بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
ایک ادبی معرکے کی یادگار
شاہد احمد دہلوی کے جریدے 'ساقی' کا 1963ء کا مشہورِ زمانہ 'جوش نمبر' اُس وقت ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگیا تھا، لیکن اس کی بھرپور طلب اور اور مانگ کے باوجود انھوں نے اِسے دوبارہ شایع نہیں کیا تھا۔
اب راشد اشرف نے اپنے معروف سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت اس کی دوبارہ اشاعت کی ہے، 576 بڑے صفحات کی اس ادبی اور مجلد تاریخی دستاویز کی قیمت صرف 12 سو روپے رکھی گئی ہے۔ شمارے کے مطابق یہ 'جوش نمبر' شاہد احمد دہلوی کے لکھے گئے ایک مضمون پر جوش ملیح آبادی کے ایک جوابی مضمون کا ایک بھرپور ردعمل ہے، جس میں بقول شاہد دہلوی، جوش صاحب نے 'تجاوز' کیا تھا۔
شاہد احمد دہلوی کا مذکورہ مضمون 'افکار' کے 'جوش نمبر' میں غالباً 1961ء کے زمانے میں شایع ہوا، جس کے جوابی مضمون کے جواب میں شاہد احمد دہلوی نے اپنے رسالے 'ساقی' کے لیے 'جوش نمبر' کا اہتمام کیا اور اس کے لیے ہندوستان بھر سے جوش صاحب کے حوالے سے لکھا گیا تندو تیز اور ترش و تیکھا سارا مواد جمع کیا، یہی نہیں بلکہ سرورق کو بھی جوش صاحب کے ایک خاکے سے آراستہ کیا۔
جوش کی ہندوستان پسندی، وہاں ان کی خدمات اور سرگرمیاں، ان کے شعری لوازمات ومحاسن سے ان کے فرمودات اور ان کے خیالات اور فکر میں تبدیلی وغیرہ تک کا خوب تنقیدی جائزہ اس پرچے میں جمع ہو گیا ہے، جوش صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لیے ان پر تنقیدی نقطۂ نظر جاننے کے لیے اس دستاویز کا مطالعہ ضروری رہے گا۔
اُس زمانے میں جو ش صاحب اپنی خود نوشت 'یادوں کی برات' پر کام کر رہے تھے، اس کی بازگشت بھی یہاں سنائی دیتی ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ اس میں وہ کس طرح کے واقعات قلم بند کر رہے ہیں، یہی نہیں جوش کی کالم نگاری کے حوالے سے بھی کچھ تبصرے اس شمارے میں شامل ہیں، اُن پر کی جانے والی شاعری بھی اس رسالے کی زینت بنائی گئی ہے۔
حیدر آباد (دکن) میں جوش ملیح آبادی کی خدمات اور 1947ء کے بعد ہند سرکار کے لیے ان کی وفاداری اور پھر پاکستان چلے آنا اور پھر ان سے جُڑے ہوئے بہت سے تنازعات اور ان کے جداگانہ خیالات، الغرض اچھا خاصا مواد اس ضخیم 'نمبر' میں موجود ہے۔ یہ پورا شمارہ عکس لے کر شایع کیا گیا ہے، یہاں تک کے اس کے اشتہارات بھی جوں کے توں شامل کر دیے گئے ہیں، جو دل چسپی کا ایک علاحدہ باب ہیں، ناشر اٹلانٹس پبلی کیشنز (021-32472238) ہے۔
'وہ داغ دیے گئے ہیں، جس کا نہ کوئی مرہم ہو!'
جیسے خودنوشتوں میں صرف ذاتی مشاہدات اور تجربات ہی شامل نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات تاریخ کی جھلک اور اس زمانے کی چاپ بھی صاف سنائی دیتی ہے، بالکل ایسے ہی وُرُودِ مسعود (خود نوشت مسعود حسین خان) میں بھی واضح طور پر اپنے عہد کی صدا محسوس کی جا سکتی ہے۔
مسعود حسین خان ہندوستان کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے بھتیجے تھے، ان کا انتقال 2010ء میں ہوا۔ ان کے لکھے گئے اداریوں کا مجموعہ 'اردو کا المیہ' کے عنوان سے شایع ہو چکا ہے۔ یہ ان کی بپتا اور آنکھوں دیکھی کہانی، گویا ان کی حیات کا ایک 'سفرنامہ' ہے، جس میں 'جیون دن' کی شروعات سے اس کے عروج اور پھر زوال سے لے کر اس 'دن' کے ڈھلنے کا سفر قاری کو بہت کچھ سنا اور دکھا دیتا ہے۔ مسعود حسین خان کی خود نوشت میں ان کے گھرانے کے احوال کے ساتھ بٹوارے کے ہنگام میں پیش آنے والے معاملات بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اپنے پشتون پس منظر اور علی گڑھ کی تہذیب وروایات اور پھر ہندوستان میں ان کی سرگرمیاں اور ملازمتوں کے سلسلوں سے ان کے بیرون ہندوستان کے سفر تک کا سیر حاصل اور معلوماتی مواد اس کتاب میں جمع ہے۔ لسانیات اور اردو زبان سے قریبی لگائو اس تصنیف کا ایک واضح حصہ دکھائی دیتا ہے۔
