طاقت کا شجرہ
کیا کوئی جواب دے سکتا ہے کہ بارہ برس بعد افغانستان اور دس برس سے عراق میں امریکا کی موجودگی کا جواز کیا ہے؟
نادر شاہ درانی نے دلی میں بد ترین قتل عام کے بعد ، جب دلی فتح کر لیا تو مفتوح بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے شاہی محل میں فاتح بادشاہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ کہتے ہیں کہ نادر شاہ درانی نے دلی کے اس قتل عام کا حکم صرف ایک لفظ کہہ کر دیا تھا اور وہ لفظ تھا ''بزن '' فارسی کا یہ لفظ انگریزی کے لفظ BEGIN کا ہم وزن ہے، جس کا مطلب ہے شروع کرو یا شروع ہو جاؤ۔ جب ایرانی لشکر کے گھوڑوں کی سُمیں خون سے سرخ ہو گئیں، تو نادر شاہ فاتح کی حیثیت سے شاہی محل میں داخل ہوا اور محمد شاہ رنگیلے کی جانب سے خود کو ملنے والی اس شاندار مہمان نوازی پر حیران رہ گیا۔
لوگوں نے دیکھا کہ محمد شاہ رنگیلے نے اسے اپنے تخت پر ساتھ بٹھا لیا ۔ گویا ایک نیام میں دو تلواریں سما گئیں تھیں۔ فاتح بادشاہ نے مفتوح بادشاہ کے تخت پر اس کے ساتھ بیٹھنے کے بعد اپنی شرائط منوانا شروع کیں۔ محمد شاہ رنگیلا نے اپنا مشہور و معروف خاندانی ہیرا کوہ نور اپنی پگڑی میں چھپا لیا تھا۔ نادر شاہ کو اس کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی کہ ہیرا کہاں ہے؟ کیونکہ مخبر کب اور کہاں نہیں ہوتے؟ اس زمانے میں بھی موجود تھے۔ نادر شاہ نے تخت پر بیٹھتے ہی محمد شاہ رنگیلا کو اپنا منہ بولا بھائی بنا لیا اور بولا ''جس طرح عورتیں دوپٹہ بدل کر آپس میں بہنیں بن جاتی ہیں، کیوں نا ہم دونوں بھی پگڑی بدل کر آپس میں بھائی بن جائیں''؟ یہ کہہ کر نادر شاہ نے محمد شاہ کی پگڑی اتار کر اپنے سر پر رکھ لی اور اپنی پگڑی محمد شاہ کے سر پر سجا دی ۔ اس طرح کوہ نور ہیرا بڑی صفائی کے ساتھ نادر شاہ کی تحویل میں پہنچ گیا۔ نا اہل اور مفتوح مغل بادشاہ اپنی کمزوری پر پیج و تاب کھا کر رہ گیا، لیکن کچھ کہہ نہ سکا
''ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات''
جنگ کے تاوان کے علاوہ نادر شاہ وہ تاریخی تخت طاؤس بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا جو محمد شاہ کے جد امجد شاہ جہاں نے بڑے چاؤ سے بنوایا تھا۔ ان سب کے علاوہ اب فاتح بادشاہ نے مطالبہ کیا کہ محمد شاہ رنگیلا اپنی بیٹی کا نکاح نادر شاہ کے بیٹے سے پڑھوا دے تا کہ دونوں ''بھائیوں'' کے درمیان یہ رشتہ مزید مضبوط ہو جائے۔ چونکہ مفتوح کے پاس فاتح کی بات ماننے کے سوا دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا لہذا نکاح کی تقریب کے لیے پنڈال سجا دیا گیا۔ محمد شاہ رنگیلا بہرحال ایک خاندانی بادشاہ تھا۔ اہلیت اور نا اہلیت سے قطع نظر بادشاہت اس کے خاندان میں پشتوں سے چلی آ رہی تھی ، جب کہ نادر شاہ درانی ایک چرواہے کا بیٹا تھا، ( ایک روایت کے مطابق موچی کا بیٹا تھا) جس نے اپنے زور بازو سے یہ بادشاہت حاصل کی تھی۔ محمد شاہ کے کسی ہمدرد نے اس کے کان میں یہ ''جڑ'' دیا کہ نکاح کے وقت نادر شاہ سے اس کے خاندانی شجرے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں، اس طرح اسے کم سے کم زبانی طور پر ہی سہی ذلیل کرنے کا ایک موقع تو حاصل ہو ہی جائے گا۔ لہذا جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر اپنا شجرہ سنانا شروع کر دیا اور اس خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیز خان تک بیان کرتا چلا گیا۔ اب نادر شاہ درانی کی باری آئی اور دولہا کا جب شجرہ یا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا پھر وہ پنڈال میں یکایک کھڑا ہو گیا اور اپنی تلوار سونت کر بولا '' لکھو! ابن شمشیر، بن شمشیر، بن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جاؤ۔''
