لفظوں کے انتخاب نے
لفظوں کے چناؤ،ان کے معانی،استعاراتی مطالب اوربدنیتی میں موجود فرق کوسمجھنے کے لیے ابھی تک نہ توکوئی مشین ایجادہوئی ہے۔
فِن لینڈ کے وزیرخارجہ کا فرانسیسی صدر میکرون کے بیان پر تبصرہ- ''میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہم سیاہ فام لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں تو اسے ''نسل پرستی'' کہا جاتا ہے جب ہم یہودیوں کا مضحکہ اُڑاتے ہیں تو اسے سیمیٹزم اور جب عورتوں کی تضحیک کرتے ہیں تو اسے جنس پرستی کا نام دیتے ہیں لیکن جب کبھی مسلمانوں کا مذاق اُڑایا جائے تو اسے ''آزادی ٗ اظہار''کہا جاتاہے''
لفظوں کے چناؤ، اُن کے معانی، استعاراتی مطالب اور بدنیتی میں موجود فرق کوسمجھنے کے لیے ابھی تک نہ تو کوئی مشین ایجاد ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا پیمانہ وضع کیا جاسکا ہے جس سے کھوٹے اور کھرے کے فر ق کو صحیح طرح سے واضح کیا جاسکے کہ موقع محل، لہجے کے فرق،موجود اور مطلوب سامعین اور کرداروں کے آپسی تعلق کی تاریخ ایسے عوامل ہیں جن کی موجودگی کے باعث کسی بات کا کچھ بھی مطلب نکالا جاسکتا ہے سب سے زیادہ گڑ بڑ اُس وقت ہوتی ہے جب نیت اور الفاظ کے چناؤ میں ایسا فرق آجائے جو دونوں کو ایک ساتھ نہ چلنے دے ۔
جہاں تک سردار ایاز صادق والے مسئلے کا تعلق ہے تومیرے نزدیک اس میں ایک غلطی کا جواب دوسری غلطی سے دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور ضرورت ہے کہ جلد سے جلد اس کا احساس کرکے اپنے اجتماعی طرزِ عمل کو درست کیا جائے۔
سب باتوں کو اگر ایک ساتھ ملا کر دیکھا اور سمجھا جائے تو عمل اور ردعمل دونوں ہی تشریح اور توجہ طلب ہیں اور کسی بھی لحاظ سے ایک بالغ نظر اور سمجھدار قوم کے شایانِ شان نہیں یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم سب ہی کے بچوں نے اس میں رہنا ہے دیواریں اتنی اونچی مت کیجیے کہ رب کریم کی مفت عطا کردہ چاندنی اور ہوا کا گزر بھی مشکل ہوجائے۔
بات چلی تھی لفظوں کے انتخاب سے لیکن اتفاق سے یہ دونوں مثالیں اپنی اپنی جگہ پر بہت محترم ، سنجیدہ اور دانش مندی کی متقاضی ہیں جب کہ عام طور پر لفظوں کے غلط انتخاب سے بات دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے اور پھرہر موڑ پر ایک نئی مسکراہٹ کا سامان پیدا ہوجاتا ہے ۔ سو آخر میں پنجابی کے ایک لفظ ''وٹ'' کے حوالے سے ایک دوست کا بھیجا ہوا تحفہ آپ سب کی نذر۔
''ایک انگریز کو پنجابی سیکھنے کا بہت شوق تھا کسی نے اُسے مشورہ دیا کہ چک نمبر136 کے قدیم بزرگ بابا بخشی پنجابی کی بہترین تعلیم دیتے ہیں اُن کے پاس چلے جاؤ۔ ایک دن اس انگریز نے بس پر سوار ہوکر چک 136 کی راہ لی اور پھر بس سے اُتر کر چک 136 کی طرف پیدل چل پڑا۔
تھوڑی دور گیا تھا کہ اس نے ایک کسان کو فصل کاٹ کر اس کے گٹھے بناتے دیکھا۔ انگریز نے پوچھاOh Man تم یہ کیا کرتا؟ کسان نے جواب دیا گورا صاحب میں فصل وٹ رہا۔ انگریز سمجھ گیا کہ پنجابی میں فصل کاٹنے کو ''وٹ''کہا جاتاہے۔