اس کے ساتھ یہاں ان کی دل لگی کے قصے بھی ہیں، اور اس کے دل چسپ نشیب وفراز بھی۔۔۔ ایک جگہ 1857ء کی پرچھائیں مل جاتی ہے، تو دوسری جگہ 1947ء کا عکس بھی جھلملاتا ہے، کہ اُسے انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل میں 'جھیلا' ہے، جب خون آشامی اور خوف کے سائے اس یونیورسٹی تک دراز تھے، جسے محمد علی جناح اپنا 'اسلحہ خانہ' قرار دیتے تھے، بقول مصنف کے کہ 'وہ داغ دیے گئے ہیں، جس کا نہ کوئی مرہم ہو!' راشد اشرف کے زیرِِ اہتمام 'اٹلانٹس' پبلی کیشنز سے اشاعت پذیر 296 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
ماضی اور حال کے اکثریتی صوبوں کا ایک بیان
'مشرقی پاکستان اور پنجاب کا المیہ' سرورق پر لکھے ہوئے اس عنوان سے ہم بھی دھوکا کھا گئے کہ شاید اس میں مشرقی پاکستان کے سانحے کے تئیں پنجاب کے کسی خاص رویے کا جائزہ لیا گیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ دراصل دو الگ الگ کتابچے ایک جلد میں جمع کیے گئے ہیں۔
پھر جب سرورق کھول کر اندر 'ضمنی سرورق' دیکھتے ہیں، تو وہاں 'پنجاب کا المیہ' اور 'مشرقی پاکستان کا المیہ' جدا جدا لکھا ہوا ہے، جب کہ سرورق پر پڑھنے سے یک سر الگ بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں کتابیں اگرچہ یک سر جدا ہیں، لیکن مندرجات کے حساب سے ہمارے ملک کے ملتے جلتے المیے ہی بیان کرتی ہیں اور یہ صرف 'سانحۂ مشرقی پاکستان' اور فقط صوبہ پنجاب کی ہی نہیں، بلکہ اس میں بائیں بازو کے دانش وَر ہونے کے ناتے اسحٰق محمد نے اپنا جو موقف بیان کیا ہے، وہ تاریخ کے عدالت میں جمع تو ہونا چاہیے، چاہے مستقبل کا مورخ اس پر جو بھی فیصلہ صادر کرے۔
اس لیے بطور طالب علم ہم اسے ایک اہم تاریخی حوالہ اور دستاویز قرار دیں گے۔ 'پنجاب کا المیہ' 115 صفحات تک دراز ہے، جس میں ابتدائی 56 صفحات نو تبصرہ جاتی مضامین نے سنبھالے ہوئے ہیں، جب کہ 'المیہ مشرقی پاکستان' اس کے بعد کے 77 صفحات تک دراز ہے پھر کچھ اردو اور پنجابی کی شاعری بھی شامل کی گئی ہے، یوں کل صفحات 224 ہو جاتے ہیں، 'کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی' ملتان (فون نمبر 03042296123 اور 03336656334) سے شایع شدہ اس کتاب پر قیمت درج نہیں کی گئی ہے۔
سنسنی خیز اور دل چسپ 'حیوانی معلومات'
شکاریات کی ناقابل فراموش داستانیں (حصہ دوم) کو راشد اشرف نے 'زندہ کتابیں' کے سلسلے کے تحت مرتب کیا ہے۔ اس میں شامل مضامین میں قاری کو نہ صرف سنسنی اور تحیر کے بہت سے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں، بلکہ اس کتاب میں جانوروں کی تیز اور حساس ترین 'حسوں' سے متعلق بھی کافی دل چسپ معلومات شامل ہیں، جیسا کہ وہ کسی جانور یا انسان کے چلنے کی آواز میں بھی تمیز کر سکتے ہیں، نیز انسان کے کپڑوں کی رگڑ کی آواز تک کو پہچان لیتے ہیں، کی حس شامل ہے، وہ بہ آسانی کسی جانور کے چلنے کے انداز کو بھی پہچان لیتے ہیں۔
اسی طرح جنگلوں اور بیابانوں میں جانورں کا تعاقب کرنے والے بھی اُن کا سراغ پانے کے لیے اُن کے پنجوں کے نشانوں کے اتنے ماہر ہو جاتے ہیں کہ وہ نہ صرف ان کے نئے اور پرانے ہونے کا تعین کر لیتے ہیں، بلکہ یہ تک پہچان لیتے ہیں کہ اس وقت جانور کے چلنے کی حالت کیا تھی، آیا وہ جانور دوڑا یا آرام سے گزر گیا، زخمی تھا یا نہیں، نیز مختلف قسم کی زمینی کیفیت اور جانور کی عادات واطوار کے سمبندھ سے پھر کتنی مہارت حاصل ہو جاتی ہے، وہ سب مندرجات ہمیں خاصی دل چسپی کا باعث لگے۔
کینتھ اینڈرسن، جم کوربٹ، خان صاحب جمشید بٹ، جے ای کیرنگٹن، میجر جنرل وارڈ، مسعود خان رام پوری، ڈاکٹر کیسل، نسیم خان، نعمت علی خان، کرنل وڈ ودیگر کی 33 داستانیں ترجمہ کی گئی ہیں، بہت سی داستانوں کے اختتام پر اصل ماخذ، اور سن کا اہتمام بھی موجود ہے، جب کہ مترجم کا ذکر تو موجود ہے ہی۔ فضلی بک سپر مارکیٹ (0336-2633887) سے شایع شدہ اس 560 صفحات کی ضخیم مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
