زباں فہمی علامہ اقبال اور دیگر شعراء سے سہواً منسوب اور جعلی کلام
غالباً بابا بُلھے شاہ کی جعلی شاعری سب سے زیادہ پھیلائی جارہی ہے۔
کالم نمبر 74
کبھی کبھی کوئی واقعہ یادداشت سے ایسا چسپاں ہوجاتا ہے کہ سدا یاد رہتا ہے۔ اُن دنوں خاکسار میٹرک کا طالب علم تھا۔ ہمارے نہایت لائق فائق استاد محترم محمدرئیس خان صاحب ہمیں مطالعہ پاکستان پڑھا رہے تھے کہ اچانک کسی اور جماعت سے ایک لڑکا اجازت طلب کرکے اندر آیا اور سَر سے پوچھا کہ علامہ اقبال کے اس شعر کا مطلب کیا ہے۔
محترم رئیس صاحب نے فوراً کہا کہ یہ شعر اقبالؔ کا نہیں، کیونکہ اقبال ؔکا شعر خود بولتا ہے کہ وہ اقبالؔ کی تخلیق ہے۔ پھر اس کے بعد، انھوں نے شعر کا مفہوم بھی آسان الفاظ میں واضح کردیا۔ ایک مدت ہوئی کہ اس شعر کا مصرع اولیٰ ذہن سے محو ہوگیا تھا، بس یہ یاد تھا کہ مصرع ثانی یوں تھا: ؎ ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا.......بعدازآں پہلا مصرع کہیں دیکھا بھی تو یاد نہ رہا اور اَب فیس بک اور واٹس ایپ پر اشعار گھڑنے والوں اور بے شمار تُک بند شوقین افراد کے ہمہ وقت کچھ نہ کچھ گھڑتے رہنے کے شوق کے سبب، شعر یوں مکمل شکل میں سامنے آیا ہے: توحید ہستی ہیں ہم، واحد خدا ہمارا/ ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا۔ { استاد محترم محمدرئیس خان صاحب، ماشاء اللہ بقید حیات ہیں۔
انھوں نے ایم اے اردو، ایل ایل بی اور سندھی فاضل کی اسناد مع امتیاز حاصل کی ہیں اور سندھی اہل زبان سے زیادہ سندھی پر عبور کے حامل ہونے کے سبب، ہمیں سندھی بھی پڑھا چکے ہیں، نیز سرکاری ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے سے بطور صدرمدرس منسلک ہیں اور سندھی پڑھا رہے ہیں}۔
سیال کوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل، شاعر اور تحریک پاکستان کے کارکن کا شعر آج تک مسلسل، باوجودِتردید، علامہ اقبال سے منسوب کیا جارہا ہے: تندیٔ بادِمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!/یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے۔ اس مشہور شعر کے خالق صادق حسین صادقؔ کاظمی صاحب یکم اکتوبر 1898ء کو موضع کھادرپاڑا، (مقبوضہ کشمیر) میں پیداہوئے۔ اُن کا خاندان بعدازآں نقل مکانی کرکے ظفروال، سیال کوٹ میں آباد ہوا۔ وہ اپنی عملی زندگی کی ابتداء میں شعبہ تدریس سے منسلک تھے، مگر پھر 1927میں انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔
وہ 1930ء میں تحصیل شکرگڑھ، ضلع نارووال منتقل ہوگئے۔ اُن کا مجموعہ کلام ''برگِ سبز'' 1977ء میں شایع ہوا۔ صادق کاظمی صاحب کا انتقال 4مئی 1989ء کو اسلام آباد میں ہوا اور وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں مدفون ہیں۔ اُن کا یہ شعر اور مکمل غزل انٹرنیٹ پر دستیاب ہے ، ہمارے ایک سو ایک سالہ بزرگ معاصر محترم محمد شمس الحق کی کتاب ''اردوکے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں'' بھی یہ شعر اور کوائف موجود ہیں۔ اس مشہور شعر کی پوری غزل اپنے قارئین کے لیے نقل کررہا ہوں:
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے/یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے/تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب/یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے/کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل/رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے/نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر/ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے/چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر/مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے/استقامت سے اٹھا! وہ نالہ و آہ و فغاں/جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے/ آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں/وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے/مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے/ہاتھ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے/دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں/ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے۔ ہر چند کہ حوالہ پیش نظر نہیں، مگر یہ بات صاف ہے کہ یہ غزل تحریک خلافت کے عروج کے دور میں کہی گئی ہوگی۔ اس تحریک کے حوالے سے کہا گیا تمام شعراء کا کلام بھی یکجا ہونا ضروری ہے۔
یہ کلام بھی گزشتہ کچھ عرصے سے بہت نقل ہو رہا ہے اور علامہ اقبال سے غلط منسوب کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ/املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ/ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ/شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ۔ پھر اس میں ردوبدل کرکے بھی نقل کیا گیا۔
''درج بالا (مندرجہ بالا) قطعے کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ قطعہ ہندوستانی ریاست راجستھان کے علاقے مادھوپور، بہیتڑ سے تعلق رکھنے والے شاعر سرفرازؔ بزمی فلاحی کا ہے۔ سرفرازؔ بزمی کی ولادت 20فروری 1949 کو ہوئی۔ ان کا اصل نام سرفراز احمد خان ہے؛ تاہم ادبی حلقوں میں سرفرازؔ بزمی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سرفراز بزمی نے راجستھان یونیورسٹی جے پور سے گریجویشن فارسی، اردو اور تاریخ کے مضامین میں مکمل کیا۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کی سند، اجمیر یونیورسٹی اجمیر سے حاصل کی۔
بطور مدرس راجستھان میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سرفرازؔ بزمی کا مذکورہ قطعہ مارچ 1993 میں شعرائے راجستھان کے ایک انتخاب میں جب شائع ہوا تو اس کی صورت کچھ یوں تھی: جو حق سے کرے دور وہ تدبیر بھی فتنہ/اولاد بھی اجداد بھی جاگیر بھی فتنہ/ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ/شمشیر تو کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ۔ (انتخاب قطعات و رباعیات، غوث شریف عارف (مرتبہ) راجستھان اردو اکادمی، جے پور، مارچ 1993)۔ سرفراز بزمی کے مطابق جب یہ قطعہ ذرا بدل کر مشہور ہوگیا تو انہوں نے بھی اس کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نئی صورت کو قبول کرلیا۔ یہ معلوم نہیں کہ کب اور کس وجہ سے اس قطعے کو اقبالؔ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا؟
اب بھی انٹرنیٹ پر یہ قطعہ علامہ اقبالؔ کے نام سے ملتا ہے، جو غلط ہے۔ {تحقیق فرہاد احمد فگار: ان کا تعلق مظفر آباد، آزاد کشمیر سے ہے۔ اردو زبان کی ترویج اور فروغ سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل)، اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ [https://www.facebook.com/sarfarazbazmi/]}۔
محترم ہاشمی سید شعیب قمر الدین صاحب کی تحقیق کے مطابق ناصرف مندرجہ بالا کلام جناب سرفرازبزمی کا ہے، بلکہ انھوں نے شاعر موصوف کا کچھ منتخب کلام بھی نقل فرمایا ہے جو قارئین کرام کے ملاحظے کے لیے پیش کررہا ہوں: عالم مشرق میں پھر ہنگامہ جمہور ہے/گوش بر آواز اک اک قیصر و فغفور ہے/ظلمتیں ہیں، روشنی معدوم ہے، مستور ہے/ اے مسافر! منزل مقصود لیکن دور ہے/ پھر وہی قیصر ہے باقی، پھر وہی پرویز ہے/ خاک عالم پھر حرم کے خون سے لبریز ہے/ آسمان پیر کی یہ فتنہ سامانی بھی دیکھ/ موج دجلہ! چل ذرا گنگا کی طغیانی بھی دیکھ/ خون مسلم کی سر بازار ارزانی بھی دیکھ/ پنجہ باطل میں پھر بے بس مسلمانی بھی دیکھ/ کانپتی تھی سلطنت جن کے خرام ناز سے/ آہ! وہ ڈرتے ہیں۔
