یونیورسل ہیلتھ کارڈ کا اجراء حکومت کا خوش آئند اقدام

یہ صوبائی حکومت کا بڑا منصوبہ ہے جس پر وزیراعلیٰ محمودخان اور وزیرصحت وخزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے لیے توداد بنتی ہی ہے۔

یہ صوبائی حکومت کا بڑا منصوبہ ہے جس پر وزیراعلیٰ محمودخان اور وزیرصحت وخزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے لیے توداد بنتی ہی ہے۔فوٹو : فائل

خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے دورکے سب سے بڑے منصوبہ کا اجراء کردیا ہے۔

یہ منصوبہ یونیورسل ہیلتھ کارڈز کا ہے کہ جس پر صوبائی حکومت ہر سال اٹھارہ سے بیس ارب روپے خرچ کرے گی جبکہ اس کے ساتھ ہی اس کا فائدہ صوبہ سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اٹھائے گا، یقینی طور پر اس سے قبل بھی حکومتیں مختلف منصوبے شروع کرتی آئی ہیں تاہم مذکورہ منصوبے یا تو کسی مخصوص علاقے یا ضلع کے لیے ہوا کرتے تھے یا پھر ان کا فائدہ کسی خاص کمیونٹی کو ملتا تھا تاہم یونیورسل ہیلتھ کارڈ سکیم کا فائدہ پورا صوبہ اٹھائے گا۔

چونکہ یہ منصوبہ بہت بڑا تھا اس لیے خود وزیراعظم عمران خان نے اس کا افتتاح کیا اور اس کا آغاز سوات سے کیا گیا ہے اور اسی جاری ماہ کے دوران پورے ملاکنڈ ڈویژن کے لیے ہیلتھ کارڈز کا اجراء مکمل کر لیا جائے گا جس کے ساتھ ہی ہزارہ ڈویژن اور اس کے بعد پھر پشاور ومردان اور آخری مرحلے میں صوبہ کے جنوبی اضلاع کے لیے اس منصوبے کا اطلاق ہوگا جس سے پورا صوبہ اس کے تحت کور ہو جائے گا اور ہر شخص کو اس کے شناختی کارڈ پر صحت سے متعلق سہولیات کی مفت فراہمی شروع ہو جائے گی ۔

بجا طور پر یہ صوبائی حکومت کا بڑا منصوبہ ہے جس پر وزیراعلیٰ محمودخان اور وزیرصحت وخزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے لیے تو داد بنتی ہی ہے تاہم اس کے ساتھ سابق وزیراعلیٰ و موجودہ وزیر دفاع پرویزخٹک اور سابق وزیر صحت شہرام ترکئی بھی اس کے لیے داد کے مستحق ہیں کیونکہ یہ منصوبہ ان ہی کے دور میں سامنے آیا تھا جس کے بعد اس پر کام شروع کیا گیا اور یہ آج عمل میں آیا، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس منصوبہ کی بدولت صوبہ میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اور اگلے سال بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے یا پھر موجودہ حکومتوں کا دورانیہ پورا ہونے پر عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔

پی ٹی آئی کو اس منصوبہ کا فائدہ ضرور ملے گا تاہم جہاں پی ٹی آئی نے اتنے بڑے منصوبے کا اجراء کیا وہیں پر وزیراعظم نے سوات میں ایک مرتبہ پھر اپنے سیاسی حریفوں کے حوالے سے وہی روایتی تقریر کرتے ہوئے صوبہ میں بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے جس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ سب کی نظریں صرف پی ڈی ایم کے پشاور جلسہ پر نہیں بلکہ اس سے ہٹ کر بھی جلسے ہونے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز جو ان دنوں گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے وہاں انتخابی مہم میں مصروف ہیں، وہاں سے فارغ ہونے پر خیبرپختونخوا کا رخ کریں گی اور 14نومبر کو سوات اور18نومبر کو وہ مانسہرہ میں جلسوں سے خطاب کریں گی جس کے بعد 22 نومبر کو پشاور میں پی ڈی ایم کے تحت جلسہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاہم صورت حال یہ ہے کہ جو کچھ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوا وہی کچھ خیبرپختونخوا میں بھی کرنے کی کوشش کی گئی تاہم یہاں پر بات بن نہیں سکی۔

بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ جیسی شخصیات مسلم لیگی قافلے سے الگ ہوئیں تاہم خیبرپختونخوا میں پارٹی کے صدر انجنیئر امیر مقام اور جنرل سیکرٹری مرتضیٰ جاوید عباسی کو نہیں چھیڑا جا سکا تو پارٹی کے صوبائی سینئر نائب صدر انتخاب چمکنی کو میدان میں اتارا گیا تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انتخاب چمکنی کے قدم مسلم لیگ میں ابھی اس طرح نہیں جمے کہ جس طرح دیگر لیگی قائدین ٹکے ہوئے ہیں کیونکہ انتخاب چمکنی دوپارٹیاں بدل کر مسلم لیگ ن تک پہنچے ہیں۔


