ڈپریشن کے علاج میں ’’جادوئی کھمبی‘‘ دوسری دواؤں سے 400 فیصد بہتر ہے تحقیق
اس قسم کی کھمبیوں میں ’سائیلوسائیبن‘ نامی ایک مرکب پایا جاتا ہے جو ڈپریشن کے علاج میں مؤثر ثابت ہوا ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید ڈپریشن کے علاج میں ''سائیلوسائیبن'' نام کا ایک مرکب موجودہ دواؤں سے 400 فیصد زیادہ بہتر اور مؤثر پایا گیا ہے۔ یہ 'جادوئی کھمبی' یا 'سائیلوسائیبن مشروم' کہلانے والی کھمبیوں میں پایا جانے والا مخصوص مرکب ہے۔
ویسے تو سائیلوسائیبن (psilocybin) کا شمار منشیات میں کیا جاتا ہے لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران اسے مریضوں میں تشویش اور ڈپریشن جیسی کیفیات بھی ختم کرنے میں بھی مؤثر پایا گیا ہے، جس کے بعد اسے شدید ڈپریشن کے علاج میں باقاعدہ آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ ایسا شدید ڈپریشن جو کم از کم دو طرح کی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں دینے پر بھی ختم نہ ہو، اسے طبّی زبان میں ''ایم ڈی ڈی'' یعنی ''میجر ڈپریسیو ڈس آرڈر'' کہا جاتا ہے۔
اس کیفیت میں مریض شدید ترین مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بار بار خودکشی کی کوششیں بھی کرنے لگتا ہے۔ ڈپریشن کی یہ کیفیت بعض مرتبہ اتنی خطرناک ہو جاتی ہے کہ عام اینٹی ڈپریسنٹس (ڈپریشن کی عام دواؤں) سے بھی ختم نہیں ہوتی۔
جان ہاپکنز اسکول آف میڈیسن میں کی گئی مذکورہ تحقیق کا مقصد بھی ''ایم ڈی ڈی'' کے علاج میں سائیلوسائیبن کی اثر پذیری جانچنا تھا۔ اس ضمن میں پہلے مرحلے کی طبی آزمائشیں کامیاب ہوچکی تھیں، جس کے بعد ایف ڈی اے کی منظوری سے طبّی آزمائشوں کا مرحلہ شروع کیا گیا جس میں 27 مریض شریک کیے گئے جن میں ایم ڈی ڈی کی تمام علامات موجود تھیں۔
تمام مریضوں کو دو ہفتے کے فرق سے سائیلوسائیبن کی صرف دو خوراکیں دی گئیں جبکہ اس دوران کاؤنسلنگ یا اس جیسے دوسرے مشاورتی طریقوں سے ان میں ڈپریشن کی شدت کم کرنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔
مزید چار ہفتے گزر جانے کے بعد ان تمام مریضوں کا ایک بار پھر تفصیلی معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے 24 مریضوں نے تعاون کرتے ہوئے مطالعہ مکمل کیا تھا جبکہ 3 مریضوں نے درمیان ہی میں مطالعہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
ان 24 میں سے 17 مریضوں میں ایم ڈی ڈی کی علامات 50 فیصد کم ہوچکی تھیں اور وہ خود کو پہلے سے کہیں بہتر محسوس کررہے تھے۔
طبّی تحقیقی جریدے ''جاما سائکیاٹری'' کے تازہ شمارے میں اس مطالعے کی تفصیلات اور نتائج شائع ہوئے ہیں جو بہت امید افزا ہیں۔
اب سائیلوسائیبن سے ڈپریشن کے علاج کی تیسری اور حتمی طبّی آزمائش کی تیاری بھی شروع کردی گئی ہے۔ امید ہے کہ قانونی منظوری کے بعد تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں بھی اگلے سال کسی بھی وقت شروع کردی جائیں گی۔
اگر یہ دوا اِن آزمائشوں میں بھی اتنی ہی کارآمد اور مفید ثابت ہوئی تو امید ہے کہ 2024 تک یہ مارکیٹ میں دستیاب ہو جائے گی۔
ویسے تو سائیلوسائیبن (psilocybin) کا شمار منشیات میں کیا جاتا ہے لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران اسے مریضوں میں تشویش اور ڈپریشن جیسی کیفیات بھی ختم کرنے میں بھی مؤثر پایا گیا ہے، جس کے بعد اسے شدید ڈپریشن کے علاج میں باقاعدہ آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ ایسا شدید ڈپریشن جو کم از کم دو طرح کی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں دینے پر بھی ختم نہ ہو، اسے طبّی زبان میں ''ایم ڈی ڈی'' یعنی ''میجر ڈپریسیو ڈس آرڈر'' کہا جاتا ہے۔
اس کیفیت میں مریض شدید ترین مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ بار بار خودکشی کی کوششیں بھی کرنے لگتا ہے۔ ڈپریشن کی یہ کیفیت بعض مرتبہ اتنی خطرناک ہو جاتی ہے کہ عام اینٹی ڈپریسنٹس (ڈپریشن کی عام دواؤں) سے بھی ختم نہیں ہوتی۔
جان ہاپکنز اسکول آف میڈیسن میں کی گئی مذکورہ تحقیق کا مقصد بھی ''ایم ڈی ڈی'' کے علاج میں سائیلوسائیبن کی اثر پذیری جانچنا تھا۔ اس ضمن میں پہلے مرحلے کی طبی آزمائشیں کامیاب ہوچکی تھیں، جس کے بعد ایف ڈی اے کی منظوری سے طبّی آزمائشوں کا مرحلہ شروع کیا گیا جس میں 27 مریض شریک کیے گئے جن میں ایم ڈی ڈی کی تمام علامات موجود تھیں۔
تمام مریضوں کو دو ہفتے کے فرق سے سائیلوسائیبن کی صرف دو خوراکیں دی گئیں جبکہ اس دوران کاؤنسلنگ یا اس جیسے دوسرے مشاورتی طریقوں سے ان میں ڈپریشن کی شدت کم کرنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔
مزید چار ہفتے گزر جانے کے بعد ان تمام مریضوں کا ایک بار پھر تفصیلی معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے 24 مریضوں نے تعاون کرتے ہوئے مطالعہ مکمل کیا تھا جبکہ 3 مریضوں نے درمیان ہی میں مطالعہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
ان 24 میں سے 17 مریضوں میں ایم ڈی ڈی کی علامات 50 فیصد کم ہوچکی تھیں اور وہ خود کو پہلے سے کہیں بہتر محسوس کررہے تھے۔
طبّی تحقیقی جریدے ''جاما سائکیاٹری'' کے تازہ شمارے میں اس مطالعے کی تفصیلات اور نتائج شائع ہوئے ہیں جو بہت امید افزا ہیں۔
اب سائیلوسائیبن سے ڈپریشن کے علاج کی تیسری اور حتمی طبّی آزمائش کی تیاری بھی شروع کردی گئی ہے۔ امید ہے کہ قانونی منظوری کے بعد تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں بھی اگلے سال کسی بھی وقت شروع کردی جائیں گی۔
اگر یہ دوا اِن آزمائشوں میں بھی اتنی ہی کارآمد اور مفید ثابت ہوئی تو امید ہے کہ 2024 تک یہ مارکیٹ میں دستیاب ہو جائے گی۔