یہ تھا طاقت کا وہ شجرہ جسے نہ تو کل کوئی چیلنج کر سکا تھا اور ہی آج اس چیلنج کا کوئی جواب سامنے آ سکا ہے۔ طاقت کا جواب صرف طاقت ہی ہوتی ہے۔ طاقت اپنا جواب بھی خود ہوتی ہے اور جواز بھی خود ہی ہوتی ہے۔ طاقت کیسی بھی ہو، اپنا اظہار ضرور چاہتی ہے اور کرتی بھی ہے۔ اسے کمزور کو دبانے کے لیے کسی جواز کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے کیونکہ طاقت بذات خود اپنا جواز ہوتی ہے۔ ابن انشاء مرحوم نے اپنی کتاب ''اردو کی آخری کتاب'' میں نادر شاہ کے ہندوستان پر اس حملے کا ذکر کرتے ہوئے بڑے شگفتہ انداز میں تحریر کیا ہے کہ ''نادر شاہ نے اپنے مشیروں سے کہا ہم ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لہذا ہمیں اس پر حملہ کرنے کا کوئی جواز تلاش کر کے جلد سے جلد مہیا کیا جائے۔'' انھوں نے نادر شاہ کو بتایا کہ حملہ کرنے کا کوئی جواز مل نہیں رہا ہے۔ اس پر ایک سیانے مشیر نے نادر شاہ کو مشورہ دیا ''جہاں پناہ ہندوستان پر حملہ کرنے کا چونکہ کوئی جواز ہی نہیں ہے، لہذا کیوں نہ اسی بات کو حملہ کرنے کا جواز بنا لیا جائے کہ حملہ کرنے کا کوئی جواز موجود کیوں نہیں ہے؟ '' نادر شاہ کوئی تجویز پسند آئی اور وہ اسی جواز کو جواز بنا کر ہندوستان پر حملہ آور ہو گیا ۔
اب ذکر ہو جائے آج کے نادر شاہ کا ۔19 دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ڈرون حملوں کے خلاف ایک متفقہ قرار داد منظور کر لی ہے۔ اب یہاں یہ بحث چل نکلی ہے کہ اس قرار داد کی منطوری کے بعد کیا پاکستان کی حدود میں ہونے والے ڈرون حملے امریکا بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا؟ اس کا صاف اور سیدھا جواب یہ ہے کہ ''شیر کی مرضی وہ انڈا دے یا بچہ دے'' امریکا نے افغانستان پر حملہ پہلے کیا تھا اور اقوام متحدہ اور نیٹو ممالک سے منطوری بعد میں حاصل کی تھی۔ عراق پر حملہ کرنے کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ صدام حسین کے پاس مہلک کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ یو این او کے انسپکٹر نے انکوائری کر کے رپورٹ اقوام متحدہ میں جمع کروائی تھی کہ ایسے کسی بھی ہتھیار کی موجودگی کے شواہد نہیں مل سکے ہیں۔ لیکن حملہ پھر بھی کر دیا گیا تھا ۔
افغانستان پر حملے کا جواز یہ تھا کہ وہاں القاعدہ اور اس کا سربراہ اسامہ بن لادن موجود ہے۔ عراق پر قابض ہونے کے بعد امریکا نے خود تسلیم کیا کہ وہاں سے کسی قسم کے کوئی کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے اور امریکا کو ملنے والی رپورٹس غلط تھیں۔ اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد، پاکستان میں امریکا کے جتنے بھی پٹھو موجود ہیں، کیا ان میں سے کوئی ایک پٹھو ہمارے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ بارہ برس بعد افغانستان اور دس برس سے عراق میں امریکا کی موجودگی کا جواز کیا ہے؟ ان دونوں ممالک میں امریکا کی مسلح افواج آخر کیوں بیٹھی ہیں؟ اور افغانوں کے لیے امریکا سے جنگ کرنے کے لیے کیا یہ جواز کافی نہیں ہے کہ وہ ان کی سرزمین پر ناجائز طور پر قابض ہے اور انھیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن کو غیر ملکی حملہ آور کے قبضے سے چھڑانے کے لیے مسلح جدوجہد کریں؟