وہ انجنیئر امیر مقام کی ن لیگ میں شمولیت کے بعد ق لیگ کے صوبائی صدر بنے اور پارٹی کوچلاتے رہے تاہم پھر اچانک انہوں نے اپنا سیاٰسی رخ تبدیل کیا اور جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے لیکن گزشتہ عام انتخابات میں اختلافات پیدا ہونے کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے سٹیئرنگ کا رخ تبدیل کیا اور مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے،گوکہ انھیں پارٹی عہدہ بھی مل گیا۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پرانے مسلم لیگیوں نے دیگر پارٹیوں سے آنے والوں کو دل سے قبول نہیں کیا، شنید تو یہ تھی کہ خیبرپختونخوا میں بھی کوئی بڑی مسلم لیگی شخصیت پارٹی کے بیانئے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی راہیں الگ کرے گی تاہم اب تک ایسا نہیں ہوسکا اور مسلم لیگ ن کے عہدیدار اور دیرینہ رفیق اپنی جگہ پر ٹکے پارٹی بیانئے کے ساتھ چل رہے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اس موقع پر پارٹی بیانئے سے اختلاف کا مطلب پارٹی سے الگ ہونا اور پارٹی سے الگ ہونے والوں کے لیے سیاسی طور پر کافی سے زیادہ مشکلات ہونگی اس لیے ہوشیار سیاسی رہنما بڑی سمجھ بوجھ سے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں تاکہ کوئی غلطی ہونے نہ پائے۔

ن لیگ کے اندر جوکچھ ہو رہا ہے وہ تو نظر آرہا ہے تاہم اس وقت سب کی نظریں یا تو گلگت بلتستان انتخابات پر لگی ہوئی ہیں یا پھر پی ڈی ایم کے پشاور جلسہ پر البتہ ان دونوں میں سے پہلے گلگت بلتستان کے انتخابات کا انعقاد ہونا ہے اور وہاں کی صورت حال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کامیابی حاصل کرتی ہے تو یہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے دھچکہ ہوگا جبکہ اگر اپوزیشن جماعتیں کامیاب ٹھہرتی ہیں تو یقینی طور پر وہ اس کا فائدہ پی ڈی ایم تحریک میں بھی لینے کی کوشش کریں گی اس لیے موجودہ حالات میں گلگت بلتستان انتخابات کی اہمیت کافی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

گلگت بلتستان انتخابات کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں کا پورا فوکس پی ڈی ایم تحریک پر رہے گا یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان پشاور میں پی ڈی ایم جلسہ سے صرف ایک روز قبل 21 نومبر کو نوشہرہ میں رشکئی اکنامک زون کا افتتاح کرنے کے ساتھ ایک مرتبہ پھر سیاسی اجتماع سے خطاب بھی کرنے جا رہے ہیں اور وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک یہ اجتماع منعقد کرتے ہوئے اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں جبکہ حکومت اوراپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کا گھیرائو کرنے کے چکر میں ہیں۔

آنے والے دن سخت سے سخت تر ہونے کا امکان ہے تاہم اس کا انحصار اپوزیشن کی تحریک پر منحصر ہے کیونکہ پشاور، ملتان اور لاہور کے جلسوں کے بعد اپوزیشن کو اگلے لائحہ عمل کی طرف بڑھنا ہوگا جو مظاہروں کی شکل میں سامنے آتا ہے یا پھر اسلام آباد چڑھائی کی شکل میں، اس کے بارے میں ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

تاہم اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے بیانئے سے پیپلزپارٹی تو اختلاف کر رہی ہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے مذکورہ بیانئے سے اختلاف کرنا حیران کن ہے کیونکہ اے این پی، شروع ہی سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی رہی ہے،گوکہ اے این پی کو جب 2008ء میں اقتدار ملا اس وقت یہ باتیں زوروں پر تھیں کہ اے این پی نے اپنی سیاست کا رخ تبدیل کر لیا ہے اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سے پرواسٹیبلشمنٹ پارٹی بن گئی ہے اسی لیے اسے اقتدار ملا ہے تاہم یہ باتیں بھی وقت کے ساتھ دم توڑ گئیں اور اے این پی اپنی پرانی ڈگر پر واپس آگئی ۔

تاہم اب جبکہ ایسے موڑ پر جبکہ پی ڈی ایم کا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی پنگا آئے گا،اے این پی کی جانب سے ن لیگ کے بیانئے سے اس بنیاد پر اختلاف کرنا کہ لیگی قیادت اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے مخصوص شخصیات کے نام لے رہی ہے، حیران کن ہے کیونکہ بھلے نام لیے جائیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کہا جائے، بات ایک ہی ہے اور اس بات سے ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کا اختلاف کرنا خود اس پارٹی کی سیاست کے لیے نقصان دہ ہو سکتاہے ۔

جماعت اسلامی تنہا محو پرواز ہے جو باجوڑ کے بعد بونیر میں بھی ویک اینڈ جلسہ کر چکی ہے اور رواں ماہ کے دوران جماعت اسلامی مزید ویک اینڈبھی گرم کرے گی کیونکہ نومبر کے مہینے کے دوران جماعت اسلامی ملاکنڈ ڈویژن اور اتوارکے دن تک ہی محدود رہے گی اس لیے اس وقت نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی حکومت مخالف تحریک کیا رنگ لائے گی؟ یہ تحریک ملاکنڈ ڈویژن اور اتوار سے باہر نکلے گی تو اس کے حوالے سے معلوم پڑے گا کہ یہ تحریک حکومت کے خاتمے تک جاری رہتی ہے یا پھر تنہا پرواز کا مزہ لینے اور اپنی اڑان کااندازہ لگانے تک محدود رہے گی؟ اس لیے جماعت اسلامی کی قیادت کو اپنی تحریک اور اس کے انداز پر نظرثانی کرنے کی ضرورت تو ضرور ہے۔
Load Next Story