بنگلا دیش نے عبدالقادر ملا کی پھانسی اور پرانے زخم کرید کر کیا حاصل کیا

تھوڑی دیرکیلئےفرض کرلیتے ہیں کہ تمام ثبوت سچ اورسزا کاجواز پیش کرنے کے لئے کافی تھے، تو کیا ایک 65 سال کے شخص کیلئے۔۔۔

اگرچہ عبدالقادرملا گذشتہ 42 سالوں سے آزاد بنگلا دیش میں ایک بنگلا دیشی کی حیثیت سے رہ رہے تھے لیکن آج بھی وہ ہمارے لوگوں میں سے تھے، ایک پاکستانی۔ فوٹو: رائٹرز

تقریبا ایک ہفتہ قبل میں چھٹیوں پر نیویارک میں تھی اور ایک دفعہ ایک ٹیکسی میں بیٹھی جو کہ ایک باتونی بنگالی ٹیکسی ڈرائیور چلارہا تھا، ظاہر ہے اس کا مجھ سے پہلا سوال وہی تھا جو نیویارک میں موجود تمام دیسی ٹیکسی ڈرائیورز کا ہوتا ہے کہ میرا تعلق کہاں سے ہے؟ جیسے ہی میں نے جواب دیا تو اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا کہ
"اوہ! تو آپ اس ملک سے آئی ہیں جس نے 24 سال تک ہمیں لوٹا ، ہمارا ریپ کیا، ہمیں مارا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

میں اس طرح کے حملوں کی عادی ہوں، میں گذشتہ ساڑھے 3سال سے ایک بنگلہ دیشی شخص سے شادی کی ہوئی ہے اور اپنا زیادہ تر وقت ڈھاکا میں ہی گزارتی ہوں۔ ڈھاکہ جہاں 2008 سے عوامی لیگ اور اس کے ان کے حامیوں کی حکمرانی جو کہ ہر اس چیز سے نفرت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جس دور سے بھی پاکستان کے ساتھ تعلق ہو۔ اس لیے اس طرح کی صورتحال کے دوران میں 2 میں سے ایک حکمت عملی اختیار کرتی ہوں۔ میں یا تو 71 کے دور کے بارے میں مکمل اور حقائق پر مبنی بحث کرتی ہوں یا پھر میں صرف مسکراتے ہوئے یہ کہہ کہ چلی جاتی ہوں کہ
"میں 1971 کے ایک دہائی کے بعد پیدا ہوئی تو واضح طور پر آپ مجھ سے اس بارے میں کسی رائے کی توقع نہیں کرسکتے، مزید بحث سے بچنے کے لئے میں یہی کہنے ہی والی تھی لیکن وہ اس بات کا یقین ہونے تک مسلسل بولتا رہا کہ میں یہ سمجھ گئی ہوں کہ وہ ہم پاکستانیوں کو کس قدر ناپسند کرتا ہے۔

"یہ اچھی بات ہے کہ آپ کے لوگوں میں سے ایک کو جلد پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا اور اس سے ہمارے لوگوں کو کچھ سکون ملے گا۔

یقینا یہ آدمی بنگلا دیش میں مقبول رائے کا اظہار کررہا تھا۔ اگرچہ عبدالقادر ملا گذشتہ 42 سالوں سے آزاد بنگلا دیش میں ایک بنگلا دیشی کی حیثیت سے رہ رہے تھے لیکن آج بھی وہ ہمارے لوگوں میں سے تھے، ایک پاکستانی۔

انہیں پھانسی دینا تمام مسائل کا حل سمجھا جا رہا تھا۔

ایسے انسان کے طور پر جس نے گذشتہ پانچ سالوں میں بنگلا دیش میں ایک فوجی حکومت سے جمہوریت تک کی تبدیلی دیکھی ہو، میں نے دیکھا ہے کہ میڈیا کس طرح پاکستان کی جانب غیر جانبدارانہ موقف اپنانے کے بجائے آہستہ آہستہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پر منتقل ہوا۔ میں نے وزیراعظم کے عملے کی درخواست پر بنگوبندو اسٹیڈیم میں پاکستان اور بنگلا دیش کے کرکٹ میچ کے دوران جنگ آزادی کے چلائے گئے گانے بھی سنے۔

میں نے شاہ باغ تحریک کا آغاز دیکھا جو عبدالقادر ملا کی عمر قید سزا کے خلاف اور پھانسی کا مطالبہ کر رہی تھی؛ شاید میرے ذہن میں سب سے زیادہ پریشانی کن 10 سالہ خون کے پیاسے بچے کی وہ آواز تھی کہ "پھانسی چاہیئے"، میں نے اس سب کو جماعت اسلامی اور ملک کے اندر موجود دیگر اسلامی عناصر کے خلاف ایک سیاسی تحریک بنتے بھی دیکھا۔ ایک لادینی اور غیر مذہبی بنگلا دیش بنانے کے نام پر شاہ باغیوں کا ملک کے قانون اور آئین سے اسلامی عناصر کے مکمل طور پر خاتمے کا مطالبہ بھی دیکھا۔ میں نے دیکھا ہے کہ حکومت نے بھی ان کے اس اقدام کو سراہا۔

