امت مسلمہ کازوال
آج فرانس کے شہر پیرس کی عمارتوں اور چوراہوں پر توہین آمیز کارڈ، پوسٹرز اور بل بورڈز آویزاں نظر آتے ہیں۔
مائیکل ہارٹ نامی شخص جوکہ یہودی تھا اس نے ''100اہم ترین شخصیات'' کے عنوان سے کتاب لکھی، مائیکل ہارٹ نے 28 سال تک تحقیق کی کہ پوری دنیا میں کتنے بڑے لوگ ہیں، جنھوں نے بڑے امور انجام دیے ہیں، یہودی ہونے کے باوجود اس نے ہمارے پیارے نبی احمد مجتبیٰ ؐکے نام گرامی کو سرفہرست رکھا یعنی پہلے نمبر پر احمد مجتبیٰ خاتم النبینؐ کا نام درج تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ایک دن وہ لندن میں لیکچر دے رہا تھا تو حاضرین میں سے کئی لوگ اپنی جگہ سے اٹھے اور انھوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ''محمدؐ کو پہلا درجہ کیوں دیا؟''
اس شکایت کا جواب مائیکل نے اس طرح دیا کہ نبیؐ نے سن 611، میں مکہ کے وسط میں علی الاعلان کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اسی وقت ان پر چار لوگ ایمان لے آئے، جن میں ایک ان کا سب سے اچھا دوست، ان کی بیوی اور دو لڑکے شامل تھے، آج 1400 سال گزر جانے کے بعد مسلمانوں کی تعداد 1.5 ارب سے زائد ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ اس میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے جس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ سچے تھے، جھوٹے نہیں تھے چونکہ جھوٹ 1400 سال تک نہیں چلتا ہے اور نہ ہی کوئی 1.5 ارب لوگوں کو بے وقوف بنا سکتا ہے۔
غورکرنے کی یہ بات ہے کہ یہ اربوں مسلمان اپنے نبیؐ کی حرمت پہ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں یعنی تمام مسلمان ان کی شان میں گستاخی کرنیوالے کو مرنے مارنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔کیا ایک بھی عیسائی ایسا ہے جو یسوع کے لیے ایسا کرسکتا ہے؟ اس کے بعد پورے ہال میں خاموشی چھا گئی، کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ آج بھی مغربی طاقتیں ایسی مذموم حرکات کرنے سے باز نہیں آرہی ہیں، خاکے بنانے کا سلسلہ ایک بار پھر چل نکلا ہے، لیکن اہل ایمان یہ برداشت نہیں کرسکتے یہ سچے مسلمان ہیں، جنھیں حدیث پاک کے مطابق اپنی تمام چیزوں، اہل وعیال، جان ومال سے زیادہ نبی پاکؐ کی حرمت عزیز ہے، لیکن دین حق کے راستے پر چلنے والے بہت کم ہیں۔
آج فرانس کے شہر پیرس کی عمارتوں اور چوراہوں پر توہین آمیز کارڈ، پوسٹرز اور بل بورڈز آویزاں نظر آتے ہیں۔اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی 60 لاکھ کے قریب ہے اور ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگ یورپ میں بستے ہیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہے،کسی کو احساس تک نہیں، اسی مفاد پرستی اور مذہب سے دوری کے سبب مسلمانوں کی دینی غیرت مردہ ہو چکی ہے،کچھ مسلم ممالک نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور فرانسیسی صدرکے خلاف آواز اٹھائی اور فرانس کی اشیا نہ خریدنے کا عزم کیا ہے، عراق، تیونس میں فرانسیسی سفارت خانے کے باہر مظاہرے کیے، ڈھاکا کے 10 ہزار مظاہرین نے اسلام مخالف بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا، مصرکے صدر عبدالفتاح السیسی نے یوم ولادت رسولؐ کی آمد کے موقع پرکہا کہ اگر اظہار رائے کی آزادی سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو ایسی آزادی ختم کردینی چاہیے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے فیس بک کے بانی ومالک ایلیوٹ زگربرگ کو تفصیل کے ساتھ خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا پر ''ہولو کاسٹ'' سے متعلق مواد پر پابندی ہے، اسی طرح توہین رسالتؐ کے تعلق سے بھی مکمل طور پر پابندی لگائی جائے۔ دنیا میں 56 سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں لیکن مغربی تعیشات میں سر سے لے کر پیر تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ گویا اپنے رب کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا ہے، اللہ اور اس کے محبوب احمد مجتبیٰؐ سے محبت و عقیدت کا یہ انداز جوکہ علامہ اقبال نے اپنایا اور اپنی دلی کیفیت کو اس طرح بیان کیا کہ سننے والی شخصیت کو مصرعوں کی تاثیر نے بے ہوش کردیا اور پھر علامہ نے یہ اشعار ان کے ہی نام کردیے۔
