نومسلم آرزو فاطمہ کا والدین کے ساتھ جانے سے پھر انکار کورونا کا شکار بھی ہوگئی

عدالت کا محکمہ داخلہ کو آرزو کی کونسلنگ کرنے کا حکم

عدالت کا محکمہ داخلہ کو آرزو کی کونسلنگ کرنے کا حکم

KARACHI:
سندھ ہائیکورٹ نے آرزو فاطمہ کیس نمٹاتے ہوئے لڑکی کو دار الامان منتقل کرنے کا حکم دیدیا جبکہ آرزو فاطمہ کورونا کا شکار بھی ہوگئی۔

جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو نومسلم آرزو فاطمہ کیس کی سماعت ہوئی۔ پولیس نے رپورٹ پیش کردی جبکہ آرزو فاطمہ اور دیگر کو عدالت میں پیش کیا گیا ۔ وکیل صفائی نے موقف دیا کہ آرزو فاطمہ درخواست دائر کرنا چاہتی ہیں لیکن دارالامان انتظامیہ نے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ پراسیکیوٹر نے موقف دیا کہ یہ اغوا کا کیس نہیں بلکہ کم عمری کی شادی کا کیس ہے۔

پولیس نے بتایا کہ نکاح کرانے والے قاضی اور دیگر نامزد ملزمان نے کیس میں ضمانت حاصل کرلی تاہم دو ملزمان مفرور ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا آپ نے انہیں گرفتار کرنے کیلئے کوشش کی؟ آپ کی ذمہ داری ہے مفرور ملزمان کو گرفتار کریں۔

عدالت نے آرزو سے استفسار کیا آپ والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہیں؟ آرزو فاطمہ نے ایک دفعہ پھر والدین کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔


آرزو فاطمہ کے وکیل نے موقف دیا کہ مقدمہ کا چالان ماتحت عدالت میں پیش کردیا گیا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، اس کیس کا اسلامی قوانین کے تحت فیصلہ ہونا چاہیے، اگر عائلی قوانین اور اسلامی قوانین کا معاملہ آجائے تو اسلامی قوانین کو فوقیت ہوگی۔

عدالت نے ریمارکس دیئے ہم نے فیصلہ کردیا ہے آپ چاہیں تو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیں۔ عدالت نے مقدمہ نمٹاتے ہوئے آرزو فاطمہ کو دارالامان منتقل کرنے کا حکم دیدیا جبکہ اس کی تعلیم اور دیگر سہولیات کا انتظام کرنے کی بھی ہدایت کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ محکمہ داخلہ آرزو کی کونسلنگ کا اہتمام کرے اور روزانہ محکمہ داخلہ کی جانب سے کوئی نمائندہ ایک گھنٹہ آرزو سے ملاقات کرے۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ شفاف تفتیش کرکے ماتحت عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔

علاوہ ازیں آرزو فاطمہ کورونا کا شکار بھی ہوگئی ہے۔ پولیس نے آرزو فاطمہ کیس کا چالان پیش کردیا جس میں بتایا گیا کہ آرزو کی کورونا رپورٹ 16 نومبر کو موصول ہوئی۔ ملزم اظہر علی کا بھی کورونا ٹیسٹ کرایا گیا جو کہ منفی آیا۔

آرزو نے بیان میں بتایا کہ اس کی اظہر علی سے طویل عرصہ سے دوستی ہے۔ اظہر کے ساتھ موٹر سائیکل پر وکیل کے دفتر پہنچی جہاں نکاح ہوا۔ چالان میں کہا گیا کہ نکاح خواں نے بیان میں بتایا کہ لڑکی نے عمر 18 سال ہونے سے متعلق دستاویزات پیش کیں۔ ملزم اظہر علی کے خون اور صواب کے نمونے ڈی این اے کیلئے بھجوا دیے گئے ہیں۔ پولیس نے مقدمے سے اغوا کی دفعہ 264-A خارج کردی ہے۔ اب ملزمان کیخلاف چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔
Load Next Story