تلاش برداشت اور رواداری کی جو کھو گئی

بسنت بھی کبھی ’’پالا اڑنت‘‘ کا ایک جشن ہوا کرتی تھی۔ مگر ہم نے اسے ’’ہندو‘‘ قرار دے کر لاہور سے باہر نکال دیا۔۔۔

nusrat.javeed@gmail.com

اپنے بچپن کا لاہور مجھے بہت یاد آتا ہے۔ اسی حوالے سے بہت سارے کردار اور واقعات ایسے ہیں جو آج کے زمانے کے چند سنگین مسائل پر غور کرتے ہوئے میرے ذہن میں اچانک روشن ہوجاتے ہیں اور میں اس کالم میں ان کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔ مگر کچھ ماہ سے مجھے سندھ اور خیبر پختون خواہ کے چند بہت ہی پیارے دوستوں سے یہ طعنے ملنا شروع ہوگئے ہیں کہ لاہور کو یاد کرتے ہوئے میں پنجاب پر فخر کرتا ہوا Chauvinistمحسوس ہونا شروع ہوجاتا ہوں۔ انھوں نے بظاہر مجھے یہ باتیں بے تکلفانہ مذاق میں کہیں مگر میں کافی چوکنا اور محتاط ہوگیا اس سوچ پر مکمل ایمان رکھنے کے باوجود کہ ایک لکھنے والا سچ کو اپنی حقیقی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کی روشنی ہی میں تلاش کرسکتا ہے۔

چہلم کے روز میں علی الصبح اُٹھ کر اپنے بستر پر دھرے اخبارات کے پلندے کو بڑی تیزی سے ختم کرنے کے بعد ٹی وی اور لیپ ٹاپ کے سامنے جا بیٹھا۔ فون کی گھنٹی بجتی تو میرا خوف اور وسوسوں سے بھرا دل کانپ اُٹھتا۔ نامعلوم نمبروں سے آئی کالز کو Attendکرنے کی مجھے جرأت ہی نہ ہوئی۔ میرے ذہن کو راولپنڈی کے محلوں میں کچھ دنوں سے گردش کرتی چند خبروں اور افواہوں نے مفلوج کر رکھا تھا۔ ایسے میں اچانک ٹی وی پر یہ خبر دیکھی کہ لاہور کے دہلی دروازے کے اندر موجود حویلی الف شاہ سے چہلم کا جلوس برآمد ہوکر اب وزیر خان کی مسجد کے باہر پہنچ گیا ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ خبر دینے والے رپورٹر کو شاید یہ علم نہ تھا کہ وہ جس مقام کی بات کررہا تھا اسے ایک زمانے میں چوک پرانی کوتوالی کہا جاتا تھا۔

اس کے بعد کشمیری بازار آتا ہے اور پھر چوک رنگ محل جہاں سے یہ جلوس لاہور کے قدیمی صرافہ بازار کی طرف مڑ جاتا ہے۔ چوک پرانی کوتوالی سے سوہا بازار اور پھر گمٹی چوک سے بازارِ حکیماں مڑتے ہوئے اس جلوس کی راہ میں ہزاروں دکانیں آتی ہیں۔ یہ دکانیں بہت ہی قیمتیں سامان سے لدھی ہوتی ہیں جن کی مالیت کا تخمینہ کروڑوں میں لگایا جانا چاہیے۔ ان دکانوں کے مالکان کی بے پناہ اکثریت کا تعلق اس مسلک سے نہیں جس کے پیروکار چہلم کے جلوس میں شریک ہوتے ہیں۔ کم از کم میرے کالج سے فارغ ہونے تک میں نے کبھی کسی عام شہری یا انتظامیہ کے فرد سے اس خدشے کا اظہار نہ سنا کہ چہلم کے جلوس میں کسی ''ممکنہ گڑبڑ'' سے اس کے راستے میں آنے والی دکانیں نذرآتش کی جاسکتی ہیں۔ اسلام آباد کے ایک کمرے میں دہشت زدہ ذہن کے ساتھ بیٹھا میں اپنے ماضی کی اس خوش گوار یاد کو گویا اپنے دل کی تسلی کے لیے بڑی دیر تک بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے ذہن میں دہرانے پر مجبور ہوگیا۔


