نیا بلدیاتی آرڈیننس اتفاق رائے پیدا کیا جائے
بلدیاتی نظام صرف سندھ کی ضرورت نہیں بلکہ اسے یکساں طور پر چاروں صوبائی حکومتوں میں بھی بحال اور رائج کیا جانا چاہیے
KARACHI:
گزشتہ رات جاری ہونے والے سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس2012 ء کی حمایت اور مخالفت میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اسے سندھ کے عوام کے لیے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہیں جب کہ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ق اور سندھی قوم پرست جماعتوں نے نئے آرڈیننس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بلاشبہ جمہوریت کی گراس روٹ لیول پر ترویج اور نشوونما کے لیے بلدیاتی نظام جاری رہنا چاہیے، اس کے ثمرات سے انکار بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوامی مسائل ان کے دروازے پر حل ہوئے ہیں اور ترقیاقی کاموں کے فوائد بھی انھیں حاصل ہوئے ہیں۔
بلدیاتی نظام صرف سندھ کی ضرورت نہیں بلکہ اسے یکساں طور پر چاروں صوبائی حکومتوں میں بھی بحال اور رائج کیا جانا چاہیے اور اگر عام انتخابات سے قبل یہ مرحلہ طے پا جائے تو جمہوری حکومت کا ایک سنہری کارنامہ ہو گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی بھی واضح ہدایات موجود ہیں کہ تمام صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات منعقد کروائیں لیکن تمام صوبائی حکومتوں نے حیلے بہانوں سے کام لیتے ہوئے تا حال بلدیاتی انتخابات کا روڈ میپ نہیں دیا ہے۔ البتہ سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان طویل عرصے سے اس سلسلے میں مذاکرات جاری تھے۔
متعدد بار ڈیڈلاک کی کیفیت بھی پیدا ہوئی لیکن بالآخر ایک مسودے پر دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہوگیا۔ نئے آرڈیننس میں جن نکات پر اتفاق کیا گیا ہے ان میں کراچی سمیت صوبے کے پانچوں ڈویژن حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ میں میٹروپولیٹن میونسپل کارپوریشن قائم ہوںگی جن کاسربراہ میئر کہلائے گا جب کہ کارپویشن کی منتخب کونسل کا سربراہ ڈپٹی میئر ہوگا، کونسل کے ممبران کونسلرز ہوں گے جوشہر بھر سے منتخب کیے جائیں گے، جب کہ دیگر شہروں میں ڈسٹرکٹ کونسل قائم کی جائیںگی جس کے سربراہ کو چیئرمین کا نام دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق صوبے میں کمشنری نظام بھی برقرار رہے گا، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز ریونیو، امن و امان اوردیگر انتظامی معاملات چلائیں گے جب کہ منتخب نمایندے بلدیاتی اور میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کے معاملات سنبھالیں گے جو اپنے معاملات چلانے میں خود مختار ہوں گے، نئے آرڈیننس میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا محکمہ علیحدہ محکمے کے طور پر کام کرتا رہے گا جب کہ واٹر بورڈ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر کے ماتحت ہو گا۔ پرائمری ایجوکیشن کا نظام میئر کے ماتحت ہو گا۔ آرڈیننس کے سرسری مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ صوبے بھر میں یکساں بلدیاتی نظام نافذ نہیں کیا جائے گا بلکہ دو سطحی نظام ہوگا جس میں کمشنر اور ناظمین دونوںکام کریں گے۔
یہ صورتحال ابہام کو جنم دینے کا سبب بنی ہے مزید برآں قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں کا دروازہ کھولنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ادھر آرڈیننس کے اجراء کے بعد سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، عوامی تحریک نے سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، بلدیاتی نظام کے خلاف ٹرین مارچ شروع کر دیا ہے اور وہ لاہور پہنچ گئے ہیں اورہفتے کی صبح پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سندھ محبت ریلی نکالی جائے گی۔ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نئے آرڈیننس کو مسترد کر دیا اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے سندھ میں واحد صوبائی وزیر کے مستعفی ہونے کی خبر بھی دی۔
سینیٹر شاہی سید سے حکومتی رابطہ کی کوششیں تیز کی گئیں۔ دراصل بلدیاتی نظام کی اہمیت و افادیت کا انکار قعطاً ممکن نہیں، لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام جماعتوں کی رائے کا احترام کیا جائے، باہمی مشاورت بین الصوبائی سطح پر ہو تو اتحاد واتفاق زیادہ مفید رہتا، اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے اکابرین سے مزاکرات اور متفقہ و حتمی نظام کی تشکیل کے لیے مزید پیش رفت کی جائے صوبوں کے تحفطات دور کرتے ہوئے ان کے مطالبات کو بھی نئے آرڈیننس میں شامل کیا جائے۔
مفاہمت کی پالیسی کے اثرات نہ صرف سندھ اور ان بعض شہروں پر بلکہ پورے پاکستان پر ظاہر ہونے چاہئیں تا کہ بلدیاتی نظام کی ہمہ گیریت اور قومی یکجہتی کے استحکام کے لیے اس کی اہمیت و مقصدیت تمام اسٹیک ہولڈرز پر واضح ہو جائے۔