حالات حاضرہ کی پُرمزاح چٹکیاں
طنز ومزاح لکھنا واقعی کوئی مذاق نہیں ہے، آج کل بہت سے طنز ومزاح لکھنے کا دعویٰ کرنے والے مایوس کر دیتے ہیں، لیکن جب ہم امجد محمود چشتی کی تصنیف 'سیاست کا جغرافیہ' کی ورق گردانی کرتے ہیں تو مختصراً مختصراً روزمرہ کے موضوعات پر ایسی چُٹکیاں دکھائی دیتی ہیں کہ کبھی ابن انشا یاد آجاتے ہیں اور کہیں ڈاکٹر یونس بٹ کی طرح لفظوں کے ذرا سے الٹ پھیر سے پید کیے گئے مزاح کی جانب دھیان چلا جاتا ہے۔ کتاب کے مندرجات کا جائزہ لیجیے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے کس طرح اپنے قلم سے حالات حاضرہ کو گدگدایا ہے۔
جیسے ''حکمرانی کی 'رے بیز'، امراض بل، بیرونی دوروں کی مرگی، ویڈیو کریسی، عروسی سیاست اور شرح خواندگی، ٹرین ہیمبرج، ایکسٹیشن کی ٹینشن، کما، لیا، لارالائی، لیاہور، متنفر گڑھ، عسکری وال، وغیرہ۔'' 216 صفحاتی کتاب میں 82 مضامین شامل کیے گئے ہیں۔
اس میں بہت ہلکے پھلکے پیرائے میں مزاح کے ساتھ طنز کی کاٹ بھی برابر موجود ہے اور ساتھ اس میں پنہاں سنجیدہ پیغام بھی۔۔۔ ساتھ ساتھ ہمیں اس کے 'لیکھک' کی زبان پر عبور کا بھی خوب احساس ہوتا ہے، کیوں کہ کتاب میں صرف عنوان دل چسپ نہیں، بلکہ ان کے مندرجات میں اشعار میں بھی معنی خیز تحریف پڑھنے والوں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔ پھکڑ پن کے بہ جائے علمیت اور تاریخ بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے، جیسے قومی زبان کے نفاذ کے حوالے سے وہ اظہار خیال کرتے ہوئے یہ اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ 'جناب' کے ساتھ 'صاحب' نہیں لکھنا چاہیے، بلکہ ان دنوں میں سے ایک لکھنا بھی کافی رہتا ہے۔ ماروا بکس (0300-4020955) سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 500روپے ہے
'تکون کی چوتھی جہت' کی اشاعتِ ثانی
مدیر 'اجرا' اور 'ایکسپریس' کے سابق انٹرویو نگار اقبال خورشید کے ناول ''تکون کی چوتھی جہت'' کی اشاعتِ ثانی ہوگئی ہے۔۔۔ جس میں حسب سابق دو ناول یک جا ہیں، پہلے کے عنوان کو تو کتاب کا نام کر دیا گیا ہے، جب کہ دوسرا ناول 'گرد کا طوفان' ہے، جو کراچی کی ہی کسی گلی میں جنم لینے والی ایک کہانی ہے۔۔۔ سینئر افسانہ نگار اور نقاد، ناصر شمسی کے مطابق، گرد کا طوفان قصہ ہے نئے سانچوں میں ڈھلنے کے لیے تلملانے والی زندگی کا۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال خورشید نے انتہائی مشتعل ماحول کے قصے کو اشتعال سے پاک رکھا۔
یہ ناولٹ اپنے ماجرے میں محبت اور انسانی رواداری کی بنیاد پر قاری میں وہ بھروسا قائم کرنے میں کام یاب نظر آتا ہے، جو سچائی اور حقیقت نگاری کی کڑی دھوپ میں سائے کی طرح پناہ کا باعث بنتا ہے۔ سینئر صحافی اور کالم نگار، عامر ہاشم خاکوانی 'گرد کا طوفان' کو جدید کراچی کی پوری تاریخ قرار دیتے ہیں۔ صحافی، فکشن نگار اور مترجم، سید کاشف رضا 'گرد کا طوفان' کو کراچی کے پچھلے 30 سال کے حالات کی ادبی سطح پر تفہیم کی اولین کوششوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔
ہمارے خیال میں کراچی کے 30 برس کے عرصے میں ایسی بہتیری اور کئی رخی کہانیاں اور المیے ہمارے 'اقبال بھائی' کے فسوں خیز قلم کی منتظر ہیں، دیکھیے کہ وہ کب اپنے قارئین کے لیے ان کہانیوں کو بھی اپنے تخلیق کے منچ پر سجاتے ہیں۔ کتاب کے سرورق کو بھی نیا روپ دیا گیا ہے، اشاعت رواں پبلی کیشنز (03212312907) کے تحت عمل میں آئی ہے۔
ایک اہم خانوادے کے قلم سے لکھے خاکے
