چشتی مجاہدکرکٹ کمنٹری کا روشن باب
ایک شاندار اور پروقار کیریئر کے 50 سال مکمل
کرکٹ کی بات ہو تو کمنٹری کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس شعبے میں منفرد انداز اور بہترین لب ولہجہ کے مالک چشتی مجاہد نے اپنے شاندار اور پروقار کیریئر کے 50 سال مکمل کرلئے ہیں۔
کھیل کی لمحہ با لمحہ تصویر کشی کرنے والے شاندار الفاظ کے استعمال کی وجہ سے جداگانہ حیثیت رکھنے والے کمنٹیٹر نے نہ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی ہے، بہترین یادداشت کی بدولت کرکٹ اور کرکٹرز کے حوالے سے معلومات کا خزانہ پاس ہونے کی وجہ سے کسی کیلئے ان کے رواں تبصرے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوتا تھا۔
اعلی تعلیم یافتہ چشتی مجاہد اپنے منفرد انداز کی بدولت نہ دنیا بھر میں خاص مقبولیت اور اعلی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ روایتی مہذبانہ گفتگو اور اخلاقی روایات کے امین ہونے کہ وجہ سے اپنا حلقہ اثر بھی بنایا، ان میں کھیلوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ عام زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں،اظہار گفتگو میں کمال رکھنے والے چشتی مجاہد کمنٹری کے فرائض ادا کرنے کے دوران دنیا بھر کا سفر کر چکے ہیں۔
انہوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ہر ملک کی سرزمین پر جاکر کمنٹری کرنے کا اعزاز بھی حاصل کر رکھا ہے وہ حس مزاح کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے ساتھ فہم اور تدبر میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے،جاذب نظر اور پرکشش شخصیت کے حامل چشتی مجاہد کی انگریزی زبان میں کمنٹری کرکٹرز کے بھی دل جیت لیتی تھی۔
17 جنوری 1944کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونے والے چشتی مجاہد قیام پاکستان کے بعد لاکھوں افراد کی طرح اپنے اہل خانہ کے ہمراہ نئی مملکت خداداد پاکستان پہنچے، کراچی آمد کے بعد ٹرینٹی اور گلستان شاہ عبداللطیف جیسے معروف انگریزی تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،1962 میں کراچی گرامر اسکول سے اے لیول کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے1964میں نیشنل کالج سے گریجویشن مکمل کی۔
انہوں نے انگلینڈ کی معروف کیمبرج یونیورسٹی سے1970میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی،چشتی مجاہدبتاتے ہیں کہ کہ بھارت میں پاکستان ہائی کمیشن میں ملازم ان کے والد نے 1952میں بھارت کے خلاف دہلی میں کھیلا جانے والے پہلا ٹیسٹ دیکھنے کے لیے نصف یوم کی اجازت دی جبکہ انہوں نے لکھنؤ میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ بھی دیکھا، اس وقت ان کی عمر 8 برس تھی،اس کے بعد چشتی مجاہد کو کرکٹ کا شوق پیدا ہوا،چشتی مجاہد کہتے ہیں کہ جانتا تھا مجھ میں اچھا کرکٹر بننے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں لیکن کھیل سے شغف مجھے کمنٹری کی جانب لے گیا۔
1967 میں 23 برس کی عمر میں چشتی مجاہد نے پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلینڈ کی انڈر 25 کرکٹ ٹیم اور ساؤتھ زون کے درمیان حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم پر منعقدہ سہ روزہ کرکٹ میچ میں کمنٹری سے اپنے سفر کا آغاز کیا،اس میچ میں ایم سی سی کی قیادت مائیک بریرلی کر رہے تھے جبکہ میزبان سائیڈ کے کپتان لٹل ماسٹر حنیف محمد تھے،چشتی مجاہد نے ریڈیو اور ٹیلی ویڑن پر پہلی مرتبہ ٹیسٹ کرکٹ میچ کی کمنٹری 1969 میں کراچی میں انگلینڈ کے خلاف مقابلے میں کی۔