رہی بات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی، جس کے تخت امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا تھا تو شاید اب اس کی قلعی کھل جانے کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔ اگر امریکا پاکستان پر اب بھی ڈرون حملے جاری رکھتا ہے اور وہ رکھے گا تو پھر سمجھ لیں کہ یو این او کی قرار داد ''طاقت کے شجرے'' سے زیادہ طاقتور ہرگز نہیں ہے۔
لوگوں نے دیکھا کہ محمد شاہ رنگیلے نے اسے اپنے تخت پر ساتھ بٹھا لیا ۔ گویا ایک نیام میں دو تلواریں سما گئیں تھیں۔ فاتح بادشاہ نے مفتوح بادشاہ کے تخت پر اس کے ساتھ بیٹھنے کے بعد اپنی شرائط منوانا شروع کیں۔ محمد شاہ رنگیلا نے اپنا مشہور و معروف خاندانی ہیرا کوہ نور اپنی پگڑی میں چھپا لیا تھا۔ نادر شاہ کو اس کی اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی کہ ہیرا کہاں ہے؟ کیونکہ مخبر کب اور کہاں نہیں ہوتے؟ اس زمانے میں بھی موجود تھے۔ نادر شاہ نے تخت پر بیٹھتے ہی محمد شاہ رنگیلا کو اپنا منہ بولا بھائی بنا لیا اور بولا ''جس طرح عورتیں دوپٹہ بدل کر آپس میں بہنیں بن جاتی ہیں، کیوں نا ہم دونوں بھی پگڑی بدل کر آپس میں بھائی بن جائیں''؟ یہ کہہ کر نادر شاہ نے محمد شاہ کی پگڑی اتار کر اپنے سر پر رکھ لی اور اپنی پگڑی محمد شاہ کے سر پر سجا دی ۔ اس طرح کوہ نور ہیرا بڑی صفائی کے ساتھ نادر شاہ کی تحویل میں پہنچ گیا۔ نا اہل اور مفتوح مغل بادشاہ اپنی کمزوری پر پیج و تاب کھا کر رہ گیا، لیکن کچھ کہہ نہ سکا
''ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات''
جنگ کے تاوان کے علاوہ نادر شاہ وہ تاریخی تخت طاؤس بھی اپنے ساتھ ایران لے گیا جو محمد شاہ کے جد امجد شاہ جہاں نے بڑے چاؤ سے بنوایا تھا۔ ان سب کے علاوہ اب فاتح بادشاہ نے مطالبہ کیا کہ محمد شاہ رنگیلا اپنی بیٹی کا نکاح نادر شاہ کے بیٹے سے پڑھوا دے تا کہ دونوں ''بھائیوں'' کے درمیان یہ رشتہ مزید مضبوط ہو جائے۔ چونکہ مفتوح کے پاس فاتح کی بات ماننے کے سوا دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا لہذا نکاح کی تقریب کے لیے پنڈال سجا دیا گیا۔ محمد شاہ رنگیلا بہرحال ایک خاندانی بادشاہ تھا۔ اہلیت اور نا اہلیت سے قطع نظر بادشاہت اس کے خاندان میں پشتوں سے چلی آ رہی تھی ، جب کہ نادر شاہ درانی ایک چرواہے کا بیٹا تھا، ( ایک روایت کے مطابق موچی کا بیٹا تھا) جس نے اپنے زور بازو سے یہ بادشاہت حاصل کی تھی۔ محمد شاہ کے کسی ہمدرد نے اس کے کان میں یہ ''جڑ'' دیا کہ نکاح کے وقت نادر شاہ سے اس کے خاندانی شجرے کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں، اس طرح اسے کم سے کم زبانی طور پر ہی سہی ذلیل کرنے کا ایک موقع تو حاصل ہو ہی جائے گا۔ لہذا جب نکاح کی تقریب شروع ہوئی تو رواج کے مطابق دلہن کے والد نے اپنا نام لکھوا کر اپنا شجرہ سنانا شروع کر دیا اور اس خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیز خان تک بیان کرتا چلا گیا۔ اب نادر شاہ درانی کی باری آئی اور دولہا کا جب شجرہ یا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا پھر وہ پنڈال میں یکایک کھڑا ہو گیا اور اپنی تلوار سونت کر بولا '' لکھو! ابن شمشیر، بن شمشیر، بن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جاؤ۔''
