مہنگائی صرف حکومت کم کراسکتی ہے
ملک میں مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری بھی بڑھی ہے اور روزگار کے ذرایع بڑھے نہیں بلکہ کم ہوئے ہیں۔
KARACHI:
موجودہ حکومت کے سوا دو سال میں کہیں بڑی تبدیلی تو نظر نہیں آئی سوائے مہنگائی کے کہ جس نے 73 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کے لیے وزیر اعظم کہا کرتے تھے کہ مہنگائی کے ذمے دار ملک کے کرپٹ حکمران ہوتے ہیںجو اگر کرپشن نہ کریں تو مہنگائی نہیں ہو سکتی اور ان کی کرپشن کی سزا عوام کو بھگتنا پڑتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اب تک ملک کے تمام مسائل، بیروزگاری اور مہنگائی کا ذمے دار سابق حکمرانوں کو ہی قرار دیتے آ رہے ہیں اور انھوں نے اپنی حکومت کی کوئی ایک غلطی بھی تسلیم نہیں کی۔ آٹا، چینی اور گندم کے بحرانوں میں وزیر اعظم نے ایکشن نہیں لیا، صرف نوٹس لیے اور مہنگائی مزید سے مزید بڑھتی گئی مگر کہیں حکومتی ایکشن نظر نہیں آئے کہ مہنگائی کنٹرول ہوسکتی۔
ایک صاحب کا مشورہ یوں ہے کہ مہنگائی ختم یا کم نہیں ہوسکتی،اس کے مقابلے کے لیے ہمیں اپنے ذرایع آمدنی بڑھانے ہوں گے۔ گھر میں اگر 6 افراد ہیں تو ایک کے بجائے کم ازکم تین افراد کو کمانے پر توجہ دینی ہوگی، یوں ہر گھرانے کی آمدنی بڑھ جائے گی اور مہنگائی کا رونا ختم ہو جائے گا۔
حیرت ہے کہ عوام کو مہنگائی کا یہ توڑ بتایا جا رہا ہے اور حکومت کو مہنگائی بڑھنے کا ذمے دار قرار نہیں دیا جا رہا جب کہ ملک میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم کرنے کی ذمے دار سو فیصد حکومت ہے جس نے دو سال میں نہ صرف مہنگائی خود بڑھائی بلکہ لاکھوں افراد کو بیروزگار بھی کرایا۔ جہاں مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری بھی پیدا کی گئی ہو وہاں لاکھوں گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں صرف ایک ہی شخص برسر روزگار تھا اور موجودہ حالات میں وہ بھی روزگار سے محروم کردیا گیا۔
ملک میں مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری بھی بڑھی ہے اور روزگار کے ذرایع بڑھے نہیں بلکہ کم ہوئے ہیں، ایسے حالات میں گھرانے کا ایک شخص بھی برسر روزگار نہیں رہا تو اس کے گھر کے باقی دو افراد کہاں سے روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک سینئرصحافی نے جو وزیر اعظم کے حامی ہیں، ایک سال قبل حکومت کے اہم عہدار کو بتایا تھا کہ ملک میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد صرف میڈیا انڈسٹری ہی میں پچاس ہزار افراد بیروزگار ہوئے ہیں جس کی اہم ترین وجہ مالی بحران ہی ہے۔
سرکاری اداروں سمیت نجی اداروں اور سیکڑوں ملازم رکھنے والے کاروباری اداروں اور بڑی دکانوں سے بھی ملازمین بڑی تعداد میں فارغ کیے گئے ہیں اور ملازمتوں سے فارغ ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔
ایکسپریس کی خبر کے مطابق 2020-21 کی پہلی سہ ماہی میں حکومتی اخراجات بڑھے ہیں اور آمدنی میں کمی ہوئی ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 30فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس بار تنخواہیں بھی نہیں بڑھائیں۔ دوسری طرف حکومتی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
جو وزیر اعظم کابینہ چھوٹی رکھنے کی بات کرتے تھے ان کی کابینہ کے افراد کی مجموعی تعداد ماضی کی حکومتوں جیسی ہی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں صرف مہنگائی بڑھانے پر ہی توجہ دی گئی اور عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی اس کا فائدہ بھی عوام کو حقیقی طور پر نہیں بلکہ مذاق کے طور پر دیا گیا اور جب زیادہ کمی ہوئی تو پٹرول پر عائد لیوی مزید بڑھا کر عوام کے لیے پیسوں میں کمی اور لیوی پر اضافہ کیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہی مہنگائی کی بنیاد ہے اور پٹرولیم مصنوعات ہی کو حکومت نے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور یہی وتیرہ ماضی کی حکومتوں کا بھی رہا ہے۔
