معاشی مشکلات صحافی دیگر پیشے اختیار کرنے پر مجبور
مئی2018سے اپریل2019 کے عرصے میں 2 ہزار عامل صحافی اورغیرصحافتی عملے کونوکریوں سے فارغ کیاگیا،رپورٹ
پاکستان میں صحافت کا شعبہ مشکل حالات کا شکار ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کی جانب سے جاری کردہ ساؤتھ ایشیا پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق صرف مئی 2018 سے اپریل 2019 کے ایک سال کے عرصے میں 2 ہزار عامل صحافی (ورکنگ جرنلسٹ) اور غیر صحافتی عملے (نان جرنلسٹ اسٹاف) کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے، فارغ کیے گئے صحافیوں کی بڑی تعداد شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور ایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں جنھیں روزگار کا ذریعہ بنانے کے بارے میں انھوں نے سوچا تک نہیں تھا۔
میڈیا انڈسٹری میں جن لوگوں کا روزگار برقرار ہے وہ بھی بے یقینی کاشکار ہیں اور روزگار چھن جانے کا خوف ہر وقت ان کے سروں پر سوار رہتا ہے، کراچی میں 10سال تک صحافت کرنے والے نوجوان صحافی عبدالولی کا شمار بھی ایسے ہی صحافیوں میں ہوتا ہے جنھیں 10سال کے عرصے میں 2 بار نوکری سے نکالا گیا، 2 بار خود انھوں نے ناموافق اوقات کار اور محدود معاوضے کی وجہ سے اداروں کو چھوڑدیا۔
عبدالولی نے کراچی یونیورسٹی سے تعلقات عامہ میں ریگولر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، دوران تدریس اور بعد میں بھی وہ خود تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے اور صحافت کا شعبہ اختیار کرنے سے پہلے استاد کی حیثیت سے نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے رہے، انھوں نے کئی اخبارات میں سب ایڈیٹر، فیچر رائٹر، رپورٹر، سینئر سب ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، انٹرپرنیور شپ، ٹیکنالوجی اور سماجی مسائل ان کے خاص موضوعات رہے۔
انھوں نے پاکستان میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے بہترین عرصے میں رپورٹنگ کی اور اپنے پڑھنے والوں کو تھری جی ٹیکنالوجی، ڈیجیٹلائزیشن، ای کامرس،انٹرنیٹ پر مبنی سماجی پلیٹ فارمز کے احیا کے بارے میں آگہی فراہم کی۔
کاروبارکی سوچ کیساتھ نوکری ملتے ہی جذبہ ٹھنڈاپڑجاتاتھا
صحافت میں جب مشکلات آتی تھیں اپنا کاروبار کرنے کی سوچ تقویت پاتی تھی لیکن دوسری نوکری ملتے ہی یہ جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا تھا، یہ بات عبدالولی نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ صحافت کے دوران ایک ادارے سے نکالے جانے کے بعد انھوں نے بریانی سینٹر کھولنے کا سوچا اور کاروبار شروع کرنے کے لیے برنس روڈ کے ایک پکوان سینٹر میں باقاعدہ بریانی بنانا سیکھنا شروع کردی اور سیکھنے کے بعد گھر پر بھی بریانی تیار کرکے مشق کرتے رہے لیکن اسی دوران ایک میڈیا کے ادارے میں نوکری لگ گئی اور انھوں نے اپنا کاروبار کرنے کا فیصلہ ایک بار پھر ترک کردیا۔
