امریکا بھارت فوجی معاہدہ خطرے کی گھنٹی

بھارت کی بڑھتی فوجی صلاحیت سے خطے اور خاص کر ہمارے پاکستان کے لیے چیلنجز بہت بڑھ گئے ہیں۔

gfhlb169@gmail.com

جنوبی ایشیا میں امریکی اقدامات خطے کی صورتحال کو تشویش ناک حد تک خراب کر رہے ہیں۔ امریکا کا بظاہر ہدف چین کی بڑھتی فوجی، اقتصادی اور معاشی قوت کے آگے بند باندھنا ہے۔

خطے میں امریکی مداخلت سے چین نے تو کیا متاثر ہونا ہے کیونکہ بھارت جیسے ممالک سے اسے کوئی خاص خطرہ نہیں لیکن امریکی فوجی امداد کے نتیجے میں بھارت اتنا طاقتور ضرور ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن جائے۔

امریکا کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور وزیرِ دفاع مارک ایسپر پچھلے ہفتے بھارت یاترہ پر سوموار کو نئی دہلی پہنچے جہاں دونوں نے بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ سے مذاکرات کیے۔

دورہ شروع ہونے سے پہلے امریکی وزیر خارجہ نے دورے کے مقاصد کے بارے میں کہا کہ ان کی توجہ چین کی طرف سے لاحق خطرات پر ہو گی۔ مائیک پومپیو نے اپنے اعزاز میں دئے گئے ظہرانے میں بھی شرکت کی۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق دونوں اتحادیوں کے درمیان Strategic تعلقات باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

منگل کو مذاکرات کے اختتام پر امریکا اور بھارت کے درمیان ایک نئے فوجی معاہدے Basic Exchange and Cooperation Agreement (BECA) پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے کہا کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان روابط مزید گہرے ہوں گے۔ مارک ایسپر نے مزید بتایا کہ امریکا بھارت کو لڑاکا طیارے اور ڈرون بیچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا بھارت کو حساس سٹیلائٹ ڈیٹا بھی اسی معاہدے کے تحت دے گا۔ اس ڈیٹا کی مدد سے بھارت میزائل سے اہداف کو نشانہ بنا سکے گا اور اس کے لیے بھارت امریکی نقشے بھی استعمال کر سکے گا۔ یہ امریکی ڈیٹا کسی بھی علاقے کی صحیح جغرافیائی صورتحال اور ٹارگٹ کی صحیح صحیح نشان دہی کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔

معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پومپیو نے کہا کہ امریکا اور بھارت کی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانے کے لیے چین کی طرف سے خطرات کا مقابلہ دونوں ملکوں کو مل کر کرنا ہو گا۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی جمہوریت، قانون کی حکمرانی، شفافیت اور آزاد ماحول کی دوست نہیں ہے۔ مارک ایسپر نے اس معاہدے کو ایک سنگِ میل قرار دیا ہے۔

مذکورہ معاہدے سے بھارت کو امریکی Topograghical,Maritime and Aeronautical ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو جائے گی جو انتہائی خطرناک developmentہے۔ امریکی وزارتِ دفاع نے یہ بھی بتایا کہ PECA کے تحت بھارت کو جدید بحری امداد اور Avionics بھی فراہم ہو سکتے ہیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع نے بھارتی وزیر ِاعظم مودی اور سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے بھی ملاقات کی ہے۔

اس موقع پر جے شنکر نے کہا کہ پچھلی دو تین دہائیوں سے بھارت امریکا تعلقات بتدریج مستحکم ہو رہے ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں ممالک مل کر علاقائی اور عالمی سطح پر تبدیلیاں لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے اس معاہدے پر سخت موقف اپناتے ہوئے اسے خطے کی سلامتی کے لیے بہت خطرناک قرار دیا ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کو جدید فوجی ساز و سامان، ٹیکنالوجی اور حساس ڈیٹا کی فراہمی سے خطرات بڑھ جائیں گے۔ وزارتِ خارجہ پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ ہم اس معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن یہ عیاں ہے کہ مذکورہ معاہدہ بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔ ایسے معاہدوں سے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن بگڑ رہا ہے جب کہ بھارت کے خطرناک ارادوں کی پہلے ہی عکاسی ہو رہی ہے۔

امریکی وزرا ء نے بھارت کے بعد سری لنکا، مالدیپ اور انڈونیشیا کا بھی دورہ کیا اور ہر جگہ انھوں نے ان ممالک کی قیادت کو چین سے مخاصمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا درس دیا۔ شنید ہے کہ سری لنکا نے سنی ان سنی کر دی ہے۔ انڈونیشیا کو احساس ہے کہ چین سے اچھے روابط میں ہی فائدہ ہے لیکن امریکا کی ناراضگی میں خطرات پنہاں ہیں جن سے بچنا ہو گا۔


چین نے بھارت امریکا معاہدے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کو بھارت کے ساتھ چین کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ نئی دہلی میں چینی سفارت خانے نے بھارت کے دورے پر امریکی وزرا کے بیان پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکا مداخلت کر رہا ہے۔

امریکا کو ایسی مداخلت سے باز رہنا چاہیے۔ چینی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ چاہتے ہیں کہ خطے میں چین کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا کی جائے۔ امریکا کی سردجنگ ذہنیت اور نظریاتی تقسیم ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہو گئی ہے لیکن چین اس سے بخوبی آگاہ ہے اور اس کی بھرپور مخالفت کرتا ہے۔

جب سے چین نے عالمی افق پر سپر پاور ہونے کا عندیہ دیا ہے اور خاص طور پر چینی معیشت بے پناہ طاقتور ہوئی ہے، امریکا چین کو کمزور کرنے پر کمربستہ ہے اور وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جو اس کے بس میں ہیں۔

امریکی صدارتی انتخابات سے صرف چند دن پہلے بھارت کے اوپر امریکا کی یہ نوازشات یہ بتا رہی ہیں کہ امریکا چین کے بڑھتے اثر و رسوخ سے کتنا خائف ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں امریکا نے برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان کو کامیابی سے سپر پاور کے درجے سے گرا دیا یا دوڑ سے باہر کر دیا۔ لیکن اب اسے ایک ایسے ملک کے سپر پاور بننے کا سامنا ہے جو آگے ہی بڑھتے رہنا جانتا ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات سے تھوڑا ہی پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے متحدہ عرب امارات اور سوڈان سے سفارتی تعلقات استوار کروائے۔ اسی طرح ساری خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی اسرائیل کے تعلقات میں گرمجوشی ٹرمپ کی وجہ سے آئی ہے۔

ان اقدامات سے ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کے لیے راہ ہموار کر رہے تھے۔ بھارت کے ساتھ معاہدہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت کی امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں ہونے جا رہی ہیں تا کہ چین کے ارد گرد ایک مضبوط حصار قائم کر کے دکھایا جا سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کا ہدف چین کو سپر پاور بننے سے روکنا ہے۔ اس بات کے بہر حال بہت کم امکانات ہیں کہ اس دفعہ بھی امریکا کو ہی کامیابی حاصل ہو کیونکہ چینی قیادت بہت جہاندیدہ اور صابر ہے۔

غالب امکان ہے کہ چین بھارت کو دی گئی امریکی امداد سے کوئی خاص متاثر ہونے والا نہیں۔ اس کا بھی کم امکان ہے کہ بھارتی میزائل و ڈرونز چین میں بیجنگ اور شنگھائی کو نشانہ بنا سکیں۔ چین کا دفاع خلا اور فضاء میں بہت مضبوط ہے۔

بھارت چین سے ڈرتا ہے اور چین کے ساتھ جھگڑا نہیں چاہتا۔ لیکن بھارت کی بڑھتی فوجی صلاحیت سے خطے اور خاص کر ہمارے پاکستان کے لیے چیلنجز بہت بڑھ گئے ہیں۔ بھارتی افواج پہلے ہی پاکستانی افواج کے مقابلے میں کئی گنا بڑی ہیں۔ بھارت دنیا کی دسویں بڑی اقتصادی قوت ہے۔ فرانس سے رافیل جنگی طیارے حاصل ہونے کے بعد بھارت کی دور تک دیکھنے، پہلے دیکھنے اور پہلے فائر کرنے کی صلاحیت بہتر ہو گئی ہے۔

ایسے میں امریکی فوجی امداد، حساس ڈیٹا اورکلاسیفائیڈ نقشہ جات پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ امیت شاہ کی قیادت میں ہندو جنونی پہلے ہی پاکستان کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ کابل میں پاکستان دشمن عناصر کی موجودگی پاکستان کی مشکلات میں اضافے کے لیے کافی ہیں۔ مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستانی قوم اور قیادت نے یکجہتی دکھائی ہے لیکن موجودہ وقت میں ایک خلفشار کی کیفیت ہے۔

میں نے پہلے بھی درخواست کی تھی کہ پاکستانی حکمران جماعت کو پروایکٹو ہو کر حالات بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حزبِ اختلاف کو بھی خطرے کے پیشِ نظر تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے خلفشار سے بھارت کوئی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائے۔

آخری اطلاعات وصول ہونے تک امریکی انتخابات میں جو بائیڈن کو بر تری حاصل تھی۔ ٹرمپ نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نیتن یاہو کے پوچھنے پر یہودی نجومیوں نے کہا ہے کہ ٹرمپ ہی صدر رہے گا۔ واﷲ اعلم۔
Load Next Story