علی احمد بروہی کی یاد
علی احمد بروہی کا نام سندھی ادبی حلقے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور ان کی ادب کے لیے خدمات بہت نمایاں ہیں۔۔۔
وومیں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اپنے دفتر میں کرسی پر ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لیے قیلولہ کرنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی میں نے آنکھیں بند کیں تو مجھے کان میں ایک آواز سنائی دی جو کہہ رہی تھی یار اب تو مجھے معاف کر دے، یار بس غلطی ہو گئی تھی، میں نے آواز پر غور کیا تو وہ آواز مرحوم علی احمد بروہی کی تھی۔ اب آواز بند ہو گئی تو اس کی شکل میرے سامنے ابھر کر آئی جو مسکرا رہی تھی۔ میں نے ایک دم آنکھیں کھولیں اور ماضی کی یادوں میں چلا گیا۔
یہ 1980کا زمانہ تھا اور میں کراچی میں سندھ انفارمیشن آفس میں اسٹینوگرافر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور اس وقت ہمارا سیکریٹری انفارمیشن محکمے کا ہیڈ تھا جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس کے بولنے کے انداز نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس نے بڑے پیارے انداز میں مجھ سے پوچھا بابا کیا نام ہے تمہارا۔ جب میں نے کہا کہ لیاقت علی راجپر اور مزید سوال کے جواب میں کہا کہ میرا تعلق لاڑکانہ شہر سے ہے جس سے اس کے چہرے پر ایک اور سوال ابھر آیا مگر اس نے وہ مجھ سے نہیں پوچھا اس طرح محکمے کے لوگوں سے تعارفی سلسلہ چلتا رہا۔
دوسرے دن صبح مجھے بلا کر کہا کہ انھیں گورنر بلوچستان محمد موسیٰ خان کو ایک خط لکھنا ہے جس کی عبارت اس نے مجھے سندھی میں بتائی اور کہا کیا تم اسے انگریزی میں ٹائپ کر کے لا سکتے ہو؟ یا پھر میں تمہیں ڈکٹیٹ کرواؤں۔ میں نے کہا میں کر کے آتا ہوں اگر اس میں زیادہ غلطیاں ہوں تو پھر آپ لکھوائیں۔ جب میں ان کے پاس وہ تحریر ٹائپ کر کے لے گیا تو اس نے اسے پڑھ کر میری طرف دیکھا اور مجھے کہا کہ تمہیں کتنا وقت ہو گیا ہے اس محکمے میں کام کرتے ہوئے؟ جس پر میں تھوڑا سا سہم گیا اور کہا کہ 7 سال۔ دوسرے سوال کے جواب میں، میں نے کہا بی اے پاس ہوں۔ پھر بتایا کہ میں سندھ پبلک سروس کمیشن میں دو مرتبہ امتحان دے چکا ہوں مگر مجھے پاس نہیں کیا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے سفارش نہیں کروائی اور اپنے ٹیلنٹ پر بھروسہ کیا۔
بہر حال اس ڈرافٹ میں چند غلطیوں کو درست کرنے کے بعد مجھے دیا۔ اب وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھنے لگے اور سب کی طرح مجھ سے بابا کہہ کر بات کرتے تھے۔ اب ان کے سارے کام میں کرتا تھا جس کی وجہ سے جب بھی وہ دوپہر کا کھانا دفتر میں کھاتے تو مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلاتے۔ ان کے پاس ہر روز کوئی نہ کوئی مہمان ہوتا تھا۔ بحیثیت سیکریٹری انفارمیشن ان کے پاس ہمیشہ مہمانوں کی گہما گہمی رہتی تھی۔