اب ناقوس کی آواز سے/ دعوت و تبلیغ کی وہ سر زمین باوقار/ کیوں بنا میوات تہذیب حجازی کا مزار/ رو رہے ہیں دیکھ وہ ''اکبر''کے بچے زار زار/ دیکھ! لے آیا کہاں ہم کو ہمارا انتشار/ وہ صنم زادے کہاں، یثرب کے دیوانے کہاں/ ''بھنگ کے کلھڑ کہاں، صہبا کے پیمانے کہاں''/ رات رخصت ہو چلی رخصت ہوا وقت سکوت/ ہیں شکستہ کفر کے سب تارہائے عنکبوت/ مہرباں ہونے کو ہے دربار ''حی لایموت ''/ جلوہ حق کے نظر آنے لگے بین ثبوت/ پھر اٹھی ہے ایشیا کے دل سے آہ بے صدا/ ہو رہی ہے آج پھر شاخ کہن برگ آشنا/ پھر ہری ہے آج اپنے خون سے شاخ خلیل/ پھر سفر پر ہم کو اکسانے لگی بانگ رحیل۔[https://dawatnews.net/20958/] ۔ ویسے تو ظفرعلی خان کا مشہورزمانہ شعر (خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی/ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا) بھی علامہ اقبال سے سہواً منسوب کیا جاتا رہا ہے، مگر اسی پر بس نہیں، بے شمار موزوں اور ناموزوں اشعار، حتیٰ کہ تک بندی کے شاہکار بھی علامہ اقبال سے منسوب کرکے دھڑا دھڑ پھیلائے جارہے ہیں۔
کچھ ملے جُلے نمونے ملاحظہ فرمائیں: یہ بات نہیں کہ مجھے اس پہ یقین نہیں/ بس ڈر گیا ہوں خود کو صاحب ایمان کہتے کہتے۔ اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ/ ہوگیا کیوں اللہ کے بندوں سے خالی حرم۔ اگر محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر/ جہاں سے عشق چلتا ہے، وہاں تک نام پیدا کر۔ دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال/ سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی۔ دوا کی تلاش میں رہا، دعا کو چھوڑ کر/ میں چل نہ سکا دنیا میں خطائوں کو چھوڑ کر/ حیران ہو ں میں اپنی حسرتوں پہ اقبال/ ہر چیز خدا سے مانگ لی، مگر خدا کو چھوڑ کر۔ گرتے ہیں سجدوں میں ہم/ اپنی ہی حسرتوں کی خاطر اقبالؔ/ اگر گرتے صرف عشق خدا میں/ تو کوئی حسرت ادھوری نہ رہتی۔ اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا/ تو اپنے اندر پہلے انداز ِ وفا تو پیدا کر۔
بخدا اگر آج علامہ سر شیخ محمد اقبال زندہ ہوتے تو عدالت عظمیٰ میں ان تمام بے شمار افراد کے خلاف مقدمہ لڑرہے ہوتے اور مقدمے کا احوال بھی اُن کی تازہ شاعری میں دیکھنے کو ملتا، کیونکہ وہ زود گو سخنور تھے، آج کے بہت سارے تُک بند حضرات کے تصور سے بھی کہیں زیادہ۔ بعض اوقات علامہ نے ایک رات میں تین سو کے لگ بھگ اشعار بھی کہے تھے۔ یہ سارے نمونہ ہائے کلام یہاں محض اس لیے پیش کیے گئے ہیں کہ بعض اوقات اچھے خاصے سنجیدہ افراد بھی ان کی بابت استفسار کرتے ہیں اور بعض کو سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کے علاوہ میرزا غالب، فیض احمد فیض ؔ، احمد فراز، پروین شاکر اور وصی شاہ کے کلام سے مماثل، ناموزوں نمونہ ہائے کلام نیز دیگر شعراء کے کلام کا ان سے منسوب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ میرزا غالبؔ اگر زندہ ہوتے تو احتجاج میں یقیناً شعرگوئی ترک کرچکے ہوتے۔ اردو کے علاوہ کچھ عرصے سے پنجابی کے مشاہیرسخن کے نام سے اچھی بُری ہر طرح کی شاعری منظرعام پر آرہی ہے۔ اس کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل فون کی مختصر پیام رسانی کا سہارا لیا گیا ہے۔ غالباً بابا بُلھے شاہ کی جعلی شاعری سب سے زیادہ پھیلائی جارہی ہے۔
بعض کلام موزوں بھی ہوتا ہے، مگر اس میں برتے گئے جدید الفاظ صاف چغلی کھاتے ہیں کہ بلھے شاہ کے عہد میں یہ کلام نہیں لکھا گیا۔ ان کے بعد بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ (اردو/ہندی، پنجابی اور سرائیکی کے قدیم شاعر) اور خواجہ غلام فرید سے بھی کچھ نا کچھ منسوب کرکے پھیلایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں اہل زبان کو پیش رفت کرتے ہوئے بالتحقیق ایسے جعلی کلام کی تردید کرنی چاہیے اور آسان زبان میں نئی نسل کو یہ بتانا چاہیے کہ ان بزرگوں کا کلام کیا تھا اور کس طرح اسے دیگر سے ممیز کیا جاسکتا ہے۔
فیض لدھیانوی کی ایک نظم ''اے نئے سال بتا! تجھ میں نیا پن کیا ہے'' ہر سال، دسمبر کی آخری تاریخوں اور جنوری کے آغاز میں فیض احمدفیض ؔ کی تصویر لگاکر اُن کے نام سے انٹرنیٹ پر خوب خوب نقل کی جاتی ہے۔ اس موقع پر عموماً فیض ؔ صاحب کی سگریٹ یا سگار پیتے ہوئے تصویر لگائی جاتی ہے تاکہ دیکھنے والوں پر گہرا تأثر مرتب ہو......آہ! کیسے غم منایا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ فیض لدھیانوی کی وہ مشہور نظم جو بہ آسانی فیض احمد فیض کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے:
اے نئے سال بتا، تُجھ میں نیا پن کیا ہے؟/ ہر طرف خَلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے/ روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی/ آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی/ آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں/ ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں/ اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے/کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے/ جنوری، فروری اور مارچ میں پڑے گی سردی/اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی/ تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا/ اپنی میعاد بَسر کر کے چلا جائے گا/ تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی/ ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی/ بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارک بادیں/غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں/ تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی/ فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی۔ خاکسار کو یاد پڑتا ہے کہ فیض لدھیانوی کی نظمیں بھی ادب اطفال کا نمایاں حصہ رہی تھیں۔ افسوس ! تلاش بسیار کے باوجود، اُن کی کوئی تصویر انٹرنیٹ سے تلاش کرسکا نہ ہی اُن کے کلام کے دیگر نمونے، ماسوائے ایک آدھ شعر کے۔
کبھی کبھی کوئی واقعہ یادداشت سے ایسا چسپاں ہوجاتا ہے کہ سدا یاد رہتا ہے۔ اُن دنوں خاکسار میٹرک کا طالب علم تھا۔ ہمارے نہایت لائق فائق استاد محترم محمدرئیس خان صاحب ہمیں مطالعہ پاکستان پڑھا رہے تھے کہ اچانک کسی اور جماعت سے ایک لڑکا اجازت طلب کرکے اندر آیا اور سَر سے پوچھا کہ علامہ اقبال کے اس شعر کا مطلب کیا ہے۔
محترم رئیس صاحب نے فوراً کہا کہ یہ شعر اقبالؔ کا نہیں، کیونکہ اقبال ؔکا شعر خود بولتا ہے کہ وہ اقبالؔ کی تخلیق ہے۔ پھر اس کے بعد، انھوں نے شعر کا مفہوم بھی آسان الفاظ میں واضح کردیا۔ ایک مدت ہوئی کہ اس شعر کا مصرع اولیٰ ذہن سے محو ہوگیا تھا، بس یہ یاد تھا کہ مصرع ثانی یوں تھا: ؎ ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا.......بعدازآں پہلا مصرع کہیں دیکھا بھی تو یاد نہ رہا اور اَب فیس بک اور واٹس ایپ پر اشعار گھڑنے والوں اور بے شمار تُک بند شوقین افراد کے ہمہ وقت کچھ نہ کچھ گھڑتے رہنے کے شوق کے سبب، شعر یوں مکمل شکل میں سامنے آیا ہے: توحید ہستی ہیں ہم، واحد خدا ہمارا/ ہم کافروں کے کافر، کافر خدا ہمارا۔ { استاد محترم محمدرئیس خان صاحب، ماشاء اللہ بقید حیات ہیں۔
انھوں نے ایم اے اردو، ایل ایل بی اور سندھی فاضل کی اسناد مع امتیاز حاصل کی ہیں اور سندھی اہل زبان سے زیادہ سندھی پر عبور کے حامل ہونے کے سبب، ہمیں سندھی بھی پڑھا چکے ہیں، نیز سرکاری ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے سے بطور صدرمدرس منسلک ہیں اور سندھی پڑھا رہے ہیں}۔
