امریکی صدارتی انتخابات جوبائیڈن 264 الیکٹورل ووٹ لیکر ٹرمپ سے آگے
صدر ٹرمپ ابھی تک صرف 214 الیکٹورل ووٹ ہی حاصل کرسکے، مختلف شہروں میں نتائج میں تاخیر کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری
امریکی صدارتی انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے اور جوبائیڈن کو جیت کے لیے صرف 6 الیکٹورل ووٹ درکار ہیں۔
امریکا میں 59 ویں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ مکمل ہوجانے کے 2 دن بعد بھی ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے، 5 ریاستوں کے نتائج آنا باقی ہیں تاہم اب تک آنے والے نتائج کے مطابق 538 الیکٹورل ووٹس میں سے 77 سالہ ڈیمو کریٹ امیدوار جو بائیڈن 264 ووٹ لے کر ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ 214 ووٹ حاصل کرسکے ہیں تاہم مختلف شہروں میں نتائج میں تاخیر کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن اپنی فتح سے صرف 6 الیکٹورل ووٹ کی دوری پر ہیں، 6 الیکٹورل ووٹ ملنے کی صورت میں جوبائیڈن کامیابی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرلیں گے اور دنیا بھر کی نگاہیں 5 ریاستوں کے نتائج پر جمی ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق ریاست نواڈا، پنسلوینیا، ایری زونا، جارجیا اور شمالی کیرولینا سے انتخابی نتائج جاری نہ ہو سکے۔ نواڈا میں میل ان ووٹنگ موصول ہونے کا سلسلہ 10 نومبر تک جاری رہے گا جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کر کے نتیجے کا اعلان 12 نومبر تک متوقع ہے۔
دوسری جانب ریاست پنسلوینیا میں صدر ٹرمپ کی پارٹی نے ووٹوں کی گنتی کے عمل میں اپنے مبصرین شامل نہ کرنے پر احتجاج کیا جس پر گنتی کا عمل روک دیا گیا جس کے باعث نتائج میں تاخیر کا سامنا ہے۔
دوسری جانب ریاست ایری زونا اور جارجیا میں ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کل تک کر دیا جائے گا جب کہ شمالی کیرولینا سے حتمی نتائج آنے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی۔
انتخابات میں ڈالے گئے تقریباً 14 کروڑ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے جو خود امریکی تاریخ میں صدارتی انتخاب کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں ووٹروں کی مجموعی تعداد 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں، جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے تھے، 59.2 فیصد امریکی ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اب تک کی گنتی کے مطابق یہ شرح 60 فیصد کے قریب پہنچ رہی ہے اور بعض سیاسی مبصرین نے یہاں تک پیش گوئی کردی ہے کہ یہ شرح 65 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
جو بائیڈن اگرچہ اپنی فتح کےلیے بہت پرامید ہیں لیکن انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ جب تک مکمل نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اپنی فتح کا اعلان بھی نہیں کریں گے۔ جب کہ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے مختلف ریاستوں میں انتخابی عمل پر سنگین سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔
امریکا میں 59 ویں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ مکمل ہوجانے کے 2 دن بعد بھی ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے، 5 ریاستوں کے نتائج آنا باقی ہیں تاہم اب تک آنے والے نتائج کے مطابق 538 الیکٹورل ووٹس میں سے 77 سالہ ڈیمو کریٹ امیدوار جو بائیڈن 264 ووٹ لے کر ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ 214 ووٹ حاصل کرسکے ہیں تاہم مختلف شہروں میں نتائج میں تاخیر کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن اپنی فتح سے صرف 6 الیکٹورل ووٹ کی دوری پر ہیں، 6 الیکٹورل ووٹ ملنے کی صورت میں جوبائیڈن کامیابی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرلیں گے اور دنیا بھر کی نگاہیں 5 ریاستوں کے نتائج پر جمی ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق ریاست نواڈا، پنسلوینیا، ایری زونا، جارجیا اور شمالی کیرولینا سے انتخابی نتائج جاری نہ ہو سکے۔ نواڈا میں میل ان ووٹنگ موصول ہونے کا سلسلہ 10 نومبر تک جاری رہے گا جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کر کے نتیجے کا اعلان 12 نومبر تک متوقع ہے۔
دوسری جانب ریاست پنسلوینیا میں صدر ٹرمپ کی پارٹی نے ووٹوں کی گنتی کے عمل میں اپنے مبصرین شامل نہ کرنے پر احتجاج کیا جس پر گنتی کا عمل روک دیا گیا جس کے باعث نتائج میں تاخیر کا سامنا ہے۔
دوسری جانب ریاست ایری زونا اور جارجیا میں ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کل تک کر دیا جائے گا جب کہ شمالی کیرولینا سے حتمی نتائج آنے کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی۔
انتخابات میں ڈالے گئے تقریباً 14 کروڑ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے جو خود امریکی تاریخ میں صدارتی انتخاب کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں ووٹروں کی مجموعی تعداد 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں، جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بنے تھے، 59.2 فیصد امریکی ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اب تک کی گنتی کے مطابق یہ شرح 60 فیصد کے قریب پہنچ رہی ہے اور بعض سیاسی مبصرین نے یہاں تک پیش گوئی کردی ہے کہ یہ شرح 65 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
جو بائیڈن اگرچہ اپنی فتح کےلیے بہت پرامید ہیں لیکن انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ جب تک مکمل نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اپنی فتح کا اعلان بھی نہیں کریں گے۔ جب کہ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے مختلف ریاستوں میں انتخابی عمل پر سنگین سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