پاکستان کی بہادرافواج

شام کو سب لان میں دادا کے گرد دائرہ بناکر بیٹھ گئے۔

شام کو سب لان میں دادا کے گرد دائرہ بناکر بیٹھ گئے۔ فوٹو: فائل

حمزہ اپنے تمام دوستوں کو آج اپنے گھر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ ایک دوست نے پوچھا، حمزہ! تمہارے گھر میں نہ تو کوئی پارٹی ہے اور نہ تمہاری سال گرہ، پھر یہ دعوت کس خوشی میں؟ حمزہ نے کہا، ہم سب کو فوج میں جانے کا کتنا شوق ہے اور فوج سے متعلق باتیں جانے کا بھی۔

سب نے ایک آواز میں کہا، ہاں! یہ بات تو ہے لیکن اس سے تمہارے گھر آنے کا کیا تعلق؟

تعلق ہے تو بلا رہا ہوں۔ میرے دادا ابو گائوں سے آرہے ہیں۔ انہوں نے 1965 اور 1970 کی جنگیں لڑی ہیں۔ ان کی باتیں سن کر مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں بھی اسی دور میں پہنچ گیا ہوں۔ شام کو تم سب آئو گے تو دادا ابو سے بہت ساری باتیں کریںگے۔ حمزہ نے کہا تو سب نے آنے کا وعدہ کرلیا۔

حمزہ اپنے دادا ابو کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس کی ہمیشہ سے ہی خواہش تھی کہ اس کے دادا ابو اس کے پاس شہر آکر رہیں۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو وہ اپنے دادا ابو سے بے پناہ پیار کرتا تھا، اس کے خیال میں جس گھر میں بزرگوں کا سایہ ہوتا ہے وہ گھر ہمیشہ پُرسکون ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ اس کے دادا ابو پاک فوج میں رہ چکے تھے۔ وہ جب بھی شہر آتے، اپنے پوتے کو بے شمار قصے سناتے، کسی کی بہادری کے اور کسی کی محنت کے۔ آج تو وہ بہت ہی خوش تھا کیوںکہ آج اس کے دوست بھی آرہے تھے۔

شام کو سب لان میں دادا کے گرد دائرہ بناکر بیٹھ گئے۔ بچے تو خوش تھے ہی، لیکن دادا ابو ان سے زیادہ خوش تھے کیوںکہ آج پھر وہ ان لمحوں کو یاد کریں گے جب وہ جوان ہوا کرتے تھے اور بڑے فخر سے اس وردی کو زیب تن کرتے تھے جس سے پیارے وطن کی مٹی کی خوشبو آتی تھی۔

دادا ابو یہی سب سوچ رہے تھے کہ حمزہ نے پوچھ لیا، دادا ابو! آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ دادا ابو نے کہا، کچھ نہیں بیٹا! بس گزرا ہوا زمانہ یاد آگیا تھا۔


پھر حمزہ کے دوست عمر نے کہا؛ دادا ابو! ہمیں بتائیں کہ جب 1965 کی جنگ ہوئی تو آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا جذبہ کیا تھا؟ دادا ابو نے بڑے فخر سے جواب دیا ایسا جذبہ تھا جو مسلمانوں نے پاکستان بنتے وقت دکھایا تھا۔ اُس جنگ میں پاکستان ایک دفعہ پھر مشکل میں تھا لیکن تب ہم سب نے مل کر دشمنوں کا ایسا مقابلہ کیا کہ سب حیران رہ گئے۔ ہم نے تھوڑے ہی وقت میں دشمنوں کے بہت سے مورچوں کو تباہ کردیا۔ حالاںکہ دشمن ہم سے تعداد میں زیادہ تھے اور ان کے پاس جدید اسلحہ بھی تھا۔

حمزہ نے حیرانی سے پوچھا؛ دادا ابو! اگر ان کے پاس جدید اسلحہ تھا اور وہ تعداد میں بھی آپ سے زیادہ تھے تو پھر وہ ڈر کر کیوں بھاگے؟

اس لیے کہ ان کے ارادے کمزور تھے اور وہ خود بھی بہادر نہیں تھے۔ حمزہ کے ایک دوست نے جواب دیا جس پر دادا ابو نے اسے شاباش دی۔ واقعی! جن لوگوں کے ارادے کمزور ہوتے ہیں، وہ دنیا اور زندگی میں کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔

دادا ابو! اس جنگ میں پاکستان کے جوان بھی شہید ہوئے تھے، ہمیں ان کے بارے میں کچھ اور بتائیے۔ دادا ابو کے لیے ایک اگلا سوال تیار تھا۔ انہوں نے میجر راجا عزیز بھٹی کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت بہادر انسان تھے اور ایک سو سپاہیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کررہے تھے۔ دشمن ہر طرف سے گولہ باری کررہا تھا لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے اور مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان وطن پر قربان کردی۔ ان کی اس عظیم قربانی پر ان کو پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز ''نشان حیدر'' دیاگیا۔

اچھا بچو! اب بس۔۔۔۔ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ آپ سب بھی اپنے اپنے گھروں کو جائیں۔ دادا ابو بے کہا تو حمزہ بولا؛ دادا ابو آپ ایک بات بھول گئے ہیں۔ آپ نے ان سب سے تو پوچھا ہی نہیں کہ انہیں بڑے ہوکر کیا بننا ہے؟

ہاں۔۔۔۔ تو بچو بتائو، آپ سب بڑے ہوکر کیا بنوگے؟ سب نے مل کر جواب دیا؛ ہم سب بھی فوج میں جائیں گے اور موقع ملے گا تو اس ملک کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر دیںگے اور پوری دنیا کو بتا دیںگے کہ ہم پاکستانی فوج کے جوان ہیں، جو کوئی بھی اسے میلی آنکھ سے دیکھے گا، اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔ ہم بڑی ہمت اور بہادری سے ہر مشکل کا مقابلہ کریںگے۔

شاباش! دادا ابو نے سب کو پیار کیا اور خدا حافظ کہہ کر نماز پڑھنے چل دیے۔
Load Next Story