اپنی صحافتی ذمے داریوں کے دوران عبدالولی اکثر کامیاب کاروباری شخصیات، کاروباری اداروں کے سربراہان اور انٹرپرنیوررز سے ملا کرتے تھے اور کاروبار کے بنیادی اصول یعنی مصنوعات یا خدمات کے معیار کی اہمیت سے آگاہ تھے اس دوران انھوں نے پوش علاقے میں قائم پیزا ریسٹورنٹ کے مالک کا انٹرویو کیا اور پیزا بنانا سیکھنے کے لیے دلچسی کا اظہار کیا اور ریسٹورنٹ کے مالک نے انھیں کچن میں آنے کی اجاز ت دے دی، عبدالولی 4 ماہ تک صحافت کے ساتھ فارغ اوقات میں پیزا ریسٹورانٹ جاکر کچن میں عملی مشق کرتے رہے۔
اسکول وکالج کی سطح پر انٹرپرنیورشپ کی تعلیم وتربیت ضروری ہوگئی
اسکول اور کالج کی سطح پر انٹرپرنیور شپ کی تعلیم اور تربیت ضروری ہے تاکہ ہمارے بچے اور نوجوان ایک اچھی نوکری کے حصول کو تعلیم کا مقصد نہ بنائیں بلکہ خود کو تعلیم سے آراستہ کرکے سلیقے سے کاروبار کریں اور معاشرے کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
عبدالولی بچوں میں انٹر پر نیور شپ کے فروغ کے لیے انٹرن شپ پروگرام کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس پر کورونا کی وبا کم ہونے اور اسکول کالجز کے مکمل طور پر فعال ہونے کے بعد عمل کیا جائے گا۔
بیروزگار صحافی کوئی بھی چھوٹاسا کام بہتر انداز میں شروع کریں
عبدالولی کے مطابق پاکستان میں میڈیا کے حالا ت 4 سال میں اور زیادہ خراب ہوچکے ہیں کافی لوگ بے روزگار ہورہے ہیں اپنے صحافی دوستوں کیلیے جو معاشی مشکلات کاشکار ہیں یا روزگار کھوچکے ہیں میرا مشورہ ہے کہ کوئی بھی چھوٹا سا کام بہتر انداز میں شروع کریں۔ نوکری ویسے بھی دوسروں پر اپنے آجر اداروں پر انحصار کرنے کی عادت ڈالتی ہے، اس عادت کو ترک کرنا مشکل ہوتا ہے، خود پر اپنی صلاحیتوں پر انحصار کریں، اپنے کاروبار کا آغاز اس نیت سے کریں کہ آپ کے حالات بہتر ہوں گے ساتھ ہی دو چار اور بے روزگار لوگوں کو روزگار ملے گا۔
گاہک کو پلاسٹک شاپرنہیں، ری سائیکل تھیلے دیتے ہیں
کاروبار شروع کیے 4 سال ہوگئے، لانڈھی جیسے علاقے میں جہاں 20 روپے مالیت کا سودا لینے پر بھی پلاسٹک کا شاپر ملتا ہے ہم نے آج تک اپنے کسی گاہک کو پلاسٹک شاپر نہیں دیا اس کی جگہ ری سائیکل کاغذ کے تھیلے استعمال کیے جاتے ہیں کسٹمرز کو بھی سمجھاتے ہیں کہ شاپر کچرا ہے جو زندگی کو مشکل بنارہا ہے وہ 20 قسم کے برگر 10 قسم کے رولز، 8 قسم کے سینڈویچ اور 20 قسم کے پیزااور فرائیڈ چکن بناتے ہیں اور حیران کن طور پر کسی بھی آئٹم میں کھلا یا بازاری خام مال استعمال نہیں ہوتا، تمام میٹریل پاکستان کی سرفہرست برانڈز کا استعمال کیا جاتا ہے جن میں آٹے اور نمک سے لے کر تیل، مصالحہ جات، پنیر، بریڈ اور چکن تک شامل ہیں وہ اردگرد کے 2 اسکولوں میں بچوں کی کنٹین بھی چلارہے ہیں اور ایک فارما کمپنی کے لیے بھی کھانا فراہم کرتے ہیں،ان کا کچن شہر کے دوسرے کناروں تک آرڈر کی ترسیل کرتا ہے ان کے گاہک شیرشاہ سے سمندر کے کنارے آباد پوش آبادیوں تک پھیلے ہوئے ہیں باالخصوص لاک ڈاؤن کے دوران انھیں شہر کے دور دراز علاقوں تک سے آرڈر ملے۔
میڈیاکے بگڑتے حالات پرصحافت ترک کرنے کا دباؤ تھا،عبدالولی