یہ تھا طاقت کا وہ شجرہ جسے نہ تو کل کوئی چیلنج کر سکا تھا اور ہی آج اس چیلنج کا کوئی جواب سامنے آ سکا ہے۔ طاقت کا جواب صرف طاقت ہی ہوتی ہے۔ طاقت اپنا جواب بھی خود ہوتی ہے اور جواز بھی خود ہی ہوتی ہے۔ طاقت کیسی بھی ہو، اپنا اظہار ضرور چاہتی ہے اور کرتی بھی ہے۔ اسے کمزور کو دبانے کے لیے کسی جواز کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے کیونکہ طاقت بذات خود اپنا جواز ہوتی ہے۔ ابن انشاء مرحوم نے اپنی کتاب ''اردو کی آخری کتاب'' میں نادر شاہ کے ہندوستان پر اس حملے کا ذکر کرتے ہوئے بڑے شگفتہ انداز میں تحریر کیا ہے کہ ''نادر شاہ نے اپنے مشیروں سے کہا ہم ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، لہذا ہمیں اس پر حملہ کرنے کا کوئی جواز تلاش کر کے جلد سے جلد مہیا کیا جائے۔'' انھوں نے نادر شاہ کو بتایا کہ حملہ کرنے کا کوئی جواز مل نہیں رہا ہے۔ اس پر ایک سیانے مشیر نے نادر شاہ کو مشورہ دیا ''جہاں پناہ ہندوستان پر حملہ کرنے کا چونکہ کوئی جواز ہی نہیں ہے، لہذا کیوں نہ اسی بات کو حملہ کرنے کا جواز بنا لیا جائے کہ حملہ کرنے کا کوئی جواز موجود کیوں نہیں ہے؟ '' نادر شاہ کوئی تجویز پسند آئی اور وہ اسی جواز کو جواز بنا کر ہندوستان پر حملہ آور ہو گیا ۔
اب ذکر ہو جائے آج کے نادر شاہ کا ۔19 دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ڈرون حملوں کے خلاف ایک متفقہ قرار داد منظور کر لی ہے۔ اب یہاں یہ بحث چل نکلی ہے کہ اس قرار داد کی منطوری کے بعد کیا پاکستان کی حدود میں ہونے والے ڈرون حملے امریکا بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا؟ اس کا صاف اور سیدھا جواب یہ ہے کہ ''شیر کی مرضی وہ انڈا دے یا بچہ دے'' امریکا نے افغانستان پر حملہ پہلے کیا تھا اور اقوام متحدہ اور نیٹو ممالک سے منطوری بعد میں حاصل کی تھی۔ عراق پر حملہ کرنے کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ صدام حسین کے پاس مہلک کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ یو این او کے انسپکٹر نے انکوائری کر کے رپورٹ اقوام متحدہ میں جمع کروائی تھی کہ ایسے کسی بھی ہتھیار کی موجودگی کے شواہد نہیں مل سکے ہیں۔ لیکن حملہ پھر بھی کر دیا گیا تھا ۔
افغانستان پر حملے کا جواز یہ تھا کہ وہاں القاعدہ اور اس کا سربراہ اسامہ بن لادن موجود ہے۔ عراق پر قابض ہونے کے بعد امریکا نے خود تسلیم کیا کہ وہاں سے کسی قسم کے کوئی کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں ہوئے اور امریکا کو ملنے والی رپورٹس غلط تھیں۔ اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد، پاکستان میں امریکا کے جتنے بھی پٹھو موجود ہیں، کیا ان میں سے کوئی ایک پٹھو ہمارے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ بارہ برس بعد افغانستان اور دس برس سے عراق میں امریکا کی موجودگی کا جواز کیا ہے؟ ان دونوں ممالک میں امریکا کی مسلح افواج آخر کیوں بیٹھی ہیں؟ اور افغانوں کے لیے امریکا سے جنگ کرنے کے لیے کیا یہ جواز کافی نہیں ہے کہ وہ ان کی سرزمین پر ناجائز طور پر قابض ہے اور انھیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن کو غیر ملکی حملہ آور کے قبضے سے چھڑانے کے لیے مسلح جدوجہد کریں؟
رہی بات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی، جس کے تخت امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا تھا تو شاید اب اس کی قلعی کھل جانے کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔ اگر امریکا پاکستان پر اب بھی ڈرون حملے جاری رکھتا ہے اور وہ رکھے گا تو پھر سمجھ لیں کہ یو این او کی قرار داد ''طاقت کے شجرے'' سے زیادہ طاقتور ہرگز نہیں ہے۔