بھارت میں جلائی گئی مسلم لڑکی کے ملزم آزاد واقعہ نسل کشی قرار
بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار میں ہندونوجوان سے شادی سے انکار زندہ جلائی گئی مسلمان لڑکی کی ہلاکت کی ناصرف انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوگیا کہ بھارت میں حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں سمیت دیگراقلیتوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔
دو روز قبل بھارتی ریاست بہار کے ضلع ویشالی میں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک 20 سالہ مسلمان لڑکی گلناز کو ہندو لڑکے ستیش نے شادی سے انکار پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی جس پر گلناز کی موت واقع ہوگئی۔
اپنی موت سے قبل ویڈیو بیان میں لڑکی گلناز نے بیان دیا کہ '' ہندو لڑکا ستیش اس سے شادی کرنا چاہتا تھا کہ میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں مسلمان ہوں، ستیش بار بار شادی کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا اور ہر بار میں نے انکار کردیا تھا ''۔
گلناز نے مزید بتایا جب وہ کچرا پھینکنے گھر سے دروازے پر باہر آئی تو ستیش نے اپنے والد اور ایک اور شخص کی مدد سے اسے گھسیٹا اور تیل چھڑک کر آگ لگادی۔ بعد ازاں یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
گلناز کا جسم 75 فیصد تک جل گیا تھا اور وہ دوران علاج دم توڑ گئی جس پر والدین نے بیٹی کی لاش کو سڑک پر رکھ کر احتجاج بھی کیا، ملزمان کے بااثر ہونے کے باعث تاحال گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ انڈین ، امریکن مسلم کونسل اور سکھ مسلم فیڈریشن یوکے نے اس واقعہ کو بھارت کے منہ پر طمانچہ قراردیا ہے ۔
انڈین امریکن مسلم کونسل کی طرف سے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں رہی ہیں۔بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو نسل کشی کا سامنا ہے ۔انتہاپسندوں کی طرف سے مسلمانوں کا ہندوستان میں رہنامشکل بنایاجارہا ہے۔
سکھ مسلم فیڈریشن یوکے کے رہنما سربجیت سنگھ بنور نے کہا ہے ہندوستان میں پہلے سکھوں کی نسل کشی کی جارہی تھی اور اب مسلمان بھی انتہاپسند ہندوؤں کے نشانے پر ہیں۔ ایسے واقعات کیخلاف مسلمان اورسکھوں کو متحد ہوکر جواب دینا ہوگا۔