سیال کوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل، شاعر اور تحریک پاکستان کے کارکن کا شعر آج تک مسلسل، باوجودِتردید، علامہ اقبال سے منسوب کیا جارہا ہے: تندیٔ بادِمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!/یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے۔ اس مشہور شعر کے خالق صادق حسین صادقؔ کاظمی صاحب یکم اکتوبر 1898ء کو موضع کھادرپاڑا، (مقبوضہ کشمیر) میں پیداہوئے۔ اُن کا خاندان بعدازآں نقل مکانی کرکے ظفروال، سیال کوٹ میں آباد ہوا۔ وہ اپنی عملی زندگی کی ابتداء میں شعبہ تدریس سے منسلک تھے، مگر پھر 1927میں انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔
وہ 1930ء میں تحصیل شکرگڑھ، ضلع نارووال منتقل ہوگئے۔ اُن کا مجموعہ کلام ''برگِ سبز'' 1977ء میں شایع ہوا۔ صادق کاظمی صاحب کا انتقال 4مئی 1989ء کو اسلام آباد میں ہوا اور وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں مدفون ہیں۔ اُن کا یہ شعر اور مکمل غزل انٹرنیٹ پر دستیاب ہے ، ہمارے ایک سو ایک سالہ بزرگ معاصر محترم محمد شمس الحق کی کتاب ''اردوکے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں'' بھی یہ شعر اور کوائف موجود ہیں۔ اس مشہور شعر کی پوری غزل اپنے قارئین کے لیے نقل کررہا ہوں:
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے/یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے/تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب/یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے/کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل/رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے/نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر/ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے/چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر/مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے/استقامت سے اٹھا! وہ نالہ و آہ و فغاں/جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے/ آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں/وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے/مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے/ہاتھ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے/دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں/ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے۔ ہر چند کہ حوالہ پیش نظر نہیں، مگر یہ بات صاف ہے کہ یہ غزل تحریک خلافت کے عروج کے دور میں کہی گئی ہوگی۔ اس تحریک کے حوالے سے کہا گیا تمام شعراء کا کلام بھی یکجا ہونا ضروری ہے۔
یہ کلام بھی گزشتہ کچھ عرصے سے بہت نقل ہو رہا ہے اور علامہ اقبال سے غلط منسوب کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ/املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ/ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ/شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ۔ پھر اس میں ردوبدل کرکے بھی نقل کیا گیا۔
''درج بالا (مندرجہ بالا) قطعے کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ قطعہ ہندوستانی ریاست راجستھان کے علاقے مادھوپور، بہیتڑ سے تعلق رکھنے والے شاعر سرفرازؔ بزمی فلاحی کا ہے۔ سرفرازؔ بزمی کی ولادت 20فروری 1949 کو ہوئی۔ ان کا اصل نام سرفراز احمد خان ہے؛ تاہم ادبی حلقوں میں سرفرازؔ بزمی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سرفراز بزمی نے راجستھان یونیورسٹی جے پور سے گریجویشن فارسی، اردو اور تاریخ کے مضامین میں مکمل کیا۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کی سند، اجمیر یونیورسٹی اجمیر سے حاصل کی۔
