جذبات کی روشنائی سے لکھاہوا وصیت نامہ
پاکستان کاشمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کے عوام پر قومی زبان کی بجائے ایک غیر ملکی زبان مسلط کی...
پاکستان کاشمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کے عوام پر قومی زبان کی بجائے ایک غیر ملکی زبان مسلط کی گئی،وہ زبان انگریزی ہے۔مجھے انگریزی زبان سے کوئی پرخاش نہیں ہے،میں اس کی عالمی اہمیت سے بھی واقف ہوں،مگر اس کے باوجود دنیا میں بہت سارے ممالک ہمارے لیے مثال ہیں،جنہوں نے انگریزی زبان کو اپنایا،لیکن اپنی قومی زبان کو بھی پیچھے نہیں رہنے دیا۔براعظم ایشیا میں ایسا ہی ایک ملک جاپان ہے۔
جاپان میں جاپانی اورانگریزی دونوں زبانوں میں کتابیں شایع ہوتی ہیں،بالخصوص اگر کوئی کتاب جاپانی زبان میں شایع ہوتی ہے ،تو اس کا ترجمہ فوری طورپر انگریزی زبان میں بھی ہوجاتاہے،اسی طرح اگرکوئی جاپانی مصنف انگریزی زبان میں کوئی کتاب لکھتا ہے یاکوئی اچھی کتاب انگریزی میں شایع ہوتی ہے، تواس کاترجمہ فوری طورپر جاپانی زبان میں کر دیا جاتا ہے۔ جاپان میں اسی طرح دیگر زبانوں سے بھی جاپانی زبان میں تراجم ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں ایک بہت دقیق مسئلہ تراجم کا نہ ہونا ہے۔ہمارے ہاں دارالترجمہ نام کی کوئی شے نہیں ہے۔کسی زمانے میں سرکاری اشاعتی ادارے یہ فریضہ انجام دیاکرتے تھے،مگراب راوی چین لکھتاہے،لیکن اس کے باوجود اب بھی کچھ دیوانے ایسے ہیں،جنہوں نے انفرادی حیثیت میں اس کام کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ایسے ہی اداروں میں ایک ایسا ادارہ ہے،جواس کمی سے نمٹنے کے لیے اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاکر تراجم سمیت دیگر اہم علمی منصوبوں پر کام کررہاہے،جس کی وجہ سے پاکستان میں کتاب دوستی کی روایت مضبوط ہوئی ہے۔اب قارئین دوسری زبانوں کا ادب ،تاریخ اوردیگر موضوعات کی حامل کتابوں کوپڑھتے ہیں۔اس ساری جدوجہد کے پیچھے فرخ سہیل گویندی جیسی شخصیت متحرک ہے۔ان کے ادارے کی ایک ایسی ہی کتاب کا میں یہاں تذکرہ کررہا ہوں،جو جاپانیوں کی اپنے وطن سے محبت کی عکاس ہے۔
حال ہی میں جاپان فاؤنڈیشن کے تعاون سے جو کتاب شایع ہوئی،اس کا نام''کامی کازی ڈائری''ہے۔یہ کتاب اُن جاپانی خودکش طلبا فوجیوں کے تاثرات پرمبنی ہے،جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا اوراپنے وطن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔اس کتاب کی مصنفہ کانام ''امیکواونوکی تیرنے''ہے۔یہ انتھرو پولوجسٹ ہیں،یعنی معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں،اب تک ان کی کئی تحقیقی کتابیں اشاعت پذیر ہوچکی ہیں۔اس کتاب کواردوزبان کے قالب میں ''ہما انور''نے ڈھالا۔عمدہ زبان وبیان سے متن میں پنہاں معنویت مزید بڑھ گئی۔یہ ایک اچھے ترجمہ نگار کی نشانی ہوتی ہے۔