گزشتہ رات جاری ہونے والے سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس2012 ء کی حمایت اور مخالفت میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اسے سندھ کے عوام کے لیے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہیں جب کہ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ق اور سندھی قوم پرست جماعتوں نے نئے آرڈیننس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بلاشبہ جمہوریت کی گراس روٹ لیول پر ترویج اور نشوونما کے لیے بلدیاتی نظام جاری رہنا چاہیے، اس کے ثمرات سے انکار بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوامی مسائل ان کے دروازے پر حل ہوئے ہیں اور ترقیاقی کاموں کے فوائد بھی انھیں حاصل ہوئے ہیں۔
بلدیاتی نظام صرف سندھ کی ضرورت نہیں بلکہ اسے یکساں طور پر چاروں صوبائی حکومتوں میں بھی بحال اور رائج کیا جانا چاہیے اور اگر عام انتخابات سے قبل یہ مرحلہ طے پا جائے تو جمہوری حکومت کا ایک سنہری کارنامہ ہو گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی بھی واضح ہدایات موجود ہیں کہ تمام صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات منعقد کروائیں لیکن تمام صوبائی حکومتوں نے حیلے بہانوں سے کام لیتے ہوئے تا حال بلدیاتی انتخابات کا روڈ میپ نہیں دیا ہے۔ البتہ سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان طویل عرصے سے اس سلسلے میں مذاکرات جاری تھے۔
متعدد بار ڈیڈلاک کی کیفیت بھی پیدا ہوئی لیکن بالآخر ایک مسودے پر دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہوگیا۔ نئے آرڈیننس میں جن نکات پر اتفاق کیا گیا ہے ان میں کراچی سمیت صوبے کے پانچوں ڈویژن حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ میں میٹروپولیٹن میونسپل کارپوریشن قائم ہوںگی جن کاسربراہ میئر کہلائے گا جب کہ کارپویشن کی منتخب کونسل کا سربراہ ڈپٹی میئر ہوگا، کونسل کے ممبران کونسلرز ہوں گے جوشہر بھر سے منتخب کیے جائیں گے، جب کہ دیگر شہروں میں ڈسٹرکٹ کونسل قائم کی جائیںگی جس کے سربراہ کو چیئرمین کا نام دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق صوبے میں کمشنری نظام بھی برقرار رہے گا، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز ریونیو، امن و امان اوردیگر انتظامی معاملات چلائیں گے جب کہ منتخب نمایندے بلدیاتی اور میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کے معاملات سنبھالیں گے جو اپنے معاملات چلانے میں خود مختار ہوں گے، نئے آرڈیننس میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا محکمہ علیحدہ محکمے کے طور پر کام کرتا رہے گا جب کہ واٹر بورڈ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر کے ماتحت ہو گا۔ پرائمری ایجوکیشن کا نظام میئر کے ماتحت ہو گا۔ آرڈیننس کے سرسری مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ صوبے بھر میں یکساں بلدیاتی نظام نافذ نہیں کیا جائے گا بلکہ دو سطحی نظام ہوگا جس میں کمشنر اور ناظمین دونوںکام کریں گے۔
یہ صورتحال ابہام کو جنم دینے کا سبب بنی ہے مزید برآں قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں کا دروازہ کھولنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ادھر آرڈیننس کے اجراء کے بعد سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، عوامی تحریک نے سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، بلدیاتی نظام کے خلاف ٹرین مارچ شروع کر دیا ہے اور وہ لاہور پہنچ گئے ہیں اورہفتے کی صبح پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سندھ محبت ریلی نکالی جائے گی۔ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نئے آرڈیننس کو مسترد کر دیا اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے سندھ میں واحد صوبائی وزیر کے مستعفی ہونے کی خبر بھی دی۔
سینیٹر شاہی سید سے حکومتی رابطہ کی کوششیں تیز کی گئیں۔ دراصل بلدیاتی نظام کی اہمیت و افادیت کا انکار قعطاً ممکن نہیں، لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام جماعتوں کی رائے کا احترام کیا جائے، باہمی مشاورت بین الصوبائی سطح پر ہو تو اتحاد واتفاق زیادہ مفید رہتا، اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے اکابرین سے مزاکرات اور متفقہ و حتمی نظام کی تشکیل کے لیے مزید پیش رفت کی جائے صوبوں کے تحفطات دور کرتے ہوئے ان کے مطالبات کو بھی نئے آرڈیننس میں شامل کیا جائے۔
مفاہمت کی پالیسی کے اثرات نہ صرف سندھ اور ان بعض شہروں پر بلکہ پورے پاکستان پر ظاہر ہونے چاہئیں تا کہ بلدیاتی نظام کی ہمہ گیریت اور قومی یکجہتی کے استحکام کے لیے اس کی اہمیت و مقصدیت تمام اسٹیک ہولڈرز پر واضح ہو جائے۔