دہشت گردی کے خطرے کے باوجود پی ڈی ایم جلسے کی تیاری جاری
کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پشاور جلسہ کو ملتوی کریں۔
ایسے حالات کہ جب پشاور میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے جلسے کی تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ان حالات میں پشاور میں مسجد کے اندر بارودی مواد کا دھماکہ یقینی طور پر تشویشناک ہے کیونکہ اس دھماکہ کی وجہ سے صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور سیکورٹی ادارے جو کوئٹہ جلسہ سے بھی قبل اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ پشاور اور کوئٹہ میں تخریبی کاروائیاں ہو سکتی ہیں،ان کا کہا درست ثابت ہوگیا ہے۔
تاہم اس کے باوجودپی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں نہ تو جلسہ کرنے کی راہ سے ہٹی ہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنی تیاریاں روکی ہیں بلکہ واضح انداز میں کہا ہے کہ 22 نومبر کو پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہر صورت ہوگا حالانکہ حکومت کی جانب سے بار،بار کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پشاور جلسہ کو ملتوی کریں تاہم دونوں جانب سے جس انداز میں ایک دوسرے کی مخالفت برائے مخالفت کا سلسلہ جاری ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ اپوزیشن، حکومت والوں کی بات مانے گی اور پشاور اور اس کے بعد ملتان اور لاہور میں بھی جلسوں کا انعقاد کیاجائے گا۔
پشاور مسجد میں ہونے والا دھماکہ یقینی طور پر تشویشناک ہے کیونکہ یہ صرف ایک دھماکہ نہیں بلکہ اس دھماکے کے ذریعے دہشت گردوں کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ ایک بار پھر نہ صرف یہ کہ متحرک ہوگئے ہیں بلکہ شہروں کے اندر گھس کر بھی دوبارہ پرانی طرز پر دہشت گردی کی کاروائیاں کر سکتے ہیں۔
یہ بات سامنے کی ہے کہ صوبہ میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں بھی صورت حال آئیڈیل نہیں اور وزیرستان سمیت مختلف قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہو رہی ہیں جس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے اور ان حالات میں ان کی جانب سے پشاور شہر میں کاروائی ضرور باعث تشویش ہے، اس دھماکہ کے حوالے سے مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں۔
نئی ٹیکنالوجی کے استعمال اور بین الاقوامی تنظیموں کی آپس کی چپقلش کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں جو حالات کو مزید سنگین بنادیتی ہیں۔اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء اور وہاں قیام امن کے بعد اس پورے خطے میں امن قائم ہو جائے گا۔
تاہم یہ ماضی کے تناظر میں ایک مفروضہ بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی جب سوویت یونین کا افغانستان سے انخلاء ہوا تو اس کے بعد افغانستان نے جیسے حالات دیکھے اور ان حالات کے پورے خطے پر جو نتائج مرتب ہوئے وہ سب کے سامنے ہی ہیں اور اب آج کے حالات میں ماضی کی ان تمام قوتوں کے علاوہ طالبان بھی ایک فریق کے طور پر میدان میں موجود ہیں جو اقتدار کے کیک میں اپنا حصہ چاہتے ہیں اور وہ بھی اچھا خاصا، اس لیے اگر انھیں ان کے من پسند نتائج نہ مل سکے تو کیا وہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کریں گے اور ڈاکٹر اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ کو حکمران تسلیم کر لیں گے یا پھر ان حالات میں افغانستان کا بٹوارہ ہوگا؟
یقینی طور پر اس سلسلے میں ابھی کئی سوالات، جواب طلب ہیں جس کے ساتھ ہی یہ مسلہ بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان سمیت تمام فریق قیام امن کے لیے کسی فارمولے پر متفق ہو بھی جاتے ہیں تو وہ لوگ جو پاکستان میں سیکورٹی اداروں کی کاروائیوں کے باعث افغانستان اور پاک،افغان سرحدی علاقوں کی طرف منتقل ہوئے تھے، وہ کیا کریں گے ؟
