مع بمع یا بمعہ
خاکسار کو واٹس ایپ اور فیس بک کے توسط سے چند ایسے ''جواہر'' نصیب ہوئے ہیں جو اکثر اپنے حسن اخلاق سے مجھے گویا ششدر کردیتے ہیں۔ چند مخلصین میرے ذاتی حلقۂ احباب میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔ لاہور کے ایسے ہی ایک ممتاز اور یقیناً منفرد شاعر دوست محترم شہزادتابش ہیں جو واٹس ایپ کے ایک حلقے سے میرے حلقے میں شامل ہوئے۔
وہ اکثر اپنا اردو کلام اور کبھی کبھی پنجابی کلام ارسال کرکے مجھ سے رائے طلب کرتے ہیں۔ ایسا تو بہت سے لوگ کرتے ہی ہیں، مگر محترم شہزادتابش کا کمال یہ ہے کہ میری رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے ہیں، کلام میں تبدیلی بھی کرلیتے ہیں اور ذرا بھی ناراض نہیں ہوتے۔ ہفتہ دس اکتوبر کو انھوں نے مجھے اپنے کاروبار کا اشتہار بھیجا تو اس میں لکھا تھا ''بمعہ فرنیچر۔'' راقم نے تصحیح کی تو اُنھوں نے ایک آن لائن لغت کا عکس پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ لغت میںتو یہی ہے، ''مع'' نہیں ہے جو آپ نے بتایا۔
مجھے سمجھانا پڑا کہ کن کن لغا ت میں دیکھنا چاہیے اور یہ کہ ہر طرح کی لغات، مستندوغیرمستند، آن لائن دستیاب ہیں۔ وہ مان گئے اور اپنے اشتہار کے متن میں فوری تبدیلی بھی کرلی۔ یہ اُن کی اعلیٰ ظرفی ہے، ورنہ جہاں اس خاکسار کے بہت سے معاصرین (بزرگ وخورد) اسے کسی قابل سمجھتے ہوئے، کسی شعر یا نثرپارے میں اُس کی تجویز کردہ کوئی ترمیم، اضافہ یا تصحیح قبول کرلیتے ہیں، وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ''ہم چو منے دیگرے نیست۔'' بات برسوں پرانی ہے، مگر دل پر نقش ہے۔ ایک خورد معاصر کی قسمت نے یاوری کی تو وہ ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے منسلک ہوکر بہت مشہور ہوگئے۔
ایک مدت پہلے ایک بزرگ سخنور کے گھر پر منعقد ہونے والی ایک شعری نشست میں انھی خوردمعاصر شاعر+صحافی کے تعارفی کارڈ پر لکھے ہوئے ایک لفظ کی تصحیح کی جسارت کی تو موصوف ڈٹ گئے اور اچھے خاصے برہم ہوکر کہا، نہیں یہی درست ہے۔ بقول شاعر: عزت جسے دیتا ہے، خدا دیتا ہے/وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے/کرتے ہیں تِہی مغز، ثناء آپ اپنی/جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے۔
بہرحال آمدم برسرمطلب! ہم نے بچپن سے متعدد بار شادی کے دعوت ناموں سمیت بہت سی تحریروں میں لکھا ہوا دیکھا، معہ اہل وعیال یا بمعہ اہل وعیال۔ یہ سلسلہ بربِنائے غلط فہمی دراز ہوا تو اشتہار ات میں بھی اسی طرح لکھا جانے لگا۔ آج بھی جب خاکسار کے پاس، بعض مخصوص اداروں کا (پہلے سے تیارشدہ) کوئی اشتہار برائے نظرِثانی آتا ہے تو یہی غلطی نمایاں نظر آتی ہے۔ بعض لوگ تو اس تبصرے کے ساتھ فوراً مان جاتے ہیں کہ سر! آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں، ٹھیک کرلیں، مگر بعض اس کے برعکس تکرار کرتے ہیں یا یہ مؤقِف اختیار کرتے ہیں (یہ لفظ مو۔ئَ۔ق۔قِف نہیں ہے) کہ جیسا لکھا ہے، ٹھیک ہے، چلنے دیں، ورنہ ہمارے لیے مشکل ہوجائے گی۔