صحافت پر آنے والی مشکلات کا شکار عبدالولی کہتے ہیں کہ محدود تنخواہ، زیادہ اوقات کار، نوکری جانے کا خوف اور میڈیا انڈسٹری کے مزید بگڑتے حالات کی وجہ سے ان کے اہل خانہ انھیں صحافت کا پیشہ ترک کرکے کاروبار کرنے کا مطالبہ کرتے رہے، صحافت میں تنخواہ بڑھنے کے بجائے کم ہورہی تھی اور مہنگائی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا اور گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہورہے تھے مشترکہ خاندان میں رہنے کی وجہ سے زندگی کی گاڑی رکے بغیر چل رہی تھی لیکن اس بات کا احساس شدت اختیار کررہا تھا کہ جلد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
عبدالولی کے والد کا تعمیراتی میٹریل کا چھوٹا سا کاروبار تھا اور وہ چاہتے تھے کہ عبدالولی اس کاروبار میں حصہ لے لیکن عبدالولی کے ایک بھائی پہلے ہی اس کاروبار کو دیکھ رہے تھے دوسری جانب عبدالولی چاہتے تھے کہ صحافت اور تدریس کے پیشہ سے حاصل ہونے والا تجربہ اور سوجھ بوجھ کو بروئے کار لائیں اور کوئی ایسا کاروبار کریں جس میں عوام کو آگہی فراہم کرنے اور سماجی بھلائی میں اپنا کردار بھی ادا کرتے رہیں۔
معیارکی بنیاد پرلانڈھی میں پیزااورفاسٹ فوڈسینٹرشروع کیا
معیار کو بنیاد بناکر 2نومبر 2016 کو لانڈھی کے علاقے میں پیزا اور فاسٹ فوڈ کے کاروبار کا آغاز کیا، عبدالولی کہتے ہیں کہ صحافت اور تدریس کے پیشے سے وابستگی کے دوران جو شعور اور آگہی خود انھیں ملی اسے کاروبا رکے ذریعے بھی عام کرنے کا مشن جاری رکھا ہے۔
عبدالولی کے مطابق انھوں نے آخری نوکری میں 41 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پائی اور کاروبا رکے 8 ماہ بعد اس قابل ہوگیا کہ اپنے 4 ملازمین کو اپنی آخری تنخواہ سے زائد تنخواہ ادا کرنے لگا۔
عبدالولی کہتے ہیں کہ تدریس، صحافت اور اب فاسٹ فوڈ کے کاروبار میں ایک قدر مشترک ہے کہ انھوں نے اپنے کاروبار میں بھی اصلاح کا پہلو جاری رکھا ہوا ہے استاد اپنے طالب علموں، صحافی اپنے قارئین اور اچھا انٹرپرنیور اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور کسٹمرز کو سکھاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ریسٹورنٹ کو اس طرح چلاتا ہوں کہ آگہی دوں اچھی چیز کھانی چاہیے کیا کھارہے ہیں، کاروبار میں حفظان صحت اور ماحول کے تحفظ کو اولین ترجیح حاصل ہے۔
لانڈھی کی10لاکھ آبادی میں کوئی اچھی پیزا شاپ نہیں تھی
پیزا بنانے کا سلسلہ جاری تھا کہ صحافت کی نوکری چلی گئی اور وہ ایک بار پھر اپنا کاروبار کرنے کا سوچنے لگ گئے، انھوں نے اپنے رہائشی علاقے لانڈھی کا جائزہ لیا جہاں لگ بھگ 10 لاکھ کی آبادی میں کوئی اچھی پیزا شاپ یا صفائی کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق معیاری فوڈ فروخت کرنے والا سینٹر نہیں تھا، عبدالولی نے فوڈ سینٹر کے لیے ایک چھوٹی سی جگہ کا انتخاب کیا، والد اور اہل خانہ ابتدائی سرمایہ فراہم کرنے کے لیے تیار تھے خود ان کے پاس بھی تھوڑی سی رقم موجود تھی۔
عبدالولی کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جہاں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ نوکری اور بالخصوص صحافت کرنے کے بعد کسی کاروبار میں رسک لینا کتنا مشکل ہوتا ہے، کئی روز تک وہ فیصلہ کرنے کی ہمت نہ کرسکے بار بار یہ سوال ذہن میں ابھرتا تھا کہ ناکام ہوگئے اور پیسہ ڈوب گیا، کاروبار نہ چلا تو کیا ہوگیا عبدالولی کے مطابق نوکری جس میں تنخواہ کم ہو یا زیادہ نوکری پیشہ افراد کی سوچ اور زندگی محدود ہوجاتی ہے و ہ اپنی ماہانہ آمدنی سے بڑھ کر کچھ سوچنے کو تیار نہیں ہوتے اور کسی بھی قسم کا رسک لینے سے گھبراتے ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) کی جانب سے جاری کردہ ساؤتھ ایشیا پریس فریڈم رپورٹ کے مطابق صرف مئی 2018 سے اپریل 2019 کے ایک سال کے عرصے میں 2 ہزار عامل صحافی (ورکنگ جرنلسٹ) اور غیر صحافتی عملے (نان جرنلسٹ اسٹاف) کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ہے، فارغ کیے گئے صحافیوں کی بڑی تعداد شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور ایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں جنھیں روزگار کا ذریعہ بنانے کے بارے میں انھوں نے سوچا تک نہیں تھا۔
میڈیا انڈسٹری میں جن لوگوں کا روزگار برقرار ہے وہ بھی بے یقینی کاشکار ہیں اور روزگار چھن جانے کا خوف ہر وقت ان کے سروں پر سوار رہتا ہے، کراچی میں 10سال تک صحافت کرنے والے نوجوان صحافی عبدالولی کا شمار بھی ایسے ہی صحافیوں میں ہوتا ہے جنھیں 10سال کے عرصے میں 2 بار نوکری سے نکالا گیا، 2 بار خود انھوں نے ناموافق اوقات کار اور محدود معاوضے کی وجہ سے اداروں کو چھوڑدیا۔
عبدالولی نے کراچی یونیورسٹی سے تعلقات عامہ میں ریگولر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، دوران تدریس اور بعد میں بھی وہ خود تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے اور صحافت کا شعبہ اختیار کرنے سے پہلے استاد کی حیثیت سے نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے رہے، انھوں نے کئی اخبارات میں سب ایڈیٹر، فیچر رائٹر، رپورٹر، سینئر سب ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، انٹرپرنیور شپ، ٹیکنالوجی اور سماجی مسائل ان کے خاص موضوعات رہے۔
انھوں نے پاکستان میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے بہترین عرصے میں رپورٹنگ کی اور اپنے پڑھنے والوں کو تھری جی ٹیکنالوجی، ڈیجیٹلائزیشن، ای کامرس،انٹرنیٹ پر مبنی سماجی پلیٹ فارمز کے احیا کے بارے میں آگہی فراہم کی۔
کاروبارکی سوچ کیساتھ نوکری ملتے ہی جذبہ ٹھنڈاپڑجاتاتھا
صحافت میں جب مشکلات آتی تھیں اپنا کاروبار کرنے کی سوچ تقویت پاتی تھی لیکن دوسری نوکری ملتے ہی یہ جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا تھا، یہ بات عبدالولی نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ صحافت کے دوران ایک ادارے سے نکالے جانے کے بعد انھوں نے بریانی سینٹر کھولنے کا سوچا اور کاروبار شروع کرنے کے لیے برنس روڈ کے ایک پکوان سینٹر میں باقاعدہ بریانی بنانا سیکھنا شروع کردی اور سیکھنے کے بعد گھر پر بھی بریانی تیار کرکے مشق کرتے رہے لیکن اسی دوران ایک میڈیا کے ادارے میں نوکری لگ گئی اور انھوں نے اپنا کاروبار کرنے کا فیصلہ ایک بار پھر ترک کردیا۔
اپنی صحافتی ذمے داریوں کے دوران عبدالولی اکثر کامیاب کاروباری شخصیات، کاروباری اداروں کے سربراہان اور انٹرپرنیوررز سے ملا کرتے تھے اور کاروبار کے بنیادی اصول یعنی مصنوعات یا خدمات کے معیار کی اہمیت سے آگاہ تھے اس دوران انھوں نے پوش علاقے میں قائم پیزا ریسٹورنٹ کے مالک کا انٹرویو کیا اور پیزا بنانا سیکھنے کے لیے دلچسی کا اظہار کیا اور ریسٹورنٹ کے مالک نے انھیں کچن میں آنے کی اجاز ت دے دی، عبدالولی 4 ماہ تک صحافت کے ساتھ فارغ اوقات میں پیزا ریسٹورانٹ جاکر کچن میں عملی مشق کرتے رہے۔
