پاکستان کو بائیڈن سے مثبت امیدیں بھارتی پالیسی بھی تبدیل نہیں ہوگی تجزیہ کار
کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھا سکتے ہیں
امریکی انتخابات میں جوبائیڈن کے صدرمنتخب ہونے کے بعددنیا کے باقی دارالحکومتوں کی طرح پاکستان نے بھی اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔
پاکستانی حکام نے اس ضمن میں پہلے ہی تیاریاں مکمل کر رکھی تھیں کہ جو بائیڈن جو خارجہ پالیسی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں کے امریکی صدر منتخب ہونے کی صورت میں کیا حکمت عملی اختیارکرنی ہے۔اب انتخابات کا حتمی نتیجہ آنے کے بعد پاکستان نے جوبائیڈن سے مثبت امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔
ایک پاکستانی عہدیدارکے مطابق صدرٹرمپ جب برسراقتدارآئے تو ابتدائی برسوںمیں دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیش آنے والی رکاوٹوں کے بعد باقی عرصہ کے دوران باہمی تعلقات مستحکم ہی رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے تعلقات کا محور افغانستان تھا،پاکستان نے امریکہ کے طالبان سے مذاکرات کرانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان کے بارے میں جارحانہ رویہ نرم پڑگیا۔ٹرمپ کے غیرروایتی سٹائل کی وجہ سے پاکستان کو وائٹ ہاؤس کے اندراپنے رابطے قائم کرنے میں مدد ملی۔
صدرٹرمپ کے قریب سمجھے جانے والے سینیٹرلنڈسے گراہم جیسے لوگوں نے صدرٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کرانے میں بھی اہم کردارادا کیا، لیکن اب پاکستان کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی کیونکہ نومنتخب صدر جو بائیڈن روایتی سیاستدان ہیں جو اپنی گورننس کے معاملے میں محکمہ خارجہ اورمحکمہ دفاع (پنٹاگان) پر انحصارکرینگے۔ایک پاکستانی عہدیدارنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جوبائیڈن کی صدارت کے دوران امریکہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا میں جلد بازی نہیں کریگا،پاکستان بھی عرصہ دراز سے اسی بات کی وکالت کرتا آیا ہے۔
پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلدبازی میں انخلا سے یہ ملک ایک بار پھرخانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔امریکہ اور افغان طالبان 29 فروری کو دوحہ میں ایک امن سمجھوتے پردستخط کرچکے ہیں۔
اس معاہدے کے امر یکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کے روڈ میپ کا اعلان کررکھا ہے ،اس کے جواب میں طالبان اپنے ملک کی سرزمین دہشتگرد گروپوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔جوبائیڈن افغانستان سے امریکی فوجوں کا منظم اورآہستہ آہستہ انخلا چاہتے ہیں،وہ افغانستان میں امریکی فوج کی کچھ تعدادرکھنے کے بھی حامی ہیں۔نومنتخب صدرجوبائیڈن نے ابھی اپنی ٹیم کا اعلان نہیں کیا تاہم توقع ہے کہ وہ زلمے خلیل زاد کو افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندہ کے طور پر برقرار رکھیں گے۔
ایک اور پاکستانی عہدیدا رنے بتایا کہ امریکی صدرکے طور پر جوبائیڈن، صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر ہیں کیونکہ صدرٹرمپ کے رویہ کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی ۔اسلام آباد میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ صدر بائیڈن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھل کرآواز اٹھائیں گے کیونکہ ڈیموکریٹس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات کو زوروشورسے اٹھاتے ہیں۔ لہذا صدر جوبائیڈن سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرکی صورتحال کو نظرانداز نہیں کریں گے۔
تاہم مبصرن کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن بھارت سے تعلقات کے معاملے میں ایک حد کو پار نہیںکرینگے کیونکہ چین کے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے بھارت امریکا کیلیے اہم ملک ہے۔ بھارت میں پاکستان کے سابق سفیرعبدالباسط کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے ، لہذا امریکہ کی بھارتی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
پاکستانی حکام نے اس ضمن میں پہلے ہی تیاریاں مکمل کر رکھی تھیں کہ جو بائیڈن جو خارجہ پالیسی کے ماہر سمجھے جاتے ہیں کے امریکی صدر منتخب ہونے کی صورت میں کیا حکمت عملی اختیارکرنی ہے۔اب انتخابات کا حتمی نتیجہ آنے کے بعد پاکستان نے جوبائیڈن سے مثبت امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔
ایک پاکستانی عہدیدارکے مطابق صدرٹرمپ جب برسراقتدارآئے تو ابتدائی برسوںمیں دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیش آنے والی رکاوٹوں کے بعد باقی عرصہ کے دوران باہمی تعلقات مستحکم ہی رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے تعلقات کا محور افغانستان تھا،پاکستان نے امریکہ کے طالبان سے مذاکرات کرانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان کے بارے میں جارحانہ رویہ نرم پڑگیا۔ٹرمپ کے غیرروایتی سٹائل کی وجہ سے پاکستان کو وائٹ ہاؤس کے اندراپنے رابطے قائم کرنے میں مدد ملی۔
صدرٹرمپ کے قریب سمجھے جانے والے سینیٹرلنڈسے گراہم جیسے لوگوں نے صدرٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کرانے میں بھی اہم کردارادا کیا، لیکن اب پاکستان کو یہ سہولت میسر نہیں ہوگی کیونکہ نومنتخب صدر جو بائیڈن روایتی سیاستدان ہیں جو اپنی گورننس کے معاملے میں محکمہ خارجہ اورمحکمہ دفاع (پنٹاگان) پر انحصارکرینگے۔ایک پاکستانی عہدیدارنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جوبائیڈن کی صدارت کے دوران امریکہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا میں جلد بازی نہیں کریگا،پاکستان بھی عرصہ دراز سے اسی بات کی وکالت کرتا آیا ہے۔
پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے جلدبازی میں انخلا سے یہ ملک ایک بار پھرخانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔امریکہ اور افغان طالبان 29 فروری کو دوحہ میں ایک امن سمجھوتے پردستخط کرچکے ہیں۔
اس معاہدے کے امر یکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کے روڈ میپ کا اعلان کررکھا ہے ،اس کے جواب میں طالبان اپنے ملک کی سرزمین دہشتگرد گروپوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔جوبائیڈن افغانستان سے امریکی فوجوں کا منظم اورآہستہ آہستہ انخلا چاہتے ہیں،وہ افغانستان میں امریکی فوج کی کچھ تعدادرکھنے کے بھی حامی ہیں۔نومنتخب صدرجوبائیڈن نے ابھی اپنی ٹیم کا اعلان نہیں کیا تاہم توقع ہے کہ وہ زلمے خلیل زاد کو افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندہ کے طور پر برقرار رکھیں گے۔
ایک اور پاکستانی عہدیدا رنے بتایا کہ امریکی صدرکے طور پر جوبائیڈن، صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر ہیں کیونکہ صدرٹرمپ کے رویہ کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی ۔اسلام آباد میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ صدر بائیڈن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھل کرآواز اٹھائیں گے کیونکہ ڈیموکریٹس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات کو زوروشورسے اٹھاتے ہیں۔ لہذا صدر جوبائیڈن سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیرکی صورتحال کو نظرانداز نہیں کریں گے۔
تاہم مبصرن کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن بھارت سے تعلقات کے معاملے میں ایک حد کو پار نہیںکرینگے کیونکہ چین کے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے بھارت امریکا کیلیے اہم ملک ہے۔ بھارت میں پاکستان کے سابق سفیرعبدالباسط کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے ، لہذا امریکہ کی بھارتی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