خاکوں کی اس کتاب کے مصنف پروفیسر مظہر محمود شیرانی، ممتاز شاعر اختر شیرانی کے فرزند ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ ان خاکوں کی اشاعت سے قبل 12جون 2020ء ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اگرچہ انھوں نے اس کتاب کی پروف خوانی کر لی تھی، تاہم ان کے تعارفی مضمون کا انتظار تھا، راشد اشرف کو اگر ان کی زندگی میں اس کے نہ آنے کا قلق ہے، تو دوسری طرف یہ اطمینان بھی کہ کم ازکم وہ اسے شایع تو کرا سکے۔ اس تصنیف میں ہر شخصیت کے حساب سے علاحدہ علاحدہ عنوانات استوار کیے گئے ہیں۔
جیسے فرد فرید ( ایس ایم اکرام)، عمیم الاحسان (جسٹس ایس اے رحمٰن)، پیر صاحب (سید حسام الدین راشدی)، دستان سرائے عہد گل (سید منظور الحسن برکاتی)، اسم باسمی (ابوالامتیاز ع س مسلم) اور تہذیب مجسم (حکیم سید محمود احمد برکاتی) وغیرہ سمیت کل گیارہ خاکے اس کتاب کی زینت ہیں۔ ان خاکوں میں اپنی راہ ورسم اور ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بیان تو ہے ہی، ساتھ ہی بہت سے پورے پورے خطوط بھی اس کے مندرجات کا حصہ ہیں۔ کہیں بہت سی نجی گفتگو اور کسی تیسرے فرد سے متعلق چست کیے ہوئے جملے بھی بلا کم وکاست قارئین تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ 'اٹلانٹس' سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 480 روپے ہے۔
ایک بے ساختہ اور دردمند سخن وَر کی کُلیات
'کلیات محسن بھوپالی' کی تقریب رونمائی میں محمود شام کے الفاظ ہمارے ذہن میں گونجتے ہیں کہ جن شعرا کو اپنی اولاد سے امید نہیں ہوتی، تو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی ''کلیات'' شایع کر دیتے ہیں، لیکن محسن بھوپالی کی اولاد نے یقیناً فرماں برداری اور اپنے والد سے لگائو کی امید پوری کی اور ان کی وفات کے بعد ان کی کلیات کو شایع کرانے کا اہتمام کیا ہے۔
1950ء کی دہائی سے شروع ہونے والی شاعری کا یہ سفر اکیسویں صدی تک جاری رہا۔ محسن بھوپالی کی اس کلیات میں ان کے 11 مجموعوں کے ساتھ ان کا غیر مطبوعہ کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔ 'منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے' جیسے حقیقت بیاں اور ضرب المثل بن جانے والے مصرع کے خالق کے کلام کی ورق گردانی کیجیے، تو پائیے کہ سخن وَری کی نگری میں انھوں نے اپنے فن کی ایک الگ ہی دنیا بسائی اور اپنے شعر وسخن کا حق کچھ اس ڈھب پر نبھایا کہ ان کی شناخت واقعی پھر صرف انھی کی پہچان کہلائی۔۔۔ کہیں وہ رئیس امروہوی کی طرح نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں، تو کہیں ان میں حبیب جالب جیسی بلند للکار بھی سنائی دیتی ہیں، پھر ہجرت نے ان کی شاعری کو دو آتشہ کر دیا تھا کہ شاید مجموعی طور پر پھر وہ اس رنگ کے ہی زیادہ اسیر دکھائی دیے۔
بالخصوص شہر کراچی کے باسیوں کو جو اپنے لیے صدائیں کم پڑ جانے کا شکوہ ہوتا ہے، وہ اس کلیات کے بعد ختم نہ سہی، لیکن کم ضرور ہو جاتا ہے کہ ایک شاعر تاعمر ان کا مقدمہ لڑتا رہا، ان کے ہر گھائو پر صدائے احتجاج بلند کرتا رہا اور اہل حَکم کو جھنجھوڑتا رہا اور کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بازو سے پکڑ کر ایسے ایسے درد کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ ایسا بلند پایہ شاعر بھی تھا، جسے اپنے گردوپیش سے بھی اس قدر لگائو رہا، سماج کے لیے 'قابل قبول' ہونے اور زیادہ سے زیادہ فروخت کے ریکارڈ بنانے کا کوئی خیال بھی دل میں لائے بغیر وقت کے سارے ناپسندیدہ سچ کہتا ہی چلا گیا۔
اس فکر سے بے پروا ہوکر کہ اسے کون کیا اور کیسا سمجھتا ہے۔ جَبر کے اس زمانے میں ایسی بے ساختگی اور سچا دردِ دل ناپید دکھائی دیتا ہے۔ اس کلیات میں ملکی تاریخ کی بازگشت ہے، تو کراچی اور 'کراچی والوں' کے بے شمار المیے بھی خوب نمایاں ہیں کہ ہمیں وہ اس شہرِِ ناپُرساں کے واقعی 'محسن' دکھائی دینے لگتے ہیں۔ قطعات، نظمانے، نظمیں، غزلیں اور ہائیکو سے آراستہ اس 1360 صفحاتی کُلیات کی اشاعت کا اہتمام فرید پبلشر (03452360378) نے کیا ہے، قیمت دو ہزار روپے ہے۔
شاہد احمد دہلوی کے جریدے 'ساقی' کا 1963ء کا مشہورِ زمانہ 'جوش نمبر' اُس وقت ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگیا تھا، لیکن اس کی بھرپور طلب اور اور مانگ کے باوجود انھوں نے اِسے دوبارہ شایع نہیں کیا تھا۔
اب راشد اشرف نے اپنے معروف سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت اس کی دوبارہ اشاعت کی ہے، 576 بڑے صفحات کی اس ادبی اور مجلد تاریخی دستاویز کی قیمت صرف 12 سو روپے رکھی گئی ہے۔ شمارے کے مطابق یہ 'جوش نمبر' شاہد احمد دہلوی کے لکھے گئے ایک مضمون پر جوش ملیح آبادی کے ایک جوابی مضمون کا ایک بھرپور ردعمل ہے، جس میں بقول شاہد دہلوی، جوش صاحب نے 'تجاوز' کیا تھا۔
شاہد احمد دہلوی کا مذکورہ مضمون 'افکار' کے 'جوش نمبر' میں غالباً 1961ء کے زمانے میں شایع ہوا، جس کے جوابی مضمون کے جواب میں شاہد احمد دہلوی نے اپنے رسالے 'ساقی' کے لیے 'جوش نمبر' کا اہتمام کیا اور اس کے لیے ہندوستان بھر سے جوش صاحب کے حوالے سے لکھا گیا تندو تیز اور ترش و تیکھا سارا مواد جمع کیا، یہی نہیں بلکہ سرورق کو بھی جوش صاحب کے ایک خاکے سے آراستہ کیا۔
جوش کی ہندوستان پسندی، وہاں ان کی خدمات اور سرگرمیاں، ان کے شعری لوازمات ومحاسن سے ان کے فرمودات اور ان کے خیالات اور فکر میں تبدیلی وغیرہ تک کا خوب تنقیدی جائزہ اس پرچے میں جمع ہو گیا ہے، جوش صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لیے ان پر تنقیدی نقطۂ نظر جاننے کے لیے اس دستاویز کا مطالعہ ضروری رہے گا۔
اُس زمانے میں جو ش صاحب اپنی خود نوشت 'یادوں کی برات' پر کام کر رہے تھے، اس کی بازگشت بھی یہاں سنائی دیتی ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ اس میں وہ کس طرح کے واقعات قلم بند کر رہے ہیں، یہی نہیں جوش کی کالم نگاری کے حوالے سے بھی کچھ تبصرے اس شمارے میں شامل ہیں، اُن پر کی جانے والی شاعری بھی اس رسالے کی زینت بنائی گئی ہے۔
حیدر آباد (دکن) میں جوش ملیح آبادی کی خدمات اور 1947ء کے بعد ہند سرکار کے لیے ان کی وفاداری اور پھر پاکستان چلے آنا اور پھر ان سے جُڑے ہوئے بہت سے تنازعات اور ان کے جداگانہ خیالات، الغرض اچھا خاصا مواد اس ضخیم 'نمبر' میں موجود ہے۔ یہ پورا شمارہ عکس لے کر شایع کیا گیا ہے، یہاں تک کے اس کے اشتہارات بھی جوں کے توں شامل کر دیے گئے ہیں، جو دل چسپی کا ایک علاحدہ باب ہیں، ناشر اٹلانٹس پبلی کیشنز (021-32472238) ہے۔
'وہ داغ دیے گئے ہیں، جس کا نہ کوئی مرہم ہو!'
جیسے خودنوشتوں میں صرف ذاتی مشاہدات اور تجربات ہی شامل نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات تاریخ کی جھلک اور اس زمانے کی چاپ بھی صاف سنائی دیتی ہے، بالکل ایسے ہی وُرُودِ مسعود (خود نوشت مسعود حسین خان) میں بھی واضح طور پر اپنے عہد کی صدا محسوس کی جا سکتی ہے۔
مسعود حسین خان ہندوستان کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے بھتیجے تھے، ان کا انتقال 2010ء میں ہوا۔ ان کے لکھے گئے اداریوں کا مجموعہ 'اردو کا المیہ' کے عنوان سے شایع ہو چکا ہے۔ یہ ان کی بپتا اور آنکھوں دیکھی کہانی، گویا ان کی حیات کا ایک 'سفرنامہ' ہے، جس میں 'جیون دن' کی شروعات سے اس کے عروج اور پھر زوال سے لے کر اس 'دن' کے ڈھلنے کا سفر قاری کو بہت کچھ سنا اور دکھا دیتا ہے۔ مسعود حسین خان کی خود نوشت میں ان کے گھرانے کے احوال کے ساتھ بٹوارے کے ہنگام میں پیش آنے والے معاملات بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اپنے پشتون پس منظر اور علی گڑھ کی تہذیب وروایات اور پھر ہندوستان میں ان کی سرگرمیاں اور ملازمتوں کے سلسلوں سے ان کے بیرون ہندوستان کے سفر تک کا سیر حاصل اور معلوماتی مواد اس کتاب میں جمع ہے۔ لسانیات اور اردو زبان سے قریبی لگائو اس تصنیف کا ایک واضح حصہ دکھائی دیتا ہے۔
