ٹانکا لوگ کشتیوں کے باسی جو خشکی پر نہیں آتے

قدیم چینی روایات کے مطابق ٹانکا لوگ بربروں میں سے ہیں جو پہلے غارت گر تھے بعد میں انہوں نے قتال چھوڑ دیا

ٹانکا لوگ بہت کم تعداد میں ہیں۔ لیکن یہ اپنی قدیم رسوم و رواج کے ساتھ زندہ ہیں، فوٹو: فائل

ٹانکا لوگ جنوبی چین کا ایک خصوصی گروپ ہیں جو چین کے صوبوں Guangdong, Guangxi, Fujian, Hainan اور Zhejiangکے دریاؤں اور ساحلوں پر آباد ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ہانگ کانگ اور مکائو میں بھی رہتے ہیں۔ اس کمیونٹی کے کچھ لوگ ویت نام میں بھی رہتے ہیں اور ان کا طرز زندگی و رہن سہن چین اور مکائو میں رہنے والے لوگوں جیسا ہی ہے۔

بعض قدیم چینی روایات میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ٹانکا لوگ اصل میں بربروں میں سے ہیں جو پہلے ان غارت گروں کے جانور تھے اور بعد میں انسان بن گئے۔ کچھ قدیم چینی ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ یعنی ٹانکا لوگ اصل میں پانی کے سانپوں کی نسل سے ہیں۔ ان کے آباواجداد پہلے پانی کے سانپوں کی شکل میں دریاؤں اور سمندروں میں تیرتے پھرتے تھے جنہوں نے بعد میں انسانوں کی شکل اختیار کرلی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹانکا لوگ پانی کے اندر چھپنے میں ماہر ہوتے ہیں اور یہ بغیر سانس لیے کسی بھی دریا یا سمندر کی تہہ میں تین دن گزار سکتے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی ان ٹانکا لوگوں کو ''نچلی ذات والے لوگ'' کہا جاتا تھا، اسی لیے معاشرے میں ان کی کوئی عزت نہیں تھی۔ چوں کہ یہ لوگ زمین سے ہٹ کر پانی پر بہتی کشتیوں میں رہا کرتے تھے، اس لیے انہیں مہذب معاشرے کا رکن ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ چینی اور برطانوی انہیں ''سمندری خانہ بدوش'' بھی کہا کرتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹانکا لوگ کشتیوں کے باسی ہیں جو خشکی کے بجائے سمندروں اور دریاؤں کے کناروں کے ساتھ ساتھ پانی پر بہتی کشتیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔



کشتیوں کے یہ مسافر زیادہ تر چین کے دریائوں میں رہتے ہیں۔ انہیں بوٹ پیوپل بھی کہا جاتا ہے۔ ٹانکا سے اصل مراد وہ لوگ ہیں جو زندگی بھر خشکی یا زمین کا منہ نہیں دیکھتے، بلکہ کشتیوں میں گھر بناکر پانی پر ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔ یہ کشتیاں پورے گھر ہوتی ہیں جن میں کمرے، کچن، باتھ روم، سب کچھ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی شادی بیاہ کی رسمیں بھی کشتیوں پر ہی انجام دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ان میں کوئی فرد مرجائے تو اس کی آخری رسوم بھی کشتیوں پر ہی انجام دی جاتی ہیں۔

ٹانکا لوگ ہانگ کانگ کا وہ پہلا گروپ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ہجرت کی تھی۔

٭ہانگ کانگ کے ٹانکا لوگ:

یہاں کے اکثر ٹانکا لوگ یا تو ماہی گیری کرتے ہیں یا پھر تجارت۔ یہ لوگ نمک کے کام سے بھی منسلک ہیں، لیکن کچھ لوگ بہت اچھے کام بھی کرتے ہیں جیسے وہ سمندر میں غوطہ خوری کرکے موتی نکالتے ہیں یا پھر افیون کی تجارت کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دریائوں اور سمندروں کے کناروں پر مارکیٹیں یا گائوں بھی تعمیر کرنے شروع کردیے ہیں۔ لیکن اب بھی ان کی بڑی تعداد کشتیوں میں ہی رہتی ہے۔ انہیں ان کشتیوں سے اتنا پیار ہے کہ وہ انہیں چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں اپنی کشتیوں کی زندگی بہت پسند ہے۔ شروع میں ٹانکا لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں رہتے تھے اور یہ سب کشتیاں ایک ساتھ ایک جگہ لنگر انداز ہوتی تھیں جس سے دریا یا سمندر پر آبی کالونی وجود میں آجاتی تھی۔ شاید اسی لیے ان لوگوں کو سمندری خانہ بدوش sea gypsiesبھی کہا جاتا ہے۔



ہانگ کانگ کے جزیرے لین تائو کے شمال مغرب میں تائی او نام کا ماہی گیروں کا گائوں ہے۔ یہ پوری بستی لکڑی کے بڑے بڑے لٹھوں پر تعمیر کی گئی ہے اور یہ تعمیراتی کارنامہ ٹانکا لوگوں نے انجام دیا تھا۔ ظاہر ہے ان لوگوں کو زمین پر چین نہیں آتا، اس لیے انہوں نے اس جزیرے پر لکڑی کے لٹھوں کی مدد سے اونچے پلیٹ فارم بناکر یہاں اپنے لیے گھر بنائے، گویا انہوں نے پانی سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔

ٹانکا لوگوں کی کشتیوں کو ٹانکاز یا ٹانکیاز کہتے ہیں۔ یہ کشتیاں لمبائی میں سات میٹر تک ہوتی ہیں اور انہیں ٹانکا مردوں کے بجائے ان کی عورتیں چلاتی ہیں۔ یہ کشتیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ صرف ایک چپو ہوتا ہے اور عام طور سے اس میں صرف دو مسافروں کی گنجائش ہوتی ہے۔