تو غنی ازہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تومی بینم حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفے پنہاں بگیر
کس قدر دل پذیر انداز میں علامہ نے اپنے رب سے درخواست کی ہے کہ تو بے نیاز دو عالم سے میں غریب فقیر، گنہگار کو محشر میں بخش ہی دیجو، مگر حساب کرنا ناگزیر ہو جائے تو نبیؐ کی آنکھ سے ذرا بچا کرلیجو۔ گناہوں کے احساس نے اس قدر شرمندہ کیا کہ اللہ سے درخواست گزار ہوئے۔ آج مسلمان بڑے بڑے گناہ کرکے رب سے اچھی امید رکھتے ہیں۔ سوائے ترکی کے رجب طیب اردگان کے جوکہ سچے عاشق خدا اور عاشق رسولؐ ہیں، ورنہ تو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا اور سنت نبویؐ سے عشق، ان کی بلا سے کمزور ممالک کے عوام پر جو بھی گزرے اور ناموس رسالت پر آنچ آئے انھیں ہر گز احساس نہیں ہے۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آئے دن مسلمانوں کی عزت وتوقیر، جان و مال پرکفار حملہ آور ہوتے ہیں، لیکن مسلم ممالک انھی ملکوں میں تجارت کرکے انھیں ہر طرح سے فائدہ پہنچاتے ہیں، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں مفاد پرستوں کی سرپرستی اہل مغرب کو حاصل ہے۔ عرب ریاستوں نے فلسطین کو تنہا کرکے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرلیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غاصب ہیں۔
برطانیہ اور امریکا کی ایما پر انھیں باقاعدہ بسایا گیا ہے، اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمارکرکے انھیں بے گھرکیا معصوم بچوں اور عورتوں کو اغوا کرنا ان کا مشغلہ ہے، انھیں معلوم ہے کہ ان کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ہے وہ دہشتگردی کرنے میں اسی طرح آزاد ہیں جس طرح بھارت کا تخریب کار مودی آزاد ہے وہ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، یہ سبق اور بڑھاوا اسرائیل کا دیا گیا ہے، ویسے مودی سفاکی کی داستان رقم کرنے میں مکمل طور پر بااختیار ہیں، مسلمانوں کے مخالفین کا یہ گٹھ جوڑ ہے۔
ان حالات میں مسلم حکمران بیانات کی حد تک ساتھ دیتے ہیں اور بس یہی ان کے فرائض کی ادائیگی ہے، اگر مسلم حکمرانوں کا خوف، ہیبت اور دبدبہ طاری ہوتا تب وہ یہ مذموم جسارت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور نہ نہتے فلسطینی اور کشمیری شہریوں پر فائرنگ اور دوسرا اسلحہ استعمال انھیں قتل و معذور کرتے۔ کم ازکم اس بابرکت ماہ کے حوالے سے مسلم ممالک ہنگامی طور پر کانفرنس بلاتے اور تمام حکمران حالات سے نمٹنے اور آیندہ کے لیے ملعونوں کی ناپاک سازش کو ملیا میٹ کرنے کا سبق دیتے اور معافی مانگنے پر مجبورکیا جاتا۔
اس شکایت کا جواب مائیکل نے اس طرح دیا کہ نبیؐ نے سن 611، میں مکہ کے وسط میں علی الاعلان کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اسی وقت ان پر چار لوگ ایمان لے آئے، جن میں ایک ان کا سب سے اچھا دوست، ان کی بیوی اور دو لڑکے شامل تھے، آج 1400 سال گزر جانے کے بعد مسلمانوں کی تعداد 1.5 ارب سے زائد ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ اس میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے جس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ سچے تھے، جھوٹے نہیں تھے چونکہ جھوٹ 1400 سال تک نہیں چلتا ہے اور نہ ہی کوئی 1.5 ارب لوگوں کو بے وقوف بنا سکتا ہے۔
غورکرنے کی یہ بات ہے کہ یہ اربوں مسلمان اپنے نبیؐ کی حرمت پہ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں یعنی تمام مسلمان ان کی شان میں گستاخی کرنیوالے کو مرنے مارنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔کیا ایک بھی عیسائی ایسا ہے جو یسوع کے لیے ایسا کرسکتا ہے؟ اس کے بعد پورے ہال میں خاموشی چھا گئی، کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ آج بھی مغربی طاقتیں ایسی مذموم حرکات کرنے سے باز نہیں آرہی ہیں، خاکے بنانے کا سلسلہ ایک بار پھر چل نکلا ہے، لیکن اہل ایمان یہ برداشت نہیں کرسکتے یہ سچے مسلمان ہیں، جنھیں حدیث پاک کے مطابق اپنی تمام چیزوں، اہل وعیال، جان ومال سے زیادہ نبی پاکؐ کی حرمت عزیز ہے، لیکن دین حق کے راستے پر چلنے والے بہت کم ہیں۔
