نورجہاں نے موسیقی کی سلطنت پر حکمرانی کی
ملکہ ترنم کی 13ویں برسی کے موقع پر مختلف سرگرمیوں اور فنکاروں کے تاثرات کا احوال
برصغیر پاک وہند کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کوہم سے بچھڑے 13 برس بیت گئے۔
مرحومہ کی برسی کے موقع پران کی رہائشگاہ پر اور ان کے چاہنے والوں نے قرآن خوانی کی جبکہ تمام نجی چینلز نے عظیم گلوکارہ کی طویل فنی خدمات کوخراج تحسین پیش کرنے کیلئے خصوصی رپورٹس بھی پیش کیں۔ جہاں تک بات فن وثقافت کے فروغ کیلئے بنائی گئی آرٹس کونسلوں کی ہے توانہوں نے حسب روایت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکہ ترنم نور جہاں کی برسی کے موقع پر سیمینار تودور کی بات ہے کوئی دعائیہ تقریب تک کا انعقاد کرنا بھی مناسب نہ سمجھا جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے شہرممبئی میں اس حوالے سے ملکہ ترنم نورجہاں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے پنجابی فلموں کے ہدایتکار رتن اولکھ نے تقریب کا انعقاد بھی کیا۔
دیکھا جائے تو موسیقی کی دنیا کا ذکر سُروں کی ملکہ نورجہاں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، گیت ہو یا غزل ملکہ ترنم کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے۔ نورجہاں کو گزرے 13 برس ہوچکے ہیں مگر آج تک کوئی ان کی طرح فن کا جادو نہیں جگا سکا، کئی گلوکاروں نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کی ، مگر کوئی بھی نورجہاں کا ثانی تودور کی بات ان کے قریب تک نہ پہنچ سکا۔ فن گلوکاری ہویا اداکاری، دونوں میں ملکہ ترنم نورجہاں اپنی مثال آپ رہیں۔ بے شمار کامیاب فنکاروں کو پس پردہ آوازکے ذریعے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی عظیم گلوکارہ نے اپنا فلمی کیریئر 1930ء میں خاموش اداکاری والی فلم ''حنا کے ترسے'' سے شروع کیا جبکہ فلمی ہیروئن کے طور پر ان کے کیرئیر کا آغاز 1942ء میں فلم ''خاندان'' سے ہوا۔
اس فلم کیلئے غلام حیدر کے کمپوز کئے ہوئے تمام گانے اس دور کے مقبول ترین گانوں میں شمار ہوئے۔ انہوں نے ممبئی میں کئی بھارتی فلموں '' نادان، نوکر، لال حویلی، دل، ہمجولی اور جگنو '' وغیرہ میں کام کیا۔ بعدازاں قیام پاکستان کے بعد 1947ء میں وہ لاہور منتقل ہو گئیں جہاں پرانہوں نے اداکاری اور گلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں بھی ملکہ ترنم نور جہاں نے دوپٹہ، گلنار، انتظار، لخت جگر، کوئل اور انار کلی میں کام کیا۔ بعد ازاں نور جہاں نے 1960ء سے 1970ء کے عشرے میں پنجابی فلموں کیلئے گانے گائے جو سپرہٹ ہوئے بلکہ ان میں سے بہت سے گیتوںکو شمار صدابہارگیتوں میں ہونے لگا۔
انہوں نے ایک ہزار فلموں کیلئے گیت گائے جن میں سے زیادہ مقبول عام ہوئے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے 1965ء کی جنگ میں اپنی آواز میں رضا کارانہ طور پر کئی ترانے گائے جو کہ بڑے مقبول ہوئے اور ان ترانوں سے پاکستانی فوج اور عوام کا حوصلہ بلند ہوا۔
