گلگت بلتستان توقعات پر پورا اترا
جیسا کہ توقع تھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے الیکشن چوری کرنے کا الزام لگا دیا۔
وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ یعنی جو پارٹی اسلام آباد میں حکمران ہو گی وہی گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی کامیاب ہو گی۔اس بار یہ اعزاز تحریک انصاف نے حاصل کیا۔دو ہزار نو کے بعد مجلس قانون ساز کے یہ تیسرے انتخابات تھے۔
تینتیس ارکان پر مشتمل اسمبلی میں چوبیس نشستوں پر براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ چھ اضافی نشستیں خواتین کے لیے اور تین ٹیکنو کریٹس کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ نو مخصوص نشستیں چوبیس عام نشستوں پر کامیا بی کے تناسب سے آپس میں بٹ جاتی ہیں۔ حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت یا اتحاد کے پاس تینتیس میں سے سترہ نشستیں ہونی چاہئیں۔
اس بار ووٹروں کی کل تعداد سات لاکھ پینتالیس ہزار تین سو اکسٹھ تھی۔ ان میں ایک لاکھ ستائیس ہزار نئے ووٹر بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دو انتخابات میں ساٹھ فیصد سے زائد رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنے حق کا استعمال کیا۔ اس بار بھی اسی اوسط کی توقع ہے۔
سن دو ہزار نو میں جب گلگت بلتستان آئینی اصلاحات کا پیکیج نافذ ہوا تو اس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ چنانچہ جب بارہ نومبر دو ہزار نو میں پہلی گلگت بلتستان لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری اور اس نے تینتیس کے ایوان میں بیس نشستیں حاصل کر لیں اور مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے بلامقابلہ وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو گئے (موجودہ انتخابات میں مہدی شاہ ہار گئے)۔ مسلم لیگ نواز کو دو ہزار نو میں دو نشستوں پر کامیابی ملی۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم کو بھی ایک نشست ملی۔ تحریک انصاف کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں تھا۔
جب آٹھ جون دو ہزار پندرہ کو دوسری لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو اس وقت اسلام آباد میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ چنانچہ جس مسلم لیگ ن نے دو ہزار نو میں صرف دو نشستیں حاصل کی تھیں۔ اسی مسلم لیگ نے دو ہزار پندرہ میں تینتیس میں سے بائیس نشستیں اپنے بیگ میں ڈال لیں اور جس پیپلز پارٹی نے دو ہزار نو میں بیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی وہ اسلامی تحریک اور مجلسِ وحدت المسلمین کے بعد چوتھے نمبر پر آئی اور اس کے ہاتھ صرف ایک نشست لگی۔ تحریک انصاف نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور اس نے بھی ایک نشست جیتی۔ چنانچہ مسلم لیگ کے حافظ حفیظ الرحمان گلگت بلتستان کے دوسرے وزیرِ اعلی منتخب ہو گئے۔
اب آئیے پندرہ نومبر دو ہزار بیس کے انتخابی نتائج کی طرف۔ ایک بار پھر وہی چمتکار ہوا جس کے گلگت بلتستان کے ووٹر عادی ہیں (ایک جنرل سیٹ پر ایک امیدوار کے انتقال کے سبب چوبیس میں سے تئیس نشستوں پر انتخاب ہوا)
غیر سرکاری نتائج کے مطابق اسلام آباد میں حکمراں تحریک انصاف جس نے گزشتہ انتخابات میں ایک سیٹ جیتی تھی اس بار نو نشستیں جیت لی ہیں۔ مسلم لیگ ن جسے گزشتہ انتخابات میں چوبیس میں سے سولہ عام نشستیں ملی تھیں اس بار دو سیٹیں ہی نکال پائی ہے۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان بھی ہار گئے ہیں۔ جب کہ پیپلز پارٹی جس نے گزشتہ بار ایک نشست نکالی تھی اس بار تین نشستوں پر کامیاب قرار دی گئی ہے۔
مگر موجودہ انتخابات میں ایک نئے عنصر کا بھی اضافہ ہوا یعنی آزاد امیدوار۔ گزشتہ انتخابات میں ایک بھی آزاد امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا تھا مگر اس بار آزاد امیدوار سات نشستیں جیت کر پی ٹی آئی کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 10 ارکان اور سات آزاد ارکان اور پی ٹی آئی کی اتحادی مجلس وحدت المسلمین کے ایک رکن پر مشتمل اٹھارہ ارکان کی سادہ اکثریت کا اگلا وزیرِ اعلیٰ پی ٹی آئی سے ہوگا۔