''کامی کازی ڈائری''چھ ابواب پرمحیط ہے۔ناشر کی طرف سے کتاب کی پشت پر دیاگیا تعارف اس کتاب کو سمجھنے کے لیے بہترین نمونہ ہے۔وہ تعارف کچھ یوں ہے۔''1944-45ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران فاشسٹ حکومت نے جاپانی یونیورسٹی کے طلبا کوفوج میں جبراً بھرتی کیا،جن میں سے ایک ہزار سے زاید طلبا کو ''توکوتھائی مشن''یعنی دشمن کے اہداف پر خودکش مشن پربھیجاگیا،ایک ایسا مشن جس سے زندہ واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا۔وہ طلبا کسی طور پر بھی رضاکارانہ بھرتی ہوئے تھے نہ ہی انھوں نے درحقیقت خودکشی کی تھی بلکہ حکومتی پراپیگنڈے کے زیر اثر،انھیں جاپانی شہنشاہ کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے مجبور کیاگیا تھا۔
''امیکونوکی تیرنے''نے ہمیں ایسے چھ جاپانی خودکش طلبا فوجیوں کے تاثرات جاننے کا موقع فراہم کیا ہے،جنہوں نے اس بے معنی صورت حال میں اپنی یقینی اموات کا سامنا کیا۔ان تعلیم یافتہ اور زندگی سے بھرپور نوجوانوں نے اپنے تمام تر مطالعے اورعلم و دانش کوکام میں لاکر اپنی موت کو معنی اورجواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔یہ دردناک اورانتہائی متاثر کن خطوط اورڈائری کی تحریریں جاپانی خودکش طلبا فوجیوں کے بارے میں عام غلط فہمیوں کودور کرتی ہیں۔ان کی تحریریں عیاں کرتی ہیں کہ وہ کس قدر ذہین اورشاندار انسان تھے،یقینی موت کاسامنا اوراس کے بے فائدہ ہونے کامکمل ادراک رکھنے پر بھی ان کے جذبے جوان تھے۔قوم اورنسل سے بالاتر ،ان جاپانی طلبا فوجیوں کی تحریریں نسل انسانی کے نام ایک جذباتی وصیت نامہ ہیں،جو تب تک اپنے معنی رکھے گا،جب تک کہ حکومتیں بے معنی جنگوں میں مصروف کار رہیں گی۔''
امریکا میں جب نائن الیون کا سانحہ ہوا،توامریکیوں کی اکثریت نے یہ موقف اختیار کیا،یہ حادثہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی جانب سے پرل ہاربر پر حملہ کرنے جیسا تھا۔اس کے علاوہ ایک اور نکتہ بھی زیربحث رہا کہ جاپانی طلبا فوجیوں کا پرل ہاربر پر حملہ خود کش تھا۔اس کتاب کی مصنفہ''امیکواونوکی تیرنے'' کا ان دونوں نکات پر موقف مختلف ہے۔وہ اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں۔
''دوسری جنگ عظیم اورنائن الیون کے واقعات میں غلط مشابہت کاایک اورعنصر خودکش بمباروں اورکامی کازی میں مبالغہ آمیز مشابہت ہے۔خودکش بمبار کی اصطلاح دنیا بھر سے ان افراد کاحوالہ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے،جن کے بارے میں ہمارے پاس معلومات کم ہی ہیں۔پہلی بات تویہ ہے کہ توکوتھائی پائلٹوں نے خودکشی نہیں کی تھی۔1941ء میں پرل ہاربر پرحملے کے وقت ہوائی جہاز منتظر آب دوزوں پر واپسی کے لیے پوری طرح تیار ہوکر پرواز کرتے تھے۔ان جہازوں کے پائلٹ جہازوں کو مارگرائے جانے پر ہلاک ہوئے تھے۔ 1944-45ء کے پائلٹ ،جن پر اس کتاب میں توجہ مرکوز کی گئی ہے،بھی خودکش بمبار نہیں تھے۔انھیں ایسے جہازوں پر بمباری کے مشن پر بھیجاگیاتھا،جو واپسی کے لیے تیار نہ تھے،لیکن انھوں نے موجودہ زمانے کے خودکش بمباروں کے برعکس اپنی خدمات رضاکارانہ طورپر پیش نہیں کی تھیں۔یوں دونوں ہی معاملات میں توکوتھائی پائلٹوں نے خودکشی نہیں کی تھی،بلکہ وہ ایکشن کے دوران مارے گئے تھے۔موازنہ کیاجائے تو آج کے زمانے کے خودکش بمبار عام شہری ہیںجو شعوری طورپر خود کو ہتھیار بناکر مرنے اورمارنے کے لیے رضاکارانہ طورپر خود کوپیش کرتے ہیں۔''
اس کتاب کامرکزی خیال دل کوچھولینے والاہے۔ایسے انسان،جنھیں یہ خبر ہے کہ کچھ لمحوں کے بعد وہ اس دنیا میں نہیں رہیں گے،اس کے باوجود وہ زندگی کے موضوع پر بات کرتے ہیں اور اس کی صحیح تعریف قلم بند کرتے ہیں۔اس مثال سے اندازہ لگائیے،ایک جاپانی طالب علم فوجی اپنی ڈائری کے صفحے پر لکھتا ہے۔''میں نہیں جانتا کہ میں یہ جنگ جیت سکوں گاکہ نہیں،لیکن میں اپنی قسمت تمہارے ہاتھوں میں دے کر جس قدر لڑسکا،لڑوں گا۔میری دعا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے،وہ دن دیکھوں ،جب ہم ایک ایسی دنیا کو خوش آمدید کہیں،جس میں ہمیں دشمنوں کوجان سے مارنا نہ پڑے،جن سے ہم نفرت نہیں کرسکتے۔اس انجام کے لیے مجھے پرواہ نہیں کہ میرا بدن لاتعداد مرتبہ چیرا جائے۔''
یہ تمام طلبا،جنھیں جبری طورپر فوج میں بھرتی کیا گیا تھا،ان کے دل جذبات سے لبریزتھے۔یہ دنیا کا بہترین ادب پڑھتے تھے۔فلسفے اورتاریخ سے ان کو شغف تھا۔یہ زندگی کی جمالیات کے سفیر تھے،لیکن پھر انھیں زندگی کی ایک کڑی آزمائش کاسامنا کرنا پڑا،جس میں یہ سرخرو ہوئے۔انھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ اپنے وطن پر زندگی نچھاور کردی۔ ان کی یہ قربانی ضایع نہیں ہوئی اورآج موجودہ دنیا میں جاپان امن کاسفیر اورجنگ مخالف ملک ہے۔
اردوزبان کے قارئین کے لیے یہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔اس کے مطالعے سے دوسری جنگ عظیم کے حالات اورفوجیوں کے داخلی احساسات کی منظر کشی ہوتی ہے۔کتاب کی طباعت عمدہ اورمتن غلطیوں سے پاک ہے۔اس کاوش کے لیے جمہوری پبلی کیشنز،جاپان فاؤنڈیشن اورکتاب کی مترجم مبارک باد کی مستحق ہیں۔ہمیں عالمی معاملات سمجھنے کے لیے ایسی کتابوں کے مطالعے کی اشد ضرورت ہے۔امید ہے آیندہ بھی اس نوعیت کی کتابیں اشاعت پذیر ہوتی رہیں گی۔
جاپان میں جاپانی اورانگریزی دونوں زبانوں میں کتابیں شایع ہوتی ہیں،بالخصوص اگر کوئی کتاب جاپانی زبان میں شایع ہوتی ہے ،تو اس کا ترجمہ فوری طورپر انگریزی زبان میں بھی ہوجاتاہے،اسی طرح اگرکوئی جاپانی مصنف انگریزی زبان میں کوئی کتاب لکھتا ہے یاکوئی اچھی کتاب انگریزی میں شایع ہوتی ہے، تواس کاترجمہ فوری طورپر جاپانی زبان میں کر دیا جاتا ہے۔ جاپان میں اسی طرح دیگر زبانوں سے بھی جاپانی زبان میں تراجم ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں ایک بہت دقیق مسئلہ تراجم کا نہ ہونا ہے۔ہمارے ہاں دارالترجمہ نام کی کوئی شے نہیں ہے۔کسی زمانے میں سرکاری اشاعتی ادارے یہ فریضہ انجام دیاکرتے تھے،مگراب راوی چین لکھتاہے،لیکن اس کے باوجود اب بھی کچھ دیوانے ایسے ہیں،جنہوں نے انفرادی حیثیت میں اس کام کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ایسے ہی اداروں میں ایک ایسا ادارہ ہے،جواس کمی سے نمٹنے کے لیے اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاکر تراجم سمیت دیگر اہم علمی منصوبوں پر کام کررہاہے،جس کی وجہ سے پاکستان میں کتاب دوستی کی روایت مضبوط ہوئی ہے۔اب قارئین دوسری زبانوں کا ادب ،تاریخ اوردیگر موضوعات کی حامل کتابوں کوپڑھتے ہیں۔اس ساری جدوجہد کے پیچھے فرخ سہیل گویندی جیسی شخصیت متحرک ہے۔ان کے ادارے کی ایک ایسی ہی کتاب کا میں یہاں تذکرہ کررہا ہوں،جو جاپانیوں کی اپنے وطن سے محبت کی عکاس ہے۔
حال ہی میں جاپان فاؤنڈیشن کے تعاون سے جو کتاب شایع ہوئی،اس کا نام''کامی کازی ڈائری''ہے۔یہ کتاب اُن جاپانی خودکش طلبا فوجیوں کے تاثرات پرمبنی ہے،جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا اوراپنے وطن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔اس کتاب کی مصنفہ کانام ''امیکواونوکی تیرنے''ہے۔یہ انتھرو پولوجسٹ ہیں،یعنی معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں،اب تک ان کی کئی تحقیقی کتابیں اشاعت پذیر ہوچکی ہیں۔اس کتاب کواردوزبان کے قالب میں ''ہما انور''نے ڈھالا۔عمدہ زبان وبیان سے متن میں پنہاں معنویت مزید بڑھ گئی۔یہ ایک اچھے ترجمہ نگار کی نشانی ہوتی ہے۔
''کامی کازی ڈائری''چھ ابواب پرمحیط ہے۔ناشر کی طرف سے کتاب کی پشت پر دیاگیا تعارف اس کتاب کو سمجھنے کے لیے بہترین نمونہ ہے۔وہ تعارف کچھ یوں ہے۔''1944-45ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران فاشسٹ حکومت نے جاپانی یونیورسٹی کے طلبا کوفوج میں جبراً بھرتی کیا،جن میں سے ایک ہزار سے زاید طلبا کو ''توکوتھائی مشن''یعنی دشمن کے اہداف پر خودکش مشن پربھیجاگیا،ایک ایسا مشن جس سے زندہ واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا۔وہ طلبا کسی طور پر بھی رضاکارانہ بھرتی ہوئے تھے نہ ہی انھوں نے درحقیقت خودکشی کی تھی بلکہ حکومتی پراپیگنڈے کے زیر اثر،انھیں جاپانی شہنشاہ کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے مجبور کیاگیا تھا۔
''امیکونوکی تیرنے''نے ہمیں ایسے چھ جاپانی خودکش طلبا فوجیوں کے تاثرات جاننے کا موقع فراہم کیا ہے،جنہوں نے اس بے معنی صورت حال میں اپنی یقینی اموات کا سامنا کیا۔ان تعلیم یافتہ اور زندگی سے بھرپور نوجوانوں نے اپنے تمام تر مطالعے اورعلم و دانش کوکام میں لاکر اپنی موت کو معنی اورجواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔یہ دردناک اورانتہائی متاثر کن خطوط اورڈائری کی تحریریں جاپانی خودکش طلبا فوجیوں کے بارے میں عام غلط فہمیوں کودور کرتی ہیں۔ان کی تحریریں عیاں کرتی ہیں کہ وہ کس قدر ذہین اورشاندار انسان تھے،یقینی موت کاسامنا اوراس کے بے فائدہ ہونے کامکمل ادراک رکھنے پر بھی ان کے جذبے جوان تھے۔قوم اورنسل سے بالاتر ،ان جاپانی طلبا فوجیوں کی تحریریں نسل انسانی کے نام ایک جذباتی وصیت نامہ ہیں،جو تب تک اپنے معنی رکھے گا،جب تک کہ حکومتیں بے معنی جنگوں میں مصروف کار رہیں گی۔''
امریکا میں جب نائن الیون کا سانحہ ہوا،توامریکیوں کی اکثریت نے یہ موقف اختیار کیا،یہ حادثہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی جانب سے پرل ہاربر پر حملہ کرنے جیسا تھا۔اس کے علاوہ ایک اور نکتہ بھی زیربحث رہا کہ جاپانی طلبا فوجیوں کا پرل ہاربر پر حملہ خود کش تھا۔اس کتاب کی مصنفہ''امیکواونوکی تیرنے'' کا ان دونوں نکات پر موقف مختلف ہے۔وہ اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں۔