بطور مدرس راجستھان میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ سرفرازؔ بزمی کا مذکورہ قطعہ مارچ 1993 میں شعرائے راجستھان کے ایک انتخاب میں جب شائع ہوا تو اس کی صورت کچھ یوں تھی: جو حق سے کرے دور وہ تدبیر بھی فتنہ/اولاد بھی اجداد بھی جاگیر بھی فتنہ/ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ/شمشیر تو کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ۔ (انتخاب قطعات و رباعیات، غوث شریف عارف (مرتبہ) راجستھان اردو اکادمی، جے پور، مارچ 1993)۔ سرفراز بزمی کے مطابق جب یہ قطعہ ذرا بدل کر مشہور ہوگیا تو انہوں نے بھی اس کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نئی صورت کو قبول کرلیا۔ یہ معلوم نہیں کہ کب اور کس وجہ سے اس قطعے کو اقبالؔ کے کھاتے میں ڈال دیا گیا؟
اب بھی انٹرنیٹ پر یہ قطعہ علامہ اقبالؔ کے نام سے ملتا ہے، جو غلط ہے۔ {تحقیق فرہاد احمد فگار: ان کا تعلق مظفر آباد، آزاد کشمیر سے ہے۔ اردو زبان کی ترویج اور فروغ سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل)، اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ [https://www.facebook.com/sarfarazbazmi/]}۔
محترم ہاشمی سید شعیب قمر الدین صاحب کی تحقیق کے مطابق ناصرف مندرجہ بالا کلام جناب سرفرازبزمی کا ہے، بلکہ انھوں نے شاعر موصوف کا کچھ منتخب کلام بھی نقل فرمایا ہے جو قارئین کرام کے ملاحظے کے لیے پیش کررہا ہوں: عالم مشرق میں پھر ہنگامہ جمہور ہے/گوش بر آواز اک اک قیصر و فغفور ہے/ظلمتیں ہیں، روشنی معدوم ہے، مستور ہے/ اے مسافر! منزل مقصود لیکن دور ہے/ پھر وہی قیصر ہے باقی، پھر وہی پرویز ہے/ خاک عالم پھر حرم کے خون سے لبریز ہے/ آسمان پیر کی یہ فتنہ سامانی بھی دیکھ/ موج دجلہ! چل ذرا گنگا کی طغیانی بھی دیکھ/ خون مسلم کی سر بازار ارزانی بھی دیکھ/ پنجہ باطل میں پھر بے بس مسلمانی بھی دیکھ/ کانپتی تھی سلطنت جن کے خرام ناز سے/ آہ! وہ ڈرتے ہیں۔
اب ناقوس کی آواز سے/ دعوت و تبلیغ کی وہ سر زمین باوقار/ کیوں بنا میوات تہذیب حجازی کا مزار/ رو رہے ہیں دیکھ وہ ''اکبر''کے بچے زار زار/ دیکھ! لے آیا کہاں ہم کو ہمارا انتشار/ وہ صنم زادے کہاں، یثرب کے دیوانے کہاں/ ''بھنگ کے کلھڑ کہاں، صہبا کے پیمانے کہاں''/ رات رخصت ہو چلی رخصت ہوا وقت سکوت/ ہیں شکستہ کفر کے سب تارہائے عنکبوت/ مہرباں ہونے کو ہے دربار ''حی لایموت ''/ جلوہ حق کے نظر آنے لگے بین ثبوت/ پھر اٹھی ہے ایشیا کے دل سے آہ بے صدا/ ہو رہی ہے آج پھر شاخ کہن برگ آشنا/ پھر ہری ہے آج اپنے خون سے شاخ خلیل/ پھر سفر پر ہم کو اکسانے لگی بانگ رحیل۔[https://dawatnews.net/20958/] ۔ ویسے تو ظفرعلی خان کا مشہورزمانہ شعر (خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی/ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا) بھی علامہ اقبال سے سہواً منسوب کیا جاتا رہا ہے، مگر اسی پر بس نہیں، بے شمار موزوں اور ناموزوں اشعار، حتیٰ کہ تک بندی کے شاہکار بھی علامہ اقبال سے منسوب کرکے دھڑا دھڑ پھیلائے جارہے ہیں۔
کچھ ملے جُلے نمونے ملاحظہ فرمائیں: یہ بات نہیں کہ مجھے اس پہ یقین نہیں/ بس ڈر گیا ہوں خود کو صاحب ایمان کہتے کہتے۔ اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ/ ہوگیا کیوں اللہ کے بندوں سے خالی حرم۔ اگر محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وصف پیدا کر/ جہاں سے عشق چلتا ہے، وہاں تک نام پیدا کر۔ دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال/ سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی۔ دوا کی تلاش میں رہا، دعا کو چھوڑ کر/ میں چل نہ سکا دنیا میں خطائوں کو چھوڑ کر/ حیران ہو ں میں اپنی حسرتوں پہ اقبال/ ہر چیز خدا سے مانگ لی، مگر خدا کو چھوڑ کر۔ گرتے ہیں سجدوں میں ہم/ اپنی ہی حسرتوں کی خاطر اقبالؔ/ اگر گرتے صرف عشق خدا میں/ تو کوئی حسرت ادھوری نہ رہتی۔ اگر نہ بدلوں تیری خاطر ہر اِک چیز تو کہنا/ تو اپنے اندر پہلے انداز ِ وفا تو پیدا کر۔