جیسا کہ توقع تھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے الیکشن چوری کرنے کا الزام لگا دیا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر کیا فرق پڑتا ہے جب ہمیشہ یہی اصول انتخابی نتائج پر حکمرانی کرتا ہے کہ جو اسلام آباد کے تخت پر ہوگا وہی مظفر آباد اور گلگت پر بھی حکمرانی کرے گا۔
مگر یہ اصول صرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہی کیوں موثر ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایسا کیوں نہیں۔ اس کی کوئی بھی ممکنہ تاویل ڈھونڈی جا سکتی ہے مثلاً یہی کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ووٹرز بہت موقع شناس ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ترقیاتی فنڈز اسلام آباد سے ہی آتے ہیں اور اختیارات بھی اسلام آباد کے لاکر روم سے ہی جاری ہوتے ہیں لہٰذا کسی ایک جماعت کے بجائے اسلام آباد کو خوش رکھنا زیادہ ضروری ہے۔
دوسری تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جغرافیائی طور پر نہایت حساس علاقے ہیں لہٰذا ان میں کسی ایسی جماعت کی حکومت سازی افورڈ نہیں کی جا سکتی جس کا اسلام آباد سے چھتیس کا آنکڑا ہو۔ بہتر یہی ہے کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن تاکہ اسٹرٹیجک پالیسیوں میں تسلسل قائم رہے۔
گزشتہ دو انتخابات کی نسبت گلگت بلتستان کے موجودہ انتخابی نتائج کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس خطے کو اگلے چند ماہ میں پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ چونکہ علاقے کے ووٹروں کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے لہٰذا زندگی سہل کرنے اور صوبے کے امکان کو روشن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جس حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہے اسے ہی گلگت بلتستان میں بھی مینڈیٹ دے دیا جائے۔ جنھیں پہلے مینڈیٹ دیا گیا انھوں نے کیا ایسی توپ چلا لی جو نئی حکمران پارٹی نہیں چلا پائے گی۔
البتہ صوبائی حیثیت حاصل ہونے کے بعد گلگت بلتستان کے عوام نہ صرف آج کے مقابلے میں زیادہ بااختیار ہوں گے بلکہ وہ شائد اس نفسیات سے بھی رفتہ رفتہ چھٹکارا پالیں گے جو شدھ پھوٹھوہاری لہجے کے مالک ہمارے ریٹائرڈ بیورو کریٹ دوست راجہ گشتاسپ خان انجان کی زندگی کا منشور ہے۔ فرماتے ہیں '' سنگیا، حکومت وقوت دی فل تابعداری کرو ، افسراں دے چھوٹے موٹے کم وی کری چھوڑو، نا! کو حرج اے...''
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
تینتیس ارکان پر مشتمل اسمبلی میں چوبیس نشستوں پر براہِ راست مقابلہ ہوتا ہے۔ چھ اضافی نشستیں خواتین کے لیے اور تین ٹیکنو کریٹس کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ نو مخصوص نشستیں چوبیس عام نشستوں پر کامیا بی کے تناسب سے آپس میں بٹ جاتی ہیں۔ حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت یا اتحاد کے پاس تینتیس میں سے سترہ نشستیں ہونی چاہئیں۔
اس بار ووٹروں کی کل تعداد سات لاکھ پینتالیس ہزار تین سو اکسٹھ تھی۔ ان میں ایک لاکھ ستائیس ہزار نئے ووٹر بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دو انتخابات میں ساٹھ فیصد سے زائد رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنے حق کا استعمال کیا۔ اس بار بھی اسی اوسط کی توقع ہے۔
سن دو ہزار نو میں جب گلگت بلتستان آئینی اصلاحات کا پیکیج نافذ ہوا تو اس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ چنانچہ جب بارہ نومبر دو ہزار نو میں پہلی گلگت بلتستان لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری اور اس نے تینتیس کے ایوان میں بیس نشستیں حاصل کر لیں اور مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے بلامقابلہ وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو گئے (موجودہ انتخابات میں مہدی شاہ ہار گئے)۔ مسلم لیگ نواز کو دو ہزار نو میں دو نشستوں پر کامیابی ملی۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم کو بھی ایک نشست ملی۔ تحریک انصاف کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں تھا۔