چوں کہ ٹانکا لوگوں کی زندگیوں میں کشتیوں کا بہت اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے اس لیے ان کے بچے کم عمری سے ہی مستولوں پر چڑھنا اور ان کی رسیوں کو کنٹرول کرنا سیکھتے ہیں۔ وہ بڑے آرام سے ہر طرح کا سامان ان کشتیوں پر لاد بھی سکتے ہیں اور اتار بھی سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ ننھے منے بچوں کو بھی اپنی کمر پر لاد کر کشتیوں میں پہنچاتے ہیں اور وہاں سے اتار بھی دیتے ہیں۔ انہیں شروع سے ہی اس کام میں مہارت حاصل ہوجاتی ہے۔


٭ٹانکا لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک:

ٹانکا لوگوں کو شروع سے ہی سیاسی، سماجی اور معاشی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہانگ کانگ کی چینی اور برطانوی دونوں حکومتوں نے ہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہے۔

شروع میں چینی حکومت نے روایتی طور پر انہیں ہانگ کانگ کا حصہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد 1950کے عشرے میں انہیں برطانوی ظلم و ستم کا بھی سامنا کرنا پڑا جب نوآبادیاتی حکومت نے ٹانکا لوگوں کے لٹھوں والے گھروں کو تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ برطانیہ کی حکومت چاہتی تھی کہ ان لوگوں کو پانی سے ہٹاکر خشکی پر لائے اور وہ بھی باقاعدہ زمین پر گھر بناکر رہیں۔



مگر ایسا نہ ہوسکا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی لکڑی کے لٹھوں پر بنے ہوئے گھر موجود ہیں جن میں وہ آباد ہیں۔ نہ ان روایتی گھروں نے ٹانکا لوگوں کو چھوڑا اور نہ ٹانکا لوگوں نے ان گھروں سے منہ موڑا۔

جیسے جیسے ہانگ کانگ نے ترقی کی ویسے ویسے یہاں کے فشنگ گرائونڈز بری طرح آلودہ ہوتے چلے گئے جس سے زمین بھی متاثر ہوئی۔ ایسے میں لوگوں کے لیے اپنی چھوٹی کشتیوں میں گہرے سمندر میں جاکر مچھلی پکڑنا ممکن نہیں رہا۔ یہ بے چارے ساحل کے ساتھ کھاڑیوں تک محدود ہوکر رہ گئے اور ان کی کشتیاں فلوٹنگ ولیجز (پانی پر تیرتے ہوئے گائوں) کا منظر پیش کرنے لگیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ نوجوان نسل تو پھر بھی ساحل پر رہنے لگی ہے، مگر ان کے بڑے بوڑھے آج تک اپنی قدیم، تنگ اور روایتی کشتیوں میں ہی مقیم ہیں اور پانی سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔

٭ٹانکا لوگوں کی اصلیت:

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹانکا لوگ غیرچینی ہیں اور انہیں پہلے دور میں کم تر درجہ دیا گیا تھا۔ پھر چینی بادشاہ یانگ زینگ نے انہیں آزادی دے دے دی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹانکا لوگ ہان کے عہد میں چین سے آئے تھے۔ڈبلیو ایف ٹیلر (1929) نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے لکھا ہے: جب منگول سپاہیوں اور چینیوں کے درمیان رشتے داریاں قائم ہوئیں اور انہوں نے آپس میں شادیاں کیں تو ٹانکا لوگ وجود میں آئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منگ کے عہد میں جب یہ حکم ملا کہ چنگیزخان کے زندہ بچ جانے والے سپاہیوں اور منگولوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے تو بے شمار لوگ تہ تیغ کردیے گئے۔ ایسے میں بہت سے لوگ اپنی جانیں بچاکر زمینی بستیوں سے بھاگے۔



بیشتر لوگوں نے دریائوں اور سمندروں کا رخ کیا اور ان میں ڈوب کر مرگئے۔ جو بچ گئے تھے انہوں نے دریائوں اور سمندروں میں کشتیوں کو اپنا مسکن بنایا اور طویل عرصے تک وہیں چھپے رہے۔ اس دوران یہ لوگ مچھلی کا شکار کرکے اپنا پیٹ بھرتے تھے اور ان کی شادی بیاہ اور موت کی رسمیں تک کشتیوں میں انجام پاتی تھیں۔ یہی لوگ ٹانکا لوگ ہیں۔ جب حکم رانوں کو پتا چلا کہ یہ لوگ زندہ ہیں اور کشتیوں میں رہ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اب ان لوگوں کو کچھ نہ کہا جائے، لیکن اگر یہ خشکی پر آنے کی کوشش کریں تو انہیں ہلاک کردیا جائے۔ ان کے لیے یہ سزا کافی ہے کہ وہ خشکی پر نہیں رہ سکتے۔ دراصل حکم رانوں کا خیال تھا کہ پانی کی زندگی انہیں راس نہیں آئے گی اور یہ خود ہی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے، مگر یہ لوگ زندہ رہے اور آج بھی اسی قدیم طرز زندگی کے ساتھ موجود ہیں۔



٭ویت نام کے ٹانکا لوگ:

ویت نام کے کئی علاقوں میں ٹانکا لوگ پائے جاتے ہیں مگر وہ بہت کم تعداد میں ہیں۔ لیکن یہ لوگ اپنی قدیم رسوم و رواج کے ساتھ زندہ ہیں، نہ تو انہوں نے مہذب معاشرے میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی مہذب معاشرہ انہیں اپنانے کو تیار ہے۔
Load Next Story