تین پاؤنڈ کی کائنات
انسانی دماغ اگر استعمال ہوتا رہے تو اس کی کارکردگی بڑھتی رہتی ہے
لاہور:
بچوں کا ذہن کسی سائنسدان کی طرح کام کرتا ہے، ان کی فطرت میں اپنے ماحول کو سمجھنے اور جاننے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔
ان میں مشاہدے کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے، یہ ننھے سائنسدان نئے نئے تجربات کرتے رہتے ہیں اور دنیا کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ کسی ڈیڑھ یا دو سال کے بچے کو کوئی سادہ کاغذ کھیلنے کے لئے دیں تو وہ کاغذ کبھی آپ کو صحیح سلامت واپس نہیں ملے گا۔ بچہ اس پر اپنے تجربات شروع کر دے گا وہ اسے پھاڑ کر دیکھے گا کہ اس کا میٹریل کیسا ہے۔ وہ اسے اپنے منہ کی لیبارٹری میں لے جائے گا اور اس کا ذائقہ چیک کرے گا وہ اسے کسی میز پر مارنے لگے گا اور اپنے اس نئے ساز کی موسیقی سے لطف اندوز ہونے لگے گا۔ جب اس کا دل اس کھیل سے بھر جائے گا تو وہ اس کاغذ کو نیچے پھینک دے گا اور کسی نئی چیز کے ساتھ اپنے تجربات شروع کر دے گا۔ بچے اپنے دماغ کو مسلسل استعمال کرتے رہتے ہیں۔ نئی نئی چیزیں سیکھتے رہتے ہیں۔ برین سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ دماغ جتنا زیادہ استعمال ہوتا رہے، اس کی کارکردگی اتنی ہی بڑھتی رہتی ہے۔ بچے کچھ بھی نیا سیکھنے میں اسی لئے اچھے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ایک توانا دماغ ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں بڑے کچھ نیا سیکھنے میں عموماً اتنے اچھے نہیں ہوتے کیونکہ ان کے پاس ایک ایسا دماغ ہوتا ہے جو آرام طلب ہوتا ہے اور ایک لمبی مدت سے بیکار پڑا ہوتا ہے۔ بچوں کو اگر ساز گار ماحول ملے تو ان کی ذہنی نشوونما جاری رہتی ہے۔ بے شمار لوگ جو مختلف شعبوں میں اپنے علم اور مہارت کی وجہ سے نامور بنتے ہیں ان کو بچپن سے ہی نہایت موزوں ماحول ملتا ہے۔
مصنف جان میڈینا ( john medina) برین سائنس کی دنیا کا اہم نام ہے۔ اس نے اپنی کتاب (Brain Rules) میں اپنے بچپن کے دنوں کا ذکر کیا ہے کہ کیسے اس کی والدہ نے ایک شاندار ماحول میں اس کی پرورش کی۔ وہ کہتا ہے کہ جب میری عمر تین سال تھی تو میرے اندر ڈائنوسار کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو گیا، میری والدہ نے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پورے گھر کا ماحول ہی بدل دیا۔ دیواروں پر جگہ جگہ پر ڈائنو سار کی تصویریں لگا دیں گئیں۔ گھر میں ڈائنوسار کی کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ ہم شام کے کھانے پر بھی ڈائنوسار کی خوراک کے بارے میں باتیں کرتے۔ ہم ڈائنوسار کی آوازیں نکالنے کی کوشش کرتے رہتے اور پھر کتنی ہی دیر ہنستے رہتے۔ پھر اچانک میری دلچسپی بدل گئی۔ میرے ایک دوست کو مصنوعی سیاروں' خلائی گاڑیوں کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو گیا تو مجھے بھی یہی چیزیں اچھی لگنے لگیں۔ میری والدہ تو جیسے اس لمحے کا انتظار کر رہیں تھیں، انہوں نے بڑی تیزی اور عمدگی سے پورے گھر کا ماحول پھر بدل دیا۔