دوسری جانب میں نے جماعت کا "منکر خدا تحریک" کے خلاف احتجاج بھی دیکھا ہے اور میں نے انہیں اپنے 10 مطالبات حکومت کے سامنے رکھتے اور اس پر سوچنے کے لئے وقت دیتے ہوئے بھی دیکھا۔ میں نے حکومت کو ان مطالبان کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے دیکھا اور یہاں تک کہ اس نے جماعت کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے سے بھی انکار کردیا۔ میں نے جماعت اور مدارس کے طلبا کو شہر میں پر امن طریقے سے مارچ کرتے ہوئے بھی دیکھا ( بالکل شاہ باغ کی طرح) اور پھر میں نے پہلے سنا اور پھر موبائل ویڈیوز میں یونیفارم پہنے لوگوں کی جانب سے ان مظاہرین کو بری طرح گولیاں مار کر اور تشدد کرکے قتل کرتے ہوئے بھی دیکھا۔

وہاں پر اس دن میڈیا بالکل غائب تھا اس لیے کوئی بھی صحیح طرح نہیں جانتا کہ کیا ہوا لیکن لوگوں نے پوری رات گولیوں کی آوازیں سنی اور اگلی صبح گلیوں میں خون دیکھا جب کہ مظاہرین جاچکے تھے۔

ہر کسی کو حیرت ہوئی کہ کیا ہوا؟

ہر کوئی سوچتا ہے کہ کیا وہ لوگ جو اس رات درحقیقت حملوں کا نشانہ بنے انہوں نے 1971 کے متاثرین سے مختلف محسوس کچھ محسوس کیا ہو گا۔ حقیقت میں ہرکوئی یہی سوچتا ہے کیا 2009 میں بی ڈی آر کلنگ کے متاثرین نے 1971 کے متاثرین سے کچھ مختلف محسوس کیا۔


ایسا نہ ہو کہ کسی کو میرے جماعت کا ہمدرد ہونے کا شبہ ہو اس لیے اس بات کی وضاحت کردوں کہ میں نے عبدالقادر ملا کے لئے کبھی کسی قسم کی ہمدردی محسوس کی اور نہ ہی میں ان کی حمایت کرتی ہوں۔ لیکن ایک ایسی شخصیت ہونے کے ناطے کہ جو کبھی بھی جذباتی طور پر اس طرح کے حالات میں ملوث نہیں ہوئی صحیح کوغلط میں واضح طور پر دیکھ سکتی ہوں، میں دیکھ سکتی ہوں کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں، جان کیری جیسے عالمی رہنماؤں اور بان کی مون نے کیسے جنگی جرائم کے ٹریبیونل میں دیانتداری کے فقدان پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

تھوڑی دیر کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ تمام ثبوت سچ اور سزا کاجواز پیش کرنے کے لئے کافی تھے، تو کیا ایک 65 سال کے شخص کے لئے عمر قید کی سزا کافی نہیں تھی؟

اسے پھانسی دینے سے کتنا فائدہ حاصل ہوا؟

آج، جیسے جماعت اس بات پر تشویش محسوس کرکے اور واپس لڑنے کی کوشش کررہے تو پھانسی کے نتیجے میں یہ ملک جل رہا ہے، گاڑیوں اور عمارتوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے اور لوگوں مارے جا رہے ہیں۔ معیشت کا پہیہ جام ہو گیا ہے۔

کیا بنگلا دیش واقعی جیت گیا؟

آج ملک تقسیم ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو مکمل جوش سے جشن منارہے ہیں جب کہ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہ محسوس کر رہے ہیں کہ پھانسی دینے میں کوئی انسانیت نہیں تھی اور اس کے پیچھے سیاسی مفاد وابستہ تھا۔

بنگلا دیش مسلسل جل رہا ہے، مجھے تعجب ہے کہ اب بھی شاہ باغیوں کے پاس مطالبے اور اس کے نتیجے میں عبدالقادر ملا کی پھانسی کا جشن منانے کی کوئی وجہ ہے۔

مجھے تشویش ہے کہ کیا کبھی ان کے دماغ میں یہ بات آئے گی کہ بی ڈی آر کے متاثرین کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا جائے؟

یا ان پرانے زخموں کو کریدنے کے لیے مزید 42 سال لگیں گے؟

کیا اب بھی حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ ایک شخص کو پھانسی دینا اتنا اہم ہے کہ پورے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگادیا جائے، اتنی زیادہ جانیں ضائع ہو جائیں یا اتنا اہم تھا کہ کاروباری کو نقصان پہنچ کیونکہ بنگلہ دیش مسلسل جل رہا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Load Next Story