ذرا غور کیا تو اچانک یہ بھی یاد آگیا کہ لاہور میں چہلم کا جلوس اور داتا گنج بخش کا عرس ایک ہی دن منعقد ہوتے ہیں۔ سید علی ہجویری کا آخری مسکن اور کربلا گامے شاہ فاصلے کے اعتبار سے ایک دوسرے کے تقریباً ہمسائے ہیں۔ ایک ہی دن ان دونوں مقامات سے منسلک لوگوں کا اپنے اپنے مسلک کے ساتھ وابستگی کا ایسا مظاہرہ تو پوری دُنیا کے لیے ''اصل پاکستان'' کی ایک علامت ہونا چاہیے تھا۔ ایک ایسا ملک اور معاشرہ جہاں کے لوگ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور روایات کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں سے اپنی یہ پہچان مگر کھو دی ہے۔ ذرا سوچئے چہلم کے روز کوئی غیر ملکی اسلام آباد کے کسی ہوٹل میں مقیم ہو۔ وہ اپنے کمرے میں ریموٹ اُٹھا کر مقامی چینلز کو دیکھنا شروع کردے اور اس کے پاس کوئی پاکستانی بیٹھا ہوا اسے ''یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے'' سمجھانا شروع کردے اور پھر اندازہ لگائیں کہ وہ پاکستان کے بارے میں کیا تصور بناکر یہاں سے جائے گا۔

میرے سندھی اور پختون دوستوں کو اعتبار کرلینا چاہیے کہ میرے ماضی کا لاہور میرے ذہن میں ہمیشہ ایک بہت ہی مثبت علامت کے طورپر نمودار ہوتا ہے۔ یہ زور زبردستی والی استحصالی سوچ پیدا کرنے کے بجائے پانچ دریاؤں کی مٹی میں صدیوں سے پلتی ہوئی اس محبت اور برداشت کی تلقین کرتا ہے جس نے آج کے افغانستان اور ماضی کے خراسان کے ایک قصبے ہجویر سے آئے سید علی کو یہ شہر ''داتا کی نگری'' بناکر پیش کردیا تھا۔ میرے جیسے لکھاریوں کا اصل جرم یہ ہے کہ ہم ایسی مثبت روایتوں کو بار بار یاد کرتے ہوئے انھیں اپنے لوگوں کے ذہنوں میں مستحکم نہ کرپائے۔ اپنی ''تاریخ'' بیان کرنے کا فریضہ ان لوگوں کے سپرد کردیا جو درحقیقت ہمارے ''اصل ماضی'' کو بے دردی سے مٹاتے ہوئے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے جنون میں مبتلا ہوچکے ہیں جہاں ہر شخص بس ان کی طرح سوچے۔ ان کا طے شدہ لباس ان کے انداز میں پہنے۔ اللہ کی عبادت کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو ان ہی کی طرح باندھے اور رکوع وسجود میں جائے۔

یکسانیت پہلے پہل بڑی منظم دکھتی ہے۔ پھر یہ ''نظم''کچھ عسکری سا نظر آنا شروع ہوجاتا ہے اور بالآخر آپ کے دلوں کو سخت گیر بنانے کے سوا کچھ اور نہیں کرسکتا۔ سو طرح کے پھول پوری طرح کھلیں تو بہار آتی ہے جو دلوں میں زندہ رہنے کی اُمنگ اور دوسرے لوگوں سے محبت اور خلوص پر مبنی رشتے استوار کرنے کی خواہش بیدار کرتی ہے۔ بسنت بھی کبھی ''پالا اڑنت'' کا ایک جشن ہوا کرتی تھی۔ مگر ہم نے اسے ''ہندو'' قرار دے کر لاہور سے باہر نکال دیا۔ ایسا کرتے ہوئے ہم لوگ بھول گئے کہ اسی شہر میں ایک میلہ چراغاں بھی ہوا کرتا ہے۔ یہ میلہ کبھی اس شہر کا عید سے بھی بڑا تہوار مانا جاتا تھا۔ بظاہر یہ میلہ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر شاہ حسین سے وابستہ ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بی اے پاس کرنے تک میں شاہ حسین کو بطور شاہ حسین نہیں جانتا تھا۔ میرے لیے ان کا نام مادھو لال حسین تھا۔ یہ تو بہت دیر بعد پتہ چلا کہ مادھواور حسین دو جدا شخصیات تھیں۔ ایک ہندو تھا اور دوسرا مسلمان اور اس مسلمان کو کئی لوگ ''ملامتی'' ٹھہراکر سخت ناپسند بھی کیا کرتے ہیں۔ لاہور اگرہجویر سے آئے سید علی اور ٹیکسالی کے ایک ملامتی شاہ حسین سے ہی منسوب رہتا تو شاید میں آج اسلام آباد کے ایک کمرے میں انجانے خوف سے ذہنی طورپر مفلوج ہوا نہ بیٹھا ہوتا۔
Load Next Story