اسکول وکالج کی سطح پر انٹرپرنیورشپ کی تعلیم وتربیت ضروری ہوگئی
اسکول اور کالج کی سطح پر انٹرپرنیور شپ کی تعلیم اور تربیت ضروری ہے تاکہ ہمارے بچے اور نوجوان ایک اچھی نوکری کے حصول کو تعلیم کا مقصد نہ بنائیں بلکہ خود کو تعلیم سے آراستہ کرکے سلیقے سے کاروبار کریں اور معاشرے کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
عبدالولی بچوں میں انٹر پر نیور شپ کے فروغ کے لیے انٹرن شپ پروگرام کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس پر کورونا کی وبا کم ہونے اور اسکول کالجز کے مکمل طور پر فعال ہونے کے بعد عمل کیا جائے گا۔
بیروزگار صحافی کوئی بھی چھوٹاسا کام بہتر انداز میں شروع کریں
عبدالولی کے مطابق پاکستان میں میڈیا کے حالا ت 4 سال میں اور زیادہ خراب ہوچکے ہیں کافی لوگ بے روزگار ہورہے ہیں اپنے صحافی دوستوں کیلیے جو معاشی مشکلات کاشکار ہیں یا روزگار کھوچکے ہیں میرا مشورہ ہے کہ کوئی بھی چھوٹا سا کام بہتر انداز میں شروع کریں۔ نوکری ویسے بھی دوسروں پر اپنے آجر اداروں پر انحصار کرنے کی عادت ڈالتی ہے، اس عادت کو ترک کرنا مشکل ہوتا ہے، خود پر اپنی صلاحیتوں پر انحصار کریں، اپنے کاروبار کا آغاز اس نیت سے کریں کہ آپ کے حالات بہتر ہوں گے ساتھ ہی دو چار اور بے روزگار لوگوں کو روزگار ملے گا۔
گاہک کو پلاسٹک شاپرنہیں، ری سائیکل تھیلے دیتے ہیں
کاروبار شروع کیے 4 سال ہوگئے، لانڈھی جیسے علاقے میں جہاں 20 روپے مالیت کا سودا لینے پر بھی پلاسٹک کا شاپر ملتا ہے ہم نے آج تک اپنے کسی گاہک کو پلاسٹک شاپر نہیں دیا اس کی جگہ ری سائیکل کاغذ کے تھیلے استعمال کیے جاتے ہیں کسٹمرز کو بھی سمجھاتے ہیں کہ شاپر کچرا ہے جو زندگی کو مشکل بنارہا ہے وہ 20 قسم کے برگر 10 قسم کے رولز، 8 قسم کے سینڈویچ اور 20 قسم کے پیزااور فرائیڈ چکن بناتے ہیں اور حیران کن طور پر کسی بھی آئٹم میں کھلا یا بازاری خام مال استعمال نہیں ہوتا، تمام میٹریل پاکستان کی سرفہرست برانڈز کا استعمال کیا جاتا ہے جن میں آٹے اور نمک سے لے کر تیل، مصالحہ جات، پنیر، بریڈ اور چکن تک شامل ہیں وہ اردگرد کے 2 اسکولوں میں بچوں کی کنٹین بھی چلارہے ہیں اور ایک فارما کمپنی کے لیے بھی کھانا فراہم کرتے ہیں،ان کا کچن شہر کے دوسرے کناروں تک آرڈر کی ترسیل کرتا ہے ان کے گاہک شیرشاہ سے سمندر کے کنارے آباد پوش آبادیوں تک پھیلے ہوئے ہیں باالخصوص لاک ڈاؤن کے دوران انھیں شہر کے دور دراز علاقوں تک سے آرڈر ملے۔
میڈیاکے بگڑتے حالات پرصحافت ترک کرنے کا دباؤ تھا،عبدالولی
صحافت پر آنے والی مشکلات کا شکار عبدالولی کہتے ہیں کہ محدود تنخواہ، زیادہ اوقات کار، نوکری جانے کا خوف اور میڈیا انڈسٹری کے مزید بگڑتے حالات کی وجہ سے ان کے اہل خانہ انھیں صحافت کا پیشہ ترک کرکے کاروبار کرنے کا مطالبہ کرتے رہے، صحافت میں تنخواہ بڑھنے کے بجائے کم ہورہی تھی اور مہنگائی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا اور گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہورہے تھے مشترکہ خاندان میں رہنے کی وجہ سے زندگی کی گاڑی رکے بغیر چل رہی تھی لیکن اس بات کا احساس شدت اختیار کررہا تھا کہ جلد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
