پیرول پر رہائی سب کےلیے
پاکستان میں صرف سیاستدان اور بااثر ملزمان ہی پیرول کی سہولت سے مستفید ہوتے ہیں، غریب کیوں نہیں؟
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا، وہ ضمنی الیکشن میں مصروف تھے کہ ان کےحلقے والوں نے پنڈ دادنخان کے ایک یتیم نوجوان کی والدہ کی وفات پر پیرول پر رہائی کےلیے سفارش کرنے کو کہا۔ انہوں نے پوری کوشش کی، ہر کسی سے سفارش کی، مگر بات نہ بنی۔ جب کہ دوسری جانب عالم یہ ہے کہ سیاستدانوں کو یہ سہولت باآسانی میسر ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال شہباز شریف اور ان کے فرزند کی پیرول پر رہائی ہے۔ بلاشبہ پی ٹی آئی سرکار کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ لیکن کتنا اچھا ہوکہ یہ سہولت تمام قیدیوں کو قانون کے مطابق بلاتفریق میسر ہو۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے، عرض کرتا چلوں کہ پیرول پر رہائی کیا اور کیسے ہوتی ہے۔ جیل میں قید افراد کو کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر بارہ گھنٹے کےلیے نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کی غرض سے عارضی طور پر رہا کیا جاتا ہے۔ حالات کے پیشِ نظر مدت میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پیرول پر رہائی عام طور پر ایسے مجرموں کو دی جاتی ہے جنہوں نے پہلی بار جرم کا ارتکاب کیا ہو یا پھر جیل میں رویہ اچھا ہو۔ عادی مجرم کو پیرول پر رہائی نہیں دی جاتی۔ اس سہولت کےلیے صوبائی محکمہ داخلہ، پولیس اور جیل حکام پر مشتمل کمیٹی کو درخواست دی جاتی ہے۔ کمیٹی درخواست کا جائزہ لے کر کیس صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ارسال کرتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف اڈیالہ جیل میں گزشتہ ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو قیدیوں کے قریبی رشتے دار فوت ہوئے، لیکن درخواست کے باجود انہیں بروقت رہائی کی اجازت نہیں ملی۔ کچھ ذرائع یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ بااثر مجرموں یا پھر بھاری رشوت دینے والوں کو پیرول پر رہائی دے دی جاتی ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف سیاستدان ہی کیوں اس سہولت سے مستفید ہوتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ حکومت وقت میں اپوزیشن کا دباؤ برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی، یا پھر اس لیے کہ حکومتی ترجمان اپنی اس نیکی پر خیر خواہی کا را گ الاپ سکیں۔ اور عام آدمی کو یہ سہولت میسر ہونے سے ایسا کچھ نہیں ہوسکے گا، یا اس لیے کہ آج وہ ایسا کریں گے تو کل کو انہیں بھی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے یہ سہولت میسر آسکے۔
یہ اس ملک کی حالت ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ یہاں پر ملزموں کو 20 سال کے بعد بے گناہ قرار دے کر رہائی کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ وہ بے گناہ اس دنیا سے رخصت بھی ہوچکا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی جیلوں میں 50 فیصد سے زائد لوگ بے گناہ قید ہیں (کچھ دعوؤں کے مطابق)۔ ایک نجی نشریاتی ادارے نے کراچی جیل میں قید ایک طالبہ سے ملاقات کی تو علم ہوا کہ وہ تین سال سے قید ہے اور ابھی تک اس کے کیس پر کارروائی شروع نہیں ہوئی۔ ایک معروف اردو ویب سائٹ نے منڈی بہاؤالدین کے ایک ایسے قیدی کا انٹرویو نشر کیا جو 22 سال کے بعد جیل سے بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ قید کے دوران اس کے والد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ چونکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک عام شہری تھا، جس کی اہمیت صرف الیکشن کے دوران ہوتی ہے، اس لیے پیرول پر رہائی تو دور کی بات اسے اطلاع تک نہیں دی گئی۔
انصار برنی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ سات لاکھ سے زائد بے گناہ افراد کو جیلوں سے رہائی دلوا چکے ہیں۔ ان میں ایسے قیدی بھی شامل تھے جو 40 سال سے جیل میں تھے۔ ایک قیدی تو جیل میں ہی پیدا ہوا اور جیل میں ہی 40 سال گزار دیے۔ جب ہم نے اسے رہا کروایا تو اس کی انگلی پکڑ کر سڑک پار کروائی، گویا وہ چالیس سال کا چھوٹا سا بچہ تھا۔ ایک عورت جو قیامِ پاکستان سے بھی پہلے سے قید تھی، اسے ہماری جدوجہد کے نتیجے میں پچپن سال بعد رہائی نصیب ہوئی۔ ایک صاحب بیوی کو قتل کے الزام میں 38 سال قید میں رہے، مگر اسے کبھی عدالت میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ اڑتیس سال بعد رہائی نصیب ہوئی تو انکشاف ہوا کہ اس کی بیوی زندہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس ملک میں انصاف کی رفتار اس قدر سست ہو، وہاں پر کم ازکم پیرول پر رہائی کا قانون تو سب کےلیے ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ عدالتی اصلاحات کے عمل کو تیز تر کردیا جائے تاکہ جیلوں میں قید بے گناہ افراد کو نہ صرف بروقت رہائی ملے بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی مانند انہیں معاوضہ بھی دلوایا جائے تاکہ وہ کسی کی مدد کے بغیر ایک نئی زندگی شروع کرسکیں۔ اور ایک آخری گزارش کہ جیلوں میں قید ایسے افراد جو معمولی جرمانے ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیلوں اور معاشرے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، حکومت سماجی تنطیموں کی اس معاملے میں حوصلہ افزائی کرے تاکہ یہ افراد معاشرے کا مفید حصہ بن سکیں اور وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے، عرض کرتا چلوں کہ پیرول پر رہائی کیا اور کیسے ہوتی ہے۔ جیل میں قید افراد کو کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر بارہ گھنٹے کےلیے نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کی غرض سے عارضی طور پر رہا کیا جاتا ہے۔ حالات کے پیشِ نظر مدت میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ پیرول پر رہائی عام طور پر ایسے مجرموں کو دی جاتی ہے جنہوں نے پہلی بار جرم کا ارتکاب کیا ہو یا پھر جیل میں رویہ اچھا ہو۔ عادی مجرم کو پیرول پر رہائی نہیں دی جاتی۔ اس سہولت کےلیے صوبائی محکمہ داخلہ، پولیس اور جیل حکام پر مشتمل کمیٹی کو درخواست دی جاتی ہے۔ کمیٹی درخواست کا جائزہ لے کر کیس صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ارسال کرتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف اڈیالہ جیل میں گزشتہ ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو قیدیوں کے قریبی رشتے دار فوت ہوئے، لیکن درخواست کے باجود انہیں بروقت رہائی کی اجازت نہیں ملی۔ کچھ ذرائع یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ بااثر مجرموں یا پھر بھاری رشوت دینے والوں کو پیرول پر رہائی دے دی جاتی ہے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف سیاستدان ہی کیوں اس سہولت سے مستفید ہوتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ حکومت وقت میں اپوزیشن کا دباؤ برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی، یا پھر اس لیے کہ حکومتی ترجمان اپنی اس نیکی پر خیر خواہی کا را گ الاپ سکیں۔ اور عام آدمی کو یہ سہولت میسر ہونے سے ایسا کچھ نہیں ہوسکے گا، یا اس لیے کہ آج وہ ایسا کریں گے تو کل کو انہیں بھی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے یہ سہولت میسر آسکے۔
یہ اس ملک کی حالت ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ یہاں پر ملزموں کو 20 سال کے بعد بے گناہ قرار دے کر رہائی کا پروانہ جاری کیا جاتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ وہ بے گناہ اس دنیا سے رخصت بھی ہوچکا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی جیلوں میں 50 فیصد سے زائد لوگ بے گناہ قید ہیں (کچھ دعوؤں کے مطابق)۔ ایک نجی نشریاتی ادارے نے کراچی جیل میں قید ایک طالبہ سے ملاقات کی تو علم ہوا کہ وہ تین سال سے قید ہے اور ابھی تک اس کے کیس پر کارروائی شروع نہیں ہوئی۔ ایک معروف اردو ویب سائٹ نے منڈی بہاؤالدین کے ایک ایسے قیدی کا انٹرویو نشر کیا جو 22 سال کے بعد جیل سے بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا گیا۔ قید کے دوران اس کے والد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ چونکہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک عام شہری تھا، جس کی اہمیت صرف الیکشن کے دوران ہوتی ہے، اس لیے پیرول پر رہائی تو دور کی بات اسے اطلاع تک نہیں دی گئی۔
انصار برنی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ سات لاکھ سے زائد بے گناہ افراد کو جیلوں سے رہائی دلوا چکے ہیں۔ ان میں ایسے قیدی بھی شامل تھے جو 40 سال سے جیل میں تھے۔ ایک قیدی تو جیل میں ہی پیدا ہوا اور جیل میں ہی 40 سال گزار دیے۔ جب ہم نے اسے رہا کروایا تو اس کی انگلی پکڑ کر سڑک پار کروائی، گویا وہ چالیس سال کا چھوٹا سا بچہ تھا۔ ایک عورت جو قیامِ پاکستان سے بھی پہلے سے قید تھی، اسے ہماری جدوجہد کے نتیجے میں پچپن سال بعد رہائی نصیب ہوئی۔ ایک صاحب بیوی کو قتل کے الزام میں 38 سال قید میں رہے، مگر اسے کبھی عدالت میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ اڑتیس سال بعد رہائی نصیب ہوئی تو انکشاف ہوا کہ اس کی بیوی زندہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس ملک میں انصاف کی رفتار اس قدر سست ہو، وہاں پر کم ازکم پیرول پر رہائی کا قانون تو سب کےلیے ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ عدالتی اصلاحات کے عمل کو تیز تر کردیا جائے تاکہ جیلوں میں قید بے گناہ افراد کو نہ صرف بروقت رہائی ملے بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی مانند انہیں معاوضہ بھی دلوایا جائے تاکہ وہ کسی کی مدد کے بغیر ایک نئی زندگی شروع کرسکیں۔ اور ایک آخری گزارش کہ جیلوں میں قید ایسے افراد جو معمولی جرمانے ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیلوں اور معاشرے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، حکومت سماجی تنطیموں کی اس معاملے میں حوصلہ افزائی کرے تاکہ یہ افراد معاشرے کا مفید حصہ بن سکیں اور وطن عزیز کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