اے ٹیل آف ٹو سٹیز
کراچی پاکستان کاامیرترین،مہذب ترین اورتعلیم یافتہ شہرہے، اس میں شک بھی نہیں ہے لیکن اس مکتوب نے کچھ اورہی تصویردکھادی۔
خاصے دنوں سے سوچ رہا تھا کہ چند حروف ناصحانہ لکھوں مگر سوچا اندھوں کے شہر میں آئینوں کا خریدار کہاں ہو گا؟ سوچوں کے اس بھنور میں کئی روز گزر گئے۔ پھر کراچی کے ایک چاک گریباں ''دوست'' کا مکتوب ملا۔
میرا یقین رہا ہے کہ کراچی پاکستان کا امیر ترین، مہذب ترین اور تعلیم یافتہ شہر ہے، اس میں شک بھی نہیں ہے لیکن اس مکتوب نے کچھ اور ہی تصویر دکھا دی۔ مجھے بے ساختہ چارلس ڈکنز کا مشہور ناول ''اے ٹیل آف ٹوسٹیز'' یاد آ گیا۔ میں یہ مکتوب اپنے قارئین اور چاہنے والوں کے لیے ناگزیر ایڈیٹنگ کے ساتھ تقریباً من وعن شایع کر رہا ہوں۔ ہمیں زندگی کا تاریک پہلو بھی دیکھنا چاہیے! مکتوب کا آغاز کچھ یوں ہے:
''غالبؔ نے کہا ہے:
درد دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
میں ایک ایسی بستی کا ذکر کروںگا جس کے مکین عروس البلاد کراچی کے قدیم ترین باسی ہیں، وہ مائی کولاچی کے وارث ہیں، جب پاکستان بنا تو لیاری مچھیروں کی ایک غریب لیکن پرامن بستی تھی، اس بستی میں قدیم سیاہ فاموں کو پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی مختار رانا نے لیاری کے بلیک ڈائمنڈز کہا تھا، وہ کالے ہیروں کی اس کان میں کئی بار لیاری آئے، ان کی خواہش تھی کہ حکمراں لیاری کی سماجی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی خزانوں کو محفوظ رکھیں۔
یہاں اسکول،کالج اور جامعات قائم ہوں، تفریح کی سہولتیں دستیاب ہوں، وہ لیاری میں فٹ بالروں کو اس وقت برازیلین ٹیم کا عکس کہتے تھے۔ لیاری اور فٹبال لازم وملزوم تھے۔ وہ برازیلین سیاہ فام فٹبالر ''پیلے'' دیوتا سے کم نہ سمجھتے تھے، لیاری نے نامور کھلاڑی پیدا کیے، علی نواز، غلام عباس، محمد عمر، تراب علی، موسی غازی، عابد، شفو، شدو، رسول بخش مومن، فیض محمد، شفیع، دین محمد، قادر بخش پتلا، یوسف جونئیر، یوسف سینئر، گل محمد لاڑی، صالح محمد جنگو، استاد داد محمد، عبدالرحمان، سموں گول کیپر، محمد حسین، تقی، تاجل، روشو، اکبر، محمود، ایوب ٹماں، لالو گینڈا سمیت درجنوں کھلاڑی تھے جو لیاری میں فٹبال کے کھیل سے شائقین کے دلوں کو گرماتے تھے، ان میں مولابخش گوٹائی، علی نواز، غفور مجنا، جبار، غفار، اسمعیل اور ابراہیم (کیماڑی والے) کے کھیل کی انفردایت لاثانی تھی، محمد عمر قیام پاکستان سے قبل کلکتہ محمڈن میں سینٹر فارورڈ کی پوزیشن میں کھیلتے تھے، ان کے دلدادہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو، فلم اسٹار دلیپ کمار بھی تھے، نہرو اور دلیپ کمار نے محمد عمر کو انڈیا میں ہی رہنے کی اپیل کی مگر عمر سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے۔
علی نواز جیسا فٹبالر شاید ہی پاکستان میں جنم لے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان نامور فٹبالروں کو کبھی بھی اسپورٹس کے کرتادھرتائوں نے مقامی اور نیشنل کھیلوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں دی۔ مجھے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 73 برسوں میں پاکستان نے فیفا ورلڈ کپ میں لیاری سے کوئی ٹیم تیار کرنے کے لیے کوشش اور خواہش کا مخلصانہ اظہار نہیں کیا، صرف کرکٹ کے لیے فنڈز اور ٹیلنٹ ہنٹ اسکیمیں لانچ کیں اور پی سی ایل چیمپئن شپس منعقد کیں۔
