طلبہ تنظیموں کا قیام درست لیکن۔۔۔۔۔۔

سیاسی جماعتوں کے گھناؤنے کردار نے طلبہ تنظیموں کا مقصد ہی فوت کردیا اورطلبہ تنظیمیں آج پابندیوں کی زد میں ہیں۔۔۔

بدمعاشی اور ہنگاموں کی بجائے یونین طلبہ کے حقوق کے تحفظ کی ضامن بنے۔ فوٹو: فائل

قیام پاکستان کے وقت ہمارے حصے میں ایک لٹا پٹا ملک آیا، جس کے باعث لوگوں کی اکثریت معاشی ابتری کا شکار تھی، لیکن افسوس! اس بات کا ہے کہ آج 66 سال بعد بھی عام آدمی کی زندگی کے دکھوں کا مداوا نہ ہو سکا۔

قیام پاکستان کے وقت غیروں نے لوٹا اور اب اپنے لوٹ رہے ہیں، لوگ اس وقت بھی چیخ و پکار کر رہے تھے اور آج بھی مختلف یونینز بنا کر اپنے حقوق کے حصول کے لئے احتجاج کئے جا رہے ہیں۔ انجمن والدین، تنظیم اساتذہ، طلبہ تنظیمیں، محنت کشوں کی یونینز، تاجروں اور صنعت کاروں کے چیمبرز، ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشنز، صحافیوں کی یونینز، ادبی فورمز اور تنظیمیں، خواتین کی تنظیمیں، غرض ہر شعبے اور ہر جنس کے لوگوں کی یونینز موجود ہیں، جو اپنے استحصال کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لیکن طلبہ یونین اور دیگر تمام یونینز میں ایک فرق بڑا واضح ہے، وہ یہ کہ دیگر تنظیمیں جلدی کسی کے لئے استعمال نہیں ہوئیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھا، مگر دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ طلبہ یونینز آج سے نہیں بلکہ وطن عزیز کے ارتقاء کے بعد سے اب تک دوسروں کا آلہ کار ہی بنتی آئی ہیں۔ تحریک پاکستان میں طلبہ یونینز نے مثالی کردار ادا کیا لیکن، وقت اور حالات کے مطابق ضرورتیں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اُس وقت ایک پُرجوش اور مضبوط تنظیم کی ضرورت تھی، جو الگ وطن کے حصول کے لئے طلبہ کی ذہن سازی کرے، جلسے و جلوسوں کا انتظام کرے لیکن آج ہم نے کوئی نیا وطن حاصل نہیں کرنا بلکہ اپنے ملک کو بچانے کے ساتھ ترقی کی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ اور ترقی کی بلندیوں پر پہنچنے کا راستہ ڈنڈے اور فائرنگ سے نہیں بلکہ کتاب اور قلم کے ذریعے ملے گا۔

طلبہ یونین کے قیام کی تعریف دنیا بھر میں کہیں بھی بدمعاشی، سیاسی مداخلت اور مار دھاڑ نہیں بلکہ اس کے قیام کا مقصد متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق طلبہ کے مفادات اور حقوق کا تحفظ ہے۔ طالب علموں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں فہم و آگہی سے روشناس کروانے کے لیے یونینز کا پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔ یورپ سمیت دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مسائل اجاگر کرنے، غیر نصابی سرگرمیوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنانے اور ان کے ذہنی شعور میں اضافے میں طلبہ تنظیمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ طلبہ یونینز کا مقصد جمہوری ضابطوں کے مطابق اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں طلبہ کی تربیت کرنا ہوتی ہے، اس سے نہ صرف تعلیمی اداروں کے معاملات میں طلبہ کا نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہ مستقبل میں سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بننے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس! پاکستان میں طلبہ یونین کا مطلب و مقصد ہرگز یہ نہیں جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔



طلبہ یونین میں سیاسی پارٹیوں کے گھنائونے کردار نے طلبہ کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر کلاشنکوف تھمادی۔ سیاست دان اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے طلبہ کو استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذیلی تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اس صورتحال نے ہزاروں معصوم نوجوانوں کو جرائم کی پرخطر راہ پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں قائم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی ونگز متحرک ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان سیاسی عمل میں شرکت کے بجائے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ صورت حال اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ تنظیمیں کسی دوسری تنظیم کو اپنے مقابل ان تعلیمی اداروں پر برداشت نہیں کرتیں، ان طلبہ تنظیموں کے قائدین کی مرضی و منشا کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ جابرانہ اور غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تعلیمی نظام تباہ و برباد ہے اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان اداروں میں تدریس کا مقدس فریضہ انجام دینے والے اساتذہ کرام بھی ان تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اگر یہی صورت حال کسی قوم کی ہو تو اس کی ذہنی جہالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