بخدا اگر آج علامہ سر شیخ محمد اقبال زندہ ہوتے تو عدالت عظمیٰ میں ان تمام بے شمار افراد کے خلاف مقدمہ لڑرہے ہوتے اور مقدمے کا احوال بھی اُن کی تازہ شاعری میں دیکھنے کو ملتا، کیونکہ وہ زود گو سخنور تھے، آج کے بہت سارے تُک بند حضرات کے تصور سے بھی کہیں زیادہ۔ بعض اوقات علامہ نے ایک رات میں تین سو کے لگ بھگ اشعار بھی کہے تھے۔ یہ سارے نمونہ ہائے کلام یہاں محض اس لیے پیش کیے گئے ہیں کہ بعض اوقات اچھے خاصے سنجیدہ افراد بھی ان کی بابت استفسار کرتے ہیں اور بعض کو سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کے علاوہ میرزا غالب، فیض احمد فیض ؔ، احمد فراز، پروین شاکر اور وصی شاہ کے کلام سے مماثل، ناموزوں نمونہ ہائے کلام نیز دیگر شعراء کے کلام کا ان سے منسوب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ میرزا غالبؔ اگر زندہ ہوتے تو احتجاج میں یقیناً شعرگوئی ترک کرچکے ہوتے۔ اردو کے علاوہ کچھ عرصے سے پنجابی کے مشاہیرسخن کے نام سے اچھی بُری ہر طرح کی شاعری منظرعام پر آرہی ہے۔ اس کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل فون کی مختصر پیام رسانی کا سہارا لیا گیا ہے۔ غالباً بابا بُلھے شاہ کی جعلی شاعری سب سے زیادہ پھیلائی جارہی ہے۔
بعض کلام موزوں بھی ہوتا ہے، مگر اس میں برتے گئے جدید الفاظ صاف چغلی کھاتے ہیں کہ بلھے شاہ کے عہد میں یہ کلام نہیں لکھا گیا۔ ان کے بعد بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ (اردو/ہندی، پنجابی اور سرائیکی کے قدیم شاعر) اور خواجہ غلام فرید سے بھی کچھ نا کچھ منسوب کرکے پھیلایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں اہل زبان کو پیش رفت کرتے ہوئے بالتحقیق ایسے جعلی کلام کی تردید کرنی چاہیے اور آسان زبان میں نئی نسل کو یہ بتانا چاہیے کہ ان بزرگوں کا کلام کیا تھا اور کس طرح اسے دیگر سے ممیز کیا جاسکتا ہے۔
فیض لدھیانوی کی ایک نظم ''اے نئے سال بتا! تجھ میں نیا پن کیا ہے'' ہر سال، دسمبر کی آخری تاریخوں اور جنوری کے آغاز میں فیض احمدفیض ؔ کی تصویر لگاکر اُن کے نام سے انٹرنیٹ پر خوب خوب نقل کی جاتی ہے۔ اس موقع پر عموماً فیض ؔ صاحب کی سگریٹ یا سگار پیتے ہوئے تصویر لگائی جاتی ہے تاکہ دیکھنے والوں پر گہرا تأثر مرتب ہو......آہ! کیسے غم منایا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ فیض لدھیانوی کی وہ مشہور نظم جو بہ آسانی فیض احمد فیض کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے:
اے نئے سال بتا، تُجھ میں نیا پن کیا ہے؟/ ہر طرف خَلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے/ روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی/ آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی/ آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں/ ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں/ اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے/کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے/ جنوری، فروری اور مارچ میں پڑے گی سردی/اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی/ تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا/ اپنی میعاد بَسر کر کے چلا جائے گا/ تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی/ ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی/ بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارک بادیں/غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں/ تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی/ فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی۔ خاکسار کو یاد پڑتا ہے کہ فیض لدھیانوی کی نظمیں بھی ادب اطفال کا نمایاں حصہ رہی تھیں۔ افسوس ! تلاش بسیار کے باوجود، اُن کی کوئی تصویر انٹرنیٹ سے تلاش کرسکا نہ ہی اُن کے کلام کے دیگر نمونے، ماسوائے ایک آدھ شعر کے۔