چشتی مجاہد نے 1978 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تاریخی ٹیسٹ سیریز میں شاندار کمنٹری کرکے لوگوں کے دل موہ لیے، بعدازاں 1982میں پاکستان کا دورہ کرنے والی سری لنکا کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے ناموں کے درست تلفظ کی ادائیگی نے سامعین اور ناظرین کی نظروں میں چشتی مجاہد کا مقام بڑھایا،خود سری لنکن بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے، عمر قریشی اور افتخار احمد جیسے انگریزی کے معروف اور پختہ کمنٹیٹرز کی موجودگی میں چشتی مجاہد نے اپنا منفرد مقام بنایا جو بڑی کامیابی تھی۔
35 برس تک معروف کاروباری و تجارتی اداروں کے ساتھ منسلک رہنے کے بعد ریٹائرمنٹ پانے والے چشتی مجاہد نے آئی بی اے میں جزوقتی خدمات انجام دینے کے بعد 2002 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داری بھی نبھائی،اس دوران انہوں نے قومی کرکٹ کے فروغ اور استحکام کے لیے گراں قدر کاوشیں بھی کیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ٹیسٹ سیریز کے دوبارہ انعقاد کے لیے عملی جدوجہد کی جس کا نتیجہ ان کو کامیابی کی صورت میں ملا اور 2004 میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کیا۔
چشتی مجاہد ٹی وی پر انگریزی خبریں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسکواش کی بھی کمنٹری کرتے رہے ہیں،کرکٹ کمنٹری میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں76 سالہ چشتی مجاہد کو بین الاقوامی اور قومی سطح پر لاتعداد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے 2003 میں ان کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا۔
چشتی مجاہد کی اہلیہ بھی کیمبرج یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری کرنے کا اعزاز رکھتی ہیں جبکہ ان کی دونوں صاحبزادیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، چشتی مجاہد پاکستان کے دو نامور کرکٹرز ظہیر عباس اور جاوید میانداد سے کافی متاثر ہیں جبکہ اسلم اظہر کو وہ اپنے استاد کا درجہ دیتے ہیں،اردو کمنٹری کے ناقص معیار سے نالاں چشتی مجاہد مطالعے کا بہت شوق رکھتے ہیں ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی خواہش نہیں جسے پورا کرنے کی حسرت ہو،باقی ماندہ زندگی یاد اللہ اور نیک کاموں میں صرف کرنا چاہتے ہیں۔
کھیل کی لمحہ با لمحہ تصویر کشی کرنے والے شاندار الفاظ کے استعمال کی وجہ سے جداگانہ حیثیت رکھنے والے کمنٹیٹر نے نہ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی ہے، بہترین یادداشت کی بدولت کرکٹ اور کرکٹرز کے حوالے سے معلومات کا خزانہ پاس ہونے کی وجہ سے کسی کیلئے ان کے رواں تبصرے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوتا تھا۔
اعلی تعلیم یافتہ چشتی مجاہد اپنے منفرد انداز کی بدولت نہ دنیا بھر میں خاص مقبولیت اور اعلی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ روایتی مہذبانہ گفتگو اور اخلاقی روایات کے امین ہونے کہ وجہ سے اپنا حلقہ اثر بھی بنایا، ان میں کھیلوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ عام زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں،اظہار گفتگو میں کمال رکھنے والے چشتی مجاہد کمنٹری کے فرائض ادا کرنے کے دوران دنیا بھر کا سفر کر چکے ہیں۔
انہوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ہر ملک کی سرزمین پر جاکر کمنٹری کرنے کا اعزاز بھی حاصل کر رکھا ہے وہ حس مزاح کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے ساتھ فہم اور تدبر میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے،جاذب نظر اور پرکشش شخصیت کے حامل چشتی مجاہد کی انگریزی زبان میں کمنٹری کرکٹرز کے بھی دل جیت لیتی تھی۔
17 جنوری 1944کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونے والے چشتی مجاہد قیام پاکستان کے بعد لاکھوں افراد کی طرح اپنے اہل خانہ کے ہمراہ نئی مملکت خداداد پاکستان پہنچے، کراچی آمد کے بعد ٹرینٹی اور گلستان شاہ عبداللطیف جیسے معروف انگریزی تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،1962 میں کراچی گرامر اسکول سے اے لیول کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے1964میں نیشنل کالج سے گریجویشن مکمل کی۔