عبدالولی کے والد کا تعمیراتی میٹریل کا چھوٹا سا کاروبار تھا اور وہ چاہتے تھے کہ عبدالولی اس کاروبار میں حصہ لے لیکن عبدالولی کے ایک بھائی پہلے ہی اس کاروبار کو دیکھ رہے تھے دوسری جانب عبدالولی چاہتے تھے کہ صحافت اور تدریس کے پیشہ سے حاصل ہونے والا تجربہ اور سوجھ بوجھ کو بروئے کار لائیں اور کوئی ایسا کاروبار کریں جس میں عوام کو آگہی فراہم کرنے اور سماجی بھلائی میں اپنا کردار بھی ادا کرتے رہیں۔
معیارکی بنیاد پرلانڈھی میں پیزااورفاسٹ فوڈسینٹرشروع کیا
معیار کو بنیاد بناکر 2نومبر 2016 کو لانڈھی کے علاقے میں پیزا اور فاسٹ فوڈ کے کاروبار کا آغاز کیا، عبدالولی کہتے ہیں کہ صحافت اور تدریس کے پیشے سے وابستگی کے دوران جو شعور اور آگہی خود انھیں ملی اسے کاروبا رکے ذریعے بھی عام کرنے کا مشن جاری رکھا ہے۔
عبدالولی کے مطابق انھوں نے آخری نوکری میں 41 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پائی اور کاروبا رکے 8 ماہ بعد اس قابل ہوگیا کہ اپنے 4 ملازمین کو اپنی آخری تنخواہ سے زائد تنخواہ ادا کرنے لگا۔
عبدالولی کہتے ہیں کہ تدریس، صحافت اور اب فاسٹ فوڈ کے کاروبار میں ایک قدر مشترک ہے کہ انھوں نے اپنے کاروبار میں بھی اصلاح کا پہلو جاری رکھا ہوا ہے استاد اپنے طالب علموں، صحافی اپنے قارئین اور اچھا انٹرپرنیور اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور کسٹمرز کو سکھاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ریسٹورنٹ کو اس طرح چلاتا ہوں کہ آگہی دوں اچھی چیز کھانی چاہیے کیا کھارہے ہیں، کاروبار میں حفظان صحت اور ماحول کے تحفظ کو اولین ترجیح حاصل ہے۔
لانڈھی کی10لاکھ آبادی میں کوئی اچھی پیزا شاپ نہیں تھی
پیزا بنانے کا سلسلہ جاری تھا کہ صحافت کی نوکری چلی گئی اور وہ ایک بار پھر اپنا کاروبار کرنے کا سوچنے لگ گئے، انھوں نے اپنے رہائشی علاقے لانڈھی کا جائزہ لیا جہاں لگ بھگ 10 لاکھ کی آبادی میں کوئی اچھی پیزا شاپ یا صفائی کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق معیاری فوڈ فروخت کرنے والا سینٹر نہیں تھا، عبدالولی نے فوڈ سینٹر کے لیے ایک چھوٹی سی جگہ کا انتخاب کیا، والد اور اہل خانہ ابتدائی سرمایہ فراہم کرنے کے لیے تیار تھے خود ان کے پاس بھی تھوڑی سی رقم موجود تھی۔
عبدالولی کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جہاں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ نوکری اور بالخصوص صحافت کرنے کے بعد کسی کاروبار میں رسک لینا کتنا مشکل ہوتا ہے، کئی روز تک وہ فیصلہ کرنے کی ہمت نہ کرسکے بار بار یہ سوال ذہن میں ابھرتا تھا کہ ناکام ہوگئے اور پیسہ ڈوب گیا، کاروبار نہ چلا تو کیا ہوگیا عبدالولی کے مطابق نوکری جس میں تنخواہ کم ہو یا زیادہ نوکری پیشہ افراد کی سوچ اور زندگی محدود ہوجاتی ہے و ہ اپنی ماہانہ آمدنی سے بڑھ کر کچھ سوچنے کو تیار نہیں ہوتے اور کسی بھی قسم کا رسک لینے سے گھبراتے ہیں۔