فٹبالروں سے ایک غیر مرئی تعصب برتا گیا، مثال کے طور پر تراب علی پاکستان فٹبال کے کپتان تھے، انھوں نے بیرون ملک پاکستان کی نمایندگی کی، پاکستان کا بلیزر پہنا، مگر جب ریٹائر ہوئے تو بے بی ٹیکسی چلائی، وہ بھی کرکٹ کے اردو کمنٹیٹر منیر حسین نے ان کی حالت زار کا میڈیا میں چرچا کیا تو وہ ٹیکسی چلانے کے قابل ہوئے، اسی طرح غفور مجنا نے عمر کے آخری ایام گمنامی اور بیماری میں گزارے، کئی فٹبالر تو نان شبینہ کو محتاج رہے، بعض غربت اور تنگدستی کے باعث دنیا سے رخصت ہوئے۔
ثقافت اور باکسنگ کے شعبے میں بھی لیاری کو نظر انداز کیا گیا، لیاری کا معروف گلوکار محمد جاڑک کو ساگودانہ فروخت کر کے بیوی بچوں کا پیٹ پالنا پڑا، استاد بلاول بیلجیم ایشیا کے بہت بڑے بینجو نواز تھے، ان دنوں ریڈیو پاکستان میں بینجو پر پابندی تھی، لیکن زیڈ اے بخاری کو جب سعید گیلانی نے کہا کہ اس سیاہ فام کے بینجو کی دھن آپ کو مسحور کر دے گی تو اسے سن کر انھیں ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی اجازت ملی، آج بلاول بیلجیم کو کوئی یاد نہیں کرتا۔
سائیں سلیمان شاہ نے لیاری میں دو عشرے گزارے۔ یہیں انھوں نے پہلی بار ''اسان کو عشق مریندا ڈھولن ول ول قتل کریندا'' سنایا، وہ بھی حکومت اورکلچر کے ٹھیکیداروں کی بے مروتی کا شکار ہوئے۔ مشہور اولمپین باکسر حسین شاہ کو اسپورٹس بیوروکریسی نے وطن بدر کر دیا۔ ایک باکسر ملنگ بلوچ نے تو رنگ میں فائٹ شروع ہونے سے پہلے گلوز اتارکر اعلان کیا کہ میں نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا ،کل سے بھوکا ہوں کیسے لڑونگا، اس پر ایک شور بلند ہوا۔
ایک بار پی ٹی وی نے لیاری کے عوام کی زندگی، ان کی ثقافت، کھیل اور سماجی مسائل پر ایک لانگ پلے لکھوایا ، پھر موضوع کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ایک سیریل ''بیگانے لوگ'' لکھوائی، بعد میں ان سے کہا گیا کہ کہ ایک چھوٹے سے قسط وار ڈرامہ کی فرمائش کی تھی، آپ لوگ تو ''بن حر'' کی کہانی لے کر آگئے، یوں سیریل داخل دفتر کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیاہ فام مرکزی کردار نہیں چلے گا۔
لیاری کے لوگوں کی سیاسی کہانی بھی محرومیوں کی ایک دلگداز داستان ہے، لیاری سے ذوالفقار علی بھٹو ، بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو ، بلاول بھٹو ، محمود ہارون، یوسف ہارون، سعید ہارون، میر غوث بخش بزنجو، باقی بلوچ، ستار گبول، غلام محمد چشی، شاہ تراب الحق، علی احمد سومرو، سید امداد حسین، سید صالح شاہ شیر شاہ۔ جی ایم سید، مولانا بھاشانی، ہررنگ اور ہر نظریے کے سیاستدانوں اور دانش وروں نے انسان دوستی کا رشتہ جوڑا۔ لال بخش رند کو کون بھلا سکتا ہے۔