جب آٹھ جون دو ہزار پندرہ کو دوسری لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو اس وقت اسلام آباد میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ چنانچہ جس مسلم لیگ ن نے دو ہزار نو میں صرف دو نشستیں حاصل کی تھیں۔ اسی مسلم لیگ نے دو ہزار پندرہ میں تینتیس میں سے بائیس نشستیں اپنے بیگ میں ڈال لیں اور جس پیپلز پارٹی نے دو ہزار نو میں بیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی وہ اسلامی تحریک اور مجلسِ وحدت المسلمین کے بعد چوتھے نمبر پر آئی اور اس کے ہاتھ صرف ایک نشست لگی۔ تحریک انصاف نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور اس نے بھی ایک نشست جیتی۔ چنانچہ مسلم لیگ کے حافظ حفیظ الرحمان گلگت بلتستان کے دوسرے وزیرِ اعلی منتخب ہو گئے۔
اب آئیے پندرہ نومبر دو ہزار بیس کے انتخابی نتائج کی طرف۔ ایک بار پھر وہی چمتکار ہوا جس کے گلگت بلتستان کے ووٹر عادی ہیں (ایک جنرل سیٹ پر ایک امیدوار کے انتقال کے سبب چوبیس میں سے تئیس نشستوں پر انتخاب ہوا)
غیر سرکاری نتائج کے مطابق اسلام آباد میں حکمراں تحریک انصاف جس نے گزشتہ انتخابات میں ایک سیٹ جیتی تھی اس بار نو نشستیں جیت لی ہیں۔ مسلم لیگ ن جسے گزشتہ انتخابات میں چوبیس میں سے سولہ عام نشستیں ملی تھیں اس بار دو سیٹیں ہی نکال پائی ہے۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان بھی ہار گئے ہیں۔ جب کہ پیپلز پارٹی جس نے گزشتہ بار ایک نشست نکالی تھی اس بار تین نشستوں پر کامیاب قرار دی گئی ہے۔
مگر موجودہ انتخابات میں ایک نئے عنصر کا بھی اضافہ ہوا یعنی آزاد امیدوار۔ گزشتہ انتخابات میں ایک بھی آزاد امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا تھا مگر اس بار آزاد امیدوار سات نشستیں جیت کر پی ٹی آئی کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 10 ارکان اور سات آزاد ارکان اور پی ٹی آئی کی اتحادی مجلس وحدت المسلمین کے ایک رکن پر مشتمل اٹھارہ ارکان کی سادہ اکثریت کا اگلا وزیرِ اعلیٰ پی ٹی آئی سے ہوگا۔
جیسا کہ توقع تھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے الیکشن چوری کرنے کا الزام لگا دیا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر کیا فرق پڑتا ہے جب ہمیشہ یہی اصول انتخابی نتائج پر حکمرانی کرتا ہے کہ جو اسلام آباد کے تخت پر ہوگا وہی مظفر آباد اور گلگت پر بھی حکمرانی کرے گا۔
مگر یہ اصول صرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہی کیوں موثر ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایسا کیوں نہیں۔ اس کی کوئی بھی ممکنہ تاویل ڈھونڈی جا سکتی ہے مثلاً یہی کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ووٹرز بہت موقع شناس ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ترقیاتی فنڈز اسلام آباد سے ہی آتے ہیں اور اختیارات بھی اسلام آباد کے لاکر روم سے ہی جاری ہوتے ہیں لہٰذا کسی ایک جماعت کے بجائے اسلام آباد کو خوش رکھنا زیادہ ضروری ہے۔
دوسری تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جغرافیائی طور پر نہایت حساس علاقے ہیں لہٰذا ان میں کسی ایسی جماعت کی حکومت سازی افورڈ نہیں کی جا سکتی جس کا اسلام آباد سے چھتیس کا آنکڑا ہو۔ بہتر یہی ہے کہ جسے پیا چاہے وہی سہاگن تاکہ اسٹرٹیجک پالیسیوں میں تسلسل قائم رہے۔
گزشتہ دو انتخابات کی نسبت گلگت بلتستان کے موجودہ انتخابی نتائج کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس خطے کو اگلے چند ماہ میں پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ چونکہ علاقے کے ووٹروں کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے لہٰذا زندگی سہل کرنے اور صوبے کے امکان کو روشن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جس حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہے اسے ہی گلگت بلتستان میں بھی مینڈیٹ دے دیا جائے۔ جنھیں پہلے مینڈیٹ دیا گیا انھوں نے کیا ایسی توپ چلا لی جو نئی حکمران پارٹی نہیں چلا پائے گی۔
البتہ صوبائی حیثیت حاصل ہونے کے بعد گلگت بلتستان کے عوام نہ صرف آج کے مقابلے میں زیادہ بااختیار ہوں گے بلکہ وہ شائد اس نفسیات سے بھی رفتہ رفتہ چھٹکارا پالیں گے جو شدھ پھوٹھوہاری لہجے کے مالک ہمارے ریٹائرڈ بیورو کریٹ دوست راجہ گشتاسپ خان انجان کی زندگی کا منشور ہے۔ فرماتے ہیں '' سنگیا، حکومت وقوت دی فل تابعداری کرو ، افسراں دے چھوٹے موٹے کم وی کری چھوڑو، نا! کو حرج اے...''
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )