ریاست مخالف بیانیہ اور ایاز صادق کی ڈھٹائی
ایاز صادق کا حالیہ بیان نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی ہی کڑی ہے تو یہ آگے چل کر کسی کے بھی مفاد میں نہ ہوگا
ISLAMABAD:
ملکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو نواز شریف کا بیانیہ تو بہت پہلے سے سمجھ آرہا تھا، جو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف تھا لیکن اب تبدیلی یہ آئی کہ پی ڈی ایم میں لب و لہجہ بھی مزید سخت ہوا اور بیانیے کو بھی مزید تقویت دی گئی۔ اس پر بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ''گل ودھ گئی اے'' لیکن ن لیگ پی ڈی ایم میں اسی بیانیے کو لے کر چلتی رہی۔ یہاں تک تو بات پھر بھی فوج کے آئینی کردار اور سیاست سے منسلک تھی، مگر سابق اسپیکر ایاز صادق نے ''دفاع اور سیکیورٹی'' کے معاملے میں جو بیان دیا وہ عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار سے جو بھی اختلافات سہی، وہ اس پر پہلے بھی یہ کہہ کر تنقید کرتے رہے کہ اداروں کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ عوام جانتے ہیں کہ 27 فروری کو اداروں نے اپنا ''آئینی کردار'' کتنے بھرپور طریقے سے نبھایا۔ تو اب کیا ن لیگ آئینی کردار نبھانے پر بھی تنقید کرے گی؟ ایاز صادق کا بیان کسی سیاسی نہیں بلکہ دفاعی معاملے سے متعلق ہے اور بھرپور اور شاندار دفاع کرکے ہمارے اداروں نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا اور اپنا ''آئینی کردار'' بخوبی نبھایا۔ مگر کیا اس پر بھی اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی جائے گی؟
وہ لوگ جن کا ماننا ہے کہ ایاز صادق کا بیان ریاست مخالف نہیں، تو ان سے گزارش ہے کہ اگر کوئی وزیر یہ کہہ دے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور بھارت کا اس پر قبضہ جائز ہے تو ریاست مخالف بیان تو یہ بھی نہیں ہوگا۔ یہ بات ریاستِ پاکستان کے خلاف تو نہیں ہوگی لیکن اس سے ریاستِ پاکستان کی برسوں کی محنت کا نقصان ضرور ہوگا۔ عالمی سطح پر قائم کیا گیا ہمارا موقف کمزور ضرور پڑ جائے گا۔ یہی سب ایاز صادق کے بیان نے بھی کیا۔ اور اس بات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ سابق اسپیکر کے ایوان میں دیے گئے بیان کو دشمن ملک کا وزیراعظم اپنے مفاد کےلیے استعمال کررہا ہے۔
27 فروری کو ہماری افواج نے پوری قوم کی امیدوں کی لاج رکھتے ہوئے بھارت کو نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ ان کا پائلٹ گرفتار کرکے ساری دنیا کے سامنے ثابت کیا کہ پاک فوج بہترین دفاع کرنا جانتی ہے۔ بعد ازاں پائلٹ کو رہا کر دینے یا جلدی رہا کر دینے پر اپوزیشن سمیت کسی کی بھی اختلافی رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن سول اور عسکری قیادت کی باڈی لینگویج پر ایسا غیر ذمے دارانہ تبصرہ سابق اسپیکر کو زیب نہیں دیتا۔ پھر بیان میں صرف وزیر خارجہ نہیں عسکری قیادت کا تذکرہ بھی اس انداز سے کیا گیا جو ایک محب وطن پاکستانی کےلیے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ پاک فوج کی وردی پہننے والے کی ٹانگیں کبھی نہیں کانپتیں۔ جن کی ٹانگیں کانپتی ہوں وہ دشمن پر ایسے کھلی فتح کی دھاک نہیں بٹھا پاتے۔
اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کرنے کا پورا حق ہے، مگر حکومت اور ریاست کا فرق ملحوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ محب وطن عوام کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ حکومتی موقف کو کمزور کرنے کےلیے ریاستی بیانیے کو مسترد کردیا جائے۔
یہ درست ہے کہ بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ کسی کو جانچنے کا معیار نہیں، لیکن یہ بھی ہمیں منظور نہیں کہ ہمارے سیاستدان کا بیان ہمارے بجائے دشمن کے موقف کو تقویت دے۔ مگر یہاں تو بیان دینے والے نے اس پر معذرت کرنے سے بھی انکار کردیا۔ انہیں اپنے ہم وطنوں کی دل شکنی اور غم و غصے کا خیال کرلینا چاہیے تھا لیکن معلوم نہیں کہ اس بیان پر ڈٹ جانے کا مقصد کیا ہے اور اس سے کیا حاصل؟ اگر ایاز صادق کا حالیہ بیان نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی ہی کڑی ہے، تو یہ آگے چل کر کسی کے بھی مفاد میں نہ ہوگا۔
مقامِ حیرت تو یہ بھی ہے کہ سابق اسپیکر کے بیان کو آزادی اظہارِ رائے کا نام دے کر اس کا دفاع کیا جارہا ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی سب کےلیے ضروری ہے، مگر کیا اپنے لیڈر اور پارٹی کے بیانیے کو مضبوط کرنے کےلیے ریاست کے بیانیہ کو ساری دنیا کے سامنے کمزور کردینا درست ہے؟