ایک مرتبہ جب ڈپارٹمنٹ میں کچھ انفارمیشن افسران کی اسامیاں ایڈ ہاک پر آئیں تو بروہی صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ تم بھی درخواست جمع کرو اور میں تمہیں ضرور افسر بناؤں گا۔ تحریری ٹیسٹ حیدرآباد میں منعقد ہوا جس میں، میں نے ٹاپ کیا اور محکمے کے جتنے ڈائریکٹر اس کمیٹی کے ممبر تھے مجھے مبارکباد دی کہ بھائی تم تو افسر ہو گئے۔ اس مرحلے کے بعد پھر زبانی امتحان ہوا اس میں بھی میں بڑے اچھے طریقے سے پاس ہو گیا۔ اب مجھے اس کے نتیجے کا انتظار تھا۔ جب نتیجہ آیا تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ کیوں کہ اس میں میرا نام نہیں تھا۔ جب میں نے بروہی صاحب کے آگے احتجاج کیا تو انھوں نے کہا کہ یار مجبوری تھی کیوں کہ جنھیں ہم نے نوکری میں رکھا ہے ان کی سفارش بڑی مضبوط تھی۔
اس دوران حکومت پاکستان کی طرف سے ایک لیٹر آیا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر سندھی پروگرامز کا وقت بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے آپ کے کیا Comments ہیں؟ یہ دیکھ کر میں حیران ہو گیا کہ انھوں نے لکھا کہ پورے پاکستان میں ریجنل پروگراموں کا وقت ایک جیسا ہے اس لیے سندھ میں وقت بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب میں نے جو تصویر اس کی شخصیت کی اپنے دل میں بنا رکھی تھی وہ مٹنے لگی۔ جب انھوں نے انگریزی میں ایک کتاب Blissful life لکھی جس کی کاپی مجھے دی گئی تو اس کا اثر مجھ پر خاص نہیں ہوا۔ میں بروہی صاحب سے دور دور اور اجنبی کی طرح رہنے لگا۔ آخر کار ایک دن میں نے انھیں درخواست لکھی کہ مجھے 14 گریڈ سے گھٹا کر 12 گریڈ میں لاڑکانہ آفس بھیجا جائے۔
کیوں کہ میرے والدین کو میری بہت ضرورت ہے۔ انھوں نے میری یہ عرض مسترد کر دی۔ اس بات کو دو ہفتے ہوئے تھے کہ ان کا ٹرانسفر ہو گیا یا پھر وہ ریٹائر ہو گئے۔ اب ان کی جگہ مسٹر مسعود حمیدی سیکریٹری بن کر آئے جو ایک نفیس آدمی تھے۔ وہ نہ صرف میری بلکہ ہر آدمی کی عزت بھی کرتے تھے اور محبت بھی۔ ان کے ساتھ ایک مہینہ گزارنے کے بعد میں نے وہی درخواست ان کے آگے رکھی جس پر انھوں نے کہا کہ کیا تمہیں ان سے کوئی شکایت ہے جس پر میں نے بڑے مودبانہ انداز سے کہا نہیں۔ آپ بڑے اچھے ہیں مگر مجھے اپنے شہر جانا ہے جس پر انھوں نے کہا کہ ہم آپ کا مسئلہ حل کرتے ہیں ورنہ آپ کام والے ہیں۔ اس طرح سے میں واپس لاڑکانہ دفتر میں آ گیا۔
علی احمد بروہی جس کا نام سندھی ادبی حلقے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور ان کی ادب کے لیے خدمات بہت نمایاں ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر مزاح کو اپنا لکھنے میں مرکز بنایا ہے اور جو مختصر کہانیاں انھوں نے لکھی ہیں وہ زیادہ تر ان لوگوں کی زندگی پر ہیں جو گاؤں میں رہنے والے تھے اور وہ پیشے کے لحاظ سے حجام، موچی وغیرہ تھے۔ انھوں نے لوک ادب کو آگے بڑھانے کے لیے بھی کام کیا ہے۔ ان کی زندگی مسلسل ایک جد و جہد میں رہی ہے جس میں وہ صحافی بھی رہے ہیں، سرکاری نوکری بھی کی ہے ، انھوں نے اچھے کالم نگار، شارٹ اسٹوری رائٹر، افسانہ نگار اور محقق کے طور پر کام کیا ہے۔ انھوں نے تقریباً 14 مختلف کتابیں لکھیں ہیں جن میں سندھی اور انگریزی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔
علی احمد بروہی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ملک کے مشہور قانون دان اے کے بروہی کے بھائی تھے۔ بروہی صاحب ضلع شکارپور کے گاؤں کھنبھڑا میں (تعلقہ گڑھی یاسین) میں 11 نومبر 1920 کو پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم گرونانک اکیڈمی سے حاصل کی۔ 1940 میں سندھ مدرسہ اسکول کراچی سے میٹرک پاس کیا اور 1941 میں نیوی میں نوکری حاصل کی جہاں سے ایک بغاوت کیس میں انھیں 4 سال کی سزا ہوئی جو 13 مہینہ کے بعد ختم ہو گئی۔ وہ 1954 میں خیرپور اسٹیٹ میں محکمہ انفارمیشن میں بھرتی ہوئے۔ ایک مرتبہ جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو انھوں نے اس کی نوکری ختم کی۔ جس کے خلاف انھوں نے کورٹ میں اپیل دائر کی اور وہ 1977 میں دوبارہ نوکری پر بحال ہوئے۔ اس درمیان وہ صحافت بھی کرتے رہے اور ادبی کام کو بھی تیزی سے جاری رکھا۔ اس کے علاوہ وہ 1973سے 1977تک مختلف انڈسٹریز کے لیگل ایڈوائزر رہے۔ اس سے پہلے 1960 میں ٹورزم میں باہر ممالک میں تربیت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ 1980میں ریٹائر ہونے کے بعد وہ سلطان ٹرسٹ میں ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ انھیں اچھے کالمسٹ کا ایوارڈ APNS کی طرف سے بھی مل چکا ہے۔
انھوں نے مرنے سے پہلے غازی عبداﷲ شاہ کے مزار کے برابر اپنی قبر کی جگہ خریدی جس میں سو کر اپنے قبر کی ناپ دی اور کبھی کبھار وہاں جا کر پرندوں کو اناج دیتے تھے۔ جب ان کا انتقال دسمبر 2003 میں ہوا تو انھیں وہیں دفن کیا گیا۔ انھوں نے دو شادیاں کی تھیں جن سے ان کے چار بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔
میں نے اپنا ہر رنج بھلا دیا ، مرنے کے بعد بروہی صاحب میرے لیے ایک بزرگ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سے میرا یہ وعدہ ہے کہ اب ان کی ہر برسی پر ان کے ادبی و سماجی کاموں میں حاصل کی ہوئی برتری پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
یہ 1980کا زمانہ تھا اور میں کراچی میں سندھ انفارمیشن آفس میں اسٹینوگرافر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا اور اس وقت ہمارا سیکریٹری انفارمیشن محکمے کا ہیڈ تھا جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس کے بولنے کے انداز نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس نے بڑے پیارے انداز میں مجھ سے پوچھا بابا کیا نام ہے تمہارا۔ جب میں نے کہا کہ لیاقت علی راجپر اور مزید سوال کے جواب میں کہا کہ میرا تعلق لاڑکانہ شہر سے ہے جس سے اس کے چہرے پر ایک اور سوال ابھر آیا مگر اس نے وہ مجھ سے نہیں پوچھا اس طرح محکمے کے لوگوں سے تعارفی سلسلہ چلتا رہا۔