ناواقفین کی فہرست میں بہت سے اہل قلم بھی شامل ہیں اور ایسے بھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی ترکیب، لفظ، فقرہ یا جملہ غلط ہی رائج ہے تو کیا ضرورت ہے اسے درست کرنے کی......ایسے بعض لوگ، خصوصاً بزرگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں، میاں کس کس کو ٹھیک کروگے ۔یا۔کس کس کو بتاؤ گے۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ لفظ ''مع'' کا مطلب ہے، ساتھ۔ اب اس عربی الاصل لفظ کے ساتھ فارسی کا ''بہ'' (یعنی سے، کو، میں) لگائیں تو کیا مطلب ہوا۔ وہی جو آج کل ہندوستانی ٹی وی چینلز کی غلط بولی کی نقل میں کہا جانے لگا ہے: ساتھ میں۔ مع کو معہ، بمعہ اور بمعہ کہنا اور لکھنا بالکل غلط ہے۔ (پرانی زبان کے لحاظ سے کہیں تو 'بالکُلّیہ' غلط ہے)۔
انٹرنیٹ پر گھوڑے دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ایک فاضل فیس بک /واٹس ایپ، (قدرے بزرگ) دوست محترم فرحت سعیدی صاحب (مقیم حیدرآباد، سندھ) نے کوئی پانچ سال قبل ایک ویب سائٹ پر اس بارے میں قطعیت سے رائے کا اظہار کرتے ہوئے ناصرف ان غلط الفاظ کا استعمال غلط قرار دیا تھا، بلکہ سائل کو، اس ضمن میں معروف ماہرلسانیات جناب رشید حسن کی کتاب ''اردو اِملا'' دیکھنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ ایک صاحب نے جب یہ کہا کہ یہ غلط العام فصیح ہے تو ہمارے فاضل دوست نے برملا فرمایا، نہیں، یہ غلط العوام قبیح ہے۔
اہل علم کا جواب ایسا ہی مسکّت ہوا کرتا ہے۔ (ویب سائٹ کا نام ہے اردو وَیب ڈاٹ آرگ)۔ گزشتہ سال ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب نے بھی اسی موضوع پر کالم لکھا تھا۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست (بزرگ ) محترم پرویز اختر صاحب (سابق پروڈیوسر ریڈیوپاکستان) زبان کی اصلاح وتہذیب کے سلسلے میں اکثر نکتہ آرائی فرماتے ہیں۔ اُنھوں نے کچھ عرصے قبل یہ خیال ظاہر فرمایا کہ ''ہمراہ'' کا استعمال فقط سفر کے ساتھ کے لیے استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اُسی سے مخصوص ہے۔
(براہ کرم اسے ہم۔راہ نہ لکھیں)۔ لغات کھنگالیں اور اہل زبان کے روزمرہ کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ، دیگر کتب کا مطالعہ بھی کیا تو معلوم ہوا کہ قبلہ پرویز صاحب غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ہمراہ بمعنی ساتھ، ہر طرح درست ہے۔ لفظوں کے استعمال اور رواج کا تعلق معاصرین کے برتنے سے بھی ہوتا ہے۔
بعض الفاظ، محاورے اور کہاوتیں کسی ایک دور میں بہت مستعمل ہونے کے بعد، متروک ہوجائیں تو پھر طاق ِنسیاں ہوجاتی ہیں اور اُن کا نئے سرے سے استعمال محال ہوجاتا ہے۔ اسی کالم کے سلسلے میں ماقبل یہ ذکر ہوا کہ اردو کے مایہ ناز شاعر، ادیب، نقاد، حق گو صحافی اور دبنگ سیاست داں، مولانا حسرت موہانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ''نِکات ِسُخَن'' میں بڑی عرق ریزی سے شاعری ، خاص طور پر غزلیہ شاعری کے متروکات اور دیگر نقائص کی نشان دہی کی ہے۔ جہاں دیگر اساتذہ، معاصرین اور خوردمعاصرین (معروف اور گم نام سبھی) کی خبر لی ہے، وہیں اپنی گزشتہ شاعری کے کچھ نمونے بھی بطور امتثال امر پیش کرنے میں قباحت محسوس نہیں کی۔ یہ کم از کم اُس دور میں نہایت منفرد مثال تھی۔ بعد میں آنے والوں نے کہیں کہیں ان تمام نکات سے اغماض برتتے ہوئے، متروکات دوبارہ استعمال کیے۔
