گلگت بلتستان کی معلق قسمت

اس خطے کی مجموعی بدقسمتی کا دور اٹھارہ سو چالیس سے شروع ہوا۔

میں جب بھی گلگت بلتستان جاتا ہوں، وہاں کا حسن دیکھ کر مبہوت رہ جاتا ہوں مگر دکھ درد سنتا ہوں تو ہمیشہ ایک ہی شعر یاد آتا ہے

اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے

جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

کہنے کو گلگت بلتستان پاکستانی سیاحت کا پوسٹر بوائے ہے۔ وزارتِ سیاحت کی مارکیٹنگ میں کے ٹو اور نانگا پربت سمیت دنیا کی آٹھ میں سے پانچ بلند چوٹیاں غیرملکی کوہ پیماؤں کو رجھانے کے کام آتی ہیں۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ قطبین سے باہر جتنے بھی بڑے گلیشیرز ہیں ان میں سے تین ( بیافو، بالتورو اور بتورا ) پاکستان(یعنی گلگت بلتستان)میں ہیں اور یہاں تبت کے بعد دنیا کی دوسری بلند سطح مرتفع دیوسائی بھی آپ کی منتظر ہے۔یہاں کی نیلگوں جھیلوں کا نظارہ نہ کیا تو پھر جنم لینے کے بعد کیا خاص کیا؟ اور دنیا میں سب سے اونچائی پر منعقد ہونے والا پولو کا سالانہ شندور میلہ اگر نہیں دیکھا تو پھر کیا دیکھا۔

یہاں کی اوسطاً بہتر فیصد شرح خواندگی کو پاکستانی تعلیمی ترقی کے شو کیس میں رکھا جاتا ہے۔اس حقیقت سے بھی بیرونی اور اندرونی سیاحوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دیکھیے صرف تہتر ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے میں بسنے والی لگ بھگ بیس لاکھ آبادی کتنے نسلی گروہوں پر مشتمل ہے۔یہاں آپ کو منگول، ترک، کشمیری، عرب، افغان ، چینی شجرہ مل سکتا ہے۔ آبادی بھلے کم ہے مگر یہ آبادی پانچ زبانیں بولتی ہے (بلتی، شنا، بروشسکی، کھوار، وخی ) اور پھر ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے اردو میں بات کرتی ہے۔

مگر جب اسی پوسٹر بوائے خطے میں آباد چالیس فیصد شیعہ ، تیس فیصد سنی ، چوبیس فیصد اسماعیلی اور چھ فیصد نور بخشی بیک آواز کہتے ہیں کہ بھائی آپ ہماری مارکیٹنگ بطور پاکستانی ضرور کرو مگر ہمیں عملاً بھی تو وہی حقوق دو جو باقی پاکستانی صوبوں اور شہریوں کو حاصل ہیں۔

اس پر ریاست اپریل انیس سو اڑتالیس کے بعد منظور ہونے والی اقوامِ متحدہ کی تمام قرار دادیں نکال کر یاد دلاتی ہے آپ کی خواہشیں اور حسرتیں سر آنکھوں پر مگر بدقسمتی سے آپ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں لہٰذا حتمی فیصلہ ہونے تک ہم آپ کو برابری کا رتبہ نہیں دے سکتے۔

البتہ عبوری طور پر وہ تمام حقوق دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو باقی پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں۔عین ممکن ہے کہ جلد ہی آپ کو عارضی صوبے کا مشروط درجہ بھی دے دیا جائے اور اس کی ممکنہ مستقل حیثیت کو جموں و کشمیر کے مجموعی حل سے نتھی بھی رکھا جائے۔مگر یہ معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں جتنا بتایا جاتا ہے۔


گلگت بلتستان میں انسانی آبادیاں دو ہزار قبل مسیح سے قائم ہیں۔یہ علاقے قبل از اسلام بودھ تہذیب کے زیرِ اثررہے۔ان پر تبتیوں نے حکومت کی، چینی شہنشاہیت کی آخری چوکی کے طور پر بھی محکوم رہے۔ یہاں اسلام ترخانوں کے دورِ حکومت میں یا پھر کشمیر کے راستے آنے والے سید علی ہمدانی کے توسط سے آیا۔

