ن لیگ کا ججز تقررکی پارلیمانی کمیٹی کو طاقتور بنانے کا فیصلہ
وزیرقانون کوبھی اختیاردیاجائیگا، ذیلی کمیٹی نے تجاویزپرغورشروع کردیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے اعلیٰ عدلیہ میںججزتقرری کیلیے جوڈیشل کمیشن اورپارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں توازن لانے کیلیے اپنی قانونی ٹیم کو آئین کے آرٹیکل175اے کادوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت جاری کردی ہے۔
موجودہ حالات میں ججزتقرری کیلیے قائم جوڈیشل کمیشن کے پاس تمام تراختیارات ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم نے ججزتقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی کوطاقتوربنانے کیلئے کچھ تجاویزپیش کی ہیں۔ایکسپریس ٹریبیون کو معلوم ہواہے کہ پارلیمانی کمیٹی نے مسلم لیگ ن کی قیادت کومجوزہ ترمیم کے بارے میں آگاہ کیاہے کہ اوراس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی میںتمام جماعتیں آن بورڈہیں۔ان تجاویز میںسب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سپریم کوٹ کے اس فیصلے کااثرکس طرح کم کیاجائے جس سے پارلیمانی کمیٹی کاکردارمحض ڈاکخانے کا ہوکررہ گیاہے اورہائیکورٹ کے ججزکی نامزدگی کے عمل میں وزیرقانون اورانکے سینئروکلاء کے کردارکوکیسے اہم بنایا جاسکتا ہے۔انھوں نے ہائیکورٹ کے ججوں کی تقرری میں سیشن ججزکے کوٹا کی سختی سے اسکروٹنی کرنے کابھی کہاہے اوروضاحت کی ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی جانب سے مبینہ طور پرسیاسی بنیادوں پر لگائے گئے ہائیکورٹ کے 25 ججوں کے معاملے سے کیسے نمٹا جائے۔پارلیمانی کمیٹی کایہ بھی کہناہے کہ آئین کے آرٹیکل 175اے کی شق 12کومنسوخ کیاجائے کیونکہ اس شق سے کمیٹی بے اختیاربن گئی ۔یہ شق پارلیمانی کمیٹی کومجبورکرتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے نامزدکیے گئے ججوںکی14 روزمیں توثیق کردی جائے اورایسانہ کرنے پرجوڈیشل کمیشن کی نامزدگیاں خودبخودکنفرم تصورہوتی ہیں۔
یہ تجویزبھی دی گئی ہے کہ 14روزکی ڈیڈلائن کاخاتمہ اور پارلیمانی کمیٹی کوججزکیلئے متبادل نام دینے کااختیاردیناچاہیے۔ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے اجلاسوں میں باری باری مختلف ارکان کوچیئرمین بنانے پراتفاق کیاہے ۔پارلیمانی کمیٹی کی رائے ہے کہ کمیٹی کے اختیارات خاص طورپرسپریم کورٹ کے اس فیصلہ کاجائزہ لیناضروری ہے جس میں کہاگیاتھاکہ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے ناموں کی اسکروٹنی نہیں کرسکتی اورصرف تبصرہ اورنامزد جج کی شہرت کے بارے میں بات کرسکتی ہے ۔ ججزتقررکی پارلیمانی کمیٹی اورجوڈیشل کمیشن کومضبوط بنانے کیلیے پارلیمانی کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی بنادی گئی ہے ۔پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر فاروق ایچ نائیک کواس کمیٹی کاکنوینر،سینیٹر رفیق رجوانہ اورمحمودبشیرورک کورکن بنایاگیاہے۔اس سب کمیٹی کے دواجلاس بھی ہوچکے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی نے عزم کااظہارکیاکہ ترمیم تجویزکرنے کیلئے دوسرے ممالک کے جوڈیشل کمیشنز اور پارلیمانی کمیٹیوں کے اختیارات کابھی جائزہ لیاجائیگا۔سب کمیٹی نے ججزتقرری میں وزیرقانون کے کردارکومضبوط بنانے اورآرٹیکل 175 اے کی شق 8اور12میںترمیم کی تجویزدی ہے۔کمیٹی نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن ،ہائیکورٹ بارایسوسی ایشنزکے صدور،معروف قانون دانوں اوروکلاء سے رہنمائی اورمشورہ لینے کیلئے انہیں اپنے اجلاسوں میں دعوت دینے کافیصلہ کیاہے۔کمیٹی کی سفارشات کوپارلیمنٹ میںپیش کیاجائے گا۔مسلم لیگ ن کے رہنمارفیق رجوانہ نے اس حوالے سے ہونے والی پیشرفت کی تصدیق کی لیکن سفارشات کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکارکرلیا۔
ماہرقانون سلمان اکرم راجہ نے اس حوالے سے کہاکہ جوڈیشل کمیشن اورپارلیمانی کمیٹی دونوںلازمی ادارے ہیں اورججزکی نامزدگیوں میں دونوںکو مضبوط بنایاجاناچاہیے، انہوں نے کہا کہ صرف چیف جسٹس کو ججزتعیناتی سے متعلق اختیارنہیں ہوناچاہیے۔آئینی ماہرحامدخان نے کہاکہ ججزتقررکی پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے اوراس کوختم کیاجاناچاہیے۔انھوں نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی کومضبوط بنانے کے بجائے جوڈیشل کمیشن میں پارلیمنٹ کے کچھ ارکان کوشامل کردیناچاہیے۔پنجاب کے وزیرقانون راناثناء اللہ نے کہاکہ ججزتعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن کایکطرفہ کردارہے،اس کادوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے،انہوں نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی بے اختیارہے جسے مضبوط بناناچاہیے