دوسرے دن صبح مجھے بلا کر کہا کہ انھیں گورنر بلوچستان محمد موسیٰ خان کو ایک خط لکھنا ہے جس کی عبارت اس نے مجھے سندھی میں بتائی اور کہا کیا تم اسے انگریزی میں ٹائپ کر کے لا سکتے ہو؟ یا پھر میں تمہیں ڈکٹیٹ کرواؤں۔ میں نے کہا میں کر کے آتا ہوں اگر اس میں زیادہ غلطیاں ہوں تو پھر آپ لکھوائیں۔ جب میں ان کے پاس وہ تحریر ٹائپ کر کے لے گیا تو اس نے اسے پڑھ کر میری طرف دیکھا اور مجھے کہا کہ تمہیں کتنا وقت ہو گیا ہے اس محکمے میں کام کرتے ہوئے؟ جس پر میں تھوڑا سا سہم گیا اور کہا کہ 7 سال۔ دوسرے سوال کے جواب میں، میں نے کہا بی اے پاس ہوں۔ پھر بتایا کہ میں سندھ پبلک سروس کمیشن میں دو مرتبہ امتحان دے چکا ہوں مگر مجھے پاس نہیں کیا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے سفارش نہیں کروائی اور اپنے ٹیلنٹ پر بھروسہ کیا۔
بہر حال اس ڈرافٹ میں چند غلطیوں کو درست کرنے کے بعد مجھے دیا۔ اب وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھنے لگے اور سب کی طرح مجھ سے بابا کہہ کر بات کرتے تھے۔ اب ان کے سارے کام میں کرتا تھا جس کی وجہ سے جب بھی وہ دوپہر کا کھانا دفتر میں کھاتے تو مجھے اپنے ساتھ کھانا کھلاتے۔ ان کے پاس ہر روز کوئی نہ کوئی مہمان ہوتا تھا۔ بحیثیت سیکریٹری انفارمیشن ان کے پاس ہمیشہ مہمانوں کی گہما گہمی رہتی تھی۔
ایک مرتبہ جب ڈپارٹمنٹ میں کچھ انفارمیشن افسران کی اسامیاں ایڈ ہاک پر آئیں تو بروہی صاحب نے مجھے بلا کر کہا کہ تم بھی درخواست جمع کرو اور میں تمہیں ضرور افسر بناؤں گا۔ تحریری ٹیسٹ حیدرآباد میں منعقد ہوا جس میں، میں نے ٹاپ کیا اور محکمے کے جتنے ڈائریکٹر اس کمیٹی کے ممبر تھے مجھے مبارکباد دی کہ بھائی تم تو افسر ہو گئے۔ اس مرحلے کے بعد پھر زبانی امتحان ہوا اس میں بھی میں بڑے اچھے طریقے سے پاس ہو گیا۔ اب مجھے اس کے نتیجے کا انتظار تھا۔ جب نتیجہ آیا تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ کیوں کہ اس میں میرا نام نہیں تھا۔ جب میں نے بروہی صاحب کے آگے احتجاج کیا تو انھوں نے کہا کہ یار مجبوری تھی کیوں کہ جنھیں ہم نے نوکری میں رکھا ہے ان کی سفارش بڑی مضبوط تھی۔
اس دوران حکومت پاکستان کی طرف سے ایک لیٹر آیا کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر سندھی پروگرامز کا وقت بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے آپ کے کیا Comments ہیں؟ یہ دیکھ کر میں حیران ہو گیا کہ انھوں نے لکھا کہ پورے پاکستان میں ریجنل پروگراموں کا وقت ایک جیسا ہے اس لیے سندھ میں وقت بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب میں نے جو تصویر اس کی شخصیت کی اپنے دل میں بنا رکھی تھی وہ مٹنے لگی۔ جب انھوں نے انگریزی میں ایک کتاب Blissful life لکھی جس کی کاپی مجھے دی گئی تو اس کا اثر مجھ پر خاص نہیں ہوا۔ میں بروہی صاحب سے دور دور اور اجنبی کی طرح رہنے لگا۔ آخر کار ایک دن میں نے انھیں درخواست لکھی کہ مجھے 14 گریڈ سے گھٹا کر 12 گریڈ میں لاڑکانہ آفس بھیجا جائے۔
کیوں کہ میرے والدین کو میری بہت ضرورت ہے۔ انھوں نے میری یہ عرض مسترد کر دی۔ اس بات کو دو ہفتے ہوئے تھے کہ ان کا ٹرانسفر ہو گیا یا پھر وہ ریٹائر ہو گئے۔ اب ان کی جگہ مسٹر مسعود حمیدی سیکریٹری بن کر آئے جو ایک نفیس آدمی تھے۔ وہ نہ صرف میری بلکہ ہر آدمی کی عزت بھی کرتے تھے اور محبت بھی۔ ان کے ساتھ ایک مہینہ گزارنے کے بعد میں نے وہی درخواست ان کے آگے رکھی جس پر انھوں نے کہا کہ کیا تمہیں ان سے کوئی شکایت ہے جس پر میں نے بڑے مودبانہ انداز سے کہا نہیں۔ آپ بڑے اچھے ہیں مگر مجھے اپنے شہر جانا ہے جس پر انھوں نے کہا کہ ہم آپ کا مسئلہ حل کرتے ہیں ورنہ آپ کام والے ہیں۔ اس طرح سے میں واپس لاڑکانہ دفتر میں آ گیا۔
