کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی
دودہائیوں سے زائد طویل انتظار کے بعد کراچی سرکلر ٹرین جزوی طور پربحال کر دی گئی ہے۔
دودہائیوں سے زائد طویل انتظار کے بعد کراچی سرکلر ٹرین جزوی طور پربحال کر دی گئی ہے، جس کا افتتاح وفاقی وزیرریلوے شیخ رشید نے باضابطہ طور پر ایک تقریب میں کیا۔ کراچی سرکلر ٹرین ابتدائی طور پر پیپری سے سٹی اسٹیشن تک چلے گی، اس کی روزانہ 4 ٹرینیں چلائی جائیں گی۔
کے سی آر کے اصل ٹریک کی بحالی میںریلوے حکام اور انتظامیہ ناکام رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پیپری تا کینٹ لوکل ٹرین عرصے سے چل رہی ہے، اس روٹ پر سرکلر ریلوے کے نوے فیصد اسٹیشن ہیں ہی نہیں۔ لوکل ٹرین کو کراچی سرکلر ریل کا نام دینا درست نہیں ہے، دراصل اصل ٹریک پر ابھی بہت سا ترقیاتی کام ہونا باقی ہے، یہاں اسٹیشنز کی تزئین و آرائش مکمل ہے نہ ریلوے پھاٹک فعال ہیں، جب کہ ریلوے ٹریک مخدوش ہے، تجاوزات کا خاتمہ بھی مکمل طور پر نہیں ہو سکا ہے۔
ملکی سطح پر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے توکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ایک شہر میں ٹرین کی بحالی نہیں ہے، کراچی منی پاکستان ہے، وطن عزیز کے ہرگاؤں، قصبے اور شہر سے حصول روزگارکے لیے آنے والے لاکھوںافراد اس شہر میں آباد ہیں۔ کراچی پورے پاکستان کی نمایندگی کرتا ہے، لہٰذاکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی، پاکستانی معیشت کی بحالی سے جڑی ہے۔ درحقیقت کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں عمل لائی گئی ہے۔
تقریبا آٹھ ماہ قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے 1995کی کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ عدالت کے احکامات کی تکمیل جس انداز سے کی گئی ہے، اسے بھی درست قرار دینا مشکل ہے۔
دراصل اسٹیشنوں کے درمیان موجود تجاوزات منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں، جنھیں ہٹانے کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے نہیں ہوئی ہے۔ اہل کراچی، سرکلرریلوے کی بحالی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔ ان کے خواب ٹوٹ گئے ہیں، لاکھوں لوگوں کی شہر میں آسان اور سستے ٹرانسپورٹ سسٹم کی امید دم توڑ گئی ہے۔کراچی پاکستان کا معاشی ہب ہے، لیکن شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ لاکھوں لوگ روزانہ دفاتر اور فیکٹریوں میں جس طرح اذیت ناک طریقے سے سفر کر کے پہنچتے ہیں وہ ایسی المناک داستان ہے جو سپرد قلم کریں تو روح تک کانپ اٹھتی ہے۔
روزگار کے مواقعے پہلے ہی سکڑ رہے ہیں۔ کراچی کے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ پر اٹھنے والے کثیر اخراجات کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے، ذرایع آمد و رفت میں چنگ چی یا رکشہ یا بسوں کے لیے، سیکڑوں روپے، جب کہ ذاتی گاڑی کے لیے ہزاروں روپے درکار ہوتے ہیں۔ ٹریفک جام کے مسائل علیحدہ ہیں، جس سے منٹوں کا سفر گھنٹوں اور ہزاروں کا فیول روزانہ ہوا میں اڑ جاتے ہیں، شہری شدید ترین ذہنی دباؤ کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اب کراچی میں دم گھٹتا ہے۔ شہرقائد پر قبضہ مافیا کا راج ہے، سرکلر ٹرین کے راستے میں کہیں انڈر پاس اور کہیں اوور ہیڈ برج بننا ضروری ہیں۔کراچی کے شہریوں کو ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔
کراچی سرکلر ریلوے نظام کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں ذرا تاریخی حوالے بھی دیکھنے پڑیں گے، یہ ایک ایسا ٹریک ہے جو شہر کے چاروں طرف چکر لگاتا ہے اور بہت سے مختلف حصوں سے لوگوں کو جوڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ٹرین سروس تھی جو 1960کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور کئی برس تک بہت عمدہ رہی۔ ابتداء میں کے سی آر کو کراچی پورٹ سے فیکٹریوں تک شپمنٹ سے آنے والے مال کو پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن چونکہ ٹرین مختلف علاقوں سے گزرا کرتی تھی تو 1970کی دہائی تک لوگوں نے اسے سفر کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا، کے سی آر کو 44 کلومیٹر کے راستے تک بڑھایا گیا تھا اور اگلے دس برس تک اس میں 60 لاکھ افراد سفر کرتے تھے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ 80 کی دہائی کے وسط تک کے سی آر میں کئی وجوہات کی بناء پر مشکلات کا آغاز ہوا۔ ایک موقع پر دن میں صرف 12 چکر لگنے لگے اور 1999 تک اسے نقصانات کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا، ٹرین کی پٹریوں پر گھاس اُگنے لگی اور آہستہ آہستہ لوگوں نے اس جگہ پر مکانات اور دکانیں بنانا شروع کر دیں جہاں سے ٹرینیں چلتی تھیں۔ اس کے بعد حکام نے کوشش کی ہے کہ کراچی کے عوام کو اس کی متبادل چھوٹی چھوٹی منی بسوں میں سفر کی سہولت فراہم کی جائے۔ ایک جاپانی ڈونر ایجنسی نے سرکلر ریلوے کو دوبارہ شروع کرنے کے طریقہ کار پر 2012میں ایک تفصیلی تحقیق کی کہ اسے کیسے دوبارہ بحال کیا جائے۔
انھوں نے حقیقت پسندانہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ اگر حکومت کو ان لوگوں کو جنھوں نے پرانی پٹریوں پر یا اس کے آس پاس رہنا شروع کر دیا ہے، اگر انھیں ہٹانا ہے تو ان کی مدد کرنی پڑے گی لیکن یہ پلان کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ چھ سال بعد 2018میں عدلیہ نے کے سی آر کی پٹریوں پر قائم ہونے والی تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تاہم دسمبر 2018تک کراچی کی سٹی انتظامیہ نے ان تجاوزات کو گرانا شروع کر دیا تھا۔یعنی ابتدا میں شہر کے وسطی ضلع میں چھوٹی تجاوزات کو ٹریک سے ہٹا دیا گیا تھا، تقریبا 7.2کلومیٹر کا ٹریک جو غریب آباد سے نارتھ ناظم آباد بورڈ آفس تک جاتا تھا، اس کو صاف کیا گیا، لیکن مکمل ٹریک سے تجاوزات ہٹانے میں انتظامیہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ ایوب خان کے دور حکومت میں 1964 میں شروع کیا گیا تھا تا کہ کراچی میں دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو ایک سستی اور آسان سفر کی سہولت مہیا کی جا سکے۔ عملی طور پر اس کا آغاز 1969 میں ہوا، شروع شروع میں اس کا دائرہ صرف کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن تک محدود تھا لیکن بعد میں اسے مشرق میں لانڈھی تک اور جنوب میں کے پی ٹی، وزیر مینشن اور مغرب میں سائٹ، ناظم آباد، اورنگی، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلستان جوہر تک ایک دائرے کی شکل میں پھیلا کر ڈرگ روڈ اور پھر لانڈھی تک موڑ دیا گیا۔ اس طرح کراچی سرکلر ریلوے ضلع شرقی، ضلع جنوبی اور پھر سائٹ انڈسٹریل ایریا اور ضلع غربی کے علاقوں کے لیے سفر کا ایک بہتر، سستا اور آرام دہ سہولت ہوا کرتی تھی۔
جس میں کل 23 ریلوے اسٹیشن تھے اور اس کی لمبائی 140 کلو میٹر تھی اور اس کا انتظام پاکستان ریلوے کے ہاتھ میں تھا اور اپنے عروج کے زمانے میں دن بھر میں 104 ٹرینیں چلتی تھیں جن میں 80 مین لائن پر اور 24 برانچ لائن پر تھیں اور لاکھوں لوگ ان سے مستفید ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں ماہانہ پاس کی سہولت بھی تھی کہ جو لوگ باقاعدہ روز کا سفر کرنے والے ہوں وہ بجائے روز ٹکٹ خریدنے کے ایک ہی مرتبہ پورے ماہ کا پاس بنوا لیا کرتے تھے اور چین کی بانسری بجاتے تھے اور بسوں کی دھکم پیل سے بچتے ہوئے صبح دفتر اور شام کو گھر پہنچ جاتے تھے۔
