بہترین بلدیاتی نظام کا خواب
سندھ میں پی پی حکومت کبھی وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق بااختیار بلدیاتی نظام نہیں آنے دے گی جو دوسرا بڑا صوبہ ہے۔
KARACHI:
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھرکہا ہے کہ ہم ملکی تاریخ کا بہترین بلدیاتی نظام لائیں گے جس میں میئرکا الیکشن براہ راست ہوگا، ملک میں پرانا نظام ناکام ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی نظام کی باتیں اپنی کے پی حکومت سے بھی قبل سے کرتے آ رہے ہیں۔
2013 میں جب کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئی تھی، وہاں اس وقت اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی اور دونوں پارٹیوں کے علاوہ سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی اور بااختیارحکومتیں تھیں جنھوں نے 2008 میں اقتدار میں آکر جنرل پرویز مشرف کا ملک کو پہلی بار دیا گیا بااختیار ضلع نظام ختم کرکے جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا جس کی تقلید بلوچستان کی مخلوط حکومت نے بھی کی تھی۔
چاروں سیاسی صوبائی حکومتوں نے اپنے صوبوں کو جو بلدیاتی نظام دیے تھے وہ جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام سے بھی کمزور اورکم اختیارات کے حامل تھے۔ جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں تو بلدیاتی عہدیدار صدرکے دوروں پر ان کے اجلاسوں اور دورے پر بلانے پر بھی نہیں آتے تھے اور ان کے پروگراموں کا بائیکاٹ کرتے تھے جس کی نشان دہی راقم نے جنرل ضیا کے دورہ شکارپور میں کی تھی۔
جس پر جنرل ضیا نے گورنر سندھ جنرل عباسی سے تصدیق چاہی تھی۔ اس وقت کے بلدیہ شکارپور کے پی پی کے چیئرمین نے پہلے گورنر اور بعد میں جنرل ضیا کے دورے کا بائیکاٹ کیا تھا جب کہ اب ملک کی سیاسی حکومتوں میں کسی بلدیاتی عہدیدار کو جرأت نہیں کہ وہ ختم کیے جانے والے بلدیاتی نظام میں ایسا کرکے دکھا سکتا۔ جنرل ضیا اور تمام سیاسی حکومتوں کے دیے گئے بلدیاتی نظام کمشنری نظام کے ماتحت تھے۔
تحریک انصاف کی خیبرپختون خوا حکومت نے بھی اپنے دور میں صوبے کوکوئی بااختیار مثالی نظام نہیں دیا تھا اور اس سلسلے میں تحریک انصاف بھی مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور اے این پی سے مختلف ثابت نہیں ہوئی اور چاروں نے اپنی حکومتوں میں بااختیار بلدیاتی نظام نہیں دیے بلکہ اپنے طور پرکبھی خود بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے گزشتہ بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر مجبوراً کروائے تھے۔
تینوں پارٹیوں نے اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کے باعث اپنے لوگ اکثریت سے منتخب کرا لیے تھے اور 2018 میں جب پی ٹی آئی کی پنجاب میں پہلی بار حکومت بنی تو اس نے چند ماہ بعد ہی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح بلدیاتی اکثریت کے باعث انھیں ہٹانے کے لیے تمام بلدیاتی عہدیداروں کو ہٹا کر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقررکر دیے تھے جب کہ کے پی اور سندھ میں ان کے اپنے بلدیاتی عہدیدار تھے جنھیں مدت پوری کرنے دی گئی اور پی ٹی آئی کا نشانہ صرف پنجاب اور اسلام آباد ہی بنائے گئے تھے، کیونکہ وہاں (ن) لیگ کی اکثریت ختم کرنا مقصود تھا۔
جس روز وزیر اعظم نے ملکی تاریخ کا بہترین بلدیاتی نظام لانے کا اعلان کیا، اسی روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں فاضل جج نے کہا کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ کرا کر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، اور کے پی میں 14 ماہ گزر جانے کے بعد بھی بلدیاتی انتخاب نہیں کرایا جا رہا جوکہ کے پی کے گورنمنٹ ایکٹ کے تحت حکومت کی آئینی ذمے داری بنتی ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور بلدیاتی ذمے داریاں دی جانی چاہئیں۔