انہوں نے انگلینڈ کی معروف کیمبرج یونیورسٹی سے1970میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی،چشتی مجاہدبتاتے ہیں کہ کہ بھارت میں پاکستان ہائی کمیشن میں ملازم ان کے والد نے 1952میں بھارت کے خلاف دہلی میں کھیلا جانے والے پہلا ٹیسٹ دیکھنے کے لیے نصف یوم کی اجازت دی جبکہ انہوں نے لکھنؤ میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ میچ بھی دیکھا، اس وقت ان کی عمر 8 برس تھی،اس کے بعد چشتی مجاہد کو کرکٹ کا شوق پیدا ہوا،چشتی مجاہد کہتے ہیں کہ جانتا تھا مجھ میں اچھا کرکٹر بننے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں لیکن کھیل سے شغف مجھے کمنٹری کی جانب لے گیا۔
1967 میں 23 برس کی عمر میں چشتی مجاہد نے پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلینڈ کی انڈر 25 کرکٹ ٹیم اور ساؤتھ زون کے درمیان حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم پر منعقدہ سہ روزہ کرکٹ میچ میں کمنٹری سے اپنے سفر کا آغاز کیا،اس میچ میں ایم سی سی کی قیادت مائیک بریرلی کر رہے تھے جبکہ میزبان سائیڈ کے کپتان لٹل ماسٹر حنیف محمد تھے،چشتی مجاہد نے ریڈیو اور ٹیلی ویڑن پر پہلی مرتبہ ٹیسٹ کرکٹ میچ کی کمنٹری 1969 میں کراچی میں انگلینڈ کے خلاف مقابلے میں کی۔
چشتی مجاہد نے 1978 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تاریخی ٹیسٹ سیریز میں شاندار کمنٹری کرکے لوگوں کے دل موہ لیے، بعدازاں 1982میں پاکستان کا دورہ کرنے والی سری لنکا کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے ناموں کے درست تلفظ کی ادائیگی نے سامعین اور ناظرین کی نظروں میں چشتی مجاہد کا مقام بڑھایا،خود سری لنکن بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے، عمر قریشی اور افتخار احمد جیسے انگریزی کے معروف اور پختہ کمنٹیٹرز کی موجودگی میں چشتی مجاہد نے اپنا منفرد مقام بنایا جو بڑی کامیابی تھی۔
35 برس تک معروف کاروباری و تجارتی اداروں کے ساتھ منسلک رہنے کے بعد ریٹائرمنٹ پانے والے چشتی مجاہد نے آئی بی اے میں جزوقتی خدمات انجام دینے کے بعد 2002 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داری بھی نبھائی،اس دوران انہوں نے قومی کرکٹ کے فروغ اور استحکام کے لیے گراں قدر کاوشیں بھی کیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ٹیسٹ سیریز کے دوبارہ انعقاد کے لیے عملی جدوجہد کی جس کا نتیجہ ان کو کامیابی کی صورت میں ملا اور 2004 میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کیا۔
چشتی مجاہد ٹی وی پر انگریزی خبریں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسکواش کی بھی کمنٹری کرتے رہے ہیں،کرکٹ کمنٹری میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں76 سالہ چشتی مجاہد کو بین الاقوامی اور قومی سطح پر لاتعداد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، ان کو حکومت پاکستان کی جانب سے 2003 میں ان کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا۔
چشتی مجاہد کی اہلیہ بھی کیمبرج یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری کرنے کا اعزاز رکھتی ہیں جبکہ ان کی دونوں صاحبزادیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، چشتی مجاہد پاکستان کے دو نامور کرکٹرز ظہیر عباس اور جاوید میانداد سے کافی متاثر ہیں جبکہ اسلم اظہر کو وہ اپنے استاد کا درجہ دیتے ہیں،اردو کمنٹری کے ناقص معیار سے نالاں چشتی مجاہد مطالعے کا بہت شوق رکھتے ہیں ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی خواہش نہیں جسے پورا کرنے کی حسرت ہو،باقی ماندہ زندگی یاد اللہ اور نیک کاموں میں صرف کرنا چاہتے ہیں۔