اس کے ساتھ یہاں ان کی دل لگی کے قصے بھی ہیں، اور اس کے دل چسپ نشیب وفراز بھی۔۔۔ ایک جگہ 1857ء کی پرچھائیں مل جاتی ہے، تو دوسری جگہ 1947ء کا عکس بھی جھلملاتا ہے، کہ اُسے انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل میں 'جھیلا' ہے، جب خون آشامی اور خوف کے سائے اس یونیورسٹی تک دراز تھے، جسے محمد علی جناح اپنا 'اسلحہ خانہ' قرار دیتے تھے، بقول مصنف کے کہ 'وہ داغ دیے گئے ہیں، جس کا نہ کوئی مرہم ہو!' راشد اشرف کے زیرِِ اہتمام 'اٹلانٹس' پبلی کیشنز سے اشاعت پذیر 296 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
ماضی اور حال کے اکثریتی صوبوں کا ایک بیان
'مشرقی پاکستان اور پنجاب کا المیہ' سرورق پر لکھے ہوئے اس عنوان سے ہم بھی دھوکا کھا گئے کہ شاید اس میں مشرقی پاکستان کے سانحے کے تئیں پنجاب کے کسی خاص رویے کا جائزہ لیا گیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ دراصل دو الگ الگ کتابچے ایک جلد میں جمع کیے گئے ہیں۔
پھر جب سرورق کھول کر اندر 'ضمنی سرورق' دیکھتے ہیں، تو وہاں 'پنجاب کا المیہ' اور 'مشرقی پاکستان کا المیہ' جدا جدا لکھا ہوا ہے، جب کہ سرورق پر پڑھنے سے یک سر الگ بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں کتابیں اگرچہ یک سر جدا ہیں، لیکن مندرجات کے حساب سے ہمارے ملک کے ملتے جلتے المیے ہی بیان کرتی ہیں اور یہ صرف 'سانحۂ مشرقی پاکستان' اور فقط صوبہ پنجاب کی ہی نہیں، بلکہ اس میں بائیں بازو کے دانش وَر ہونے کے ناتے اسحٰق محمد نے اپنا جو موقف بیان کیا ہے، وہ تاریخ کے عدالت میں جمع تو ہونا چاہیے، چاہے مستقبل کا مورخ اس پر جو بھی فیصلہ صادر کرے۔
اس لیے بطور طالب علم ہم اسے ایک اہم تاریخی حوالہ اور دستاویز قرار دیں گے۔ 'پنجاب کا المیہ' 115 صفحات تک دراز ہے، جس میں ابتدائی 56 صفحات نو تبصرہ جاتی مضامین نے سنبھالے ہوئے ہیں، جب کہ 'المیہ مشرقی پاکستان' اس کے بعد کے 77 صفحات تک دراز ہے پھر کچھ اردو اور پنجابی کی شاعری بھی شامل کی گئی ہے، یوں کل صفحات 224 ہو جاتے ہیں، 'کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی' ملتان (فون نمبر 03042296123 اور 03336656334) سے شایع شدہ اس کتاب پر قیمت درج نہیں کی گئی ہے۔
سنسنی خیز اور دل چسپ 'حیوانی معلومات'
شکاریات کی ناقابل فراموش داستانیں (حصہ دوم) کو راشد اشرف نے 'زندہ کتابیں' کے سلسلے کے تحت مرتب کیا ہے۔ اس میں شامل مضامین میں قاری کو نہ صرف سنسنی اور تحیر کے بہت سے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں، بلکہ اس کتاب میں جانوروں کی تیز اور حساس ترین 'حسوں' سے متعلق بھی کافی دل چسپ معلومات شامل ہیں، جیسا کہ وہ کسی جانور یا انسان کے چلنے کی آواز میں بھی تمیز کر سکتے ہیں، نیز انسان کے کپڑوں کی رگڑ کی آواز تک کو پہچان لیتے ہیں، کی حس شامل ہے، وہ بہ آسانی کسی جانور کے چلنے کے انداز کو بھی پہچان لیتے ہیں۔
اسی طرح جنگلوں اور بیابانوں میں جانورں کا تعاقب کرنے والے بھی اُن کا سراغ پانے کے لیے اُن کے پنجوں کے نشانوں کے اتنے ماہر ہو جاتے ہیں کہ وہ نہ صرف ان کے نئے اور پرانے ہونے کا تعین کر لیتے ہیں، بلکہ یہ تک پہچان لیتے ہیں کہ اس وقت جانور کے چلنے کی حالت کیا تھی، آیا وہ جانور دوڑا یا آرام سے گزر گیا، زخمی تھا یا نہیں، نیز مختلف قسم کی زمینی کیفیت اور جانور کی عادات واطوار کے سمبندھ سے پھر کتنی مہارت حاصل ہو جاتی ہے، وہ سب مندرجات ہمیں خاصی دل چسپی کا باعث لگے۔
کینتھ اینڈرسن، جم کوربٹ، خان صاحب جمشید بٹ، جے ای کیرنگٹن، میجر جنرل وارڈ، مسعود خان رام پوری، ڈاکٹر کیسل، نسیم خان، نعمت علی خان، کرنل وڈ ودیگر کی 33 داستانیں ترجمہ کی گئی ہیں، بہت سی داستانوں کے اختتام پر اصل ماخذ، اور سن کا اہتمام بھی موجود ہے، جب کہ مترجم کا ذکر تو موجود ہے ہی۔ فضلی بک سپر مارکیٹ (0336-2633887) سے شایع شدہ اس 560 صفحات کی ضخیم مجلد کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔
حالات حاضرہ کی پُرمزاح چٹکیاں
طنز ومزاح لکھنا واقعی کوئی مذاق نہیں ہے، آج کل بہت سے طنز ومزاح لکھنے کا دعویٰ کرنے والے مایوس کر دیتے ہیں، لیکن جب ہم امجد محمود چشتی کی تصنیف 'سیاست کا جغرافیہ' کی ورق گردانی کرتے ہیں تو مختصراً مختصراً روزمرہ کے موضوعات پر ایسی چُٹکیاں دکھائی دیتی ہیں کہ کبھی ابن انشا یاد آجاتے ہیں اور کہیں ڈاکٹر یونس بٹ کی طرح لفظوں کے ذرا سے الٹ پھیر سے پید کیے گئے مزاح کی جانب دھیان چلا جاتا ہے۔ کتاب کے مندرجات کا جائزہ لیجیے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے کس طرح اپنے قلم سے حالات حاضرہ کو گدگدایا ہے۔
جیسے ''حکمرانی کی 'رے بیز'، امراض بل، بیرونی دوروں کی مرگی، ویڈیو کریسی، عروسی سیاست اور شرح خواندگی، ٹرین ہیمبرج، ایکسٹیشن کی ٹینشن، کما، لیا، لارالائی، لیاہور، متنفر گڑھ، عسکری وال، وغیرہ۔'' 216 صفحاتی کتاب میں 82 مضامین شامل کیے گئے ہیں۔
اس میں بہت ہلکے پھلکے پیرائے میں مزاح کے ساتھ طنز کی کاٹ بھی برابر موجود ہے اور ساتھ اس میں پنہاں سنجیدہ پیغام بھی۔۔۔ ساتھ ساتھ ہمیں اس کے 'لیکھک' کی زبان پر عبور کا بھی خوب احساس ہوتا ہے، کیوں کہ کتاب میں صرف عنوان دل چسپ نہیں، بلکہ ان کے مندرجات میں اشعار میں بھی معنی خیز تحریف پڑھنے والوں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔ پھکڑ پن کے بہ جائے علمیت اور تاریخ بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے، جیسے قومی زبان کے نفاذ کے حوالے سے وہ اظہار خیال کرتے ہوئے یہ اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ 'جناب' کے ساتھ 'صاحب' نہیں لکھنا چاہیے، بلکہ ان دنوں میں سے ایک لکھنا بھی کافی رہتا ہے۔ ماروا بکس (0300-4020955) سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 500روپے ہے
'تکون کی چوتھی جہت' کی اشاعتِ ثانی
مدیر 'اجرا' اور 'ایکسپریس' کے سابق انٹرویو نگار اقبال خورشید کے ناول ''تکون کی چوتھی جہت'' کی اشاعتِ ثانی ہوگئی ہے۔۔۔ جس میں حسب سابق دو ناول یک جا ہیں، پہلے کے عنوان کو تو کتاب کا نام کر دیا گیا ہے، جب کہ دوسرا ناول 'گرد کا طوفان' ہے، جو کراچی کی ہی کسی گلی میں جنم لینے والی ایک کہانی ہے۔۔۔ سینئر افسانہ نگار اور نقاد، ناصر شمسی کے مطابق، گرد کا طوفان قصہ ہے نئے سانچوں میں ڈھلنے کے لیے تلملانے والی زندگی کا۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال خورشید نے انتہائی مشتعل ماحول کے قصے کو اشتعال سے پاک رکھا۔
یہ ناولٹ اپنے ماجرے میں محبت اور انسانی رواداری کی بنیاد پر قاری میں وہ بھروسا قائم کرنے میں کام یاب نظر آتا ہے، جو سچائی اور حقیقت نگاری کی کڑی دھوپ میں سائے کی طرح پناہ کا باعث بنتا ہے۔ سینئر صحافی اور کالم نگار، عامر ہاشم خاکوانی 'گرد کا طوفان' کو جدید کراچی کی پوری تاریخ قرار دیتے ہیں۔ صحافی، فکشن نگار اور مترجم، سید کاشف رضا 'گرد کا طوفان' کو کراچی کے پچھلے 30 سال کے حالات کی ادبی سطح پر تفہیم کی اولین کوششوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔
ہمارے خیال میں کراچی کے 30 برس کے عرصے میں ایسی بہتیری اور کئی رخی کہانیاں اور المیے ہمارے 'اقبال بھائی' کے فسوں خیز قلم کی منتظر ہیں، دیکھیے کہ وہ کب اپنے قارئین کے لیے ان کہانیوں کو بھی اپنے تخلیق کے منچ پر سجاتے ہیں۔ کتاب کے سرورق کو بھی نیا روپ دیا گیا ہے، اشاعت رواں پبلی کیشنز (03212312907) کے تحت عمل میں آئی ہے۔
ایک اہم خانوادے کے قلم سے لکھے خاکے