یقینی طور پران حالات میں وہ بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہیں گے، اگر توان کا یہ خیال ہوکہ جس طرح افغانستان میں طالبان کوایڈجیسٹ کیا جا رہا ہے اور امریکہ ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے انھیں مرکزی دھارے میں لارہا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں بھی انھیں شریک اقتدار کر لیا جائے گا، تو ایسا شاید ہی ہو سکے کیونکہ بہرکیف پاکستان اور افغانستان، دونوں کے حالات میں زمین، آسمان کا فرق ہے اور پھر یہاں امریکہ اپنی اس طریقے سے من مانی بھی نہیں کر سکتا جس طرح وہ افغانستان میں کھیل رہا ہے اس لیے افغانستان میں قیام امن ہونے کی صورت میں یہ لوگ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات ہی کو مشق ستم بنانے کی کوشش کریں گے جسے مد نظر رکھتے ہوئے ایسے موقع پر جبکہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے، اسے خود اپنے حوالے سے بھی معاملات کو مد نظررکھنا چاہیے اور حالات کو اس انداز میں اپنے موافق بنانا چاہیے کہ جو حالات گزشتہ دہائی میں اس خطے میں رہے، وہی حالات دوبارہ اسے نہ دیکھنے پڑیں۔
جس طرح قبائلی علاقہ جات مرکزی حکومت کے لیے ایک مستقل مسلہ کی صورت میں موجود تھے اور حکومت پاکستان نے بالآخر ان کی سابقہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ِخیبرپختونخوا میں ضم کر دیا جس سے ان کی وہ سابقہ حیثیت بھی ختم ہوگئی اور ساتھ ہی افغان حکومت کی جانب سے مذکورہ علاقوں کے بارے میں جو دعوے کیے جاتے رہے وہ سب بھی ہوا ہوگئے۔
اسی طرح اب گلگت ، بلتستان کا معاملہ بھی ختم ہونے جا رہا ہے جو دوسری جانب کوہستان کے ذریعے خیبرپختونخوا کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے اور دونوں علاقوں میں سرحدی تنازعات کے علاوہ دیامیر بھاشا ڈیم کے خالص منافع کے معاملے بھی دونوں میں تناؤ رہا،گلگت بلتستان کو ملک کے پانچویں صوبہ کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ پہلی مرتبہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت اور آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے۔
اس وقت یہ معاملہ زیر غور آیا اور گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ ڈیکلیئر کیا ہی جا رہا تھا کہ بوجوہ ایسا نہ ہو سکا تاہم وہاں کے لیے شمع خالد مرحومہ کی صورت گورنرکا تقرر بھی کیا گیا اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد بھی ہوا۔ تاہم اب موجودہ حکومت نے ایک بارپھر گلگت بلتستان کوملک کاپانچواں صوبہ قرار دینے کے لیے کاروائی شروع کردی ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر اسے عبوری صوبہ ڈیکلیئر کیا جا رہا ہے۔
گوکہ حکومت،اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش تو کر رہی ہے کہ وہ پشاور میں جلسہ نہ کرے اور جب پشاور کی بات کی جا رہی ہے تو یقینی طور پر حکومت کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ اس کے بعد ملتان اور لاہور میں بھی اپوزیشن کے جلسے نہ ہوں تاہم دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ خود وزیراعظم بھی جلسے کر رہے ہیں اور پھر ساتھ ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان بھی، اور ساتھ ہی اب یہ بھی شنید ہے کہ پی ٹی آئی، اپوزیشن کی تحریک کا جواب دینے کے لیے ریلیوں کا انعقاد بھی کرنے جا رہی ہے جو ملک بھر میں منعقد ہونگی جس کے بعد سیکورٹی یا کورونا کے نام پر اپوزیشن کو جلسوں سے روکنے کا جواز تو بہرکیف ختم ہو جاتا ہے اور ویسے بھی اب جبکہ نومبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین معاملات میں مزید تناؤ آئے گا اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اور اس زور آزمائی میں جس کا سانس نہ اکھڑا وہی کامیاب ٹھہرے گا ، تاہم اس جنگ میں ایک تیسرا فریق بھی موجود ہے۔ تیسرے فریق کی بات پرسب کی نظریں راولپنڈی کی طرف اٹھنے لگتی ہیں۔
یقینی طور پر ان تمام تر حالات اور پھرخصوصی طور پر سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ایشو کے بعد تو راولپنڈی کا کردار نہایت ہی اہم ہوگا تاہم ان کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی تیسرا فریق موجود ہے اور وہ تیسرا فریق ہے جماعت اسلامی ، جی ہاں جماعت اسلامی نے بھی اپنی حکومت مخالف تحریک کا آغاز باجوڑ سے کر دیا ہے، جماعت اسلامی،حکومت اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں ،دونوں ہی کے خلاف میدان میں اتری ہے اور وہ اپنے ایجنڈے اور نعروں پر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ان حالات میں اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں، حکومت کے خلاف کامیاب ٹھہرتی ہیں تو اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی بھی لینے کی کوشش کرے گی اور اگر حکومت اپنی جگہ پر کھڑی رہتی ہے تو جماعت اسلامی کوحکومت کے ساتھ پی ڈی ایم پر بھی تنقید کاخوب، خوب موقع ملے گا ،گویا وہ وکٹ کی دونوں جانب کھیلنے کی کوشش میں کامیاب ٹھہر رہی ہے ۔