انگریز آگے چل دیا ، آگے ایک شخص چارپائی کا بان بنا رہا تھا ، انگریز نے پوچھا Oh Man تم یہ کیا کرتا؟اُس آدمی نے جواب دیا گورا صاحب میں وان ''وٹ'' رہا ہوں۔ انگریز نے حساب لگایا کہ ٹوئسٹ کرنے کو پنجابی میں ''وٹ'' کہتے ہیں ۔
انگریز اس شخص کو چھوڑ کر آگے چلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک دکاندار اُداس بیٹھا ہے۔ انگریز نے پوچھا Oh Man تم اُداس کیوں بیٹھا؟ دکاندار بولا، گورا صاحب سویر دا کُج نہیں وٹیا۔ انگریز نے حساب لگایا کہ پنجابی میں پیسے کمانے کو ''وٹ'' کہتے ہیں۔ خیر انگریز اور آگے چلا تو ایک شخص کو دیکھا جو پریشانی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انگریز نے پوچھا Oh Man کیا ہوا؟ وہ شخص بولا گورا صاحب آج موسم بڑا ''وٹ ''ہے انگریز سوچنے لگا کہ پنجابی میں مرطوب موسم کو بھی ''وٹ'' کہتے ہیں۔
انگریز اسے چھوڑ کر آگے چلا ، سامنے چوہدری کا بیٹا کلف لگے کپڑے پہنے چلا آرہا تھا۔ انگریز اس سے گلے ملنے کے لیے آگے بڑھا، وہ لڑکا بولا، گورا صاحب ذرا آرام نال کپڑیاں نوں ''وٹ'' ناں پا دینا۔ انگریز سر پر ہاتھ پھیرنے لگا کہ شکنوں کو بھی ''وٹ'' ہی کہا جاتاہے۔
کچھ آگے جاکر انگریز کو ایک اور شخص پریشانی کے عالم میں لوٹا پکڑے کھیتوں کی طرف بھاگتا نظر آیا۔ انگریز نے پوچھا Oh Manبات تو سنو۔ وہ شخص بولا گورا صاحب واپس آکر سنتا ہوں بڑے زور دا ''وٹ'' پیا اے۔ انگریز کو پسینہ آنے لگا یعنی پنجابی میں پیٹ میں گڑ بڑ ہو تو اُسے بھی ''وٹ'' کہتے ہیں۔ تھوڑا آگے جانے پر انگریز کو ایک بزرگ حقہ پکڑے سامنے سے آتا دکھائی دیا ۔
قریب آنے پر انگریز نے پوچھا Oh Man 136چک کتنی دُور ہے ؟ وہ بولا وٹو وٹ ٹُری جاؤ زیادہ دُور نہیں۔ انگریز کو غش آتے آتے بچا کہ پنجابی میں راستہ بھی ''وٹ'' کہلاتا ہے۔ کچھ آگے گیا تو دو آدمی بُری طرح لڑرہے تھے۔ انگریز چھڑانے کے لیے آگے بڑھا تو اُن میں سے ایک بولا، گورا صاحب تُسی وچ نہ آؤ اج میں ایدھے سارے ''وٹ'' کڈھ دیاں گا۔
انگریز پریشان ہوگیا کہ کسی کی طبیعت صاف کرنا بھی ''وٹ'' نکالنا ہوتا ہے۔ انگریز نے لڑائی بند کرانے کی غرض سے دوسرے آدمی کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بولا ''جان دیو بادشاؤ مینوں آپ ایدھے تے بڑا ''وٹ'' اے۔ انگریز ششدر رہ گیا کہ غصہ کو بھی پنجابی میں ''وٹ'' کہا جاتا ہے۔ انگریز آگے چلا تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص گم صم بیٹھا ہے ۔ انگریز نے پوچھا ، یہ آدمی کس سوچ میں ڈوبا ہے؟ جواب ملا، گورا صاحب یہ بڑا میسنا ہے دڑ ''وٹ'' کے بیٹھا ہے۔ انگریز سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا اور پھر یہ کہتے ہوئے واپسی لی کہ
What a comprehensive language, i can never learn it in my short life.
