اسلام آباد ہائیکورٹ آج پرویز مشرف کی درخواست کی سماعت کریگی
ایمرجنسی کی سپریم کورٹ نے توثیق اور پارلیمنٹ نے بھی منظوری دی تھی، درخواست گزار
سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے خصوصی عدالت کے ذریعے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کی کارروائی کیخلاف درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج (پیر کو) کی جائے گی۔
جسٹس ریاض احمد خان درخواست کی سماعت کریں گے جو پرویز مشرف کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے دائر کی ہے اور اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذ کی تھی اور عبوری آئینی حکم جاری کیا تھا اس لیے ان کے خلاف کارروائی صرف آرمی ایکٹ کے سیکشن 92کے تحت ہی ہوسکتی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو قبول کرلیا تھا،ایمرجنسی کے نفاذ کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ انھوں نے صورتحال اس وقت کے وزیراعظم، صوبائی گورنروں ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان سمیت کور کمانڈرز کے سامنے رکھ دی تھی اور انھوں نے آئین کو معرض التوا میں رکھنے کا مشورہ دیا تھا جس کی 24نومبر 2007کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے بھی توثیق کردی تھی اور پارلیمنٹ نے بھی اس کی منظوری دی۔
درخواست میں استدعاکی گئی ہے کہ مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے قیام کو غیرقانونی قرار دیا جائے دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس درخواست کے ذریعے سابق آرمی چیف نے اپنے خلاف کورٹ مارشل کو خود دعوت دی ہے تاہم ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی کیونکہ آرمی ایکٹ میں غداری جیسے الزامات کا احاطہ نہیں کیا گیا ایک سابق جج اور فوج کے ایڈووکیٹ جنرل بریگیڈیئر واصف خان نیازی نے کہا کہ جنرل مشرف کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا، آرمی ایکٹ کے سیکشن 92کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد 6 ماہ تک فراڈ یا دیگر الزامات پر کسی افسر کو طلب کیا جاسکتا ہے، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس درخواست سے پرویز مشرف کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا تاہم اگر اسلام آباد ہائیکورٹ اس مقدمے کو طول دیتی ہے تو اس سے خصوصی عدالت کی کارروائی لٹک سکتی ہے جس نے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کررکھا ہے۔
جسٹس ریاض احمد خان درخواست کی سماعت کریں گے جو پرویز مشرف کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے دائر کی ہے اور اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذ کی تھی اور عبوری آئینی حکم جاری کیا تھا اس لیے ان کے خلاف کارروائی صرف آرمی ایکٹ کے سیکشن 92کے تحت ہی ہوسکتی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو قبول کرلیا تھا،ایمرجنسی کے نفاذ کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ انھوں نے صورتحال اس وقت کے وزیراعظم، صوبائی گورنروں ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور مسلح افواج کے سربراہان سمیت کور کمانڈرز کے سامنے رکھ دی تھی اور انھوں نے آئین کو معرض التوا میں رکھنے کا مشورہ دیا تھا جس کی 24نومبر 2007کو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے بھی توثیق کردی تھی اور پارلیمنٹ نے بھی اس کی منظوری دی۔
درخواست میں استدعاکی گئی ہے کہ مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے قیام کو غیرقانونی قرار دیا جائے دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس درخواست کے ذریعے سابق آرمی چیف نے اپنے خلاف کورٹ مارشل کو خود دعوت دی ہے تاہم ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی کیونکہ آرمی ایکٹ میں غداری جیسے الزامات کا احاطہ نہیں کیا گیا ایک سابق جج اور فوج کے ایڈووکیٹ جنرل بریگیڈیئر واصف خان نیازی نے کہا کہ جنرل مشرف کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا، آرمی ایکٹ کے سیکشن 92کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد 6 ماہ تک فراڈ یا دیگر الزامات پر کسی افسر کو طلب کیا جاسکتا ہے، میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس درخواست سے پرویز مشرف کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا تاہم اگر اسلام آباد ہائیکورٹ اس مقدمے کو طول دیتی ہے تو اس سے خصوصی عدالت کی کارروائی لٹک سکتی ہے جس نے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کررکھا ہے۔