ان حالات میں پشاور میں مسجد کے اندر بارودی مواد کا دھماکہ یقینی طور پر تشویشناک ہے کیونکہ اس دھماکہ کی وجہ سے صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور سیکورٹی ادارے جو کوئٹہ جلسہ سے بھی قبل اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ پشاور اور کوئٹہ میں تخریبی کاروائیاں ہو سکتی ہیں،ان کا کہا درست ثابت ہوگیا ہے۔
تاہم اس کے باوجودپی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں نہ تو جلسہ کرنے کی راہ سے ہٹی ہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنی تیاریاں روکی ہیں بلکہ واضح انداز میں کہا ہے کہ 22 نومبر کو پشاور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہر صورت ہوگا حالانکہ حکومت کی جانب سے بار،بار کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پشاور جلسہ کو ملتوی کریں تاہم دونوں جانب سے جس انداز میں ایک دوسرے کی مخالفت برائے مخالفت کا سلسلہ جاری ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ اپوزیشن، حکومت والوں کی بات مانے گی اور پشاور اور اس کے بعد ملتان اور لاہور میں بھی جلسوں کا انعقاد کیاجائے گا۔
پشاور مسجد میں ہونے والا دھماکہ یقینی طور پر تشویشناک ہے کیونکہ یہ صرف ایک دھماکہ نہیں بلکہ اس دھماکے کے ذریعے دہشت گردوں کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ ایک بار پھر نہ صرف یہ کہ متحرک ہوگئے ہیں بلکہ شہروں کے اندر گھس کر بھی دوبارہ پرانی طرز پر دہشت گردی کی کاروائیاں کر سکتے ہیں۔
یہ بات سامنے کی ہے کہ صوبہ میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں بھی صورت حال آئیڈیل نہیں اور وزیرستان سمیت مختلف قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہو رہی ہیں جس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے اور ان حالات میں ان کی جانب سے پشاور شہر میں کاروائی ضرور باعث تشویش ہے، اس دھماکہ کے حوالے سے مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں۔
نئی ٹیکنالوجی کے استعمال اور بین الاقوامی تنظیموں کی آپس کی چپقلش کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں جو حالات کو مزید سنگین بنادیتی ہیں۔اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء اور وہاں قیام امن کے بعد اس پورے خطے میں امن قائم ہو جائے گا۔
تاہم یہ ماضی کے تناظر میں ایک مفروضہ بھی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی جب سوویت یونین کا افغانستان سے انخلاء ہوا تو اس کے بعد افغانستان نے جیسے حالات دیکھے اور ان حالات کے پورے خطے پر جو نتائج مرتب ہوئے وہ سب کے سامنے ہی ہیں اور اب آج کے حالات میں ماضی کی ان تمام قوتوں کے علاوہ طالبان بھی ایک فریق کے طور پر میدان میں موجود ہیں جو اقتدار کے کیک میں اپنا حصہ چاہتے ہیں اور وہ بھی اچھا خاصا، اس لیے اگر انھیں ان کے من پسند نتائج نہ مل سکے تو کیا وہ حالات کے ساتھ سمجھوتہ کریں گے اور ڈاکٹر اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ کو حکمران تسلیم کر لیں گے یا پھر ان حالات میں افغانستان کا بٹوارہ ہوگا؟
یقینی طور پر اس سلسلے میں ابھی کئی سوالات، جواب طلب ہیں جس کے ساتھ ہی یہ مسلہ بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان سمیت تمام فریق قیام امن کے لیے کسی فارمولے پر متفق ہو بھی جاتے ہیں تو وہ لوگ جو پاکستان میں سیکورٹی اداروں کی کاروائیوں کے باعث افغانستان اور پاک،افغان سرحدی علاقوں کی طرف منتقل ہوئے تھے، وہ کیا کریں گے ؟
یقینی طور پران حالات میں وہ بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہیں گے، اگر توان کا یہ خیال ہوکہ جس طرح افغانستان میں طالبان کوایڈجیسٹ کیا جا رہا ہے اور امریکہ ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے انھیں مرکزی دھارے میں لارہا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں بھی انھیں شریک اقتدار کر لیا جائے گا، تو ایسا شاید ہی ہو سکے کیونکہ بہرکیف پاکستان اور افغانستان، دونوں کے حالات میں زمین، آسمان کا فرق ہے اور پھر یہاں امریکہ اپنی اس طریقے سے من مانی بھی نہیں کر سکتا جس طرح وہ افغانستان میں کھیل رہا ہے اس لیے افغانستان میں قیام امن ہونے کی صورت میں یہ لوگ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات ہی کو مشق ستم بنانے کی کوشش کریں گے جسے مد نظر رکھتے ہوئے ایسے موقع پر جبکہ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے، اسے خود اپنے حوالے سے بھی معاملات کو مد نظررکھنا چاہیے اور حالات کو اس انداز میں اپنے موافق بنانا چاہیے کہ جو حالات گزشتہ دہائی میں اس خطے میں رہے، وہی حالات دوبارہ اسے نہ دیکھنے پڑیں۔