موجودہ حالات میں ججزتقرری کیلیے قائم جوڈیشل کمیشن کے پاس تمام تراختیارات ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم نے ججزتقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی کوطاقتوربنانے کیلئے کچھ تجاویزپیش کی ہیں۔ایکسپریس ٹریبیون کو معلوم ہواہے کہ پارلیمانی کمیٹی نے مسلم لیگ ن کی قیادت کومجوزہ ترمیم کے بارے میں آگاہ کیاہے کہ اوراس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی میںتمام جماعتیں آن بورڈہیں۔ان تجاویز میںسب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سپریم کوٹ کے اس فیصلے کااثرکس طرح کم کیاجائے جس سے پارلیمانی کمیٹی کاکردارمحض ڈاکخانے کا ہوکررہ گیاہے اورہائیکورٹ کے ججزکی نامزدگی کے عمل میں وزیرقانون اورانکے سینئروکلاء کے کردارکوکیسے اہم بنایا جاسکتا ہے۔انھوں نے ہائیکورٹ کے ججوں کی تقرری میں سیشن ججزکے کوٹا کی سختی سے اسکروٹنی کرنے کابھی کہاہے اوروضاحت کی ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی جانب سے مبینہ طور پرسیاسی بنیادوں پر لگائے گئے ہائیکورٹ کے 25 ججوں کے معاملے سے کیسے نمٹا جائے۔پارلیمانی کمیٹی کایہ بھی کہناہے کہ آئین کے آرٹیکل 175اے کی شق 12کومنسوخ کیاجائے کیونکہ اس شق سے کمیٹی بے اختیاربن گئی ۔یہ شق پارلیمانی کمیٹی کومجبورکرتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے نامزدکیے گئے ججوںکی14 روزمیں توثیق کردی جائے اورایسانہ کرنے پرجوڈیشل کمیشن کی نامزدگیاں خودبخودکنفرم تصورہوتی ہیں۔
یہ تجویزبھی دی گئی ہے کہ 14روزکی ڈیڈلائن کاخاتمہ اور پارلیمانی کمیٹی کوججزکیلئے متبادل نام دینے کااختیاردیناچاہیے۔ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے اجلاسوں میں باری باری مختلف ارکان کوچیئرمین بنانے پراتفاق کیاہے ۔پارلیمانی کمیٹی کی رائے ہے کہ کمیٹی کے اختیارات خاص طورپرسپریم کورٹ کے اس فیصلہ کاجائزہ لیناضروری ہے جس میں کہاگیاتھاکہ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے ناموں کی اسکروٹنی نہیں کرسکتی اورصرف تبصرہ اورنامزد جج کی شہرت کے بارے میں بات کرسکتی ہے ۔ ججزتقررکی پارلیمانی کمیٹی اورجوڈیشل کمیشن کومضبوط بنانے کیلیے پارلیمانی کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی بنادی گئی ہے ۔پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر فاروق ایچ نائیک کواس کمیٹی کاکنوینر،سینیٹر رفیق رجوانہ اورمحمودبشیرورک کورکن بنایاگیاہے۔اس سب کمیٹی کے دواجلاس بھی ہوچکے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی نے عزم کااظہارکیاکہ ترمیم تجویزکرنے کیلئے دوسرے ممالک کے جوڈیشل کمیشنز اور پارلیمانی کمیٹیوں کے اختیارات کابھی جائزہ لیاجائیگا۔سب کمیٹی نے ججزتقرری میں وزیرقانون کے کردارکومضبوط بنانے اورآرٹیکل 175 اے کی شق 8اور12میںترمیم کی تجویزدی ہے۔کمیٹی نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن ،ہائیکورٹ بارایسوسی ایشنزکے صدور،معروف قانون دانوں اوروکلاء سے رہنمائی اورمشورہ لینے کیلئے انہیں اپنے اجلاسوں میں دعوت دینے کافیصلہ کیاہے۔کمیٹی کی سفارشات کوپارلیمنٹ میںپیش کیاجائے گا۔مسلم لیگ ن کے رہنمارفیق رجوانہ نے اس حوالے سے ہونے والی پیشرفت کی تصدیق کی لیکن سفارشات کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکارکرلیا۔
ماہرقانون سلمان اکرم راجہ نے اس حوالے سے کہاکہ جوڈیشل کمیشن اورپارلیمانی کمیٹی دونوںلازمی ادارے ہیں اورججزکی نامزدگیوں میں دونوںکو مضبوط بنایاجاناچاہیے، انہوں نے کہا کہ صرف چیف جسٹس کو ججزتعیناتی سے متعلق اختیارنہیں ہوناچاہیے۔آئینی ماہرحامدخان نے کہاکہ ججزتقررکی پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے اوراس کوختم کیاجاناچاہیے۔انھوں نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی کومضبوط بنانے کے بجائے جوڈیشل کمیشن میں پارلیمنٹ کے کچھ ارکان کوشامل کردیناچاہیے۔پنجاب کے وزیرقانون راناثناء اللہ نے کہاکہ ججزتعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن کایکطرفہ کردارہے،اس کادوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے،انہوں نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی بے اختیارہے جسے مضبوط بناناچاہیے