چینی جوتوں کی کلیئرنس ایف ٹی اے کے غلط استعمال کاالزام
پورٹ قاسم کسٹمزکلکٹریٹ میں افسران رشوت لے کرکم ڈیوٹی میں کلیئرنس کررہے ہیں
محکمہ کسٹمز پورٹ بن قاسم کلکٹریٹ میں چین سے درآمد ہونے والے جوتوں کے کنسائنمنٹس کی کلیئرنس میں ایف ٹی اے کے غلط استعمال اور کم مالیت کی کسٹم ڈیوٹی کی وصولیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان اکانومی فورم کے وائس چیئرمین شرجیل جمال نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ پورٹ قاسم کسٹمز کلکٹریٹ میں گزشتہ 6ماہ سے منظم انداز میں رشوت ستانی کا بازار گرم ہے اور کلکٹریٹ میں اس حوالے سے کسٹمز افسران پر مشتمل باقاعدہ ایک پول قائم ہے جو جوتوں سمیت دیگر مصنوعات کی مخصوص اسپیