سانحہ پشاور معصوم طلبہ کا پاکیزہ خون
ظالموں نے قال اللہ و قال النبیﷺ کے نغمے سنانے والی زبانوں کو بند کرنے کی ناکام کوشش کی۔
ابھی تک ڈاکٹر عادل خان شہید کا کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا کہ غیر متعلقہ وزراء کی اطلاعات درست ثابت ہوگئیں اور اسپین جماعت دیر کالونی پشاور کی جامع مسجد سے متصل جامعہ زبیریہ میں بم دھماکے کی اطلاع موصول ہوگئی۔
ظالموں نے قال اللہ و قال النبیﷺ کے نغمے سنانے والی زبانوں کو بند کرنے کی ناکام کوشش کی، اس کوشش میں متعدد طالبان علوم نبوت نے شہادت کا جام نوش کیا اور درجنوں علماء کرام، اساتذہ سمیت ایک سو پچیس سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
منگل 27اکتوبرکی صبح آٹھ بجے کے قریب جامعہ زبیریہ میں دارالعلوم مظہر العلوم ڈاگئی ضلع صوابی سے فیض یافتہ اور شیخ القرآن و شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحمتہ اللہ کے لاڈلے شاگرد رشید شیخ الحدیث مولانا رحیم اللہ حقانی طالبان علوم نبوت کی ایک کلاس کو مشکوٰۃ شریف پڑھا رہے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ایک حدیث ہے:مَامِن أحَدٍ مَّرَّبِقَبرَأخِیہِ المْومِنِ، کَانَ یَعرِفْہ فیِ الدّْنیَا، فَسَلَّمَ عَلَیہِ،إلأعَرَفَہ، وَرَدَّ عَلَیہِ السَّلَامَ۔'
مولانا رحیم اللہ حقانی یہیں تک پہنچے تھے تو فوراً ہی دھماکہ ہو گیا، آن لائن طلباء کے لیے لگائے گئے کیمرے نے یہ منظر محفوظ کرلیا اور دھماکے کے فوری بعد ہر جانب اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہونے لگیں، یہ خبر پورے ملک میں جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل گئی۔
دھماکے سے قبل مولانا رحیم اللہ حقانی کی زبان پر جو حدیث مبارکہ تھی اس حدیث کا ترجمہ ہے: 'جو شخص اپنے کسی ایسے مومن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرے جو دنیا میں اسے جانتا تھا اور اسے سلام کہے تو وہ ضرور اسے پہچان لے گا اور سلام کا جواب دے گا۔' اس دھماکے میں مولانا رحیم اللہ حقانی زخمی ہوئے جو ابھی تک زیر علاج ہیں۔
مولانا رحیم اللہ نے دورہ حدیث دارالعلوم حقانیہ سے کیا اور اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ حقانی لکھتے ہیں جب کہ تفسیر مسلسل دوسال حضرت اقدس مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحم اللہ سے پڑھی، ان کا شمار شیخ القرآن حضرت باباجی کے ہونہارشاگردوں میں ہوتا تھا۔ ظالموں نے پشاورمیں ان کی اس عظیم الشان دینی درسگاہ پر حملہ کردیا یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ یہ حملہ انسانیت سے عاری عناصر کی کارروائی تھی۔
انھوں نے بیگناہ اور معصوم طالب علموں کی جان لی اور انھیں ناحق قتل کیا۔رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مولانا رحیم اللہ حقانی کو محفوظ رکھا لیکن جامعہ زبیریہ میں اس دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کی شہادت پر تعزیت کے لیے آج میرے پاس جملے بھی نہیں ہیں، جن کا مقدس خون اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید اور احادیث کی کتب پر گرا اورسفید اوراق کو لال چادر پہناگیا، اس عظیم قربانی نے ان معصوم بچوں کی نسبت خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورین سے ملا دی۔
کیونکہ جب ظالموں نے مظلوم مدینہ کو شہید کیا تھا تو ان کا خون بھی قرآن پر گرا تھا اور آج ان معصوم طلباء کا خون بھی قرآن پر گرا ہے۔اسے کہتے ہیں سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت۔ دہشت گردوں اور آدم خور درندوں کی اس بہیمانہ اور بزدلانہ کارروائی پر ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل غمزدہ تھا۔ پشاور کی فضا سوگوار تھی مگر صبر اور حوصلے کی بے مثال تصویر ، شجاعت و بہادری کی زندہ مثال، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شہداء اور زخمیوں کو اٹھا رہے تھے، یہ ایک مدرسے کے غریب بچے تھے۔