لفظوں کے چناؤ، اُن کے معانی، استعاراتی مطالب اور بدنیتی میں موجود فرق کوسمجھنے کے لیے ابھی تک نہ تو کوئی مشین ایجاد ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا پیمانہ وضع کیا جاسکا ہے جس سے کھوٹے اور کھرے کے فر ق کو صحیح طرح سے واضح کیا جاسکے کہ موقع محل، لہجے کے فرق،موجود اور مطلوب سامعین اور کرداروں کے آپسی تعلق کی تاریخ ایسے عوامل ہیں جن کی موجودگی کے باعث کسی بات کا کچھ بھی مطلب نکالا جاسکتا ہے سب سے زیادہ گڑ بڑ اُس وقت ہوتی ہے جب نیت اور الفاظ کے چناؤ میں ایسا فرق آجائے جو دونوں کو ایک ساتھ نہ چلنے دے ۔
جہاں تک سردار ایاز صادق والے مسئلے کا تعلق ہے تومیرے نزدیک اس میں ایک غلطی کا جواب دوسری غلطی سے دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور ضرورت ہے کہ جلد سے جلد اس کا احساس کرکے اپنے اجتماعی طرزِ عمل کو درست کیا جائے۔
سب باتوں کو اگر ایک ساتھ ملا کر دیکھا اور سمجھا جائے تو عمل اور ردعمل دونوں ہی تشریح اور توجہ طلب ہیں اور کسی بھی لحاظ سے ایک بالغ نظر اور سمجھدار قوم کے شایانِ شان نہیں یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم سب ہی کے بچوں نے اس میں رہنا ہے دیواریں اتنی اونچی مت کیجیے کہ رب کریم کی مفت عطا کردہ چاندنی اور ہوا کا گزر بھی مشکل ہوجائے۔
بات چلی تھی لفظوں کے انتخاب سے لیکن اتفاق سے یہ دونوں مثالیں اپنی اپنی جگہ پر بہت محترم ، سنجیدہ اور دانش مندی کی متقاضی ہیں جب کہ عام طور پر لفظوں کے غلط انتخاب سے بات دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے اور پھرہر موڑ پر ایک نئی مسکراہٹ کا سامان پیدا ہوجاتا ہے ۔ سو آخر میں پنجابی کے ایک لفظ ''وٹ'' کے حوالے سے ایک دوست کا بھیجا ہوا تحفہ آپ سب کی نذر۔
''ایک انگریز کو پنجابی سیکھنے کا بہت شوق تھا کسی نے اُسے مشورہ دیا کہ چک نمبر136 کے قدیم بزرگ بابا بخشی پنجابی کی بہترین تعلیم دیتے ہیں اُن کے پاس چلے جاؤ۔ ایک دن اس انگریز نے بس پر سوار ہوکر چک 136 کی راہ لی اور پھر بس سے اُتر کر چک 136 کی طرف پیدل چل پڑا۔
تھوڑی دور گیا تھا کہ اس نے ایک کسان کو فصل کاٹ کر اس کے گٹھے بناتے دیکھا۔ انگریز نے پوچھاOh Man تم یہ کیا کرتا؟ کسان نے جواب دیا گورا صاحب میں فصل وٹ رہا۔ انگریز سمجھ گیا کہ پنجابی میں فصل کاٹنے کو ''وٹ''کہا جاتاہے۔
انگریز آگے چل دیا ، آگے ایک شخص چارپائی کا بان بنا رہا تھا ، انگریز نے پوچھا Oh Man تم یہ کیا کرتا؟اُس آدمی نے جواب دیا گورا صاحب میں وان ''وٹ'' رہا ہوں۔ انگریز نے حساب لگایا کہ ٹوئسٹ کرنے کو پنجابی میں ''وٹ'' کہتے ہیں ۔
انگریز اس شخص کو چھوڑ کر آگے چلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک دکاندار اُداس بیٹھا ہے۔ انگریز نے پوچھا Oh Man تم اُداس کیوں بیٹھا؟ دکاندار بولا، گورا صاحب سویر دا کُج نہیں وٹیا۔ انگریز نے حساب لگایا کہ پنجابی میں پیسے کمانے کو ''وٹ'' کہتے ہیں۔ خیر انگریز اور آگے چلا تو ایک شخص کو دیکھا جو پریشانی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انگریز نے پوچھا Oh Man کیا ہوا؟ وہ شخص بولا گورا صاحب آج موسم بڑا ''وٹ ''ہے انگریز سوچنے لگا کہ پنجابی میں مرطوب موسم کو بھی ''وٹ'' کہتے ہیں۔
انگریز اسے چھوڑ کر آگے چلا ، سامنے چوہدری کا بیٹا کلف لگے کپڑے پہنے چلا آرہا تھا۔ انگریز اس سے گلے ملنے کے لیے آگے بڑھا، وہ لڑکا بولا، گورا صاحب ذرا آرام نال کپڑیاں نوں ''وٹ'' ناں پا دینا۔ انگریز سر پر ہاتھ پھیرنے لگا کہ شکنوں کو بھی ''وٹ'' ہی کہا جاتاہے۔
کچھ آگے جاکر انگریز کو ایک اور شخص پریشانی کے عالم میں لوٹا پکڑے کھیتوں کی طرف بھاگتا نظر آیا۔ انگریز نے پوچھا Oh Manبات تو سنو۔ وہ شخص بولا گورا صاحب واپس آکر سنتا ہوں بڑے زور دا ''وٹ'' پیا اے۔ انگریز کو پسینہ آنے لگا یعنی پنجابی میں پیٹ میں گڑ بڑ ہو تو اُسے بھی ''وٹ'' کہتے ہیں۔ تھوڑا آگے جانے پر انگریز کو ایک بزرگ حقہ پکڑے سامنے سے آتا دکھائی دیا ۔
قریب آنے پر انگریز نے پوچھا Oh Man 136چک کتنی دُور ہے ؟ وہ بولا وٹو وٹ ٹُری جاؤ زیادہ دُور نہیں۔ انگریز کو غش آتے آتے بچا کہ پنجابی میں راستہ بھی ''وٹ'' کہلاتا ہے۔ کچھ آگے گیا تو دو آدمی بُری طرح لڑرہے تھے۔ انگریز چھڑانے کے لیے آگے بڑھا تو اُن میں سے ایک بولا، گورا صاحب تُسی وچ نہ آؤ اج میں ایدھے سارے ''وٹ'' کڈھ دیاں گا۔
انگریز پریشان ہوگیا کہ کسی کی طبیعت صاف کرنا بھی ''وٹ'' نکالنا ہوتا ہے۔ انگریز نے لڑائی بند کرانے کی غرض سے دوسرے آدمی کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بولا ''جان دیو بادشاؤ مینوں آپ ایدھے تے بڑا ''وٹ'' اے۔ انگریز ششدر رہ گیا کہ غصہ کو بھی پنجابی میں ''وٹ'' کہا جاتا ہے۔ انگریز آگے چلا تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص گم صم بیٹھا ہے ۔ انگریز نے پوچھا ، یہ آدمی کس سوچ میں ڈوبا ہے؟ جواب ملا، گورا صاحب یہ بڑا میسنا ہے دڑ ''وٹ'' کے بیٹھا ہے۔ انگریز سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا اور پھر یہ کہتے ہوئے واپسی لی کہ
What a comprehensive language, i can never learn it in my short life.