جس طرح قبائلی علاقہ جات مرکزی حکومت کے لیے ایک مستقل مسلہ کی صورت میں موجود تھے اور حکومت پاکستان نے بالآخر ان کی سابقہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ِخیبرپختونخوا میں ضم کر دیا جس سے ان کی وہ سابقہ حیثیت بھی ختم ہوگئی اور ساتھ ہی افغان حکومت کی جانب سے مذکورہ علاقوں کے بارے میں جو دعوے کیے جاتے رہے وہ سب بھی ہوا ہوگئے۔
اسی طرح اب گلگت ، بلتستان کا معاملہ بھی ختم ہونے جا رہا ہے جو دوسری جانب کوہستان کے ذریعے خیبرپختونخوا کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے اور دونوں علاقوں میں سرحدی تنازعات کے علاوہ دیامیر بھاشا ڈیم کے خالص منافع کے معاملے بھی دونوں میں تناؤ رہا،گلگت بلتستان کو ملک کے پانچویں صوبہ کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ پہلی مرتبہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت اور آصف علی زرداری ملک کے صدر تھے۔
اس وقت یہ معاملہ زیر غور آیا اور گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ ڈیکلیئر کیا ہی جا رہا تھا کہ بوجوہ ایسا نہ ہو سکا تاہم وہاں کے لیے شمع خالد مرحومہ کی صورت گورنرکا تقرر بھی کیا گیا اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد بھی ہوا۔ تاہم اب موجودہ حکومت نے ایک بارپھر گلگت بلتستان کوملک کاپانچواں صوبہ قرار دینے کے لیے کاروائی شروع کردی ہے جس کے لیے ابتدائی طور پر اسے عبوری صوبہ ڈیکلیئر کیا جا رہا ہے۔
گوکہ حکومت،اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش تو کر رہی ہے کہ وہ پشاور میں جلسہ نہ کرے اور جب پشاور کی بات کی جا رہی ہے تو یقینی طور پر حکومت کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ اس کے بعد ملتان اور لاہور میں بھی اپوزیشن کے جلسے نہ ہوں تاہم دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ خود وزیراعظم بھی جلسے کر رہے ہیں اور پھر ساتھ ہی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان بھی، اور ساتھ ہی اب یہ بھی شنید ہے کہ پی ٹی آئی، اپوزیشن کی تحریک کا جواب دینے کے لیے ریلیوں کا انعقاد بھی کرنے جا رہی ہے جو ملک بھر میں منعقد ہونگی جس کے بعد سیکورٹی یا کورونا کے نام پر اپوزیشن کو جلسوں سے روکنے کا جواز تو بہرکیف ختم ہو جاتا ہے اور ویسے بھی اب جبکہ نومبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین معاملات میں مزید تناؤ آئے گا اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اور اس زور آزمائی میں جس کا سانس نہ اکھڑا وہی کامیاب ٹھہرے گا ، تاہم اس جنگ میں ایک تیسرا فریق بھی موجود ہے۔ تیسرے فریق کی بات پرسب کی نظریں راولپنڈی کی طرف اٹھنے لگتی ہیں۔
یقینی طور پر ان تمام تر حالات اور پھرخصوصی طور پر سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ایشو کے بعد تو راولپنڈی کا کردار نہایت ہی اہم ہوگا تاہم ان کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی تیسرا فریق موجود ہے اور وہ تیسرا فریق ہے جماعت اسلامی ، جی ہاں جماعت اسلامی نے بھی اپنی حکومت مخالف تحریک کا آغاز باجوڑ سے کر دیا ہے، جماعت اسلامی،حکومت اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں ،دونوں ہی کے خلاف میدان میں اتری ہے اور وہ اپنے ایجنڈے اور نعروں پر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ان حالات میں اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں، حکومت کے خلاف کامیاب ٹھہرتی ہیں تو اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی بھی لینے کی کوشش کرے گی اور اگر حکومت اپنی جگہ پر کھڑی رہتی ہے تو جماعت اسلامی کوحکومت کے ساتھ پی ڈی ایم پر بھی تنقید کاخوب، خوب موقع ملے گا ،گویا وہ وکٹ کی دونوں جانب کھیلنے کی کوشش میں کامیاب ٹھہر رہی ہے ۔