دیگر کی بات تو کیا کیجئے، اس خاکسار نے بھی شعوری کاوش سے ایسا کیا ہے، جیسے ''پَرچائے ہے'' ایک مثال ہے، بجائے پَرچاتی ہے۔ یہ کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ ایسا کرنے کا جواز فراہم کیا گیا ہے یا میرے خورد معاصرین، اس بابت میری تقلید کریں۔ یہ بس ایک شاعر کا تجربہ ہے اور کچھ نہیں! ...... (لفظ ''کیجئے'' کے متعلق ایک مرتبہ پھر وضاحت کردوں کہ اصل میں تو ''کی۔جے'' ہی ہے یا تھا، مگر لکھنے میں، خصوصاً اردو اِن پیج کمپوزنگ میں اس کی ہیئت بگڑ جاتی ہے، لہٰذا وہی لکھنا بہتر ہے جو بولا جاتا ہے، البتہ اسے زبردستی ''کیجیے'' بھی نہ بنائیں)۔ اردو زبان وادب کی خدمت میں مصروف، بہت سے لوگ اپنے اپنے مقام پر، اپنی اپنی بساط کے مطابق کام کررہے ہیں۔
واٹس ایپ پر بھی کچھ نہ کچھ کام جاری ہے۔زبان وبیان کی اغلاط کی تصحیح کے ساتھ ساتھ بگڑتی ہوئی (یا مِٹتی ہوئی) تہذیب کی اصلاح کی شعوری اور پیہم مساعی ہر ذی شعور انسان کے لیے ازبس ضروری ہے۔ خاکسار نے اپنی تمام مصروفیات اور مسائل سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے پہلے ایک واٹس ایپ گروپ بعنوان ''بزم زباں فہمی'' تشکیل دیا، پھر اسی بزم میں ہونے والے مباحث کے نتیجے میں، محترم عثمان جامعی کے مشورے سے تحریک اصلاح صحافت کا آغاز کیا۔ ایسا اقدام اس لیے ناگزیر محسوس ہوا کہ ہمارے خیال میں ہمارے معاشرے کے لسانی وتہذیبی زوال میں بہت بڑا حصہ، ذرایع ابلاغ کا ہے۔
اس پس منظر میں خاکسار نے ایک واٹس ایپ گروپ بعنوان تحریک اصلاح صحافت بنایا، اسی عنوان سے فیس بک وَرق بنایا اور کچھ تحریریں بشمول کالم زباں فہمی اور ویڈیو پیغامات اَپ لوڈ کرنے شروع کردیے ہیں۔ قارئین کرام، خصوصاً اہل قلم (شاعر، ادیب، صحافی اور اساتذہ) سے دست بستہ استدعا ہے کہ اس تحریک میں شامل ہوکر اپنا اخلاقی فرض ادا کریں۔
اس کے بعد ہم دیگر باتوں کا بھی ذکر کرتے چلیں۔ آئے دن ہمیں فیس بک اور واٹس ایپ پر شاعری کے کچھ اچھے اور کچھ برے نمونے موصول ہوتے رہتے ہیں۔ ایک نمونہ کلام اردو زبان سے متعلق آپ کی نذر ہے: اردو کو فارسی نے شرابی بنادیا / عربی نے اس کو خاص ترابی بنادیا / اہل زباں نے اس کو بنایا بہت ثقیل/ پنجابیوں نے اس کو گلابی بنادیا/ دہلی کا اس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک/ اور لکھنؤ نے اس کو نوابی بنادیا / بخشی ہے اس کو کچھ کرختگی، پٹھان نے/ اس حسن بھوربن کو صوابی بنادیا/ باتوں میں اس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب/ یوں ترکیوں نے اس کو جوابی بنادیا/ قسمت کی بات آئی جو تورانیوں کے ہاتھ / سب کی نظر میں اس کو خرابی بنادیا / حرف ِتہجی ساری زبانوں کے ڈال کر/ اردو کو سب زبانوں کی چابی بنادیا / ہم اور ارتقاء اسے دیتے بھی کیا معین/ اتنا بہت ہے، اس کو نصابی بنادیا۔ شاعر کا نام معلوم نہ ہوسکا کہ کون معین صاحب ہیں، بہرحال لسانی اور لسانیاتی اعتبار سے اہم سعی ہے۔ اس کے بعض مصرعوں پر ہمارے اہل علم، خصوصاً ماہرین لسانیات بشمول ڈاکٹر اجے مالوی (الہ آباد، ہندوستان) اور ڈاکٹر تاج الدین تاجور (پشاور) کی گراں قدر آراء کا انتظار رہے گا۔
پشتونوں /پختونوں میں تاجور صاحب کے علاوہ، پروفیسر نسیم اچکزئی (کوئٹہ) اور اظہاراللہ اظہار (پشاور) خاص طور پر ''کرختگی'' والے شعر پر تبصرہ فرمائیں۔ ویسے آفرین ہے شاعر کو جس نے مقامی لفظیات کو خوب خوب برتا ہے۔ حسن بھوربن کو صوابی سے کیا ملایا ہے۔ صوابی سے یاد آیا کہ اس کے ایک علاقے کا نام ہے ''چھوٹا لاہور''، ایک سے زاید بار، خاکسار نے اپنے کالم زباں فہمی اور سخن شناسی میں اس کا ذکر کیا تھا۔ یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ کراچی نامی کوئی دوسرا شہر، خاکسار کی معلومات کے مطابق، کرۂ ارض پر موجود نہیں، حالانکہ ''پاکستان'' نامی گاؤں ہندوستان میں موجود ہے۔