پنجاب کے بلدیاتی ادارے دو سال قبل جب توڑے گئے تھے تو متاثرین نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا تھا ۔ بلوچستان میں سب سے پہلے بلدیاتی ادارے ختم کیے گئے جب کہ سندھ میں 3 ماہ قبل مدت مکمل ہونے پر بلدیاتی ادارے تحلیل کیے گئے تھے اور جلد تو کیا آیندہ سال بھی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے آثار نہیں ہیں اور تین ماہ سے سندھ میں ڈپٹی کمشنروں کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا ہیں کہ روزنامہ ایکسپریس کے مطابق بلدیاتی اداروں سے افسر شاہی راج ختم کرنے کی تیاری کی اطلاعات ہیں کیونکہ ڈپٹی کمشنروں کی کارکردگی سے عوامی شکایات بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے ڈی سیز سے ایڈمنسٹریٹروں کا اضافی چارج واپس لے کر ایس سی یو جی افسران کو بطور ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
جس کے بعد محکمہ بلدیات کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور لاکھوں روپے رشوت پر نئے ایڈمنسٹریٹر تعینات کیے جائیں گے اور یہی ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ بااختیار بلدیاتی اداروں کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے اور وزیر اعظم نے جو اعلان کیا ہے اس کے تحت پنجاب کے پی کے اور اسلام آباد میں ہی بااختیار میئر براہ راست منتخب ہوسکیں گے۔
سندھ میں پی پی حکومت کبھی وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق بااختیار بلدیاتی نظام نہیں آنے دے گی جو دوسرا بڑا صوبہ ہے اور بلوچستان میں تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ وہاں کی مخلوط حکومتوں نے اپنے صوبے کو معمولی اختیارات کا حامل نظام دیا ہے نہ وہاں کے سردار ایسا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے حالیہ اعلان سے ملک کو ایسا بااختیار بلدیاتی نظام ملنے کی امید کم ہی ہے۔ ایسے نظام دینا اب صوبوں کا اختیار ہے اور پی ٹی آئی حکومت نے دو سالوں میں اپنے صوبوں میں ایسا کچھ کرکے بھی نہیں دکھایا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھرکہا ہے کہ ہم ملکی تاریخ کا بہترین بلدیاتی نظام لائیں گے جس میں میئرکا الیکشن براہ راست ہوگا، ملک میں پرانا نظام ناکام ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی نظام کی باتیں اپنی کے پی حکومت سے بھی قبل سے کرتے آ رہے ہیں۔
2013 میں جب کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت قائم ہوئی تھی، وہاں اس وقت اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی اور دونوں پارٹیوں کے علاوہ سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی اور بااختیارحکومتیں تھیں جنھوں نے 2008 میں اقتدار میں آکر جنرل پرویز مشرف کا ملک کو پہلی بار دیا گیا بااختیار ضلع نظام ختم کرکے جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کردیا تھا جس کی تقلید بلوچستان کی مخلوط حکومت نے بھی کی تھی۔
چاروں سیاسی صوبائی حکومتوں نے اپنے صوبوں کو جو بلدیاتی نظام دیے تھے وہ جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام سے بھی کمزور اورکم اختیارات کے حامل تھے۔ جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں تو بلدیاتی عہدیدار صدرکے دوروں پر ان کے اجلاسوں اور دورے پر بلانے پر بھی نہیں آتے تھے اور ان کے پروگراموں کا بائیکاٹ کرتے تھے جس کی نشان دہی راقم نے جنرل ضیا کے دورہ شکارپور میں کی تھی۔
جس پر جنرل ضیا نے گورنر سندھ جنرل عباسی سے تصدیق چاہی تھی۔ اس وقت کے بلدیہ شکارپور کے پی پی کے چیئرمین نے پہلے گورنر اور بعد میں جنرل ضیا کے دورے کا بائیکاٹ کیا تھا جب کہ اب ملک کی سیاسی حکومتوں میں کسی بلدیاتی عہدیدار کو جرأت نہیں کہ وہ ختم کیے جانے والے بلدیاتی نظام میں ایسا کرکے دکھا سکتا۔ جنرل ضیا اور تمام سیاسی حکومتوں کے دیے گئے بلدیاتی نظام کمشنری نظام کے ماتحت تھے۔
