متضاد رویے

ہم اس ہی قابل ہیں کہ دنیا ہمارا مذاق اڑائے ہم اس قابل ہیں کہ ہم سے نفرت کی جائے ۔ دہشت گرد ہم پر خودکش حملے کریں...

ہم اس ہی قابل ہیں کہ دنیا ہمارا مذاق اڑائے ہم اس قابل ہیں کہ ہم سے نفرت کی جائے ۔ دہشت گرد ہم پر خودکش حملے کریں، بم دھماکوں میں لوگ مریں، اقوام عالم میں دو کوڑی کا نہ سمجھا جائے، لوگ ہماری تذلیل کریں، پاکستانی پاسپورٹ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے، پاسپورٹ کو دیکھ کر ہماری تلاشی سختی سے لی جائے ہمارے نمایندوں کی مختلف ایئرپورٹس پر تذلیل کی جائے کیونکہ یہ مواقعے ہم نے خود فراہم کیے ہیں ۔عزت، غیرت، قومی حمیت کس چڑیا کا نام ہے ہم نہیں جانتے، جو لوگ اچھے نہیں ہیں وہ ہم پر حکومت کرتے تھے کرتے ہیں اور اگر سب ایسا ہی چلتا رہا تو کرتے رہیں گے۔ پیسہ، پیسہ صرف پیسے کے گرد ہمارا طواف جاری ہے اس کی خاطر خونی رشتوں میں دراڑ بھی پڑ جائے تو بھی ہمیں پرواہ نہیں ہے قومی مفادات کیا ہوتے ہیں اس کی ہمیں خبر نہیں ہے۔

خبر ہے تو صرف اتنی کہ سوئس بینکوں میں ہمارا کتنا روپیہ جمع ہے اور مزید کتنا جمع کرنا ہے اس کی خاطر قومی اداروں کی نجکاری بھی کرنے کو تیار ہیں اپنے کاروبار، فیکٹریاں، ملیں، دوسرے ممالک میں ہیں مگر ہم دوسروں کو دعوت دیتے ہیں کہ پاکستان میں آکر سرمایہ کاری کریں لوگ ہمارے متضاد رویوں پر ہنستے ہیں کہ ہمیں اپنی خبر نہیں ہے چلے ہیں دوسروں کو ٹھیک کرنے۔ اڑسٹھ سال کے بعد بھی ہم ایک قوم نہیں بن سکے ہیں قومی مفادات پر کس طرح ایک قوم ری ایکٹ کرتی ہے اس سے ہم لاعلم ہیں مذہبی احتجاج کے دوران بھی ہم آپس کے جھگڑوں سے بعض نہیں آتے۔

علم ہے تو صرف اتنا کہ ملک کی لوٹ کھسوٹ میں اپنا حصہ کم نہ رہ جائے دوسری طرف بھارت کا ردعمل دیکھ کر میرا تو سر شرم سے جھک گیا کہ اس نے اپنی سفارت کار دیویانی کے خلاف ایکشن لینے پر کس طرح امریکا کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے دیویانی کوبرا جادے پر امریکا میں اپنے ذاتی ملازم کو امریکا کے قانون کے مطابق پوری تنخواہ نہ دینے کا الزام ثابت ہوچکا ہے امریکی پولیس نے دیویانی کو گرفتار کیا۔ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور جس کے نتیجے میں دیویانی کو ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر دے کر ضمانت پر رہائی حاصل کرنی پڑی۔ حالانکہ اس کیس میں سراسر قصور دیویانی کا نظر آرہا ہے کہ انھوں نے امریکی مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کی مگر بھارت نے دیویانی کے خلاف اس اقدام پر امریکا کے خلاف شدید احتجاج کیا بلکہ یہی نہیں بھارتی وزیر خارجہ نے واشگاف الفاظ میں امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا یہ رویہ بھارت کے لیے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

مزید بھارتی کردار ملاحظہ کریں کہ امریکی کانگریس کا ایک وفد بھارت کے دورے پر تھا اس کو بھی اس واقعے کے بعد لوک سبھا میں ملاقات سے انکار کردیا گیا مجبوراً وفد کو اپنا دورہ مختصر کرکے واپس آنا پڑا۔ نریندر مودی جوکہ متوقع وزیر اعظم ہیں انھوں نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں واضح کردیا کہ اس ایشو پر وہ بھی حکومتی ارکان کے موقف کی تائید کرتے ہیں اور قوم کے ساتھ ہیں۔ ذلت بھارتی سفارت کار کی نہیں پوری قوم کی ہوئی ہے اور جب تک امریکا اپنے رویے پر معافی نہیں مانگے گا صورت حال اسی طرح رہے گی پھر بیانات پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ امریکی سفارت کاروں کو بھارت میں جو مراعات دی گئی تھیں وہ بھی واپس لے لی گئیں۔ یہ ہے وہ ردعمل بھارت کی طرف سے کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور کے سامنے ڈٹ گیا ۔