درمیان میں مقامی بادشاہتیں اور رجواڑے بھی ابھرتے ڈوبتے رہے۔ان میں سنہرا دور بلتستان کے مخپون خاندان کے علی شیر خان انچن کا زمانہ کہلاتا ہے۔ جب چترال سے لداخ تک ایک وسیع مقامی سلطنت وجود میں آئی جس کے مغلوں سمیت تمام ہمسایہ بادشاہتوں سے برابری کی سطح کے تعلقات تھے۔علی شیر انچن کے بعد اس کے ورثا ظاہر ہے اتنی بڑی سلطنت نہ سنبھال سکے اور یہ خطہ چھوٹے چھوٹے رجواڑوں میں بٹ گیا اور پھر بیرونیوں کا تر نوالا بنتا رہا۔

مگر اس خطے کی مجموعی بدقسمتی کا دور اٹھارہ سو چالیس سے شروع ہوا جب آخری مخپون راجہ احمد شاہ کو سکھ جرنیل زور آور سنگھ نے یرغمال بنا لیا۔ جب انگریزوں نے معاہدہ راولپنڈی کے تحت ریاست ِ کشمیر بشمول علاقائی ضمیہ جات جموں کے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کی تو بلتستان اور گلگت کا خطہ بھی اس مقبوضہ جہیز میں شامل ہو کر ڈوگروں کو مل گیا۔اس کے بعد کے اگلے اسی نوے برس اس خطے کا سری نگر اور جموں سے وہی تعلق رہا جو کسی نوآبادی کا غاصب کے ساتھ ہوتا ہے۔

چونکہ یہ علاقہ ستائیس اکتوبر انیس سو سینتالیس تک ریکارڈ کی حد تک اس کشمیر کا حصہ تھا جس کا آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کر لیا۔ لہٰذا جب اقوامِ متحدہ نے تنازعہِ کشمیر کی پوری دکان مسئلے کے حتمی حل تک قرار دادی تالا لگا کر سربمہر کر دی تو اصل سامان کے ساتھ گلگت بلتستان کا مقبوضہ علاقہ بھی سربمہر ہو گیا۔اب جب اس دکان میں بند اثاثوں کا تصفیہ ہو گا تب گلگت بلتستان کی بھی گلو خلاصی ہو گی۔

یہ توہے اس علاقے کی قسمت کی قانونی حیثیت۔ مگر عملاً پچھلے چوہتر برس میں بھارتی مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر و ملحقہ گلگت بلتستان میں اس قدر تبدیلیاں آ چکی ہیں کہ بہت کم امید ہے کہ اس تنازعے کا فیصلہ اقوامِ متحدہ ہی کرپائے گا۔پچھلے برس بھارت اپنے زیرِ قبضہ کشمیر کا تیاپانچہ کر کے اسے ضم کر چکا ہے۔

پاکستان اپنے زیرِ انتظام خطے کو بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ضم تو نہیں کرے گا۔البتہ عبوری انتظام کے ذریعے راستہ نکال کر عملاً اس خطے کو پاکستان کا حصہ بنا سکتا ہے۔اس عبوری انتظام میں محض اس جملے کا ہی تو اضافہ کرنا ہوگا کہ یہ انتظام اس دن معطل ہوجائے گا جب اقوامِ متحدہ پوری ریاست کا حتمی تصفیہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

اگرچہ مظفر آباد کی حکومت ریاست کشمیر کی عبوری جانشین ریاست کے دعویدار کے طور پر گلگت بلتستان کو ریاست کا تاریخی حصہ سمجھتی ہے۔آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے بھی انیس سو بانوے میں اس دعوی کی توثیق کرتے ہوئے مظفر آباد حکومت کو گلگت بلتستان کا انتظام سنبھالنے کا حکم دیا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمل درآمد روک دیا البتہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے آرڈر میں تسلیم کیا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے۔

آئینی موشگافیوں سے ہٹ کر اگر اس علاقے کی پچھلے چوہتر برس کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ اس عاشق کی تاریخ ہے جس کے ساتھ اس کے محبوب نے ہمیشہ کمتر درجے کا سلوک کیا۔اس بارے میں اگلے مضمون میں گفتگو رہے گی۔ گلگت بلتستان میں پندرہ نومبر کو مقامی اسمبلی کی چوبیس نشستوں پر ہونے والے انتخابات یہاں ہونے والی پچھلی کسی بھی انتخابی مشق سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ سی پیک منصوبے کے تحفظ کے لیے اس خطے کی آئینی حیثیت میں اہم تبدیلی رونما ہو سکتی ہے اور کون جانے اس کے اثرات کیا کیا برآمد ہوں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story