دیواروں سے ڈائینوسار والی تصویریں اتار لی گئیں اور ان کی جگہ سیاروں اور سیٹلائٹ کی تصویروں نے لے لی۔ میری دلچسپیاں تبدیل ہوتی رہیں اور گھر کا نقشہ بھی ان کے مطابق بدلتا رہا۔ مجھے یونانی اساطیر میں مزہ آنے لگا تو گھر کا ماحول بھی اسی کی مناسبت سے تبدیل کر دیا گیا۔ مجھے جیومیٹری اچھی لگنے لگی تو ہر طرف جیومیٹری کی اشکال نظر آنے ل گیں۔ جب میری عمر 8 یا 9 سال ہو گئی تو میں اپنے گھر کا نقشہ اپنی دلچسپی اور شوق کے مطابق خود بدلنے لگ گیا۔ مصنف کا خیال ہے کہ انسان کا دماغ حیرت انگیز چیز ہے اس میں بے پناہ صلاحیت پائی جاتی ہے وہ ہماری ملاقات ایسے لڑکے سے کرواتا ہے جو دن کے کسی بھی لمحے میں بغیر گھڑی دیکھے صحیح وقت بتا سکتا ہے۔ وہ ایسی لڑکی کی بارے میں بتاتا ہے جو 20 فٹ کے فاصلے پر موجود کسی بھی چیز کی لمبائی چوڑائی کا صحیح حساب لگا سکتی ہے اور وہ ایک چھ سال کی لڑکی کے بارے میں بتاتا ہے جو اپنے ہاتھ سے اتنی شاندار تصویر بنا سکتی ہے کہ جس پر اصلی تصویر کا گمان ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سب لوگوں کا دماغ شاید اتنے انوکھے کام نہ کر سکتا ہو لیکن پھر بھی یہ بہت غیر معمولی ہوتاہے۔
سائنسدان انسانی دماغ کے بارے میں انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس کی حیرت انگیز اور دلچسپ دنیا کا تعارف کرواتے رہتے ہیں۔ بلکہ اگر دماغ کو تین پاؤنڈ کا وزن رکھنے والی کائنات کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ دماغ کی یہ کائنات ایک سو بلین خلیوں پر مشتمل ہے، اگر ہم انہیں گننے لگ جائیں تو ہمیں اس میں 3 ہزار سال کا وقت لگے گا۔ اس کا ہر خلیہ ایک سپر کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ دماغ ہمارے سارے کاموں کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے خواب دیکھنا' سوچنا' چلنا پھرنا اس کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ دماغ کی اس حیرت انگیزی کو دیکھیں اور پھر ایک نظر اپنے رویوں اور عاداتوں پر ڈالیں ۔ کیا ہم اپنے بچوں کو ایسا ماحول دیتے ہیں جو سیکھنے اور جاننے کے عمل کے لئے ساز گار ہو۔ کیا ہم خود اپنی ذہنی نشوونما کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ بچوں کو ہم شروع سے ہی سکھانے لگ جاتے ہیں کہ رٹنا' گریڈ' نمبر' امتحان اور مقابلہ اہم ہے۔ بچوں کی جاننے کی خواہش کو کیسے پروان چڑھانا ہے، اس پر کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ ہم اپنے بچے کی دلچسپی نوٹ نہیں کرتے اگر اس کی کوئی دلچسپی ہو بھی تو ہمیں اس حوالے سے کسی بھی رول ماڈل یا کہانی کا علم نہیں ہو گا۔ ہم نہ اس پر بات کریں گے نہ اس کے مطابق گھر کا موحول بدلیں گے' نہ ہی اسے کوئی اچھی کتاب لا کر دیں گے۔ بچے کو گیم' ٹی وی' کارٹونوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا آسان ہے لیکن کسی صحت مند اور بامقصد کھیل یا دلچسپی کے ذریعے اس کی ذہنی نشو ونما کا خیال رکھنا ایک مشکل کام ہے۔