دونوں کے مشترکہ مفادات ہیں امریکا بھارت میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اس کے باوجود کسی بھی مفاد کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارت نے امریکا کو واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ وہ قومی مفادات پر کسی کی پرواہ نہیں کرتے اپوزیشن اور متوقع حکومت بنانے والی پارٹی موجودہ حکومت بھارت میں رہنے والے عام آدمی یا میڈیا سب کا ایک ہی موقف ہے۔ انھوں نے اس قومی غیرت کے معاملے کو اپنی سیاست کی دکان چمکانے کے لیے استعمال نہیں کیا دوسری طرف ہمارا کردار دیکھیں ہم امریکی سامراج کو دنیا کے سامنے برا کہتے ہیں مگر اکیلے میں پیروں میں پڑ جاتے ہیں۔ پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنے دیتے ہیں مگر خود مختاری کے نعرے لگاتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کو قصاص لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ہماری اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ اس کا مقدمہ اپنی عدالتوں میں اپنے قانون کے مطابق چلا کر اس کو سزائے موت دے سکیں۔

عافیہ صدیقی ، ایمل کانسی اور نہ جانے کتنے لوگوں کو ہم نے خود امریکا کی فرمائش پر امریکا کے حوالے کردیا کیونکہ ہمیں اس بھیک سے مطلب تھا جو امریکا ہمیں دیتا ہے ٹکڑوں پر پلنے والے کس طرح سودے بازی کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم صرف باتیں کرنے اور بڑھکیں مارنے والی وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنے مفادات (ذاتی) کی خاطر دشمن کو بھی گلے لگا سکتی ہے۔ بھارت سے تجارت کے لیے ہم مرے جا رہے ہیں تجارت ہونا غلط نہیں مگر اس وقت جب تعلقات خوشگوار ہوں دونوں فریقوں کے خیالات یکساں ہوں۔ یہاں یہ حال ہے کہ ہمارے دوستی کے دعوؤں، اقدامات، بیانات کے باوجود بھارت کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ کرتا ہے۔ ہمارے فوجیوں کو شہید کر رہا ہے مگر ہم اس کے ویزے کی پابندی ختم کر رہے ہیں۔

مشرقی پاکستان کو ہم اپنی حماقتوں، غلط فیصلوں اور حق دار کو حق نہ دینے کی پالیسی پر عمل کرکے گنوا چکے ہیں اس کے زخم ابھی تک ہرے ہیں مگر اس سے سبق سیکھنے کی بجائے ہم جھوٹ پر جھوٹ بول کر تاریخ کو مسخ کرتے ہیں قوم کے مجرموں کو ہیرو بنادیتے ہیں ۔ افغانستان کی جنگ میں جو حکمت عملی اپنائی اس کی سزا طالبان کی دہشت گردی کی صورت ہمیں آج مل رہی ہے مذاکرات کا راگ سنتے سنتے دماغ پک گیا مگر مذاکرات ہیں کہ ہوکے نہیں دے رہے اور ہوں بھی کیسے؟ فریق ثانی راضی ہو تو ہوں۔ بلکہ فریق دوم کا موقف تو یہ سامنے آیا ہے کہ انھوں نے کہا ہے کہ مذاکرات نہیں ہوسکتے کیونکہ موجودہ حکومت امریکا کی وفادار ہے طالبان نے اپنے عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستان میں اسلام کو نافذ کرنے تک اسی طرح دہشت گردی کرتے رہیں گے بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ہماری ترجیحات ہی قومی مفاد میں نہیں ہیں کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے امریکا ڈالروں کی جھلک دکھلا کر جس طرف ہنکا دیتا ہے ہم ہنسی خوشی اس راستے کو اپنی منزل سمجھ کر دوڑنے لگتے ہیں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا نے ہمیں بھکاری سمجھ لیا ہے اور بھکاریوں کو لوگ بھیک دیتے ہیں گلے نہیں لگاتے ہیں۔

ہم اسی سلوک کے مستحق ہیں 60 سال ہوگئے امریکا کی دوستی کا دم بھرتے ہوئے ایک وقت تھا اس خطے میں ہم واحد دوست تھے جو امریکی مفادات کے لیے کام کرتے تھے مگر یہ خدمات ہم نے برابری کی سطح پر سر انجام دی ہوتی تو آج منظر نامہ مختلف ہوتا ہم نے اپنی قومی غیرت و حمیت، وقار، سربلندی کو ڈالر کے عوض گروی رکھ دیا ۔اب شکوہ کیسا ہے اس طرح ڈرونز ہوتے رہیں گے سرحدوں کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی خودمختاری کو بھی آنچ پہنچتی رہے گی ہمارا دشمن کوئی اور نہیں ہم خود ہیں ہم نے جو بیج بویا تھا آج وہ تناور درخت بن چکا ہے ۔ہمارے حکمرانوں میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ ملک و قوم کی، خودمختاری ، عزت و وقار کو بلند کرنے کی پالیسیوں کو ممکن بنائیں۔ یہاں تو حکمران بھی امریکا کی آشیرباد سے حکمرانی کے مزے لوٹتے ہیں اور عوام کو ذلت و رسوائی کے اندوہناک غار میں دھکیل دیا ہے مگر عوام بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ہم قومی مفادات کے لیے ہڑتالیں کیوں نہیں کرتے، کیوں نہیں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے جوں ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے ہمارا میڈیا، ہمارے سیاستدان ہمارے تجزیہ نگار سب مل کر لوگوں کو کنفیوژ کرنے کا کام سر انجام دینے لگ جاتے ہیں کسی ایک بات پر بھی تو متفق نہیں ہوتے پھر کوئی پالیسی کیسے بنے کوئی ملکی مفادات کی بہتری کے لیے کام کیسے ہو۔
Load Next Story