مار دھاڑ، اغواء، فائرنگ، بدمعاشی، قتل، دھماکے اور ہڑتالوں کی وجہ سے طلبہ تنظیمیں آج پابندیوں کی زد میں ہیں۔ پاکستان میں طلبہ یونین پر سب سے پہلی پابندی 28 فروری 1984ء میں ضیاء الحق کے دور میں لگائی گئی۔ 1988ء میں بے نظیر نے یہ پابندی ختم کی تو نواز شریف کے دور حکومت میں پھر لگا دی گئی۔ اس دوران 1993ء 1996ء میں طلبہ یونینز کے نام پر تعلیمی اداروں کو میدان جنگ بنانے کے واقعات بھلائے نہیں جا سکتے۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے ذمہ دار طلبہ نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں ہیں، جن کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں یونینز کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یونینز کو سیاسی پارٹیوں کے ذیلی ادارے کہا جاتا ہے، کیوں کہ سیاسی پارٹیاں ہی ان یونینز کو مضبوط بناتی اور اپنے کام نکلواتی ہیں۔ آج پاکستان میں کوئی ایسی بڑی طلبہ یونین نہیں جس کی پشت پر کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ نہ ہو۔ ایم ایس ایف پر مسلم لیگ، جمعیت پر جماعت اسلامی، پی ایس ایف پر پیپلزپارٹی، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن پر تحریک انصاف، آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) پر ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان طلبہ یونینز کو سیاسی پارٹیوں کی طرف سے رقم سمیت ہر قسم کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ اور جب آپ کسی سے لے کر کھائیں گے تو پھر اس کی جی حضوری بھی کرنا پڑے گی۔ مگر ان وجوہات کی بناء پر طلبہ یونینز پر پابندی کسی طور بھی درست نہیں۔



پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر شعبہ ہی استحصال کا شکار ہے وہاں طلبہ بھی سہولیات کے فقدان اور تعلیمی نظام کی خرابیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ اگر ہماری حکومت اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس قابل ہوتی کہ وہ طلبہ کے مسائل حل کر سکے تو پھر تنظیم کی ضرورت نہیں تھی، چوں کہ یہ سب کچھ نہیں ہو رہا تو پھر طلبہ تنظیم کی ضرورت ہے، مگر یہ سیاست سے بالاتر ہونی چاہیئں۔ طلبہ یونین پر پابندی لگانے کی خواہش رکھنے والی (خصوصاً تعلیمی اداروں کی) انتظامیہ کو احتساب کا خوف کھائے جاتا ہے۔ پھر طلبہ یونین پر بلاوجہ پابندیاں ان میں سیاست، جمہوریت اور تنقیدی شعور کا دروازہ بند کرنے کے مترادف ہے۔ طلبہ یونینز تعلیمی اداروں کے اندر محدود اور سیاست سے بالاتر رہیں اور اس مقصد کے حصول میں حکومتی سطح پر ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا جائے۔ طلبہ یونین پر سے فوری طور پر پابندی اٹھا کر الیکشن کروائے جائیں تاکہ طلبہ کو اپنی صلاحتیں اجاگر کرنے کے جائز مواقع دستیاب ہو سکیں۔

طلبہ تنظیمیں ہونی چاہیں: ''اگر مگر'' کیساتھ سیاستدانوں کی متفقہ رائے

تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے قیام پر سیاست دانوں کی آراء میں تقریباً یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ''اگر مگر'' کے ساتھ تمام سیاست دان طلبہ تنظیموں کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ طلبہ یونینز صرف پاکستان نہیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں، کیوں کہ یہی وہ بطن ہے جس سے قیادت کی نئی کھیپ جنم لیتی ہے۔ یونین سازی کا عمل طلبہ میں نہ صرف سیاسی اور انتظامی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہ انہیں ایک ذمہ دار شہری بننے میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ لہذا پاکستان میں بھی طلبہ یونینز ہونی چاہیے، ان کی سرگرمیوں پر ہر قسم کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندی کو ختم کیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں یونین الیکشن کرواکر طلبہ کو انتظامی ڈھانچے کا حصہ بنایا جائے۔ معروف سیاستدان و ایم این اے شیخ رشید طلبہ یونین کے حوالے سے بہت زیادہ پُرجوش ہیں، ان کا کہنا ہے کہ طلبہ تنظیمیں ضرور ہونی چاہئیں کیوں کہ ملک بانجھ ہو چکا ہے۔ پاکستان کی ملکی سیاست میں عوام کے ترجمان صرف وہی سیاست دان یا حکمران بنے ہیں جو طلبہ تنظیموں سے ہو کر آئے ہیں، باقی سب جاگیرداروں، صنعتکاروں اور بڑے خاندانوں سے آئے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں یونین سازی پر پابندی ختم ہونی چاہئے، یہ نہ صرف طلبہ بلکہ ملک و قوم سے بھی بڑی زیادتی ہے۔



جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ تنظیموں کے قیام کا مقصد اگر نظریات، اصول اور پاکستان کے استحکام کے لئے ہو تو ضرور ہونی چاہئیں۔ کیوں کہ نئی نسل کی سیاسی تربیت ان اداروں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یونین پر پابندی کو ختم کرکے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ انتخابات کروائے جائیں، جس میں طلبہ بغیر کسی دبائو اور سیاسی مداخلت کے بھرپور حصہ لیں۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی کا کہنا ہے کہ یونین، طلبہ اور معاشرے دونوں کے لئے ضروری ہے، یونین کے قیام سے طلبہ میں سیاسی و سماجی فہم آئے گا اور نتیجتاً معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ طلبہ تنظیمیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں کیوں کہ یہ عمل طلبہ کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کھیل اور دیگر ہم نصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ مگر طلبہ یونینز میں سیاسی گروہ بندیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ طلبہ اپنی تنظیم یا یونین خود بنائیں اور انتظام چلائیں۔ ن لیگ کے رہنما و ایم این اے شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ طلبہ اپنے معاملات اگر اپنی حد تک رکھیں تو یونین کا قیام درست ہے، لیکن جب اس میں تشدد کا عنصر آ جاتا ہے تو پھر نہ صرف طلبہ کی تعلیم متاثر ہوتی بلکہ ادارے بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں طلبہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے آتے ہیں، انہیں پڑھنا ہی چاہیے۔ قومی لیڈر شپ طلبہ یونین سے نہیں آتی بلکہ اس کا تعلق عملی زندگی سے جڑے شعبوں سے ہے۔


طلبہ یونین ضروری ہے، نہیں ہے: طالب علموں کی منقسم آراء

یونین سازی کے معاملہ پر عام طلبہ کی آراء منقسم ہے۔ کچھ کے نزدیک یہ ایک صحت مند مشق جبکہ باقی اسے بدمعاشی اور تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ''ایکسپریس'' نے مختلف تعلیمی اداروں کے چند طلبہ سے بات چیت کی۔ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم محمد سہیل کا کہنا ہے کہ چوں کہ میں ایک پرائیویٹ ادارے میں زیرتعلیم ہوں تو اس وجہ سے یہاں یونین سازی کا زیادہ رجحان نہیں اور بڑی بڑی طلبہ تنظیموں کو تو یہاں داخلے کی اجازت ہی نہیں۔ لیکن پھر بھی ہماری جامعہ کے اندر طلبہ کے چند ایسے گروپ ہیں، جن کا کام صرف چھوٹی چھوٹی بات پر تعلیمی سرگرمیاں معطل کرکے ہڑتال کروانا ہے۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی وجہ سے چند پڑھنے لکھنے والے سٹوڈنٹ بھی تحفظ کی خاطر ان گروہوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ یونین کے کرتا دھرتا طلبہ کے اجتماعی مفاد نہیں بلکہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایسی تنظیمیں بناتے ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں تو طلبہ یونین نہیں ہونی چاہیے۔ ایم اے کے طالب علم حسن اشفاق کہتے ہیں کہ پاکستان کے ابتر حالات میں جہاں شہری بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں وہاں طلبہ یونین کا قیام ناگزیر اور انتہائی سود مند ہے۔

ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ (چاہے وہ تعلیمی ادارے کی ہو) کا یہ ذہن بن چکا ہے کہ کسی بندے کو احتجاج کے بغیر اس کا حق نہیں دینا۔ پاکستان میں تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے طلبہ کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مقتدر حلقوں کے پاس ہماری شکایات سننے کا وقت ہی نہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں طلبہ یونین ہر تعلیمی ادارے میں ضرور ہونی چاہیے۔ فسٹ ایئر کے طالبعلم گوہر جٹ کا کہنا ہے کہ اگر کالج میں طلباء تنظیمیں ہوں گی تو ہمارے مسائل آسانی سے حل ہو جائیں گے۔ سیکنڈ ایئر کے محمد بشارت کا کہنا ہے کہ ہاں تنظیمیں تو ہونی چاہیں لیکن سیاست سے پاک ورنہ یہی تنظیمیں ''نو کلاس'' ''بائیکاٹ بائیکاٹ'' کے نعرے لگائیں گی۔ کلیم اللہ نے طلبہ تنظیموں کے خیال سے مکمل طور پر اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ تنظیموں نے نہ کبھی پہلے مسائل حل کئے نہ کبھی کریں گی اور سیاسی وابستگی کے بغیریہ چل بھی نہیں سکتیں۔ تھرڈ ایئر کی طالبہ رابعہ نے بتایا کہ طلبہ یونین ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے، اس سلسلہ میں متعلقہ انتظامیہ اور طلبہ کی مشاورت سے ایک متفقہ سوسائٹی بنائی جائے۔ فورتھ ایئر کی طالبہ بشریٰ کے مطابق طلبہ یونین بنے لیکن اس کا ایک ہی ایجنڈا ہو اور وہ شعبہ تعلیم کی بہتری اور طلبہ کی رہنمائی ہونی چاہیے۔ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے اساتذہ کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔



ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ تنظیموں کی صورت حال

طلبہ تنظیموں کے حوالے سے پاکستان کسی اور سیارے پر واقع نہیں۔ پاکستان میں اگر یونینز ہیں تو دنیا بھر میں طلبہ پر مشتمل کونسلز، آرگنائزیشن، ایسوسی ایشنز اور سوسائٹیز موجود ہیں۔ لیکن پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک کی طلبہ تنظیموں میں رہنمائی اور تشدد کا فرق واضح ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی پُرتشدد طلبہ تنظیم تھی بھی تو آج اس کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 1935ء میں امریکا میں طلبہ پر مشتمل بائیں بازو کی ایک امریکن سٹوڈنٹ یونین (ASU) بنائی گئی۔ یونین نے فوجی جارحیت کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کئے، بعدازاں 1939ء میں اس گروپ کی پُرتشدد سرگرمیوں کے خلاف تحقیقات کی گئیں اور 1941ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔ آج امریکا میں سٹوڈنٹ گورنمنٹ اور سٹوڈنٹ سینیٹ کے نام سے طلبہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن کے قیام کا مقصد طلبہ کو رہنمائی اور سہولیات کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔student activity center کے نام سے مراکز بنائے گئے ہیں جہاں طلبہ رہنمائوں کے لئے دفاتر قائم اور ہم نصابی سرگرمیاں منعقد کروائی جاتی ہیں۔ برطانیہ میں طلبہ تنظیموں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں 1883ء میں پہلی طلبہ تنظیم یونیورسٹی کالج لندن یونین کے نام سے بنائی گئی۔ آج یہاں طلبہ کی نمائندہ متعدد یونینز اور کونسلز موجود ہیں جن کی اکثریت نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس سے الحاق شدہ ہے۔