لیاری کا سب سے بڑا کریڈٹ جمہوریت سے بے لوث کمٹمنٹ ہے، یہاں کے لوگ بھٹو خاندان سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں، بلاول کو اگر یہاں شکست ہوئی تو اس میں لیاری والوں کا کوئی قصور نہیں، پی پی نے لیاری کے ساتھ در حقیقت وہی سلوک کیا جو کراچی کی بیوروکریسی اور حکمراں طبقہ کا روایتی طرز عمل تھا، لیاری کو آمروں، لسانیت کے علمبرداروں، بوری بند لاشیں اور بھتہ خوری اور سیاسی مافیوں نے زخم زخم کیا، لیاری کو منشیات کے زہر کی نذر کرنے والے وہ انٹچ ایبلز تھے جن کے دست قدرت نے محنت کشوں اور جمہوریت پسندوں کی اس پرامن بستی کو گینگ وار کا جہنم عطا کیا، لیاری میں سیاسی شعور پاکستان کے دیگر شہروں سے بہت زیادہ ہے، لیکن سسٹم پر قابض بالادست طاقتوں نے لیاری کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیے، لیاری کو تعلیم، صحت، رہائش، پانی، بجلی، تفریح اور روزگار کی سہولتوں سے ہر دور میں محروم رکھا گیا۔
اکثر شہر کراچی کے لوگ اہل لیاری سے پوچھتے ہیں کہ ''لیاری کو پیپلز پارٹی نے کیا دیا'' اس کا جواب لیاری کے کسی بھی محنت کش سے پوچھئے تو وہ یہی کہے گا کہ لیاری والوں کو جو بھی ملا، وہ پیپلز پارٹی نے دیا، دوسری سیاسی جماعتوں اور کراچی کی اشرافیہ کے لیے لیاری نو گو ایریا رہا۔ اس بستی کے لوگوں سے در حقیقت وہی سلوک ہوا جو امریکیوں نے ریڈ انڈینز کے ساتھ روا رکھا۔
اس فرق کو سامنے رکھئے کہ غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور احساس محرومی جرائم کو جنم دیتی ہے لیکن لیاری کے عوام نے غربت وافلاس کے باوجود ہتھیار نہیں اٹھائے، نفرت ، اور قتل وغارت سے کراچی کا چہرہ داغدار نہیں کیا، بھتہ خوری اور لاشوں کی سیاست نہیں کی، بہیمانہ جرائم کے مظاہرے لیاری میں نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود اس کے مکینوں کے ایثار کی کوئی قدر نہیں کی گئی۔ ان کے سیاسی شعور کو کچلا گیا اور اسے ایک مقبوضہ کالونی بناکر رکھا گیا۔''
میرے مہربانو! یہ ہے روشنی کے پس منظر میں سیاہ رات کی کہانی، میں تو اس پر پریشان ہوں نہ حیراں۔ بس ساحر لدھیانوی کے ایک شعر پر بات ختم کرتا ہوں:
سر مقتل جنھیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے
میرا یقین رہا ہے کہ کراچی پاکستان کا امیر ترین، مہذب ترین اور تعلیم یافتہ شہر ہے، اس میں شک بھی نہیں ہے لیکن اس مکتوب نے کچھ اور ہی تصویر دکھا دی۔ مجھے بے ساختہ چارلس ڈکنز کا مشہور ناول ''اے ٹیل آف ٹوسٹیز'' یاد آ گیا۔ میں یہ مکتوب اپنے قارئین اور چاہنے والوں کے لیے ناگزیر ایڈیٹنگ کے ساتھ تقریباً من وعن شایع کر رہا ہوں۔ ہمیں زندگی کا تاریک پہلو بھی دیکھنا چاہیے! مکتوب کا آغاز کچھ یوں ہے:
''غالبؔ نے کہا ہے:
درد دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
میں ایک ایسی بستی کا ذکر کروںگا جس کے مکین عروس البلاد کراچی کے قدیم ترین باسی ہیں، وہ مائی کولاچی کے وارث ہیں، جب پاکستان بنا تو لیاری مچھیروں کی ایک غریب لیکن پرامن بستی تھی، اس بستی میں قدیم سیاہ فاموں کو پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی مختار رانا نے لیاری کے بلیک ڈائمنڈز کہا تھا، وہ کالے ہیروں کی اس کان میں کئی بار لیاری آئے، ان کی خواہش تھی کہ حکمراں لیاری کی سماجی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی خزانوں کو محفوظ رکھیں۔
یہاں اسکول،کالج اور جامعات قائم ہوں، تفریح کی سہولتیں دستیاب ہوں، وہ لیاری میں فٹ بالروں کو اس وقت برازیلین ٹیم کا عکس کہتے تھے۔ لیاری اور فٹبال لازم وملزوم تھے۔ وہ برازیلین سیاہ فام فٹبالر ''پیلے'' دیوتا سے کم نہ سمجھتے تھے، لیاری نے نامور کھلاڑی پیدا کیے، علی نواز، غلام عباس، محمد عمر، تراب علی، موسی غازی، عابد، شفو، شدو، رسول بخش مومن، فیض محمد، شفیع، دین محمد، قادر بخش پتلا، یوسف جونئیر، یوسف سینئر، گل محمد لاڑی، صالح محمد جنگو، استاد داد محمد، عبدالرحمان، سموں گول کیپر، محمد حسین، تقی، تاجل، روشو، اکبر، محمود، ایوب ٹماں، لالو گینڈا سمیت درجنوں کھلاڑی تھے جو لیاری میں فٹبال کے کھیل سے شائقین کے دلوں کو گرماتے تھے، ان میں مولابخش گوٹائی، علی نواز، غفور مجنا، جبار، غفار، اسمعیل اور ابراہیم (کیماڑی والے) کے کھیل کی انفردایت لاثانی تھی، محمد عمر قیام پاکستان سے قبل کلکتہ محمڈن میں سینٹر فارورڈ کی پوزیشن میں کھیلتے تھے، ان کے دلدادہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو، فلم اسٹار دلیپ کمار بھی تھے، نہرو اور دلیپ کمار نے محمد عمر کو انڈیا میں ہی رہنے کی اپیل کی مگر عمر سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے۔
علی نواز جیسا فٹبالر شاید ہی پاکستان میں جنم لے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان نامور فٹبالروں کو کبھی بھی اسپورٹس کے کرتادھرتائوں نے مقامی اور نیشنل کھیلوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں دی۔ مجھے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 73 برسوں میں پاکستان نے فیفا ورلڈ کپ میں لیاری سے کوئی ٹیم تیار کرنے کے لیے کوشش اور خواہش کا مخلصانہ اظہار نہیں کیا، صرف کرکٹ کے لیے فنڈز اور ٹیلنٹ ہنٹ اسکیمیں لانچ کیں اور پی سی ایل چیمپئن شپس منعقد کیں۔
فٹبالروں سے ایک غیر مرئی تعصب برتا گیا، مثال کے طور پر تراب علی پاکستان فٹبال کے کپتان تھے، انھوں نے بیرون ملک پاکستان کی نمایندگی کی، پاکستان کا بلیزر پہنا، مگر جب ریٹائر ہوئے تو بے بی ٹیکسی چلائی، وہ بھی کرکٹ کے اردو کمنٹیٹر منیر حسین نے ان کی حالت زار کا میڈیا میں چرچا کیا تو وہ ٹیکسی چلانے کے قابل ہوئے، اسی طرح غفور مجنا نے عمر کے آخری ایام گمنامی اور بیماری میں گزارے، کئی فٹبالر تو نان شبینہ کو محتاج رہے، بعض غربت اور تنگدستی کے باعث دنیا سے رخصت ہوئے۔
ثقافت اور باکسنگ کے شعبے میں بھی لیاری کو نظر انداز کیا گیا، لیاری کا معروف گلوکار محمد جاڑک کو ساگودانہ فروخت کر کے بیوی بچوں کا پیٹ پالنا پڑا، استاد بلاول بیلجیم ایشیا کے بہت بڑے بینجو نواز تھے، ان دنوں ریڈیو پاکستان میں بینجو پر پابندی تھی، لیکن زیڈ اے بخاری کو جب سعید گیلانی نے کہا کہ اس سیاہ فام کے بینجو کی دھن آپ کو مسحور کر دے گی تو اسے سن کر انھیں ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی اجازت ملی، آج بلاول بیلجیم کو کوئی یاد نہیں کرتا۔
سائیں سلیمان شاہ نے لیاری میں دو عشرے گزارے۔ یہیں انھوں نے پہلی بار ''اسان کو عشق مریندا ڈھولن ول ول قتل کریندا'' سنایا، وہ بھی حکومت اورکلچر کے ٹھیکیداروں کی بے مروتی کا شکار ہوئے۔ مشہور اولمپین باکسر حسین شاہ کو اسپورٹس بیوروکریسی نے وطن بدر کر دیا۔ ایک باکسر ملنگ بلوچ نے تو رنگ میں فائٹ شروع ہونے سے پہلے گلوز اتارکر اعلان کیا کہ میں نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا ،کل سے بھوکا ہوں کیسے لڑونگا، اس پر ایک شور بلند ہوا۔
ایک بار پی ٹی وی نے لیاری کے عوام کی زندگی، ان کی ثقافت، کھیل اور سماجی مسائل پر ایک لانگ پلے لکھوایا ، پھر موضوع کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ایک سیریل ''بیگانے لوگ'' لکھوائی، بعد میں ان سے کہا گیا کہ کہ ایک چھوٹے سے قسط وار ڈرامہ کی فرمائش کی تھی، آپ لوگ تو ''بن حر'' کی کہانی لے کر آگئے، یوں سیریل داخل دفتر کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ سیاہ فام مرکزی کردار نہیں چلے گا۔
لیاری کے لوگوں کی سیاسی کہانی بھی محرومیوں کی ایک دلگداز داستان ہے، لیاری سے ذوالفقار علی بھٹو ، بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو ، بلاول بھٹو ، محمود ہارون، یوسف ہارون، سعید ہارون، میر غوث بخش بزنجو، باقی بلوچ، ستار گبول، غلام محمد چشی، شاہ تراب الحق، علی احمد سومرو، سید امداد حسین، سید صالح شاہ شیر شاہ۔ جی ایم سید، مولانا بھاشانی، ہررنگ اور ہر نظریے کے سیاستدانوں اور دانش وروں نے انسان دوستی کا رشتہ جوڑا۔ لال بخش رند کو کون بھلا سکتا ہے۔
لیاری کا سب سے بڑا کریڈٹ جمہوریت سے بے لوث کمٹمنٹ ہے، یہاں کے لوگ بھٹو خاندان سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں، بلاول کو اگر یہاں شکست ہوئی تو اس میں لیاری والوں کا کوئی قصور نہیں، پی پی نے لیاری کے ساتھ در حقیقت وہی سلوک کیا جو کراچی کی بیوروکریسی اور حکمراں طبقہ کا روایتی طرز عمل تھا، لیاری کو آمروں، لسانیت کے علمبرداروں، بوری بند لاشیں اور بھتہ خوری اور سیاسی مافیوں نے زخم زخم کیا، لیاری کو منشیات کے زہر کی نذر کرنے والے وہ انٹچ ایبلز تھے جن کے دست قدرت نے محنت کشوں اور جمہوریت پسندوں کی اس پرامن بستی کو گینگ وار کا جہنم عطا کیا، لیاری میں سیاسی شعور پاکستان کے دیگر شہروں سے بہت زیادہ ہے، لیکن سسٹم پر قابض بالادست طاقتوں نے لیاری کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیے، لیاری کو تعلیم، صحت، رہائش، پانی، بجلی، تفریح اور روزگار کی سہولتوں سے ہر دور میں محروم رکھا گیا۔
اکثر شہر کراچی کے لوگ اہل لیاری سے پوچھتے ہیں کہ ''لیاری کو پیپلز پارٹی نے کیا دیا'' اس کا جواب لیاری کے کسی بھی محنت کش سے پوچھئے تو وہ یہی کہے گا کہ لیاری والوں کو جو بھی ملا، وہ پیپلز پارٹی نے دیا، دوسری سیاسی جماعتوں اور کراچی کی اشرافیہ کے لیے لیاری نو گو ایریا رہا۔ اس بستی کے لوگوں سے در حقیقت وہی سلوک ہوا جو امریکیوں نے ریڈ انڈینز کے ساتھ روا رکھا۔
اس فرق کو سامنے رکھئے کہ غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور احساس محرومی جرائم کو جنم دیتی ہے لیکن لیاری کے عوام نے غربت وافلاس کے باوجود ہتھیار نہیں اٹھائے، نفرت ، اور قتل وغارت سے کراچی کا چہرہ داغدار نہیں کیا، بھتہ خوری اور لاشوں کی سیاست نہیں کی، بہیمانہ جرائم کے مظاہرے لیاری میں نہیں ہوئے۔ اس کے باوجود اس کے مکینوں کے ایثار کی کوئی قدر نہیں کی گئی۔ ان کے سیاسی شعور کو کچلا گیا اور اسے ایک مقبوضہ کالونی بناکر رکھا گیا۔''
میرے مہربانو! یہ ہے روشنی کے پس منظر میں سیاہ رات کی کہانی، میں تو اس پر پریشان ہوں نہ حیراں۔ بس ساحر لدھیانوی کے ایک شعر پر بات ختم کرتا ہوں:
سر مقتل جنھیں جانا تھا وہ جا بھی پہنچے
سر منبر کوئی محتاط خطیب آج بھی ہے