جن کے زخمی جسموں کو کوئی رکشے میں اسپتال منتقل کررہا تھا، کوئی ریڑھی پر، جسے کچھ نہ ملا اس نے چادر میں لپیٹ کر کمر پر اٹھا لیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس تصویر نے دل دہلا کے رکھ دیا جس میں ایک شخص خون میں لت پت بچے کو چادر میں لپیٹے کمر پر اٹھا کر اسپتال کی جانب رواں دواں تھا، آخر یہ بھی تو اسی قوم کے بچے تھے، لیکن ان کے لیے وہ ریسکیو سہولیات کیوں نہ تھیں جو اے پی ایس سانحہ کے وقت تھیں۔
ان کے لیے ایسا سلوک کیوں؟ یہ بہت اہم سوال ہے ، ریاست کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچناہوگا۔ایک طرف آج بھی اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کی یاد منائی جاتی ہے اور دوسری طرف مدرسے کے ان معصوم طلباء کی شہادت پر کسی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی گوارا نہیں کیے، یہی وہ طلباء تھے جنھوں نے اے پی ایس میں زخمی ہونے والوں کے لیے سب سے زیادہ خون کے عطیات دیے، ہاتھوں میں قرآن تھامے شہداء کے لیے بلند درجات کی دعائیں کرتے رہے، آج ان پر قیامت گزر گئی اور کوئی پرسان حال نہیں لیکن ان کی زبان سے شکوہ کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا، کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا، خود سوچیے! ان سے بڑا ریاست کا حامی و وفادار کون ہوگا؟ریاست کو بھی ان کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے۔
علماء اور مدارس کی سیکیورٹی کے لیے خاص پلان ترتیب دینا ہوگا، انھیں بزدل دشمن کے لیے سافٹ ٹارگٹ ہونے سے بچانا ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔دینی مدارس اور ان مدارس سے جڑے اساتذہ، علماء اور طلباء کی حفاظت ریاست کا فرض بھی ہے اور ریاست پر قرض بھی ہے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت سے شروع ہونے والاسلسلہ ڈاکٹر عادل خان کی شہادت سے ہوتا ہوا پشاور کے جامعہ زبیریہ دھماکے تک پہنچ چکا ہے۔
چند روز قبل کراچی میں جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی عبداللہ یامین پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا، مفتی عبداللہ شدید زخمی حالت میں اسپتال داخل ہیں تاہم اس حملے میں شامل ایک مجرم موقعے پر ہی پکڑا گیا مبینہ طور پر جس کی شکل اسی خاکے سے ملتی ہے جو ڈاکٹر عادل شہید کے حملہ آور کا ہے، مجرم سے جو موبائل برآمد ہوا اس کی لاگ بک سے پتا چل رہا ہے کہ آخری دو کالیں کراچی پولیس کے ایک آفیسر کو کی گئی ہیں۔
اگر تفتیش درست خطوط پر ہو تو قاتلوں تک پہنچنا ناممکن نہیں، لیکن دو سال گزر چکے ہیں ابھی تک شہید ناموس رسالت مولانا سمیع الحق رحم اللہ کے قاتلوں کا بھی نہیں پتا چلا، باقی سانحات تو چھوڑ دیں۔ پانی پلوں کی جانب بڑھ رہا ہے، دہشت گردی و انتہا پسندی سے نجات کے لیے پاک فوج ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں، لیکن دہشت گردی اور خاص طور پر مذہبی دہشت گردی کے واقعات خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
مقتدر قوتوں کو قومی سلامتی اور داخلی امن کے معاملے پر زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل کرنا ہوگا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پوری طرح مستحکم، مستعد و فعال رکھا جائے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خفیہ اطلاعات کو نظر انداز کرنے کے بجائے پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے ان کی روشنی میں اقدامات اٹھائے جائیں، ملک میں سیاسی استحکام کے لیے حقیقی جمہوریت کی بحالی کی جانب بڑھا جائے۔ جو غیر متعلقہ وزراء دہشت گردی کی پیشگی اطلاعات دیتے رہے انھیں شامل تفتیش کیاجائے۔
