پاکستان میں کوویڈ 19 کے دوران بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد میں اضافہ

رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 38 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، رپورٹ

رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 38 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، رپورٹ

پاکستان میں بچوں پرجنسی اورجسمانی تشدد کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 1489 بچوں کو جنسی اورجسمانی تشددکا نشانہ بنایاگیا جبکہ 38 واقعات میں بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیاگیا، کوویڈ 19 کے دوران بچوں پرتشدد میں 20 فیصد اضافہ ہواہے۔

تیرہ سالہ ہادیہ اسلم کا تعلق شیخوپورہ ہے ،وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے۔ ہادیہ لاہور کے ایک گھر میں ملازمہ تھیں جہاں اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ہادیہ اسلم نے بتایا کہ جہاں وہ کام کرتی تھی وہ لوگ اسے بہت زیادہ مارتے تھے ، وہ روتی رہتی تھی ، پھرایک پولیس والے انکل نے چائلڈپروٹیکشن بیورو کواطلاع دی اور یہ لوگ اسے یہاں لے آئے تھے ، اب وہ یہاں پریپ کلاس میں پڑھ رہی ہے اورخوش بھی ہے۔ ہادیہ کے مطابق اس کی والدہ بیمار ہیں اوروہ کبھی کبھاراسے ملنے آتی ہیں۔

بچوں کے حقوق سے متعلق کام کرنیوالی این جی او ساحل کے جنوری 2020 سے جون 2020 تک کے اعداد وشمار کے مطابق 6 ماہ کےدوران 1489 بچوں کو جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 331 بچوں کو اغوا کیا گیا، 233 بچے بدفعلی کا نشانہ بنے، 168 بچے لاپتہ ہوئے، 160 بچیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، 134 بچیوں کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی گئی، 104 بچوں کو اجتماعی بدفعلی کا نشانہ بنایاگیا۔ 69 بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی،38 واقعات میں بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا جبکہ 51 بچوں کی شادی کے واقعات رپورٹ کئےگئے۔

رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران بچوں پرتشددکے سب سے زیادہ واقعات پہلےدوماہ میں ریکارڈ کئے گئے۔ جنوری میں 303، فروری میں 293، مارچ 256، اپریل میں 167، مئی میں 194 جبکہ جون میں 276 واقعات رپورٹ کئے گئے۔

اعدادوشمارکے مطابق 1489 واقعات میں 53 فیصد (785) بچیاں جبکہ 47 فیصد (704 بچے) تشددکا نشانہ بنے ہیں ۔ جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں 490 بچوں کی عمر 11 سے 15 سال کے درمیان تھی جبکہ 331 بچوں کی عمریں 6 سے 10 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ پنجاب میں سب سے زیادہ 57 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ،اسی طرح 32 فیصد سندھ، 6 فیصد کے پی کے، 35 واقعات اسلام آباد، 22 کیسز بلوچستان، 10 کیسزآزادجموں وکشمیر جبکہ ایک کیس گلگت بلتستان میں رپورٹ کیاگیا ہے۔


رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2019 کے پہلے 6 ماہ کے دوران بچوں پرجنسی اورجسمانی تشدد کے 1304 واقعات رونما ہوئے تھے جبکہ اس سال یہ تعداد 1489 ہوگئی ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں تعینات ماہرنفسیات رابعہ یوسف کہتی ہیں بچوں پر ہونیوالے جنسی اورجسمانی تشدد کو وہ زندگی بھر نہیں بھول پاتے اور ایسے واقعات کا ان کی شخصیت پربڑا گہرا منفی اثر پڑتا ہے، وہ خود کوباقی بچوں سے الگ رکھتے ہیں، بے چینی اوراضطراب کاشکار رہتے ہیں، والدین سے دور رہتے ہیں۔،ان کے اندراحساس کمتری پیداہوتا ہے تاہم ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے بچوں کو اس طرح جینا اورزندگی میں آگے بڑھنا سکھایا جائے کہ وہ خود کے ساتھ ہوئے ان حادثات کوایک بھیانک خواب سمجھ کر بھولنے کی کوشش کریں، اس مقصد کے لئے انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف سرگرمیوں میں مشغول رکھا جاتا ہے، ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے۔

بچوں پر جسمانی اورجنسی تشدد کی روک تھام اور تشدد کا شکار بچوں کو تحفظ دینے کے لئے پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کام کررہا ہے، بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کہتی ہیں بچوں پرجسمانی تشدد کے واقعات سنٹرل پنجاب میں زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں، بچوں پرجنسی اورجسمانی تشدد کرنیوالے کئی ملزمان کوسزائیں دلوائی گئی ہیں اور اب بھی متعدد کیسوں کی پیروی کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں پرجنسی اورجسمانی تشدد کی ایک بڑی وجہ جہالت اور بے راہ روی ہے، نوجوان جنسی تسکین کے لئے بچوں کو تشدد کانشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کوویڈ 19 کے دوران بچوں پر تشدد کے واقعات میں 20 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سارہ احمد کہتی ہیں ایسے واقعات میں ملزمان کوسخت سے سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ سخت سزائیں دی جائیں گی تو لوگ ایسا جرم کرنے سے ڈریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بیورو اس وقت درجنوں کیسوں کی پیروی کررہا ہے اورہماری کوشش ہے کہ بچوں پرتشدد کے واقعات میں ملوث ملزمان کی ضمانت نہ ہونے پائے اورسزاسے نہ بچ سکیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا پنجاب کے دیگر اضلاع کی نسبت سنٹرل پنجاب میں بچوں پر تشدد کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں لوگوں کو چائلڈپروٹیکشن بیورو کی ہیلپ لائن کے بارے میں معلوم ہے اورمیڈیا کی بھی زیادہ رسائی ہے، باقی علاقوں میں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن وہ رپورٹ نہیں ہوپاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بچوں پر تشدد کے زیادہ تر واقعات میں ان کے قریبی رشتہ دار یا پھر جان پہچان والے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔
Load Next Story