’’برکس ممالک عالمی کورونا وبا سے مقابلے کےلیے تعاون کریں‘‘ چینی صدر
چین نئے صنعتی انقلاب کےلیے ’’برکس پارٹنرشپ انوویشن سینٹر‘‘ بھی قائم کررہا ہے
گزشتہ روز بارہواں برکس سربراہی اجلاس بذریعہ ویڈیو لنک منعقد ہوا جس میں چینی صدر شی جن پھنگ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ انسان کو اس وقت اس صدی کی سب سے شدید وبا کا سامنا ہے۔ عالمی معیشت بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی انتہا درجے کی ابتری دیکھنے کے بعد اب ایک مرتبہ پھر شدید کساد بازاری کا سامنا کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ ''برکس'' (BRICS) پانچ ممالک یعنی برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ کی مشترکہ تنظیم ہے۔
''ہمیں یقین ہے کہ امن اور ترقی ہمیشہ، ہر زمانے کا دستور رہے ہیں۔ کثیر جتہی اور معاشی عالمگیریت کا رجحان نہیں بدلے گا۔ ہمیں بنی نوع انسان کے ہم نصب معاشرے کی تعمیر کے نظریئے سے عوامی مفادات کےلیے جدوجہد کرنی چاہیے اور بہتر دنیا کےلیے خدمات انجام دینی چاہئیں،'' شی جن پھنگ نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کےلیے عالمی اتحاد اور مشترکہ تعاون ناگزیر ہیں۔ چینی کمپنیاں برازیل اور روس کے ساتھ کووڈ 19 ویکسین کی تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشوں (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) میں بھرپور تعاون کر رہی ہیں جبکہ چین اس وبا کا مقابلہ کرنے کےلیے جنوبی افریقہ اور بھارت سے تعاون کرنے کےلیے بھی تیار ہے۔ انہوں نے کووڈ 19 وبا کا مقابلہ کرنے کےلیے برکس ممالک سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے بتایا کہ برکس ممالک کووڈ 19 پر قابو پانے اور اس کے علاج میں روایتی ادویہ کا کردار اجاگر کرنے کی غرض سے ایک سمپوزیم بھی منعقد کریں گے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے خبردار کیا کہ وبا کی وجہ سے عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) نہیں رکے گی، اور یہ کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے سے نمٹنے میں ہرگز کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔
اس ضمن میں چین کا مؤقف پیش کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ کا کہنا تھا کہ چین اپنی ترقیاتی سطح اور صلاحیتوں کے مطابق بین الاقوامی ذمہ داریاں قبول کرنے کےلیے تیار ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنے اور ماحولیاتی تحفظ کے ذیل میں چینی حکمتِ عملی واضح کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے چین نہ صرف اپنی خدمات میں اضافہ کرے گا بلکہ زیادہ سخت پالیسیوں اور متعلقہ عملی اقدامات کے ذریعے بھی 2030 سے پہلے پہلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر نمایاں طور پر قابو پا لے گا۔
انہوں نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ چین 2060 سے قبل ہی خود کو ایک ''کاربن معتدل'' (کاربن نیوٹرل) معیشت بنا چکا ہوگا، یعنی چین میں صنعتی اور دیگر سرگرمیوں سے جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی، اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ مختلف تدابیر اختیار کرتے ہوئے واپس جذب بھی کرلی جائے گی۔ ''ہم نے جیسا وعدہ کیا ہے، اسے پورا کرکے دکھائیں گے،'' چینی صدر نے پراعتماد لہجے میں کہا۔
شی جن پھنگ نے کووڈ 19 عالمی وبا اور کساد بازاری کی شکار عالمی معیشت کی بحالی سمیت دیگر عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کےلیے درج ذیل تجاویز پیش کیں:
انہوں نے کہا کہ چین نئے صنعتی انقلاب کےلیے صوبہ فو جیان کے شہر شیا مین میں ''برکس پارٹنرشپ انوویشن سینٹر'' قائم کررہا ہے جہاں اس حوالے سے برکس ممالک تعاون و اشتراک سے مختلف منصوبوں پر کام کرسکیں گے۔
واضح رہے کہ ''برکس'' (BRICS) پانچ ممالک یعنی برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ کی مشترکہ تنظیم ہے۔
''ہمیں یقین ہے کہ امن اور ترقی ہمیشہ، ہر زمانے کا دستور رہے ہیں۔ کثیر جتہی اور معاشی عالمگیریت کا رجحان نہیں بدلے گا۔ ہمیں بنی نوع انسان کے ہم نصب معاشرے کی تعمیر کے نظریئے سے عوامی مفادات کےلیے جدوجہد کرنی چاہیے اور بہتر دنیا کےلیے خدمات انجام دینی چاہئیں،'' شی جن پھنگ نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کا مقابلہ کرنے کےلیے عالمی اتحاد اور مشترکہ تعاون ناگزیر ہیں۔ چینی کمپنیاں برازیل اور روس کے ساتھ کووڈ 19 ویکسین کی تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشوں (فیز تھری کلینیکل ٹرائلز) میں بھرپور تعاون کر رہی ہیں جبکہ چین اس وبا کا مقابلہ کرنے کےلیے جنوبی افریقہ اور بھارت سے تعاون کرنے کےلیے بھی تیار ہے۔ انہوں نے کووڈ 19 وبا کا مقابلہ کرنے کےلیے برکس ممالک سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے بتایا کہ برکس ممالک کووڈ 19 پر قابو پانے اور اس کے علاج میں روایتی ادویہ کا کردار اجاگر کرنے کی غرض سے ایک سمپوزیم بھی منعقد کریں گے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے خبردار کیا کہ وبا کی وجہ سے عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) نہیں رکے گی، اور یہ کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے سے نمٹنے میں ہرگز کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔
اس ضمن میں چین کا مؤقف پیش کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ کا کہنا تھا کہ چین اپنی ترقیاتی سطح اور صلاحیتوں کے مطابق بین الاقوامی ذمہ داریاں قبول کرنے کےلیے تیار ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنے اور ماحولیاتی تحفظ کے ذیل میں چینی حکمتِ عملی واضح کرتے ہوئے صدر شی جن پھنگ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے چین نہ صرف اپنی خدمات میں اضافہ کرے گا بلکہ زیادہ سخت پالیسیوں اور متعلقہ عملی اقدامات کے ذریعے بھی 2030 سے پہلے پہلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر نمایاں طور پر قابو پا لے گا۔
انہوں نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ چین 2060 سے قبل ہی خود کو ایک ''کاربن معتدل'' (کاربن نیوٹرل) معیشت بنا چکا ہوگا، یعنی چین میں صنعتی اور دیگر سرگرمیوں سے جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی، اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ مختلف تدابیر اختیار کرتے ہوئے واپس جذب بھی کرلی جائے گی۔ ''ہم نے جیسا وعدہ کیا ہے، اسے پورا کرکے دکھائیں گے،'' چینی صدر نے پراعتماد لہجے میں کہا۔
شی جن پھنگ نے کووڈ 19 عالمی وبا اور کساد بازاری کی شکار عالمی معیشت کی بحالی سمیت دیگر عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کےلیے درج ذیل تجاویز پیش کیں:
- کثیر جہتی رجحان کی حوصلہ افزائی اور عالمی امن و امان کا تحفظ۔
- وبائی امراض سے متعلق چیلنجوں کے مشترکہ مقابلے کےلیے یکجہتی اور باہمی تعاون کی مضبوطی۔
- عالمی سطح معاشی بحالی کےلیے جدت اور کھلے پن کا فروغ۔
- لوگوں کے روزگار کو فوقیت دیتے ہوئے دنیا بھر میں پائیدار ترقی کا فروغ۔
- سرسبز اور کاربن کے کم ترین اخراج پر مشتمل ترقی نیز انسان اور فطرت میں ہم آہنگی سے بقائے باہمی کا حصول۔
انہوں نے کہا کہ چین نئے صنعتی انقلاب کےلیے صوبہ فو جیان کے شہر شیا مین میں ''برکس پارٹنرشپ انوویشن سینٹر'' قائم کررہا ہے جہاں اس حوالے سے برکس ممالک تعاون و اشتراک سے مختلف منصوبوں پر کام کرسکیں گے۔