علی احمد بروہی جس کا نام سندھی ادبی حلقے میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور ان کی ادب کے لیے خدمات بہت نمایاں ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر مزاح کو اپنا لکھنے میں مرکز بنایا ہے اور جو مختصر کہانیاں انھوں نے لکھی ہیں وہ زیادہ تر ان لوگوں کی زندگی پر ہیں جو گاؤں میں رہنے والے تھے اور وہ پیشے کے لحاظ سے حجام، موچی وغیرہ تھے۔ انھوں نے لوک ادب کو آگے بڑھانے کے لیے بھی کام کیا ہے۔ ان کی زندگی مسلسل ایک جد و جہد میں رہی ہے جس میں وہ صحافی بھی رہے ہیں، سرکاری نوکری بھی کی ہے ، انھوں نے اچھے کالم نگار، شارٹ اسٹوری رائٹر، افسانہ نگار اور محقق کے طور پر کام کیا ہے۔ انھوں نے تقریباً 14 مختلف کتابیں لکھیں ہیں جن میں سندھی اور انگریزی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔
علی احمد بروہی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ملک کے مشہور قانون دان اے کے بروہی کے بھائی تھے۔ بروہی صاحب ضلع شکارپور کے گاؤں کھنبھڑا میں (تعلقہ گڑھی یاسین) میں 11 نومبر 1920 کو پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم گرونانک اکیڈمی سے حاصل کی۔ 1940 میں سندھ مدرسہ اسکول کراچی سے میٹرک پاس کیا اور 1941 میں نیوی میں نوکری حاصل کی جہاں سے ایک بغاوت کیس میں انھیں 4 سال کی سزا ہوئی جو 13 مہینہ کے بعد ختم ہو گئی۔ وہ 1954 میں خیرپور اسٹیٹ میں محکمہ انفارمیشن میں بھرتی ہوئے۔ ایک مرتبہ جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو انھوں نے اس کی نوکری ختم کی۔ جس کے خلاف انھوں نے کورٹ میں اپیل دائر کی اور وہ 1977 میں دوبارہ نوکری پر بحال ہوئے۔ اس درمیان وہ صحافت بھی کرتے رہے اور ادبی کام کو بھی تیزی سے جاری رکھا۔ اس کے علاوہ وہ 1973سے 1977تک مختلف انڈسٹریز کے لیگل ایڈوائزر رہے۔ اس سے پہلے 1960 میں ٹورزم میں باہر ممالک میں تربیت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ 1980میں ریٹائر ہونے کے بعد وہ سلطان ٹرسٹ میں ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ انھیں اچھے کالمسٹ کا ایوارڈ APNS کی طرف سے بھی مل چکا ہے۔
انھوں نے مرنے سے پہلے غازی عبداﷲ شاہ کے مزار کے برابر اپنی قبر کی جگہ خریدی جس میں سو کر اپنے قبر کی ناپ دی اور کبھی کبھار وہاں جا کر پرندوں کو اناج دیتے تھے۔ جب ان کا انتقال دسمبر 2003 میں ہوا تو انھیں وہیں دفن کیا گیا۔ انھوں نے دو شادیاں کی تھیں جن سے ان کے چار بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔
میں نے اپنا ہر رنج بھلا دیا ، مرنے کے بعد بروہی صاحب میرے لیے ایک بزرگ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سے میرا یہ وعدہ ہے کہ اب ان کی ہر برسی پر ان کے ادبی و سماجی کاموں میں حاصل کی ہوئی برتری پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا