وزیر اعظم اہمیت دیتے نہیں ظہرانے میں جاکر کیا کرنا تھا طارق چیمہ
بزدارکیساتھ ہیں لیکن صوبہ چلا کون رہا ہے،وزیراعظم اورانکے ساتھی جانتے ہیں،فیٹف پرحکومت کوووٹ دیا،سینیٹ کا دیکھیں گے
مسلم لیگ (ق) کے رہنما وفاقی وزیرطارق بشیرچیمہ نے وزیر اعظم عمران خان کے ظہرانے میں اتحادی پارٹی کی عدم شرکت کے حوالے سے کہا ہے کہ وزیراعظم ان کی پارٹی کی اہمیت دیتے نہیں لہٰذا ظہرانے میں جا کرکیا کرنا تھا۔
ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے ق لیگ کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جاتا اور نہ ہی اسکے تحفظات کا ازالہ کیا جاتا ہے، ہمیں پیغام دینے کے لیے آنے والے وزرا بھی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ ظہرانے میں شریک نہ ہونا پارٹی کا فیصلہ تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہر ہفتے لاہور آتے ہیں لیکن کبھی مسلم لیگ ق کو مشاورتی عمل میں شریک نہیں کیا ۔ لوکل باڈیز ایکٹ اور اس سے جڑے اقدامات میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔حکومت کوجب بھی ضرورت پڑی تو حکومتی پارٹی کے لوگوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالا ۔ہم کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے ۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کوبلیک میل نہیں کر رہے مگر چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سمت درست کرلے۔ مہنگائی کنٹرول اور عوام کی بہتری کے فیصلے کرے،چل چلاؤ کا وقت ہے،نئے الیکشن کی بات ہو رہی ہے،کسی کے تجربے سے فائدہ اٹھا لے۔نیک نیتی کے ساتھ پی ٹی آئی کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ حکومت کو فیٹف پرقومی مفاد میں ووٹ دیا،اب سینیٹ میں ووٹ کا دیکھاجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے اتحادختم کرنے کانہیں سوچ رہے،پرویزالٰہی نے متعدد بار کہا ہے کہ ہم عثمان بزدار کے ساتھ ہیں۔لیکن صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ اگر بااختیار ہوتا تو معاملات اس حد تک نہ پہنچتے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم ''اہم اعلان''کی طرف نہ جائیںاورہم جس کشتی میں سوار ہیں وہ ضرور کنارے لگے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے بھی ٹویٹ کردیا جس میں حکومتی معاملات پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا پی ٹی آئی سے اتحاد ووٹ کی حد تک ہے ہمارے معاہدے میں عمران خان کے ساتھ کھانا کھانا شامل نہیں ۔
ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے ق لیگ کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جاتا اور نہ ہی اسکے تحفظات کا ازالہ کیا جاتا ہے، ہمیں پیغام دینے کے لیے آنے والے وزرا بھی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ ظہرانے میں شریک نہ ہونا پارٹی کا فیصلہ تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہر ہفتے لاہور آتے ہیں لیکن کبھی مسلم لیگ ق کو مشاورتی عمل میں شریک نہیں کیا ۔ لوکل باڈیز ایکٹ اور اس سے جڑے اقدامات میں بھی ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔حکومت کوجب بھی ضرورت پڑی تو حکومتی پارٹی کے لوگوں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالا ۔ہم کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے مفادات کا تحفظ بھی کرنا ہے ۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کوبلیک میل نہیں کر رہے مگر چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سمت درست کرلے۔ مہنگائی کنٹرول اور عوام کی بہتری کے فیصلے کرے،چل چلاؤ کا وقت ہے،نئے الیکشن کی بات ہو رہی ہے،کسی کے تجربے سے فائدہ اٹھا لے۔نیک نیتی کے ساتھ پی ٹی آئی کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ حکومت کو فیٹف پرقومی مفاد میں ووٹ دیا،اب سینیٹ میں ووٹ کا دیکھاجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے اتحادختم کرنے کانہیں سوچ رہے،پرویزالٰہی نے متعدد بار کہا ہے کہ ہم عثمان بزدار کے ساتھ ہیں۔لیکن صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ اگر بااختیار ہوتا تو معاملات اس حد تک نہ پہنچتے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم ''اہم اعلان''کی طرف نہ جائیںاورہم جس کشتی میں سوار ہیں وہ ضرور کنارے لگے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے بھی ٹویٹ کردیا جس میں حکومتی معاملات پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا پی ٹی آئی سے اتحاد ووٹ کی حد تک ہے ہمارے معاہدے میں عمران خان کے ساتھ کھانا کھانا شامل نہیں ۔