ملک کے سیاسی ماحول میں تلخی

اپوزیشن اور برسراقتدار سیاسی پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذآرائی میں قومی اداروں کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اپوزیشن اور برسراقتدار سیاسی پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذآرائی میں قومی اداروں کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے سیاسی ماحول کا جائزہ لیا جائے تو اس میں دن بہ دن تلخی بڑھتی جا رہی ہے، حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے یوں کھڑے ہیں جیسے سیاسی حریف نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے کے دشمن ہوں۔

ادھر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقے کی پریشانیوں اور محرومیوں میں مزید اضافہ کر رکھا ہے اور وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید ان کی سیاسی محاذآرائی کم ہو جائے تاکہ حکومت معیشت کی بحالی کی طرف توجہ دے لیکن معروضی سیاسی حالات یہی پتہ دے رہے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کی مخالفت میں سیاسی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنے کے بجائے ایسے رویے پر اظہار کر رہے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ سیاست، سیاست نہیں رہی بلکہ جتھے بندیوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔

اپوزیشن اور برسراقتدار سیاسی پارٹی کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذآرائی میں قومی اداروں کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان کی سیاست کا یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے۔ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن پارٹیاں اپنے اپنے جارحانہ سیاسی مقاصد کو ایسی منزل کی طرف نہ لے کر جائیں جہاں سے ملک میں انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔

دنیا میں جمہوری ریاستوں کی کامیابی کی بنیاد سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کے رویے، ڈسپلن اور نظریات ہوتے ہیں۔ امریکا میں بھی صدارتی الیکشن ہو رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے دوسری مرتبہ صدارت کے امیدوار ہیں جب کہ ان کے مدمقابل ڈیموکریٹک پارٹی نے جوبائیڈن کو صدر کے عہدے کے لیے نامزد کر رکھا ہے۔

دونوں رہنما ایک دوسرے کے خلاف زبردست تنقید کر رہے ہیں لیکن کسی لیڈر نے دوسرے کو ملک دشمن کے طور پر پیش نہیں کیا۔ ٹھیک ہے کہ امریکا کی ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی دو الگ الگ نظریات کی حامل ہیں، حکومت کرنے کا انداز بھی الگ ہے، دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر تنقید بھی کرتی ہیں لیکن یہ تنقید کسی ذاتی مقاصد یا گروہی مفادات کو مدنظر رکھ کر نہیں کی جاتی بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی خوشحالی اور اس کے وفار کی بلندی کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکا میں کسی بھی پارٹی کی حکومت آ جائے، وہاں خارجہ اور داخلہ پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی۔ اگر کوئی فرق آتا ہے تو بس اتنا کہ ایک پارٹی تارکین وطن کے لیے نرم رویہ رکھتی ہے تو دوسری سخت اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ ایک پارٹی کسی خطے میں جنگ جاری رکھنے کی بات کرتی ہے تو دوسری جماعت جنگ سے نکلنے کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے لیکن امریکا کے مفادات کے برعکس کوئی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی سیاسی شخصیت کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی جمہوری رویے اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ ستر برس سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں فعال ہیں۔ یہاں تک کہ ڈکٹیٹروں کے دور میں بھی سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست دانوں کی طرف سے بھی اعلیٰ درجے کی فہم وفراست، ذہانت وفطانت اور معاملہ فہمی کا فقدان رہا ہے۔ سیدھی اور سچی بات تو یہی ہے کہ جب تک سیاسی قیادت خود کو میچور، مدبر اور ذہین ثابت نہیں کرتی، اس وقت تک سیاست میں جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھ سکتا۔

اگر ہم غور کریں تو ہمارے ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کی تنظیم سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند ایک ایسی جماعتیں ضرور موجود ہیں جن میں تنظیمی ڈھانچہ فعال ہے اور وہ ایک نظریہ بھی رکھتی ہیں لیکن ان کا پاکستانی سیاست میں وزن بہت ہلکا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں ہیں لیکن عام آدمی تو کیا بلکہ باشعور آبادی کی اکثریت کو بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ ان جماعتوں کے سیکریٹری جنرل کون ہیں، ان کے اطلاعات کے سیکریٹری کون ہیں، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے صدر اور سیکریٹری جنرل کون ہیں، ضلعی صدور اور سیکریٹری جنرل کون ہیں، یہی حال تحصیل اور ٹاؤن کی سطح پر ہے۔


تحریک انصاف کے سیاسی ڈھانچے پر غور کریں تو وہاں وزیراعظم عمران خان کی ذات کے علاوہ کوئی اور لیڈرشپ نہیں ہے البتہ وزراء، معاونین خصوصی اور مشیران کی تعداد بہت زیادہ ہے اور انھی کے نام عوام کو یاد ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) میں عوام کو شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے ناموں کے علاوہ کسی اور نام کا پتہ نہیں ہے۔ نچلی سطح پر تنظیموں کا وجود تقریباً ناپید ہے۔

پیپلزپارٹی میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے بعد کوئی لیڈرشپ نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے بھی جو نام نمایاں ہیں وہ بھی اپنی اپنی خاندانی سیاست کی وجہ سے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا پنجاب میں تو تنظیمی ڈھانچہ بھی موجود نہیں ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کی یہ حالت ہو گی تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کیسے پروان چڑھے گی۔

پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظام نے ہمارے معاشرے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں خاندانی اور قبائلی دشمنیاں اسی سیاسی نظام کی دین ہیں۔ صرف پنجاب کے ہی اعداد وشمار اکٹھے کیے جائیں تو ان خاندانی دشمنیوں میں ہزاروں افراد قتل ہو چکے ہیں۔ جب مقدمات کی فائلیں اٹھا کر پڑھیں تو ان دشمنیوں کی ابتداء سیاست سے ہی ہوئی نظر آئے گی۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت نے کبھی نیک نیتی سے جدیدیت کی طرف جانے کے لیے سیاسی جدوجہد نہیں کی۔ ہر لیڈر اور رہنما نے ووٹرز کو سبز باغ دکھا کر اقتدار حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔

پورے ملک کی سیاسی لیڈرشپ عوام کی نظروں میں موقع پرستی کی تصویر نظر آ رہی ہے۔ ملک میں دانشورانہ بددیانتی عروج پر ہے۔ دانشورانہ بددیانتی میں جدیدیت کی علمبردار قیادت بھی شامل ہے اور دین ومذہب کے نام پر سیاسی جدوجہد کرنے والی قیادت بھی شامل ہے۔ملک پر ڈکٹیٹرشپ ہو یا جمہوری حکومت ہو، کسی نے ملکی نظام میں موجود واضح خرابیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ آئین سازی سے لے کر ضابطہ فوجداری تک قوانین میں سقم اور ابہام موجود ہے۔ انھی ابہام اور سقم کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔

نچلی عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ دینے کا کلچر ایک روایت بن گئی ہے جس کی وجہ سے مقدمات کئی کئی برس تک ابتدائی سماعت تک ہی نہیں پہنچتے۔ ضلع کچہریوں اور نچلی عدالتوں میں جا کر دیکھ لیں کہ وہاں سائلین کس طرح خوار ہوتے ہیں۔ وہاں باتھ رومز کی کیا حالت ہے، دھوپ اور چھاؤں میں سائلین کو کیا سہولت دی گئی ہے، اس کی حقیقت سے سب لوگ آگاہ ہیں لیکن کسی حکومت نے یا نظام انصاف نے ان معاملات پر غور نہیں کیا حالانکہ ملازمین بھی موجود ہیں اور ان کی تنخواہیں بھی قومی خزانے سے ادا کی جا رہی ہیں لیکن ان کے ذمے جو کام ہے، اسے کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔

ملک کے انتخابی نظام سے لے کر پولنگ سسٹم تک میں بے شمار خرابیاں ہیں لیکن جو بھی جماعت برسراقتدار آئی، اس نے انتخابی نظام اور پولنگ سسٹم کو فول پروف بنانے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ ڈکٹیٹروں نے بھی بڑے دعوے کیے لیکن انتخابی نظام جوں کا توں رہا۔ جمہوریت کی سربلندی کے لیے سب سے پہلی سیڑھی ہی اس کا انتخابی اور پولنگ سسٹم ہوتا ہے۔ جس ملک میں یہ سسٹم نہیں ہو گا تو پھر وہاں دھونس اور دھاندلی کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور اسی دھونس اور دھاندلی سے خاندانوں کے درمیان دشمنیوں کا آغاز ہوتا ہے۔

موجودہ برسراقتدار جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کو سب سے پہلے انتخابی نظام اور پولنگ سسٹم کو فول پروف بنانے کے لیے ایسی قانون سازی کرنی ہو گی جس میں کوئی ابہام یا سقم نہ ہو۔ الیکشن کمیشن مکمل طور پر آزاد ادارے کے طور پر کام کرے۔ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر کسی حاضرسروس گریڈ 22 کے اچھی ساکھ کے افسر کو تعینات کیا جائے۔ ملک کی ساری انتظامیہ الیکشن مہم سے لے کر پولنگ ڈے تک چیف الیکشن کمشنر کے ماتحت ہو۔ نگران حکومت صرف معمول کے امور مملکت چلانے کا اختیار رکھتی ہو جیسا کہ بھارت میں نظام رائج ہے۔

پولنگ کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر سیکیورٹی کیمرے نصب ہوں۔ جس جگہ پریذائیڈنگ افسر موجود ہوں، سیاسی جماعتوں کے ایجنٹ موجود ہوں جن کی ذمے داری ووٹر کی شناخت کو تسلیم کرنا یا نہ تسلیم کرنا ہوتی ہے وہاں پر بھی سیکیورٹی کیمرے نصب ہونے چاہئیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ پریذائیڈنگ افسر کا رویہ کیا ہے اور کمرے کے اندر کوئی غیرمتعلقہ شخص یا پولیس وغیرہ تو موجود نہیں ہے۔ اس سسٹم کو ضلعی سے لے کر صوبائی الیکشن کمیشن سے لنک ہونا چاہیے تاکہ وہ وہاں سے بیٹھ کر ساری پولنگ اسٹیشنز کا جائزہ لے سکے کہ قانون پر پابندی ہو رہی ہے یا نہیں۔

اسی طرح پولنگ سسٹم کو زیادہ شفاف بنانے کے لیے کمپیوٹر پر انگوٹھے کے نشان اور شناختی کارڈ کے نشان کے ساتھ میچنگ کرنا لازم ہو۔ ہر حلقے کے امیدوار پر لازم ہو کہ وہ اپنی انتخابی مہم کے تمام اخراجات کی لسٹ الیکشن کمیشن کو فراہم کرے، اخراجات کی مد میں الیکشن لڑنے والے امیدوار سے یہ بھی پوچھا جائے کہ اس نے اپنی جیب سے کتنے پیسے خرچ کیے اور اگر اس کے حامیوں نے جلسے وغیرہ پر خرچ کیے ہیں تو ان حامیوں کے نام اور ان کے اخراجات کی تفصیلات بھی الیکشن کمیشن کو فراہم کی جانی چاہئیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ملک میں جمہوری کلچر پروان چڑھنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام بھی عائد نہیں کر سکیں گی۔
Load Next Story