موجودہ حکومت میں بھی اپنوں کو ماضی کی طرح نوازا جا رہا ہے اور ماضی میں وفاقی اور پنجاب میں سرکاری ترجمانوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی مقرر نہیں کی جتنی تبدیلی حکومت میں موجود ہے جس سے صرف حکومتی اخراجات بڑھے ہیں، عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، صرف حکومتی بھڑاس نکل جاتی ہے۔
وفاقی حکومت کا کام مہنگائی بڑھانا ہے جو وہ کر رہی ہے اور صوبائی حکومتوں کا کام مہنگائی روکنا اور بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے مگر سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی طرح پنجاب اور کے پی کے کی پی ٹی آئی حکومتیں بھی اس سلسلے میں کچھ نہیں کر رہیں اور وفاقی حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ اس سلسلے میں چاروں صوبوں میں متعلقہ انتظامیہ کا کردار بھی افسوس ناک ہے اور متعلقہ اضلاع کے افسران عوام سے لاتعلق ہیں جس کی صرف ایک مثال کراچی ہے، یہاں کسی سرکاری اداروں کے افسران کو مہنگائی کی کوئی فکر کبھی نہیں، ملک میں ماسک نہ پہننے پر جرمانہ ایک سو روپے اور کراچی میں 500 روپے جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت چاہے تو مہنگائی کو بڑھنے سے روکا ضرور جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے اخراجات میں کمی کے لیے غیر ضروری سرکاری تقرریاں کم کر کے اور سرکاری اہداف پورے نہ کرانے والے ٹیکس افسران کے خلاف کارروائی کر کے، پٹرولیم مصنوعات میں کمی کر کے عوام کو حقیقی فائدہ دے سکتی ہے۔
بجلی اور گیس کے نرخ پہلے ہی بہت زیادہ اور بجلی چوری کا سبب ہیں۔ ان نرخوں میں کمی کر کے بجلی و گیس کی چوری ضرور روکی جا سکتی ہے اور آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے۔ سیاسی تقرریوں کے بجائے روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ملک بھر کے کمشنروں کو وفاقی حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کا پابند کر کے مہنگائی بڑھانے کے خودساختہ منافع خوروں کے گرد گھیرا تنگ کرکے خود بھی بدنامی سے بچ سکتی ہے اور عوام کو ریلیف دلا سکتی ہے۔ یہ کچھ کرکے اپوزیشن کو بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے مگر یہ سب کچھ کرنے کے لیے حکومت کا عوام سے مخلص ہونا پہلی شرط ہے۔
موجودہ حکومت کے سوا دو سال میں کہیں بڑی تبدیلی تو نظر نہیں آئی سوائے مہنگائی کے کہ جس نے 73 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کے لیے وزیر اعظم کہا کرتے تھے کہ مہنگائی کے ذمے دار ملک کے کرپٹ حکمران ہوتے ہیںجو اگر کرپشن نہ کریں تو مہنگائی نہیں ہو سکتی اور ان کی کرپشن کی سزا عوام کو بھگتنا پڑتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اب تک ملک کے تمام مسائل، بیروزگاری اور مہنگائی کا ذمے دار سابق حکمرانوں کو ہی قرار دیتے آ رہے ہیں اور انھوں نے اپنی حکومت کی کوئی ایک غلطی بھی تسلیم نہیں کی۔ آٹا، چینی اور گندم کے بحرانوں میں وزیر اعظم نے ایکشن نہیں لیا، صرف نوٹس لیے اور مہنگائی مزید سے مزید بڑھتی گئی مگر کہیں حکومتی ایکشن نظر نہیں آئے کہ مہنگائی کنٹرول ہوسکتی۔
ایک صاحب کا مشورہ یوں ہے کہ مہنگائی ختم یا کم نہیں ہوسکتی،اس کے مقابلے کے لیے ہمیں اپنے ذرایع آمدنی بڑھانے ہوں گے۔ گھر میں اگر 6 افراد ہیں تو ایک کے بجائے کم ازکم تین افراد کو کمانے پر توجہ دینی ہوگی، یوں ہر گھرانے کی آمدنی بڑھ جائے گی اور مہنگائی کا رونا ختم ہو جائے گا۔
حیرت ہے کہ عوام کو مہنگائی کا یہ توڑ بتایا جا رہا ہے اور حکومت کو مہنگائی بڑھنے کا ذمے دار قرار نہیں دیا جا رہا جب کہ ملک میں مہنگائی کا ریکارڈ قائم کرنے کی ذمے دار سو فیصد حکومت ہے جس نے دو سال میں نہ صرف مہنگائی خود بڑھائی بلکہ لاکھوں افراد کو بیروزگار بھی کرایا۔ جہاں مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری بھی پیدا کی گئی ہو وہاں لاکھوں گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں صرف ایک ہی شخص برسر روزگار تھا اور موجودہ حالات میں وہ بھی روزگار سے محروم کردیا گیا۔