وفاقی اور صوبائی محصولات کا 60 فیصد سے زیادہ اس شہر سے جمع ہوتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں بندرگاہ اور مالیاتی اور کارپوریٹ اداروں کے مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ کراچی میں پاکستان کی مضبوط قوت خرید رکھنے والی سب سے بڑی مڈل کلاس رہتی ہے۔ متوسط طبقے کے صارفین ملکی اور غیر ملکی مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اس شہر میں بدترین غربت اور بے پناہ خوش حالی دونوں پائی جاتی ہے۔ کراچی، لاکھوں غریب مزدوروں کے لیے ماں کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ روزانہ لاکھوں مرد وزن اپنے روزمرہ امور کی انجام دہی کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں، خواتین کو کالجز، یوینورسٹیز یا پھر دفاتر تک پہنچنا ایک مشکل ترین عمل ہے، اگر وہ پرائیوٹ وین میں سفر کرتی ہیں تو ان سے 15 ہزار روپے ماہانہ چارجز کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو کچھ خواتین کی تقریباً آدھی تنخواہ ہے۔
سستی اور آسان ٹرانسپورٹ کی بحالی جمہوری حکومتوں کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے لیکن حال یہ ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر تباہی وبربادی کا شکار ہو چکی ہے، مرد حضرات روزانہ منی بسوں اور کوچز کی چھتوں اورپائیدان پر لٹک انتہائی خطرناک انداز میں سفرکرنے پر مجبور ہیں، شہر میں ٹریفک حادثات کی شرح پورے ملک سے کہیں زیادہ ہے، یہ حال ہے غریب اور متوسط طبقے کا جو ملک اور شہر کا نوے فی صد طبقہ ہے جب کہ اسی شہر میںطبقہ امراء کے پاس ڈرائیور سمیت بلٹ پروف کروڑوں روپے مالیت کی مہنگی ترین ہائبرڈ گاڑیاںموجود ہے، جن کا پیٹرول ٹینک بھی بھرا ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت سو ںکے پروٹوکول کے لیے پولیس موبائل بھی ہوتی ہے، جو ٹریفک میں ان کا راستہ نکال لیتے ہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے کراچی شہر میں سستی اور عوامی ٹرانسپورٹ کے حصول کے لیے کئی کوششیں کیں، کئی دہائیوں کے دوران، مختلف حکومتوں نے یو ٹی ایس بسوں سے لے کر گرین بسوں تک کئی منصوبے شروع کیے لیکن کچھ بھی کارآمد نہیں ہوا۔ حتی کہ کراچی میں گرین لائن بس منصوبہ بھی التوا کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو سب سے پہلے کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم اور سرکلر ریلوے کو بحال کرنا ہو گا، تاکہ محنت کش اور مزدور طبقہ باسانی فیکٹریوں تک پہنچ سکے اور ملکی پیداوار بڑھا سکے۔
کے سی آر کے اصل ٹریک کی بحالی میںریلوے حکام اور انتظامیہ ناکام رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پیپری تا کینٹ لوکل ٹرین عرصے سے چل رہی ہے، اس روٹ پر سرکلر ریلوے کے نوے فیصد اسٹیشن ہیں ہی نہیں۔ لوکل ٹرین کو کراچی سرکلر ریل کا نام دینا درست نہیں ہے، دراصل اصل ٹریک پر ابھی بہت سا ترقیاتی کام ہونا باقی ہے، یہاں اسٹیشنز کی تزئین و آرائش مکمل ہے نہ ریلوے پھاٹک فعال ہیں، جب کہ ریلوے ٹریک مخدوش ہے، تجاوزات کا خاتمہ بھی مکمل طور پر نہیں ہو سکا ہے۔
ملکی سطح پر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے توکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ایک شہر میں ٹرین کی بحالی نہیں ہے، کراچی منی پاکستان ہے، وطن عزیز کے ہرگاؤں، قصبے اور شہر سے حصول روزگارکے لیے آنے والے لاکھوںافراد اس شہر میں آباد ہیں۔ کراچی پورے پاکستان کی نمایندگی کرتا ہے، لہٰذاکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی، پاکستانی معیشت کی بحالی سے جڑی ہے۔ درحقیقت کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں عمل لائی گئی ہے۔
تقریبا آٹھ ماہ قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے 1995کی کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ عدالت کے احکامات کی تکمیل جس انداز سے کی گئی ہے، اسے بھی درست قرار دینا مشکل ہے۔