نصف صدی سے زائد عرصہ تک موسیقی کی سلطنت اور کروڑوں سامعین کے دل ودماغ پر حکمرانی کرنے والی ملکہ ترنم نورجہاں کی شخصیت کے حوالے ایشیائی لیجنڈ دلیپ کمارکی اہلیہ اورماضی کی معروف اداکارہ سائرہ بانوکا کہنا ہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں نے ''پلے بیک سنگنگ'' میں جو اُسلوب اور انداز وضع کیا وہ فلمی موسیقی کا لازمی جُزبن گیا۔ انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ دلیپ کمار اکثر بات کرتے ہوئے ملکہ ترنم نورجہاں کا تذکرہ کرتے توکہتے کہ دنیا میں فلم اور میوزک ریکارڈنگ کی ایجادات کو متعارف ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا اس لئے اس تکنیک کو سیکھنے کے لئے نہ تو انسٹی ٹیوشنز تھے اور نہ ہی فنکاروں کی کوئی ٹریننگ تھی۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ نور جہاں نے جس طرح سے اس دور کی جدید ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل کئے بغیر جو کام کیا وہ آج بھی انوکھا اورمنفرد ہے۔ یہ عظیم فنکار ہیں جن کا کام ہی ان کی پہچان بنارہے گا۔
میں سمجھتی ہوں کہ ملکہ ترنم کا خطاب نور جہاں کو ملنے سے اس خطاب کوعزت ملی ہے۔ وہ واقعی ہی ایک عظیم گلوکارہ تھیں جن کے گائے لازوال گیت ہمیشہ ان کے نام اورفن کوزندہ رکھیں گے بلکہ آنے والی نئی نسلیں بھی ان کے فن سے بہت کچھ سیکھ سکیں گی۔ گلوکارہ ریچاشرما نے ملکہ ترنم نورجہاں کو ٹریبوٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ''چھوٹا منہ اوربڑی بات'' سبھی لوگ جانتے ہیں کہ بھارت کی لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر جی نے جب گلوکاری میں قدم رکھا تو وہ ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ کورس میں گایا کرتی تھیں اور وہ انہیں ہمیشہ ''نورجہاں دیدی '' کہاکرتی تھیں۔ وہ سچ مچ میں انہیں اپنی بڑی بہن مانتی تھیں اورانہیں بڑی فنکارہ بھی تسلیم کرتی تھیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ قدرت نے جو آواز اورسُر ملکہ ترنم نور جہاں کو دیا وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے۔
میں خود کوبہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے ملکہ ترنم نورجہاں کے سینکڑوں گیت سنے لیکن ان سے ملاقات نہ ہونے کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی صاحبزادی گلوکارہ ظل ہما نے کہا کہ ''جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ماں کی جدائی کا دکھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ میری ماں جتنی بڑی فنکارہ تھیں اتنی ہی عظیم ماں بھی تھیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکارہ شاہدہ منی نے کہا کہ نورجہاں کی جدائی ایک گہرا گھاؤ ہے جو کبھی نہیں بھر پائے گا۔ ان کی آواز اورانداز ان کو سب سے جداکرتا تھا۔ ان کا سجنا سنورنابھی سب سے الگ تھا اورخواتین کی بڑی تعداد ان کو فیشن میں اپنا آئیڈیل مانتی تھی۔
ملکہ ترنم نورجہاں کی گنڈا بندھ شاگرد گلوکارہ ترنم ناز نے کہا کہ وہ اپنے نام اور کام کی طرح انسان بھی بہت بڑی تھیں جو ہمیشہ نئے آنے والوں سے شفقت کرنے کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ میوزک ڈائریکٹر ایم ارشد نے کہا کہ ملکہ ترنم نورجہاں لاجواب شخصیت کی مالک تھیں، جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں' اگر کوئی گائیکی میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے تووہ ملکہ ترنم نورجہاں کی شخصیت کو سامنے رکھ کر چلے۔ گلوکارہ شبنم مجید نے کہا کہ وہ موسیقی کی ایک مکمل درس گاہ تھیں، جنہیں فلمی، غیر فلمی، غزل سمیت ہر انداز کے گانے پر مکمل عبور حاصل تھا۔
اس عظیم فنکارہ نے 9 سال کی عمر میں بطور چائلڈ گلوکارہ کے طور پر گانا شروع کیا جبکہ اپنا آخری نغمہ 1996ء میں ریکارڈ کرایا جسکے بعد خرابی صحت کی بناء پر ا نہوں نے نغمے گانے ترک کر دیئے۔ نور جہاں 23 دسمبر 2000ء کو کراچی میں وفات پا گئیں۔ انہیں کراچی کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔
مرحومہ کی برسی کے موقع پران کی رہائشگاہ پر اور ان کے چاہنے والوں نے قرآن خوانی کی جبکہ تمام نجی چینلز نے عظیم گلوکارہ کی طویل فنی خدمات کوخراج تحسین پیش کرنے کیلئے خصوصی رپورٹس بھی پیش کیں۔ جہاں تک بات فن وثقافت کے فروغ کیلئے بنائی گئی آرٹس کونسلوں کی ہے توانہوں نے حسب روایت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکہ ترنم نور جہاں کی برسی کے موقع پر سیمینار تودور کی بات ہے کوئی دعائیہ تقریب تک کا انعقاد کرنا بھی مناسب نہ سمجھا جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے شہرممبئی میں اس حوالے سے ملکہ ترنم نورجہاں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے پنجابی فلموں کے ہدایتکار رتن اولکھ نے تقریب کا انعقاد بھی کیا۔
دیکھا جائے تو موسیقی کی دنیا کا ذکر سُروں کی ملکہ نورجہاں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، گیت ہو یا غزل ملکہ ترنم کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے۔ نورجہاں کو گزرے 13 برس ہوچکے ہیں مگر آج تک کوئی ان کی طرح فن کا جادو نہیں جگا سکا، کئی گلوکاروں نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کی ، مگر کوئی بھی نورجہاں کا ثانی تودور کی بات ان کے قریب تک نہ پہنچ سکا۔ فن گلوکاری ہویا اداکاری، دونوں میں ملکہ ترنم نورجہاں اپنی مثال آپ رہیں۔ بے شمار کامیاب فنکاروں کو پس پردہ آوازکے ذریعے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی عظیم گلوکارہ نے اپنا فلمی کیریئر 1930ء میں خاموش اداکاری والی فلم ''حنا کے ترسے'' سے شروع کیا جبکہ فلمی ہیروئن کے طور پر ان کے کیرئیر کا آغاز 1942ء میں فلم ''خاندان'' سے ہوا۔
اس فلم کیلئے غلام حیدر کے کمپوز کئے ہوئے تمام گانے اس دور کے مقبول ترین گانوں میں شمار ہوئے۔ انہوں نے ممبئی میں کئی بھارتی فلموں '' نادان، نوکر، لال حویلی، دل، ہمجولی اور جگنو '' وغیرہ میں کام کیا۔ بعدازاں قیام پاکستان کے بعد 1947ء میں وہ لاہور منتقل ہو گئیں جہاں پرانہوں نے اداکاری اور گلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں بھی ملکہ ترنم نور جہاں نے دوپٹہ، گلنار، انتظار، لخت جگر، کوئل اور انار کلی میں کام کیا۔ بعد ازاں نور جہاں نے 1960ء سے 1970ء کے عشرے میں پنجابی فلموں کیلئے گانے گائے جو سپرہٹ ہوئے بلکہ ان میں سے بہت سے گیتوںکو شمار صدابہارگیتوں میں ہونے لگا۔
انہوں نے ایک ہزار فلموں کیلئے گیت گائے جن میں سے زیادہ مقبول عام ہوئے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے 1965ء کی جنگ میں اپنی آواز میں رضا کارانہ طور پر کئی ترانے گائے جو کہ بڑے مقبول ہوئے اور ان ترانوں سے پاکستانی فوج اور عوام کا حوصلہ بلند ہوا۔
نصف صدی سے زائد عرصہ تک موسیقی کی سلطنت اور کروڑوں سامعین کے دل ودماغ پر حکمرانی کرنے والی ملکہ ترنم نورجہاں کی شخصیت کے حوالے ایشیائی لیجنڈ دلیپ کمارکی اہلیہ اورماضی کی معروف اداکارہ سائرہ بانوکا کہنا ہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں نے ''پلے بیک سنگنگ'' میں جو اُسلوب اور انداز وضع کیا وہ فلمی موسیقی کا لازمی جُزبن گیا۔ انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ دلیپ کمار اکثر بات کرتے ہوئے ملکہ ترنم نورجہاں کا تذکرہ کرتے توکہتے کہ دنیا میں فلم اور میوزک ریکارڈنگ کی ایجادات کو متعارف ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہوا تھا اس لئے اس تکنیک کو سیکھنے کے لئے نہ تو انسٹی ٹیوشنز تھے اور نہ ہی فنکاروں کی کوئی ٹریننگ تھی۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ نور جہاں نے جس طرح سے اس دور کی جدید ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل کئے بغیر جو کام کیا وہ آج بھی انوکھا اورمنفرد ہے۔ یہ عظیم فنکار ہیں جن کا کام ہی ان کی پہچان بنارہے گا۔
میں سمجھتی ہوں کہ ملکہ ترنم کا خطاب نور جہاں کو ملنے سے اس خطاب کوعزت ملی ہے۔ وہ واقعی ہی ایک عظیم گلوکارہ تھیں جن کے گائے لازوال گیت ہمیشہ ان کے نام اورفن کوزندہ رکھیں گے بلکہ آنے والی نئی نسلیں بھی ان کے فن سے بہت کچھ سیکھ سکیں گی۔ گلوکارہ ریچاشرما نے ملکہ ترنم نورجہاں کو ٹریبوٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ''چھوٹا منہ اوربڑی بات'' سبھی لوگ جانتے ہیں کہ بھارت کی لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر جی نے جب گلوکاری میں قدم رکھا تو وہ ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ کورس میں گایا کرتی تھیں اور وہ انہیں ہمیشہ ''نورجہاں دیدی '' کہاکرتی تھیں۔ وہ سچ مچ میں انہیں اپنی بڑی بہن مانتی تھیں اورانہیں بڑی فنکارہ بھی تسلیم کرتی تھیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ قدرت نے جو آواز اورسُر ملکہ ترنم نور جہاں کو دیا وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے۔
میں خود کوبہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے ملکہ ترنم نورجہاں کے سینکڑوں گیت سنے لیکن ان سے ملاقات نہ ہونے کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی صاحبزادی گلوکارہ ظل ہما نے کہا کہ ''جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ماں کی جدائی کا دکھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ میری ماں جتنی بڑی فنکارہ تھیں اتنی ہی عظیم ماں بھی تھیں۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ گلوکارہ شاہدہ منی نے کہا کہ نورجہاں کی جدائی ایک گہرا گھاؤ ہے جو کبھی نہیں بھر پائے گا۔ ان کی آواز اورانداز ان کو سب سے جداکرتا تھا۔ ان کا سجنا سنورنابھی سب سے الگ تھا اورخواتین کی بڑی تعداد ان کو فیشن میں اپنا آئیڈیل مانتی تھی۔
ملکہ ترنم نورجہاں کی گنڈا بندھ شاگرد گلوکارہ ترنم ناز نے کہا کہ وہ اپنے نام اور کام کی طرح انسان بھی بہت بڑی تھیں جو ہمیشہ نئے آنے والوں سے شفقت کرنے کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ میوزک ڈائریکٹر ایم ارشد نے کہا کہ ملکہ ترنم نورجہاں لاجواب شخصیت کی مالک تھیں، جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں' اگر کوئی گائیکی میں اپنا مقام بنانا چاہتا ہے تووہ ملکہ ترنم نورجہاں کی شخصیت کو سامنے رکھ کر چلے۔ گلوکارہ شبنم مجید نے کہا کہ وہ موسیقی کی ایک مکمل درس گاہ تھیں، جنہیں فلمی، غیر فلمی، غزل سمیت ہر انداز کے گانے پر مکمل عبور حاصل تھا۔
اس عظیم فنکارہ نے 9 سال کی عمر میں بطور چائلڈ گلوکارہ کے طور پر گانا شروع کیا جبکہ اپنا آخری نغمہ 1996ء میں ریکارڈ کرایا جسکے بعد خرابی صحت کی بناء پر ا نہوں نے نغمے گانے ترک کر دیئے۔ نور جہاں 23 دسمبر 2000ء کو کراچی میں وفات پا گئیں۔ انہیں کراچی کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