یہ یونینز طلبہ کو احتجاج اور دھرنوں میں استعمال نہیں کرتیں بلکہ طلبہ کو نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ چین میں طلبہ تنظیموں کو سٹوڈنٹ ایسوسی ایشنز کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، جو متعلقہ ادارے کی پالیسی کے مطابق مختلف پروگرامز میں طلبہ کی طرف سے کردار ادا کرتی ہیں۔ چین کی طلبہ تنظیموں میں شمولیت ہر طالب علم کے لئے نہیں بلکہ ممبرشپ کے لئے طالب علم کا باقاعدہ ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے، جس میں اس کی تعلیمی قابلیت اور ادارہ میں حاضری کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کی تمام جامعات میں ایک یا ایک سے زیادہ طلبہ آرگنائزیشنز ہیں، لیکن قومی سطح پر نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس آف آسٹریلیا تمام تنظیموں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہاں سٹوڈنٹ یونینز کا مقصد طلبہ کو کیمپس نیوز پیپر، آرٹس، سپورٹس جیسے شعبہ جات میں معاونت فراہم کرنا ہے۔ ملائیشیا میں طلبہ تنظیموں کی اکثریت ایم پی پی (Majlis Perwakilan Pelajar) کے تحت کام کرتی ہیں۔ ایم پی پی کے نمائندوں کا انتخاب ہر سال ستمبر کے مہینے میں الیکشن سے کیا جاتا ہے، اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آئوٹ 70 سے 95 فیصد تک رہتا ہے۔ وزارت ہائیر ایجوکیشن ملائیشیا ہر سال ایم پی پی کے نمائندگان سے باقاعدہ میٹنگ کرتی ہے، جس میں طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ مختلف نصابی و ہم نصابی پروگرامز کو ترتیب دیا جاتا ہے۔



طلبہ یوننیز پر پاکستان کے معروف ماہرین تعلیم کیا کہتے ہیں؟

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کے قیام اور ان کی سرگرمیوں پر ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق طلبہ تنظیمیں ہونی چاہئیں لیکن انہیں سیاسی جماعتوں کے ذیلی ادارے نہیں بننا چاہیے۔ ہمارے ہاں یہی سب سے بڑی خرابی ہے، یہاں طلبہ یونینز کی پشت پر سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے طلبہ تعلیمی مقاصد کو سیاست کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔ ایسی طلبہ یونینز سیاست کی نرسری ہیں، والی بات درست نہیں، مغرب میں ایسی کوئی تنظیمیں نہیں لیکن وہاں جمہوریت کامیابی سے چل رہی ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے طلبہ یونینز کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں فوری طور پر تنظیمی سرگرمیوں کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ یونینز سے نہ صرف قومی لیڈر شپ ملتی ہے بلکہ اکیڈمک سرگرمیوں کو فروغ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں 1929ء سے 1983ء تک طلبہ تنظیمیں کام کررہی تھیں اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن آج پابندیوں کی وجہ سے طلبہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ وائس چانسلر سرگودھا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے طلبہ تنظیموں کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں سیاسی پارٹیاں طلبہ کو اپنا ونگ بنا کر انہیں اسلحہ فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ سیاستدانوں کے اہداف کو پورا کرنے میں معاونت کریں۔

جامعہ سرگودھا میں گزشتہ 7سال سے ایک دن بھی ہڑتال نہیں ہوئی کیوں کہ ہم نے کبھی یہاں کسی سیاسی پارٹی کو گھسنے نہیں دیا۔ ہاں البتہ طلبہ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے مختلف سوسائٹیز کا قیام خوش آئند ہے۔ وائس چانسلر یو ای ٹی لاہور محمد اکرم خاں کا کہنا ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یونین، طلبہ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ طلبہ یونینز سے تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑے بن جاتے ہیں، لہٰذا طلبہ کے مسائل حل کرنے کے لئے ایسوسی ایشنز بنانی چاہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے کہا کہ طلبہ یونین نہیں ہو گی تو انتظامی مسائل پیدا ہوں گے، طلبہ کی صلاحیتیں اجاگر نہیں ہوں گی۔ ملکی فہم حاصل کرنا ایک طالب علم کا حق ہے جو اسے یونین کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔ آج تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلبہ یونینز سے صرف اس لئے خائف ہیںکیوں کہ ان کے اندر کمزوریاں ہیں۔ ڈاکٹر ایاز محمد خان کے مطابق طلبہ تنظیموں کا قیام ضروری لیکن حدود قیود کا تعین ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ طلبہ یونین کو کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔ یونین کی سرگرمیاں ایک تعلیمی ادارے کے اندر محدود ہونی چاہئیں، جو سیاسی پشت پناہی کے بغیر طلبہ کی بہتری کے لئے کام کرے۔

rana.naseem@express.com.pk
Load Next Story