آج فرانس کے شہر پیرس کی عمارتوں اور چوراہوں پر توہین آمیز کارڈ، پوسٹرز اور بل بورڈز آویزاں نظر آتے ہیں۔اس شہر میں مسلمانوں کی آبادی 60 لاکھ کے قریب ہے اور ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگ یورپ میں بستے ہیں، بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہے،کسی کو احساس تک نہیں، اسی مفاد پرستی اور مذہب سے دوری کے سبب مسلمانوں کی دینی غیرت مردہ ہو چکی ہے،کچھ مسلم ممالک نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے اور فرانسیسی صدرکے خلاف آواز اٹھائی اور فرانس کی اشیا نہ خریدنے کا عزم کیا ہے، عراق، تیونس میں فرانسیسی سفارت خانے کے باہر مظاہرے کیے، ڈھاکا کے 10 ہزار مظاہرین نے اسلام مخالف بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا، مصرکے صدر عبدالفتاح السیسی نے یوم ولادت رسولؐ کی آمد کے موقع پرکہا کہ اگر اظہار رائے کی آزادی سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو ایسی آزادی ختم کردینی چاہیے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے فیس بک کے بانی ومالک ایلیوٹ زگربرگ کو تفصیل کے ساتھ خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا پر ''ہولو کاسٹ'' سے متعلق مواد پر پابندی ہے، اسی طرح توہین رسالتؐ کے تعلق سے بھی مکمل طور پر پابندی لگائی جائے۔ دنیا میں 56 سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں لیکن مغربی تعیشات میں سر سے لے کر پیر تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ گویا اپنے رب کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا ہے، اللہ اور اس کے محبوب احمد مجتبیٰؐ سے محبت و عقیدت کا یہ انداز جوکہ علامہ اقبال نے اپنایا اور اپنی دلی کیفیت کو اس طرح بیان کیا کہ سننے والی شخصیت کو مصرعوں کی تاثیر نے بے ہوش کردیا اور پھر علامہ نے یہ اشعار ان کے ہی نام کردیے۔
تو غنی ازہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تومی بینم حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفے پنہاں بگیر
کس قدر دل پذیر انداز میں علامہ نے اپنے رب سے درخواست کی ہے کہ تو بے نیاز دو عالم سے میں غریب فقیر، گنہگار کو محشر میں بخش ہی دیجو، مگر حساب کرنا ناگزیر ہو جائے تو نبیؐ کی آنکھ سے ذرا بچا کرلیجو۔ گناہوں کے احساس نے اس قدر شرمندہ کیا کہ اللہ سے درخواست گزار ہوئے۔ آج مسلمان بڑے بڑے گناہ کرکے رب سے اچھی امید رکھتے ہیں۔ سوائے ترکی کے رجب طیب اردگان کے جوکہ سچے عاشق خدا اور عاشق رسولؐ ہیں، ورنہ تو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا اور سنت نبویؐ سے عشق، ان کی بلا سے کمزور ممالک کے عوام پر جو بھی گزرے اور ناموس رسالت پر آنچ آئے انھیں ہر گز احساس نہیں ہے۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آئے دن مسلمانوں کی عزت وتوقیر، جان و مال پرکفار حملہ آور ہوتے ہیں، لیکن مسلم ممالک انھی ملکوں میں تجارت کرکے انھیں ہر طرح سے فائدہ پہنچاتے ہیں، امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں مفاد پرستوں کی سرپرستی اہل مغرب کو حاصل ہے۔ عرب ریاستوں نے فلسطین کو تنہا کرکے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرلیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غاصب ہیں۔
برطانیہ اور امریکا کی ایما پر انھیں باقاعدہ بسایا گیا ہے، اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمارکرکے انھیں بے گھرکیا معصوم بچوں اور عورتوں کو اغوا کرنا ان کا مشغلہ ہے، انھیں معلوم ہے کہ ان کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ہے وہ دہشتگردی کرنے میں اسی طرح آزاد ہیں جس طرح بھارت کا تخریب کار مودی آزاد ہے وہ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، یہ سبق اور بڑھاوا اسرائیل کا دیا گیا ہے، ویسے مودی سفاکی کی داستان رقم کرنے میں مکمل طور پر بااختیار ہیں، مسلمانوں کے مخالفین کا یہ گٹھ جوڑ ہے۔
ان حالات میں مسلم حکمران بیانات کی حد تک ساتھ دیتے ہیں اور بس یہی ان کے فرائض کی ادائیگی ہے، اگر مسلم حکمرانوں کا خوف، ہیبت اور دبدبہ طاری ہوتا تب وہ یہ مذموم جسارت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور نہ نہتے فلسطینی اور کشمیری شہریوں پر فائرنگ اور دوسرا اسلحہ استعمال انھیں قتل و معذور کرتے۔ کم ازکم اس بابرکت ماہ کے حوالے سے مسلم ممالک ہنگامی طور پر کانفرنس بلاتے اور تمام حکمران حالات سے نمٹنے اور آیندہ کے لیے ملعونوں کی ناپاک سازش کو ملیا میٹ کرنے کا سبق دیتے اور معافی مانگنے پر مجبورکیا جاتا۔