آزادی اظہارِ رائے کے نام پر دشمن کے موقف کو مضبوط کرنے والے بیانات کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ کسی کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی عوام کبھی بھی ایسے بیانات کو برداشت کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ملکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو نواز شریف کا بیانیہ تو بہت پہلے سے سمجھ آرہا تھا، جو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف تھا لیکن اب تبدیلی یہ آئی کہ پی ڈی ایم میں لب و لہجہ بھی مزید سخت ہوا اور بیانیے کو بھی مزید تقویت دی گئی۔ اس پر بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ''گل ودھ گئی اے'' لیکن ن لیگ پی ڈی ایم میں اسی بیانیے کو لے کر چلتی رہی۔ یہاں تک تو بات پھر بھی فوج کے آئینی کردار اور سیاست سے منسلک تھی، مگر سابق اسپیکر ایاز صادق نے ''دفاع اور سیکیورٹی'' کے معاملے میں جو بیان دیا وہ عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار سے جو بھی اختلافات سہی، وہ اس پر پہلے بھی یہ کہہ کر تنقید کرتے رہے کہ اداروں کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ عوام جانتے ہیں کہ 27 فروری کو اداروں نے اپنا ''آئینی کردار'' کتنے بھرپور طریقے سے نبھایا۔ تو اب کیا ن لیگ آئینی کردار نبھانے پر بھی تنقید کرے گی؟ ایاز صادق کا بیان کسی سیاسی نہیں بلکہ دفاعی معاملے سے متعلق ہے اور بھرپور اور شاندار دفاع کرکے ہمارے اداروں نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا اور اپنا ''آئینی کردار'' بخوبی نبھایا۔ مگر کیا اس پر بھی اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی جائے گی؟
وہ لوگ جن کا ماننا ہے کہ ایاز صادق کا بیان ریاست مخالف نہیں، تو ان سے گزارش ہے کہ اگر کوئی وزیر یہ کہہ دے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور بھارت کا اس پر قبضہ جائز ہے تو ریاست مخالف بیان تو یہ بھی نہیں ہوگا۔ یہ بات ریاستِ پاکستان کے خلاف تو نہیں ہوگی لیکن اس سے ریاستِ پاکستان کی برسوں کی محنت کا نقصان ضرور ہوگا۔ عالمی سطح پر قائم کیا گیا ہمارا موقف کمزور ضرور پڑ جائے گا۔ یہی سب ایاز صادق کے بیان نے بھی کیا۔ اور اس بات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ سابق اسپیکر کے ایوان میں دیے گئے بیان کو دشمن ملک کا وزیراعظم اپنے مفاد کےلیے استعمال کررہا ہے۔
27 فروری کو ہماری افواج نے پوری قوم کی امیدوں کی لاج رکھتے ہوئے بھارت کو نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ ان کا پائلٹ گرفتار کرکے ساری دنیا کے سامنے ثابت کیا کہ پاک فوج بہترین دفاع کرنا جانتی ہے۔ بعد ازاں پائلٹ کو رہا کر دینے یا جلدی رہا کر دینے پر اپوزیشن سمیت کسی کی بھی اختلافی رائے ہوسکتی ہے۔ لیکن سول اور عسکری قیادت کی باڈی لینگویج پر ایسا غیر ذمے دارانہ تبصرہ سابق اسپیکر کو زیب نہیں دیتا۔ پھر بیان میں صرف وزیر خارجہ نہیں عسکری قیادت کا تذکرہ بھی اس انداز سے کیا گیا جو ایک محب وطن پاکستانی کےلیے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ پاک فوج کی وردی پہننے والے کی ٹانگیں کبھی نہیں کانپتیں۔ جن کی ٹانگیں کانپتی ہوں وہ دشمن پر ایسے کھلی فتح کی دھاک نہیں بٹھا پاتے۔
اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کرنے کا پورا حق ہے، مگر حکومت اور ریاست کا فرق ملحوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ محب وطن عوام کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ حکومتی موقف کو کمزور کرنے کےلیے ریاستی بیانیے کو مسترد کردیا جائے۔
یہ درست ہے کہ بھارتی میڈیا کی رپورٹنگ کسی کو جانچنے کا معیار نہیں، لیکن یہ بھی ہمیں منظور نہیں کہ ہمارے سیاستدان کا بیان ہمارے بجائے دشمن کے موقف کو تقویت دے۔ مگر یہاں تو بیان دینے والے نے اس پر معذرت کرنے سے بھی انکار کردیا۔ انہیں اپنے ہم وطنوں کی دل شکنی اور غم و غصے کا خیال کرلینا چاہیے تھا لیکن معلوم نہیں کہ اس بیان پر ڈٹ جانے کا مقصد کیا ہے اور اس سے کیا حاصل؟ اگر ایاز صادق کا حالیہ بیان نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی ہی کڑی ہے، تو یہ آگے چل کر کسی کے بھی مفاد میں نہ ہوگا۔
مقامِ حیرت تو یہ بھی ہے کہ سابق اسپیکر کے بیان کو آزادی اظہارِ رائے کا نام دے کر اس کا دفاع کیا جارہا ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی سب کےلیے ضروری ہے، مگر کیا اپنے لیڈر اور پارٹی کے بیانیے کو مضبوط کرنے کےلیے ریاست کے بیانیہ کو ساری دنیا کے سامنے کمزور کردینا درست ہے؟
آزادی اظہارِ رائے کے نام پر دشمن کے موقف کو مضبوط کرنے والے بیانات کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ کسی کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی عوام کبھی بھی ایسے بیانات کو برداشت کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