تحریک انصاف کی خیبرپختون خوا حکومت نے بھی اپنے دور میں صوبے کوکوئی بااختیار مثالی نظام نہیں دیا تھا اور اس سلسلے میں تحریک انصاف بھی مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور اے این پی سے مختلف ثابت نہیں ہوئی اور چاروں نے اپنی حکومتوں میں بااختیار بلدیاتی نظام نہیں دیے بلکہ اپنے طور پرکبھی خود بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے گزشتہ بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر مجبوراً کروائے تھے۔
تینوں پارٹیوں نے اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کے باعث اپنے لوگ اکثریت سے منتخب کرا لیے تھے اور 2018 میں جب پی ٹی آئی کی پنجاب میں پہلی بار حکومت بنی تو اس نے چند ماہ بعد ہی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح بلدیاتی اکثریت کے باعث انھیں ہٹانے کے لیے تمام بلدیاتی عہدیداروں کو ہٹا کر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقررکر دیے تھے جب کہ کے پی اور سندھ میں ان کے اپنے بلدیاتی عہدیدار تھے جنھیں مدت پوری کرنے دی گئی اور پی ٹی آئی کا نشانہ صرف پنجاب اور اسلام آباد ہی بنائے گئے تھے، کیونکہ وہاں (ن) لیگ کی اکثریت ختم کرنا مقصود تھا۔
جس روز وزیر اعظم نے ملکی تاریخ کا بہترین بلدیاتی نظام لانے کا اعلان کیا، اسی روز اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں فاضل جج نے کہا کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ کرا کر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، اور کے پی میں 14 ماہ گزر جانے کے بعد بھی بلدیاتی انتخاب نہیں کرایا جا رہا جوکہ کے پی کے گورنمنٹ ایکٹ کے تحت حکومت کی آئینی ذمے داری بنتی ہے۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور بلدیاتی ذمے داریاں دی جانی چاہئیں۔
پنجاب کے بلدیاتی ادارے دو سال قبل جب توڑے گئے تھے تو متاثرین نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا تھا ۔ بلوچستان میں سب سے پہلے بلدیاتی ادارے ختم کیے گئے جب کہ سندھ میں 3 ماہ قبل مدت مکمل ہونے پر بلدیاتی ادارے تحلیل کیے گئے تھے اور جلد تو کیا آیندہ سال بھی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے آثار نہیں ہیں اور تین ماہ سے سندھ میں ڈپٹی کمشنروں کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا ہیں کہ روزنامہ ایکسپریس کے مطابق بلدیاتی اداروں سے افسر شاہی راج ختم کرنے کی تیاری کی اطلاعات ہیں کیونکہ ڈپٹی کمشنروں کی کارکردگی سے عوامی شکایات بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے ڈی سیز سے ایڈمنسٹریٹروں کا اضافی چارج واپس لے کر ایس سی یو جی افسران کو بطور ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
جس کے بعد محکمہ بلدیات کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور لاکھوں روپے رشوت پر نئے ایڈمنسٹریٹر تعینات کیے جائیں گے اور یہی ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ بااختیار بلدیاتی اداروں کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے اور وزیر اعظم نے جو اعلان کیا ہے اس کے تحت پنجاب کے پی کے اور اسلام آباد میں ہی بااختیار میئر براہ راست منتخب ہوسکیں گے۔
سندھ میں پی پی حکومت کبھی وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق بااختیار بلدیاتی نظام نہیں آنے دے گی جو دوسرا بڑا صوبہ ہے اور بلوچستان میں تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ وہاں کی مخلوط حکومتوں نے اپنے صوبے کو معمولی اختیارات کا حامل نظام دیا ہے نہ وہاں کے سردار ایسا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے حالیہ اعلان سے ملک کو ایسا بااختیار بلدیاتی نظام ملنے کی امید کم ہی ہے۔ ایسے نظام دینا اب صوبوں کا اختیار ہے اور پی ٹی آئی حکومت نے دو سالوں میں اپنے صوبوں میں ایسا کچھ کرکے بھی نہیں دکھایا۔