ملک میں مذہبی منافرت پھیلا کر فرار ہونے والے عناصر کے پشت پناہوں کی ناصرف نشاندہی کی جائے بلکہ انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے۔ کورونا کے پھیلاؤ سے لے کر ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے تک کچھ حکومتی شخصیات کا نام آرہا ہے ان کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں، ان میں ذرا سی کوتاہی کسی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہے۔ آخر میں اس بات کی جانب بھی توجہ دلاتا جاؤں کہ موجودہ حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے لیے جن انتقامی کارروائیوں پر عمل پیرا ہے ان میں دن بدن تیزی آرہی ہے۔
پہلے اہم سیاسی رہنماؤں سے سیکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑیاں واپس لی گئیں، دہشت گردی کی اطلاعات کے باوجود انھیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا اور اب حکمران منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن رہنماؤں کو ڈرا رہے ہیں۔
یہ طرز سیاست جمہوری ہے نہ جمہوری روایات میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے۔ جس وقت پاکستان دشمن طاقتیں اپنی سازشوں کا جال بن رہی ہیں اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ایسے حالات میں ملک کو سیاسی استحکام کی جانب لیجانے کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن اناڑی حکمران ملک میں محاذ آرائی کو بڑھاوا دینے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔
خدا نخواستہ کسی اپوزیشن لیڈر کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوگیا تو ہم ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوسکتے ہیں اس لیے مقتدر قوتیں دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کردار ادا کریں یہی پاکستان اور عوام کے مفاد میں ہوگا۔
ظالموں نے قال اللہ و قال النبیﷺ کے نغمے سنانے والی زبانوں کو بند کرنے کی ناکام کوشش کی، اس کوشش میں متعدد طالبان علوم نبوت نے شہادت کا جام نوش کیا اور درجنوں علماء کرام، اساتذہ سمیت ایک سو پچیس سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
منگل 27اکتوبرکی صبح آٹھ بجے کے قریب جامعہ زبیریہ میں دارالعلوم مظہر العلوم ڈاگئی ضلع صوابی سے فیض یافتہ اور شیخ القرآن و شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحمتہ اللہ کے لاڈلے شاگرد رشید شیخ الحدیث مولانا رحیم اللہ حقانی طالبان علوم نبوت کی ایک کلاس کو مشکوٰۃ شریف پڑھا رہے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ایک حدیث ہے:مَامِن أحَدٍ مَّرَّبِقَبرَأخِیہِ المْومِنِ، کَانَ یَعرِفْہ فیِ الدّْنیَا، فَسَلَّمَ عَلَیہِ،إلأعَرَفَہ، وَرَدَّ عَلَیہِ السَّلَامَ۔'
مولانا رحیم اللہ حقانی یہیں تک پہنچے تھے تو فوراً ہی دھماکہ ہو گیا، آن لائن طلباء کے لیے لگائے گئے کیمرے نے یہ منظر محفوظ کرلیا اور دھماکے کے فوری بعد ہر جانب اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہونے لگیں، یہ خبر پورے ملک میں جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل گئی۔
دھماکے سے قبل مولانا رحیم اللہ حقانی کی زبان پر جو حدیث مبارکہ تھی اس حدیث کا ترجمہ ہے: 'جو شخص اپنے کسی ایسے مومن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرے جو دنیا میں اسے جانتا تھا اور اسے سلام کہے تو وہ ضرور اسے پہچان لے گا اور سلام کا جواب دے گا۔' اس دھماکے میں مولانا رحیم اللہ حقانی زخمی ہوئے جو ابھی تک زیر علاج ہیں۔