دراصل اسٹیشنوں کے درمیان موجود تجاوزات منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں، جنھیں ہٹانے کی کوئی سنجیدہ کوشش سرے سے نہیں ہوئی ہے۔ اہل کراچی، سرکلرریلوے کی بحالی سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔ ان کے خواب ٹوٹ گئے ہیں، لاکھوں لوگوں کی شہر میں آسان اور سستے ٹرانسپورٹ سسٹم کی امید دم توڑ گئی ہے۔کراچی پاکستان کا معاشی ہب ہے، لیکن شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ لاکھوں لوگ روزانہ دفاتر اور فیکٹریوں میں جس طرح اذیت ناک طریقے سے سفر کر کے پہنچتے ہیں وہ ایسی المناک داستان ہے جو سپرد قلم کریں تو روح تک کانپ اٹھتی ہے۔
روزگار کے مواقعے پہلے ہی سکڑ رہے ہیں۔ کراچی کے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ پر اٹھنے والے کثیر اخراجات کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے، ذرایع آمد و رفت میں چنگ چی یا رکشہ یا بسوں کے لیے، سیکڑوں روپے، جب کہ ذاتی گاڑی کے لیے ہزاروں روپے درکار ہوتے ہیں۔ ٹریفک جام کے مسائل علیحدہ ہیں، جس سے منٹوں کا سفر گھنٹوں اور ہزاروں کا فیول روزانہ ہوا میں اڑ جاتے ہیں، شہری شدید ترین ذہنی دباؤ کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اب کراچی میں دم گھٹتا ہے۔ شہرقائد پر قبضہ مافیا کا راج ہے، سرکلر ٹرین کے راستے میں کہیں انڈر پاس اور کہیں اوور ہیڈ برج بننا ضروری ہیں۔کراچی کے شہریوں کو ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔
کراچی سرکلر ریلوے نظام کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں ذرا تاریخی حوالے بھی دیکھنے پڑیں گے، یہ ایک ایسا ٹریک ہے جو شہر کے چاروں طرف چکر لگاتا ہے اور بہت سے مختلف حصوں سے لوگوں کو جوڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک ٹرین سروس تھی جو 1960کی دہائی میں شروع ہوئی تھی اور کئی برس تک بہت عمدہ رہی۔ ابتداء میں کے سی آر کو کراچی پورٹ سے فیکٹریوں تک شپمنٹ سے آنے والے مال کو پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن چونکہ ٹرین مختلف علاقوں سے گزرا کرتی تھی تو 1970کی دہائی تک لوگوں نے اسے سفر کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا، کے سی آر کو 44 کلومیٹر کے راستے تک بڑھایا گیا تھا اور اگلے دس برس تک اس میں 60 لاکھ افراد سفر کرتے تھے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ 80 کی دہائی کے وسط تک کے سی آر میں کئی وجوہات کی بناء پر مشکلات کا آغاز ہوا۔ ایک موقع پر دن میں صرف 12 چکر لگنے لگے اور 1999 تک اسے نقصانات کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا، ٹرین کی پٹریوں پر گھاس اُگنے لگی اور آہستہ آہستہ لوگوں نے اس جگہ پر مکانات اور دکانیں بنانا شروع کر دیں جہاں سے ٹرینیں چلتی تھیں۔ اس کے بعد حکام نے کوشش کی ہے کہ کراچی کے عوام کو اس کی متبادل چھوٹی چھوٹی منی بسوں میں سفر کی سہولت فراہم کی جائے۔ ایک جاپانی ڈونر ایجنسی نے سرکلر ریلوے کو دوبارہ شروع کرنے کے طریقہ کار پر 2012میں ایک تفصیلی تحقیق کی کہ اسے کیسے دوبارہ بحال کیا جائے۔
انھوں نے حقیقت پسندانہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ اگر حکومت کو ان لوگوں کو جنھوں نے پرانی پٹریوں پر یا اس کے آس پاس رہنا شروع کر دیا ہے، اگر انھیں ہٹانا ہے تو ان کی مدد کرنی پڑے گی لیکن یہ پلان کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ چھ سال بعد 2018میں عدلیہ نے کے سی آر کی پٹریوں پر قائم ہونے والی تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تاہم دسمبر 2018تک کراچی کی سٹی انتظامیہ نے ان تجاوزات کو گرانا شروع کر دیا تھا۔یعنی ابتدا میں شہر کے وسطی ضلع میں چھوٹی تجاوزات کو ٹریک سے ہٹا دیا گیا تھا، تقریبا 7.2کلومیٹر کا ٹریک جو غریب آباد سے نارتھ ناظم آباد بورڈ آفس تک جاتا تھا، اس کو صاف کیا گیا، لیکن مکمل ٹریک سے تجاوزات ہٹانے میں انتظامیہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ ایوب خان کے دور حکومت میں 1964 میں شروع کیا گیا تھا تا کہ کراچی میں دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو ایک سستی اور آسان سفر کی سہولت مہیا کی جا سکے۔ عملی طور پر اس کا آغاز 1969 میں ہوا، شروع شروع میں اس کا دائرہ صرف کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن تک محدود تھا لیکن بعد میں اسے مشرق میں لانڈھی تک اور جنوب میں کے پی ٹی، وزیر مینشن اور مغرب میں سائٹ، ناظم آباد، اورنگی، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلستان جوہر تک ایک دائرے کی شکل میں پھیلا کر ڈرگ روڈ اور پھر لانڈھی تک موڑ دیا گیا۔ اس طرح کراچی سرکلر ریلوے ضلع شرقی، ضلع جنوبی اور پھر سائٹ انڈسٹریل ایریا اور ضلع غربی کے علاقوں کے لیے سفر کا ایک بہتر، سستا اور آرام دہ سہولت ہوا کرتی تھی۔
جس میں کل 23 ریلوے اسٹیشن تھے اور اس کی لمبائی 140 کلو میٹر تھی اور اس کا انتظام پاکستان ریلوے کے ہاتھ میں تھا اور اپنے عروج کے زمانے میں دن بھر میں 104 ٹرینیں چلتی تھیں جن میں 80 مین لائن پر اور 24 برانچ لائن پر تھیں اور لاکھوں لوگ ان سے مستفید ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں ماہانہ پاس کی سہولت بھی تھی کہ جو لوگ باقاعدہ روز کا سفر کرنے والے ہوں وہ بجائے روز ٹکٹ خریدنے کے ایک ہی مرتبہ پورے ماہ کا پاس بنوا لیا کرتے تھے اور چین کی بانسری بجاتے تھے اور بسوں کی دھکم پیل سے بچتے ہوئے صبح دفتر اور شام کو گھر پہنچ جاتے تھے۔
وفاقی اور صوبائی محصولات کا 60 فیصد سے زیادہ اس شہر سے جمع ہوتا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں بندرگاہ اور مالیاتی اور کارپوریٹ اداروں کے مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ کراچی میں پاکستان کی مضبوط قوت خرید رکھنے والی سب سے بڑی مڈل کلاس رہتی ہے۔ متوسط طبقے کے صارفین ملکی اور غیر ملکی مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اس شہر میں بدترین غربت اور بے پناہ خوش حالی دونوں پائی جاتی ہے۔ کراچی، لاکھوں غریب مزدوروں کے لیے ماں کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ روزانہ لاکھوں مرد وزن اپنے روزمرہ امور کی انجام دہی کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں، خواتین کو کالجز، یوینورسٹیز یا پھر دفاتر تک پہنچنا ایک مشکل ترین عمل ہے، اگر وہ پرائیوٹ وین میں سفر کرتی ہیں تو ان سے 15 ہزار روپے ماہانہ چارجز کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو کچھ خواتین کی تقریباً آدھی تنخواہ ہے۔
سستی اور آسان ٹرانسپورٹ کی بحالی جمہوری حکومتوں کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے لیکن حال یہ ہے کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر تباہی وبربادی کا شکار ہو چکی ہے، مرد حضرات روزانہ منی بسوں اور کوچز کی چھتوں اورپائیدان پر لٹک انتہائی خطرناک انداز میں سفرکرنے پر مجبور ہیں، شہر میں ٹریفک حادثات کی شرح پورے ملک سے کہیں زیادہ ہے، یہ حال ہے غریب اور متوسط طبقے کا جو ملک اور شہر کا نوے فی صد طبقہ ہے جب کہ اسی شہر میںطبقہ امراء کے پاس ڈرائیور سمیت بلٹ پروف کروڑوں روپے مالیت کی مہنگی ترین ہائبرڈ گاڑیاںموجود ہے، جن کا پیٹرول ٹینک بھی بھرا ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت سو ںکے پروٹوکول کے لیے پولیس موبائل بھی ہوتی ہے، جو ٹریفک میں ان کا راستہ نکال لیتے ہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے کراچی شہر میں سستی اور عوامی ٹرانسپورٹ کے حصول کے لیے کئی کوششیں کیں، کئی دہائیوں کے دوران، مختلف حکومتوں نے یو ٹی ایس بسوں سے لے کر گرین بسوں تک کئی منصوبے شروع کیے لیکن کچھ بھی کارآمد نہیں ہوا۔ حتی کہ کراچی میں گرین لائن بس منصوبہ بھی التوا کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو سب سے پہلے کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم اور سرکلر ریلوے کو بحال کرنا ہو گا، تاکہ محنت کش اور مزدور طبقہ باسانی فیکٹریوں تک پہنچ سکے اور ملکی پیداوار بڑھا سکے۔