''دوسری جنگ عظیم اورنائن الیون کے واقعات میں غلط مشابہت کاایک اورعنصر خودکش بمباروں اورکامی کازی میں مبالغہ آمیز مشابہت ہے۔خودکش بمبار کی اصطلاح دنیا بھر سے ان افراد کاحوالہ دینے کے لیے استعمال ہوتی ہے،جن کے بارے میں ہمارے پاس معلومات کم ہی ہیں۔پہلی بات تویہ ہے کہ توکوتھائی پائلٹوں نے خودکشی نہیں کی تھی۔1941ء میں پرل ہاربر پرحملے کے وقت ہوائی جہاز منتظر آب دوزوں پر واپسی کے لیے پوری طرح تیار ہوکر پرواز کرتے تھے۔ان جہازوں کے پائلٹ جہازوں کو مارگرائے جانے پر ہلاک ہوئے تھے۔ 1944-45ء کے پائلٹ ،جن پر اس کتاب میں توجہ مرکوز کی گئی ہے،بھی خودکش بمبار نہیں تھے۔انھیں ایسے جہازوں پر بمباری کے مشن پر بھیجاگیاتھا،جو واپسی کے لیے تیار نہ تھے،لیکن انھوں نے موجودہ زمانے کے خودکش بمباروں کے برعکس اپنی خدمات رضاکارانہ طورپر پیش نہیں کی تھیں۔یوں دونوں ہی معاملات میں توکوتھائی پائلٹوں نے خودکشی نہیں کی تھی،بلکہ وہ ایکشن کے دوران مارے گئے تھے۔موازنہ کیاجائے تو آج کے زمانے کے خودکش بمبار عام شہری ہیںجو شعوری طورپر خود کو ہتھیار بناکر مرنے اورمارنے کے لیے رضاکارانہ طورپر خود کوپیش کرتے ہیں۔''
اس کتاب کامرکزی خیال دل کوچھولینے والاہے۔ایسے انسان،جنھیں یہ خبر ہے کہ کچھ لمحوں کے بعد وہ اس دنیا میں نہیں رہیں گے،اس کے باوجود وہ زندگی کے موضوع پر بات کرتے ہیں اور اس کی صحیح تعریف قلم بند کرتے ہیں۔اس مثال سے اندازہ لگائیے،ایک جاپانی طالب علم فوجی اپنی ڈائری کے صفحے پر لکھتا ہے۔''میں نہیں جانتا کہ میں یہ جنگ جیت سکوں گاکہ نہیں،لیکن میں اپنی قسمت تمہارے ہاتھوں میں دے کر جس قدر لڑسکا،لڑوں گا۔میری دعا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے،وہ دن دیکھوں ،جب ہم ایک ایسی دنیا کو خوش آمدید کہیں،جس میں ہمیں دشمنوں کوجان سے مارنا نہ پڑے،جن سے ہم نفرت نہیں کرسکتے۔اس انجام کے لیے مجھے پرواہ نہیں کہ میرا بدن لاتعداد مرتبہ چیرا جائے۔''
یہ تمام طلبا،جنھیں جبری طورپر فوج میں بھرتی کیا گیا تھا،ان کے دل جذبات سے لبریزتھے۔یہ دنیا کا بہترین ادب پڑھتے تھے۔فلسفے اورتاریخ سے ان کو شغف تھا۔یہ زندگی کی جمالیات کے سفیر تھے،لیکن پھر انھیں زندگی کی ایک کڑی آزمائش کاسامنا کرنا پڑا،جس میں یہ سرخرو ہوئے۔انھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ اپنے وطن پر زندگی نچھاور کردی۔ ان کی یہ قربانی ضایع نہیں ہوئی اورآج موجودہ دنیا میں جاپان امن کاسفیر اورجنگ مخالف ملک ہے۔
اردوزبان کے قارئین کے لیے یہ کتاب انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔اس کے مطالعے سے دوسری جنگ عظیم کے حالات اورفوجیوں کے داخلی احساسات کی منظر کشی ہوتی ہے۔کتاب کی طباعت عمدہ اورمتن غلطیوں سے پاک ہے۔اس کاوش کے لیے جمہوری پبلی کیشنز،جاپان فاؤنڈیشن اورکتاب کی مترجم مبارک باد کی مستحق ہیں۔ہمیں عالمی معاملات سمجھنے کے لیے ایسی کتابوں کے مطالعے کی اشد ضرورت ہے۔امید ہے آیندہ بھی اس نوعیت کی کتابیں اشاعت پذیر ہوتی رہیں گی۔