مولانا رحیم اللہ نے دورہ حدیث دارالعلوم حقانیہ سے کیا اور اسی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ حقانی لکھتے ہیں جب کہ تفسیر مسلسل دوسال حضرت اقدس مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحم اللہ سے پڑھی، ان کا شمار شیخ القرآن حضرت باباجی کے ہونہارشاگردوں میں ہوتا تھا۔ ظالموں نے پشاورمیں ان کی اس عظیم الشان دینی درسگاہ پر حملہ کردیا یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ یہ حملہ انسانیت سے عاری عناصر کی کارروائی تھی۔
انھوں نے بیگناہ اور معصوم طالب علموں کی جان لی اور انھیں ناحق قتل کیا۔رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مولانا رحیم اللہ حقانی کو محفوظ رکھا لیکن جامعہ زبیریہ میں اس دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کی شہادت پر تعزیت کے لیے آج میرے پاس جملے بھی نہیں ہیں، جن کا مقدس خون اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید اور احادیث کی کتب پر گرا اورسفید اوراق کو لال چادر پہناگیا، اس عظیم قربانی نے ان معصوم بچوں کی نسبت خلیفہ سوم حضرت عثمان ذوالنورین سے ملا دی۔
کیونکہ جب ظالموں نے مظلوم مدینہ کو شہید کیا تھا تو ان کا خون بھی قرآن پر گرا تھا اور آج ان معصوم طلباء کا خون بھی قرآن پر گرا ہے۔اسے کہتے ہیں سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت۔ دہشت گردوں اور آدم خور درندوں کی اس بہیمانہ اور بزدلانہ کارروائی پر ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل غمزدہ تھا۔ پشاور کی فضا سوگوار تھی مگر صبر اور حوصلے کی بے مثال تصویر ، شجاعت و بہادری کی زندہ مثال، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت شہداء اور زخمیوں کو اٹھا رہے تھے، یہ ایک مدرسے کے غریب بچے تھے۔
جن کے زخمی جسموں کو کوئی رکشے میں اسپتال منتقل کررہا تھا، کوئی ریڑھی پر، جسے کچھ نہ ملا اس نے چادر میں لپیٹ کر کمر پر اٹھا لیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس تصویر نے دل دہلا کے رکھ دیا جس میں ایک شخص خون میں لت پت بچے کو چادر میں لپیٹے کمر پر اٹھا کر اسپتال کی جانب رواں دواں تھا، آخر یہ بھی تو اسی قوم کے بچے تھے، لیکن ان کے لیے وہ ریسکیو سہولیات کیوں نہ تھیں جو اے پی ایس سانحہ کے وقت تھیں۔
ان کے لیے ایسا سلوک کیوں؟ یہ بہت اہم سوال ہے ، ریاست کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچناہوگا۔ایک طرف آج بھی اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کی یاد منائی جاتی ہے اور دوسری طرف مدرسے کے ان معصوم طلباء کی شہادت پر کسی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی گوارا نہیں کیے، یہی وہ طلباء تھے جنھوں نے اے پی ایس میں زخمی ہونے والوں کے لیے سب سے زیادہ خون کے عطیات دیے، ہاتھوں میں قرآن تھامے شہداء کے لیے بلند درجات کی دعائیں کرتے رہے، آج ان پر قیامت گزر گئی اور کوئی پرسان حال نہیں لیکن ان کی زبان سے شکوہ کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا، کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا، خود سوچیے! ان سے بڑا ریاست کا حامی و وفادار کون ہوگا؟ریاست کو بھی ان کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے۔
علماء اور مدارس کی سیکیورٹی کے لیے خاص پلان ترتیب دینا ہوگا، انھیں بزدل دشمن کے لیے سافٹ ٹارگٹ ہونے سے بچانا ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے۔دینی مدارس اور ان مدارس سے جڑے اساتذہ، علماء اور طلباء کی حفاظت ریاست کا فرض بھی ہے اور ریاست پر قرض بھی ہے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت سے شروع ہونے والاسلسلہ ڈاکٹر عادل خان کی شہادت سے ہوتا ہوا پشاور کے جامعہ زبیریہ دھماکے تک پہنچ چکا ہے۔