خاکوں کی اس کتاب کے مصنف پروفیسر مظہر محمود شیرانی، ممتاز شاعر اختر شیرانی کے فرزند ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ ان خاکوں کی اشاعت سے قبل 12جون 2020ء ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اگرچہ انھوں نے اس کتاب کی پروف خوانی کر لی تھی، تاہم ان کے تعارفی مضمون کا انتظار تھا، راشد اشرف کو اگر ان کی زندگی میں اس کے نہ آنے کا قلق ہے، تو دوسری طرف یہ اطمینان بھی کہ کم ازکم وہ اسے شایع تو کرا سکے۔ اس تصنیف میں ہر شخصیت کے حساب سے علاحدہ علاحدہ عنوانات استوار کیے گئے ہیں۔
جیسے فرد فرید ( ایس ایم اکرام)، عمیم الاحسان (جسٹس ایس اے رحمٰن)، پیر صاحب (سید حسام الدین راشدی)، دستان سرائے عہد گل (سید منظور الحسن برکاتی)، اسم باسمی (ابوالامتیاز ع س مسلم) اور تہذیب مجسم (حکیم سید محمود احمد برکاتی) وغیرہ سمیت کل گیارہ خاکے اس کتاب کی زینت ہیں۔ ان خاکوں میں اپنی راہ ورسم اور ساتھ پیش آنے والے واقعات کا بیان تو ہے ہی، ساتھ ہی بہت سے پورے پورے خطوط بھی اس کے مندرجات کا حصہ ہیں۔ کہیں بہت سی نجی گفتگو اور کسی تیسرے فرد سے متعلق چست کیے ہوئے جملے بھی بلا کم وکاست قارئین تک پہنچا دیے گئے ہیں۔ 'اٹلانٹس' سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 480 روپے ہے۔
ایک بے ساختہ اور دردمند سخن وَر کی کُلیات
'کلیات محسن بھوپالی' کی تقریب رونمائی میں محمود شام کے الفاظ ہمارے ذہن میں گونجتے ہیں کہ جن شعرا کو اپنی اولاد سے امید نہیں ہوتی، تو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی ''کلیات'' شایع کر دیتے ہیں، لیکن محسن بھوپالی کی اولاد نے یقیناً فرماں برداری اور اپنے والد سے لگائو کی امید پوری کی اور ان کی وفات کے بعد ان کی کلیات کو شایع کرانے کا اہتمام کیا ہے۔
1950ء کی دہائی سے شروع ہونے والی شاعری کا یہ سفر اکیسویں صدی تک جاری رہا۔ محسن بھوپالی کی اس کلیات میں ان کے 11 مجموعوں کے ساتھ ان کا غیر مطبوعہ کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔ 'منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے' جیسے حقیقت بیاں اور ضرب المثل بن جانے والے مصرع کے خالق کے کلام کی ورق گردانی کیجیے، تو پائیے کہ سخن وَری کی نگری میں انھوں نے اپنے فن کی ایک الگ ہی دنیا بسائی اور اپنے شعر وسخن کا حق کچھ اس ڈھب پر نبھایا کہ ان کی شناخت واقعی پھر صرف انھی کی پہچان کہلائی۔۔۔ کہیں وہ رئیس امروہوی کی طرح نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں، تو کہیں ان میں حبیب جالب جیسی بلند للکار بھی سنائی دیتی ہیں، پھر ہجرت نے ان کی شاعری کو دو آتشہ کر دیا تھا کہ شاید مجموعی طور پر پھر وہ اس رنگ کے ہی زیادہ اسیر دکھائی دیے۔
بالخصوص شہر کراچی کے باسیوں کو جو اپنے لیے صدائیں کم پڑ جانے کا شکوہ ہوتا ہے، وہ اس کلیات کے بعد ختم نہ سہی، لیکن کم ضرور ہو جاتا ہے کہ ایک شاعر تاعمر ان کا مقدمہ لڑتا رہا، ان کے ہر گھائو پر صدائے احتجاج بلند کرتا رہا اور اہل حَکم کو جھنجھوڑتا رہا اور کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بازو سے پکڑ کر ایسے ایسے درد کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ ایسا بلند پایہ شاعر بھی تھا، جسے اپنے گردوپیش سے بھی اس قدر لگائو رہا، سماج کے لیے 'قابل قبول' ہونے اور زیادہ سے زیادہ فروخت کے ریکارڈ بنانے کا کوئی خیال بھی دل میں لائے بغیر وقت کے سارے ناپسندیدہ سچ کہتا ہی چلا گیا۔
اس فکر سے بے پروا ہوکر کہ اسے کون کیا اور کیسا سمجھتا ہے۔ جَبر کے اس زمانے میں ایسی بے ساختگی اور سچا دردِ دل ناپید دکھائی دیتا ہے۔ اس کلیات میں ملکی تاریخ کی بازگشت ہے، تو کراچی اور 'کراچی والوں' کے بے شمار المیے بھی خوب نمایاں ہیں کہ ہمیں وہ اس شہرِِ ناپُرساں کے واقعی 'محسن' دکھائی دینے لگتے ہیں۔ قطعات، نظمانے، نظمیں، غزلیں اور ہائیکو سے آراستہ اس 1360 صفحاتی کُلیات کی اشاعت کا اہتمام فرید پبلشر (03452360378) نے کیا ہے، قیمت دو ہزار روپے ہے۔