سورائسز صرف جلدی بیمار نہیں علاج میں تاخیر سے اندرونی اعضا متاثر ہوسکتے ہیں ماہرین امراض جلد

جسم پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں، شراب، منشیات ’پروٹین زیادہ لینے والے افراد کے مبتلا ہونے کے خدشات زیادہ ہیں

سورائسز کا جدید علاج فوٹو تھراپی پاکستان میں دستیاب‘ مرض کی آگاہی کیلیے ڈاکٹرز کے ریفریشر کورسز وقت کی ضرورت ہیں فوٹو: فائل

سورائسز صرف جلدی بیماری نہیں اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو دل ، دماغ، جگر، گردے اور دیگر اندرونی اعضا متاثر کر کے زندگی بھر کے لیے معذور بنا سکتی ہے، یہ موروثی بیماری ہونے کے علاوہ شراب، منشیات، تمباکو نوشی اور پروٹین کازیادہ استعمال کرنے والے افراد کو زیادہ لاحق ہو سکتی ہے۔

سورائسز کا جدید ترین طریقہ علاج ''فوٹو تھراپی'' ہمارے ملک میں بھی دستیاب ہے تاہم اسے مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی آگاہی کیلیے ڈاکٹرز کے ریفریشر کورسز وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے پروٹوکول کے مطابق سورائسز کی جلد تشخیص، معالج و علاج تک رسائی اور مریض کو نفسیاتی مسائل سے نکالنا ضروری ہے۔ یہ سیمینار سورائسز کے حوالے سے آگاہی دینے میں انتہائی اہم ہے، اس طرح کے آگہی سیمینارز سے اس مرض پر قابو پانے میں خاصی مدد ملے گی۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین امراض جلد نے ایکسپریس میڈیا گروپ اور نووارٹس فارما کے زیر اہتمام ''سورائسز'' کے حوالے سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ آگاہی سیمینار سے کیا جس کی میزبانی کے فرائض ایڈیٹر فورم اجمل ستار ملک نے سرانجام دیے۔

میو ہسپتال لاہور کے شعبہ امراض جلد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ سورائسز دنیا میں عام پائی جانے والی بیماری ہے جس سے 2 فیصد افراد متاثر ہیں، شمالی یورپ اور امریکا میں یہ زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس بیماری میں جسم کے مختلف حصوں پر سرخ رنگ کے دھبے پڑ جاتے ہیں۔


مچھلی کی طرح سفید جھلی بن جاتی ہے۔ سورائسز کا جدید طریقہ علاج ''فوٹو تھراپی'' پاکستان میں موجود ہے،سربراہ شعبہ امراض جلد لاہور جنرل اسپتال پروفیسر انیلہ اصغر نے کہا کہ مرض کی علامات ظاہر ہونے پر فوری ماہر امراض جلد سے رجوع کرنا چاہیے۔

اگر ابتدا میں ہی تشخیص اور علاج ہوجائے تو پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ مرض بچوں کو بھی متاثر کرتا ہے، 16 سے 22 برس اور 40 سے 50 برس کی عمر کے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اتائیوں کی وجہ سے درست علاج نہیں ہورہا، حکومت کو ان کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ امراض جلد لاہور جنرل اسپتال ڈاکٹر کہکشاں طاہر نے کہا کہ جلدی امراض سے لوگوں کو زیادہ آگاہی نہیں۔ جنرل پریکٹیشنرز بھی سورائسز جیسی بیماریوں سے لاعلم ہیں یا انتہائی کم آگاہی رکھتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا یہ ایجنڈا ہے کہ جنرل پریکٹیشنرز کو آگاہی دی جائے تاکہ وہ اس کی درست تشخیص کرکے ماہر امراض جلد کو ریفر کرسکیں۔

یہ اچھوت کی بیماری نہیں ہے، یہ مریض کو چھونے سے کسی دوسرے کو نہیں لگتی ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ امراض جلد لاہور جنرل اسپتال ڈاکٹر طاہر کمال نے کہا کہ اگر مرض کو 1 سے 2 برس ہوئے ہیں تو نارمل طریقہ علاج ہے لیکن اگر پیچیدہ ہوگیا ہے اور اس نے دیگر اعضا کو بھی متاثر کیا ہے تو پھر طریقہ علاج بھی اسی لحاظ سے ہوگا۔
Load Next Story