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی خوش رہے۔
معاشرے کی اس تبدیلی کا ذمے دارسوشل میڈیا، موبائل فون کا بڑھتا ہوااستعمال اورکوایجوکیشن کو قراردیا جاتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں پسند کی شادی کا رحجان بڑھ رہا ہے اورکسی حد تک اب والدین بھی بچوں کی پسند کوقبول کرلیتے ہیں
دوسری طرف پسندکی شادیوں کا یہ افسوسناک اورتاریک پہلویہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اکثرپسند کی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں۔ شادی کے چندماہ اورسال توہنسی خوشی گزرتے ہیں پھر لڑائی جھگڑے اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے ، لاہورکے دارالامان میں اس وقت کئی ایسی لڑکیاں ہیں جنہوں نے پسند کی شادی کی خاطرگھرچھوڑا اورپھرشوہرنے بھی بیوفائی کی اوراب وہ دارالامان میں مقیم ہیں۔
دارالامان کی سپرٹنڈنٹ مصباح رشید نے بتایا کہ زیادہ ترکیسز ایسے ہیں جن میں لڑکا،لڑکی چند ملاقاقوں اورمیل ملاپ کومحبت کانام دیکر فوری شادی کرلیتے ہیں لیکن جلدہی اس وقتی محبت کا بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسے واقعات میں اکثر لڑکے ،دھوکا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا پسند کی شادی سب کا حق ہے لیکن شادی سے قبل اگروالدین کوبھی اس فیصلے میں شامل کرلیا جائے اورایک دوسرے سے متعلق اچھی طرح چھان بین کرلی جائے توپھر معاملات خراب نہیں ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے لڑکا،لڑکی جذباتی فیصلہ کرتے ہیں