خود اپنے لئے ہم نے ایسی زندگی کا انتخاب کر لیا ہوتا جس میں دماغ کو آرام طلبی کی عادت پڑ جاتی ہے، جس میںدماغ کو نئے چیلنجوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ہمارا کچھ نیا سیکھنا یا پڑھنا صرف مجبوری کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا شوق یا مشغلہ نہیں ہوتا جس کے لئے ہمیں کتابیں پڑھنے یا نئی معلومات اکٹھی کرنے کی ضرورت ہو۔ آپ کو بہت کم لوگ ایسے نظر آئیں گے جو اپنے شوق کی خاطر کسی سافٹ ویئر' ڈیوائس' زبان یا مہارت کو سیکھنے کا چیلنج قبول کر رہے ہوں۔ عام طور پر بڑی عمر کے لوگوں کی یاداشت اور دوسری صلاحیتیں متاثر ہونے لگتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا ذہنی طور پر سست اور بیکار ہو جانا ہوتا ہے۔ جو دماغ استعمال نہیں ہوتا وہ آہستہ آہستہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔اسی لئے دماغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے استعمال کرتے رہو ورنہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔
Brain rule کا مصنف ہماری ملاقات علم سے محبت کرنے اور میڈیسن میں نوبل انعام حاصل کرنے والے دو عظیم انسانوں سے بھی کرواتا ہے۔ ان دونوں کی عمریں پچھتر سال کے قریب تھیں لیکن اس عمر میں بھی وہ جسمانی طور پر ریٹائرڈ ہوئے تھے اور نہ ذہنی طور پر۔ دونوں کے پاس لیبارٹریاں تھیں جہاں وہ مصروف رہتے تھے۔ اکثر آپس میں ملتے اور پرجوش انداز میں ایک دوسرے کو اپنی نئی تحقیق سے آگاہ کرتے۔ انسانی دماغ ہر عمر میں توانا اور صحت مند رہ سکتا ہے اور ہمارے لئے ترقی اور کامیابی کے لامحدود امکانات پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے لئے ایک ایسی زندگی کا انتخاب کرنا ہے جس میں سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہے۔
facebook.com/atif.mirza.56
بچوں کا ذہن کسی سائنسدان کی طرح کام کرتا ہے، ان کی فطرت میں اپنے ماحول کو سمجھنے اور جاننے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔
ان میں مشاہدے کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے، یہ ننھے سائنسدان نئے نئے تجربات کرتے رہتے ہیں اور دنیا کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ کسی ڈیڑھ یا دو سال کے بچے کو کوئی سادہ کاغذ کھیلنے کے لئے دیں تو وہ کاغذ کبھی آپ کو صحیح سلامت واپس نہیں ملے گا۔ بچہ اس پر اپنے تجربات شروع کر دے گا وہ اسے پھاڑ کر دیکھے گا کہ اس کا میٹریل کیسا ہے۔ وہ اسے اپنے منہ کی لیبارٹری میں لے جائے گا اور اس کا ذائقہ چیک کرے گا وہ اسے کسی میز پر مارنے لگے گا اور اپنے اس نئے ساز کی موسیقی سے لطف اندوز ہونے لگے گا۔ جب اس کا دل اس کھیل سے بھر جائے گا تو وہ اس کاغذ کو نیچے پھینک دے گا اور کسی نئی چیز کے ساتھ اپنے تجربات شروع کر دے گا۔ بچے اپنے دماغ کو مسلسل استعمال کرتے رہتے ہیں۔ نئی نئی چیزیں سیکھتے رہتے ہیں۔ برین سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ دماغ جتنا زیادہ استعمال ہوتا رہے، اس کی کارکردگی اتنی ہی بڑھتی رہتی ہے۔ بچے کچھ بھی نیا سیکھنے میں اسی لئے اچھے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ایک توانا دماغ ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں بڑے کچھ نیا سیکھنے میں عموماً اتنے اچھے نہیں ہوتے کیونکہ ان کے پاس ایک ایسا دماغ ہوتا ہے جو آرام طلب ہوتا ہے اور ایک لمبی مدت سے بیکار پڑا ہوتا ہے۔ بچوں کو اگر ساز گار ماحول ملے تو ان کی ذہنی نشوونما جاری رہتی ہے۔ بے شمار لوگ جو مختلف شعبوں میں اپنے علم اور مہارت کی وجہ سے نامور بنتے ہیں ان کو بچپن سے ہی نہایت موزوں ماحول ملتا ہے۔