چند روز قبل کراچی میں جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی عبداللہ یامین پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا، مفتی عبداللہ شدید زخمی حالت میں اسپتال داخل ہیں تاہم اس حملے میں شامل ایک مجرم موقعے پر ہی پکڑا گیا مبینہ طور پر جس کی شکل اسی خاکے سے ملتی ہے جو ڈاکٹر عادل شہید کے حملہ آور کا ہے، مجرم سے جو موبائل برآمد ہوا اس کی لاگ بک سے پتا چل رہا ہے کہ آخری دو کالیں کراچی پولیس کے ایک آفیسر کو کی گئی ہیں۔
اگر تفتیش درست خطوط پر ہو تو قاتلوں تک پہنچنا ناممکن نہیں، لیکن دو سال گزر چکے ہیں ابھی تک شہید ناموس رسالت مولانا سمیع الحق رحم اللہ کے قاتلوں کا بھی نہیں پتا چلا، باقی سانحات تو چھوڑ دیں۔ پانی پلوں کی جانب بڑھ رہا ہے، دہشت گردی و انتہا پسندی سے نجات کے لیے پاک فوج ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام نے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں، لیکن دہشت گردی اور خاص طور پر مذہبی دہشت گردی کے واقعات خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
مقتدر قوتوں کو قومی سلامتی اور داخلی امن کے معاملے پر زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل کرنا ہوگا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پوری طرح مستحکم، مستعد و فعال رکھا جائے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خفیہ اطلاعات کو نظر انداز کرنے کے بجائے پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے ان کی روشنی میں اقدامات اٹھائے جائیں، ملک میں سیاسی استحکام کے لیے حقیقی جمہوریت کی بحالی کی جانب بڑھا جائے۔ جو غیر متعلقہ وزراء دہشت گردی کی پیشگی اطلاعات دیتے رہے انھیں شامل تفتیش کیاجائے۔
ملک میں مذہبی منافرت پھیلا کر فرار ہونے والے عناصر کے پشت پناہوں کی ناصرف نشاندہی کی جائے بلکہ انھیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے۔ کورونا کے پھیلاؤ سے لے کر ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے تک کچھ حکومتی شخصیات کا نام آرہا ہے ان کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں، ان میں ذرا سی کوتاہی کسی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہے۔ آخر میں اس بات کی جانب بھی توجہ دلاتا جاؤں کہ موجودہ حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے لیے جن انتقامی کارروائیوں پر عمل پیرا ہے ان میں دن بدن تیزی آرہی ہے۔
پہلے اہم سیاسی رہنماؤں سے سیکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑیاں واپس لی گئیں، دہشت گردی کی اطلاعات کے باوجود انھیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا اور اب حکمران منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن رہنماؤں کو ڈرا رہے ہیں۔
یہ طرز سیاست جمہوری ہے نہ جمہوری روایات میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے۔ جس وقت پاکستان دشمن طاقتیں اپنی سازشوں کا جال بن رہی ہیں اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ایسے حالات میں ملک کو سیاسی استحکام کی جانب لیجانے کی ضرورت ہوا کرتی ہے لیکن اناڑی حکمران ملک میں محاذ آرائی کو بڑھاوا دینے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔
خدا نخواستہ کسی اپوزیشن لیڈر کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوگیا تو ہم ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوسکتے ہیں اس لیے مقتدر قوتیں دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کردار ادا کریں یہی پاکستان اور عوام کے مفاد میں ہوگا۔