چلیں ہم اس کالم کے توسط سے پیشکش کرتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان کے کلانچی کو ''چھوٹا کراچی'' بنائیں یا خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے کسی ایسے ہی علاقے کا یہ نام رکھ لیں جہاں کراچی کی طرح مختلف زبانیں اور بولیاں بولنے والے لوگ بستے ہوں۔ (محترمہ مسرت کلانچوی صاحبہ سمیت وہاں کے مقامی اہل قلم اظہارخیال کرسکتے ہیں)۔ اسی طرح بعض دیگر نمونہ ہائے کلام یا اقتباسات بھی مجھے اچھے لگے۔ آج بوجوہ کسی ایک موضوع پر مسلسل خامہ فرسائی کرنے کی بجائے کچھ انحراف۔یا۔ہٹ کر۔ (چالوزبان میں) لکھنے کو جی چاہ رہا ہے۔
بزرگ شاعر محترم ظفراقبال کی روش پر چلتے ہوئے اپنے مضمون میں شعری اقتباسات پیش کررہا ہوں۔ یہ نظم بھی واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں نقل ہوئی، ملاحظہ فرماکر تبصرے سے نوازیں: بُڑھاپا خوبصورت ہے/ذراسا لڑکھڑائیں تو/سہارے دوڑ کر آئیں/نئے اخبار لاکر دیں/پُرانے گیت سُنوائیں/بصارت کی رسائی میں/پسندیدہ کتابیں ہوں/مہکتے سبز موسم ہوں/پرندے ہوں، شجر ہوں تو/بڑھاپا خوب صورت ہے/جنہیں دیکھیں تو آنکھوں میں/ستارے جگمگا اُٹھیں/جنہیں چُومیں تو ہونٹوں پر/دُعائیں جھلمِلا اُٹھیں/جواں رشتوں کی دولت سے/اگر دامن بھرا ہو تو/رفیقِ دل، شریکِ جاں /برابر میں کھڑا ہو تو/بُڑھاپا خوب صورت ہے۔
کالم کے آخر میں ایک ضروری تصحیح : میرے بزرگ معاصر محترم عبداللہ طارق سہیل (لاہور) نے میری تصحیح فرماتے ہوئے یاددلایا کہ کالم نمبر اڑسٹھ (بعنوان کیوکاز،کیوکوز یا قفقاز) میں خاکسار نے روانی میں سہو کرتے ہوئے ، قرہ قلپاقستان [Karakalpakstan/Qaraqalpaqstan] کو روس کا حصہ لکھ دیا، جبکہ یہ ازبکستان میں شامل ہے۔
بہت ممنون ہوں اپنے کرم فرما کی اس نشان دہی کے لیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض احباب اس کالم کا مطالعہ بغور فرماتے ہیں، ورنہ اکثر تو فقط واہ واہ تک ہی محدود ہیں۔ ازبکستان کے شمال مغربی حصے میں (اکثر صحرائی علاقے پر مشتمل) واقع، خودمختار ''جمہوریہ قرہ قلپاقستان'' کے مشرق میں صحرائے قِزِل قُوم [Kyzyl Kum Desert]پھیلا ہوا ہے، جبکہ اس کے جنوب میں صحرائے قرہ قُوم[Karakum Desert] واقع ہے جس کے نام سے ہمیں شاہراہ قرہ قُورَم ۔یا۔قراقرم یاد آتی ہے۔
(صدیوں پہلے یہ ملک سرسبز وشاداب ہوا کرتا تھا)۔ اس جمہوریہ کے صدرمقام کا نام عجیب سا ہے: نُو۔کِس اور اسے رومن رسم الخط میں Nukus لکھتے ہیں۔ یہ ازبکستان کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ اس کے مغرب میں مشہور دریا آمُو[Amu] بہتا ہے۔ جمہوریہ قرہ قلپاقستان میں قرہ قلپاق اور اُزبِک کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔
اسی جمہوریہ میں ایک بہت مشہور تاریخی مقام ہے خوارِزم (خا۔رِزم)۔ کبھی بشرط فرصت وصحت اس کے متعلق بھی لکھوں گا۔ ایک صاحب نے نمعلوم کہاں سے سن کر یہ لکھا کہ محسن پاکستان، نقاش پاکستان چودھری رحمت علی (رحمۃ اللہ علیہ) نے قرہ قلپاقستان کے نوجوانوں کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد، لفظ پاکستان وضع کیا تھا۔ اس بات کی تردید تو راقم نے اپنے ایک مضمون میں کردی تھی جو روزنامہ ایکسپریس ہی میں شایع ہوا تھا، مگر جب ان شاء اللہ دوبارہ اس عظیم ہستی کے متعلق خامہ فرسائی کروں گا تو اس بارے میں بھی مزید کھوج لگاؤں گا۔