مصنف جان میڈینا ( john medina) برین سائنس کی دنیا کا اہم نام ہے۔ اس نے اپنی کتاب (Brain Rules) میں اپنے بچپن کے دنوں کا ذکر کیا ہے کہ کیسے اس کی والدہ نے ایک شاندار ماحول میں اس کی پرورش کی۔ وہ کہتا ہے کہ جب میری عمر تین سال تھی تو میرے اندر ڈائنوسار کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو گیا، میری والدہ نے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پورے گھر کا ماحول ہی بدل دیا۔ دیواروں پر جگہ جگہ پر ڈائنو سار کی تصویریں لگا دیں گئیں۔ گھر میں ڈائنوسار کی کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ ہم شام کے کھانے پر بھی ڈائنوسار کی خوراک کے بارے میں باتیں کرتے۔ ہم ڈائنوسار کی آوازیں نکالنے کی کوشش کرتے رہتے اور پھر کتنی ہی دیر ہنستے رہتے۔ پھر اچانک میری دلچسپی بدل گئی۔ میرے ایک دوست کو مصنوعی سیاروں' خلائی گاڑیوں کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو گیا تو مجھے بھی یہی چیزیں اچھی لگنے لگیں۔ میری والدہ تو جیسے اس لمحے کا انتظار کر رہیں تھیں، انہوں نے بڑی تیزی اور عمدگی سے پورے گھر کا ماحول پھر بدل دیا۔
دیواروں سے ڈائینوسار والی تصویریں اتار لی گئیں اور ان کی جگہ سیاروں اور سیٹلائٹ کی تصویروں نے لے لی۔ میری دلچسپیاں تبدیل ہوتی رہیں اور گھر کا نقشہ بھی ان کے مطابق بدلتا رہا۔ مجھے یونانی اساطیر میں مزہ آنے لگا تو گھر کا ماحول بھی اسی کی مناسبت سے تبدیل کر دیا گیا۔ مجھے جیومیٹری اچھی لگنے لگی تو ہر طرف جیومیٹری کی اشکال نظر آنے ل گیں۔ جب میری عمر 8 یا 9 سال ہو گئی تو میں اپنے گھر کا نقشہ اپنی دلچسپی اور شوق کے مطابق خود بدلنے لگ گیا۔ مصنف کا خیال ہے کہ انسان کا دماغ حیرت انگیز چیز ہے اس میں بے پناہ صلاحیت پائی جاتی ہے وہ ہماری ملاقات ایسے لڑکے سے کرواتا ہے جو دن کے کسی بھی لمحے میں بغیر گھڑی دیکھے صحیح وقت بتا سکتا ہے۔ وہ ایسی لڑکی کی بارے میں بتاتا ہے جو 20 فٹ کے فاصلے پر موجود کسی بھی چیز کی لمبائی چوڑائی کا صحیح حساب لگا سکتی ہے اور وہ ایک چھ سال کی لڑکی کے بارے میں بتاتا ہے جو اپنے ہاتھ سے اتنی شاندار تصویر بنا سکتی ہے کہ جس پر اصلی تصویر کا گمان ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سب لوگوں کا دماغ شاید اتنے انوکھے کام نہ کر سکتا ہو لیکن پھر بھی یہ بہت غیر معمولی ہوتاہے۔
سائنسدان انسانی دماغ کے بارے میں انکشافات کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس کی حیرت انگیز اور دلچسپ دنیا کا تعارف کرواتے رہتے ہیں۔ بلکہ اگر دماغ کو تین پاؤنڈ کا وزن رکھنے والی کائنات کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ دماغ کی یہ کائنات ایک سو بلین خلیوں پر مشتمل ہے، اگر ہم انہیں گننے لگ جائیں تو ہمیں اس میں 3 ہزار سال کا وقت لگے گا۔ اس کا ہر خلیہ ایک سپر کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ دماغ ہمارے سارے کاموں کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ ہمارے خواب دیکھنا' سوچنا' چلنا پھرنا اس کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ دماغ کی اس حیرت انگیزی کو دیکھیں اور پھر ایک نظر اپنے رویوں اور عاداتوں پر ڈالیں ۔ کیا ہم اپنے بچوں کو ایسا ماحول دیتے ہیں جو سیکھنے اور جاننے کے عمل کے لئے ساز گار ہو۔ کیا ہم خود اپنی ذہنی نشوونما کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ بچوں کو ہم شروع سے ہی سکھانے لگ جاتے ہیں کہ رٹنا' گریڈ' نمبر' امتحان اور مقابلہ اہم ہے۔ بچوں کی جاننے کی خواہش کو کیسے پروان چڑھانا ہے، اس پر کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ ہم اپنے بچے کی دلچسپی نوٹ نہیں کرتے اگر اس کی کوئی دلچسپی ہو بھی تو ہمیں اس حوالے سے کسی بھی رول ماڈل یا کہانی کا علم نہیں ہو گا۔ ہم نہ اس پر بات کریں گے نہ اس کے مطابق گھر کا موحول بدلیں گے' نہ ہی اسے کوئی اچھی کتاب لا کر دیں گے۔ بچے کو گیم' ٹی وی' کارٹونوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا آسان ہے لیکن کسی صحت مند اور بامقصد کھیل یا دلچسپی کے ذریعے اس کی ذہنی نشو ونما کا خیال رکھنا ایک مشکل کام ہے۔
خود اپنے لئے ہم نے ایسی زندگی کا انتخاب کر لیا ہوتا جس میں دماغ کو آرام طلبی کی عادت پڑ جاتی ہے، جس میںدماغ کو نئے چیلنجوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ہمارا کچھ نیا سیکھنا یا پڑھنا صرف مجبوری کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا شوق یا مشغلہ نہیں ہوتا جس کے لئے ہمیں کتابیں پڑھنے یا نئی معلومات اکٹھی کرنے کی ضرورت ہو۔ آپ کو بہت کم لوگ ایسے نظر آئیں گے جو اپنے شوق کی خاطر کسی سافٹ ویئر' ڈیوائس' زبان یا مہارت کو سیکھنے کا چیلنج قبول کر رہے ہوں۔ عام طور پر بڑی عمر کے لوگوں کی یاداشت اور دوسری صلاحیتیں متاثر ہونے لگتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا ذہنی طور پر سست اور بیکار ہو جانا ہوتا ہے۔ جو دماغ استعمال نہیں ہوتا وہ آہستہ آہستہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔اسی لئے دماغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے استعمال کرتے رہو ورنہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔
Brain rule کا مصنف ہماری ملاقات علم سے محبت کرنے اور میڈیسن میں نوبل انعام حاصل کرنے والے دو عظیم انسانوں سے بھی کرواتا ہے۔ ان دونوں کی عمریں پچھتر سال کے قریب تھیں لیکن اس عمر میں بھی وہ جسمانی طور پر ریٹائرڈ ہوئے تھے اور نہ ذہنی طور پر۔ دونوں کے پاس لیبارٹریاں تھیں جہاں وہ مصروف رہتے تھے۔ اکثر آپس میں ملتے اور پرجوش انداز میں ایک دوسرے کو اپنی نئی تحقیق سے آگاہ کرتے۔ انسانی دماغ ہر عمر میں توانا اور صحت مند رہ سکتا ہے اور ہمارے لئے ترقی اور کامیابی کے لامحدود امکانات پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے لئے ایک ایسی زندگی کا انتخاب کرنا ہے جس میں سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہے۔
facebook.com/atif.mirza.56