ملک میں مہنگائی کے ساتھ بیروزگاری بھی بڑھی ہے اور روزگار کے ذرایع بڑھے نہیں بلکہ کم ہوئے ہیں، ایسے حالات میں گھرانے کا ایک شخص بھی برسر روزگار نہیں رہا تو اس کے گھر کے باقی دو افراد کہاں سے روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک سینئرصحافی نے جو وزیر اعظم کے حامی ہیں، ایک سال قبل حکومت کے اہم عہدار کو بتایا تھا کہ ملک میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد صرف میڈیا انڈسٹری ہی میں پچاس ہزار افراد بیروزگار ہوئے ہیں جس کی اہم ترین وجہ مالی بحران ہی ہے۔
سرکاری اداروں سمیت نجی اداروں اور سیکڑوں ملازم رکھنے والے کاروباری اداروں اور بڑی دکانوں سے بھی ملازمین بڑی تعداد میں فارغ کیے گئے ہیں اور ملازمتوں سے فارغ ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔
ایکسپریس کی خبر کے مطابق 2020-21 کی پہلی سہ ماہی میں حکومتی اخراجات بڑھے ہیں اور آمدنی میں کمی ہوئی ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی میں 30فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس بار تنخواہیں بھی نہیں بڑھائیں۔ دوسری طرف حکومتی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
جو وزیر اعظم کابینہ چھوٹی رکھنے کی بات کرتے تھے ان کی کابینہ کے افراد کی مجموعی تعداد ماضی کی حکومتوں جیسی ہی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں صرف مہنگائی بڑھانے پر ہی توجہ دی گئی اور عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی اس کا فائدہ بھی عوام کو حقیقی طور پر نہیں بلکہ مذاق کے طور پر دیا گیا اور جب زیادہ کمی ہوئی تو پٹرول پر عائد لیوی مزید بڑھا کر عوام کے لیے پیسوں میں کمی اور لیوی پر اضافہ کیا گیا۔ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہی مہنگائی کی بنیاد ہے اور پٹرولیم مصنوعات ہی کو حکومت نے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور یہی وتیرہ ماضی کی حکومتوں کا بھی رہا ہے۔
موجودہ حکومت میں بھی اپنوں کو ماضی کی طرح نوازا جا رہا ہے اور ماضی میں وفاقی اور پنجاب میں سرکاری ترجمانوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی مقرر نہیں کی جتنی تبدیلی حکومت میں موجود ہے جس سے صرف حکومتی اخراجات بڑھے ہیں، عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، صرف حکومتی بھڑاس نکل جاتی ہے۔
وفاقی حکومت کا کام مہنگائی بڑھانا ہے جو وہ کر رہی ہے اور صوبائی حکومتوں کا کام مہنگائی روکنا اور بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے مگر سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی طرح پنجاب اور کے پی کے کی پی ٹی آئی حکومتیں بھی اس سلسلے میں کچھ نہیں کر رہیں اور وفاقی حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ اس سلسلے میں چاروں صوبوں میں متعلقہ انتظامیہ کا کردار بھی افسوس ناک ہے اور متعلقہ اضلاع کے افسران عوام سے لاتعلق ہیں جس کی صرف ایک مثال کراچی ہے، یہاں کسی سرکاری اداروں کے افسران کو مہنگائی کی کوئی فکر کبھی نہیں، ملک میں ماسک نہ پہننے پر جرمانہ ایک سو روپے اور کراچی میں 500 روپے جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت چاہے تو مہنگائی کو بڑھنے سے روکا ضرور جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت اپنے اخراجات میں کمی کے لیے غیر ضروری سرکاری تقرریاں کم کر کے اور سرکاری اہداف پورے نہ کرانے والے ٹیکس افسران کے خلاف کارروائی کر کے، پٹرولیم مصنوعات میں کمی کر کے عوام کو حقیقی فائدہ دے سکتی ہے۔
بجلی اور گیس کے نرخ پہلے ہی بہت زیادہ اور بجلی چوری کا سبب ہیں۔ ان نرخوں میں کمی کر کے بجلی و گیس کی چوری ضرور روکی جا سکتی ہے اور آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے۔ سیاسی تقرریوں کے بجائے روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکتے ہیں۔ ملک بھر کے کمشنروں کو وفاقی حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کا پابند کر کے مہنگائی بڑھانے کے خودساختہ منافع خوروں کے گرد گھیرا تنگ کرکے خود بھی بدنامی سے بچ سکتی ہے اور عوام کو ریلیف دلا سکتی ہے۔ یہ کچھ کرکے اپوزیشن کو بھی ناکام بنایا جا سکتا ہے مگر یہ سب کچھ کرنے کے لیے حکومت کا عوام سے مخلص ہونا پہلی شرط ہے۔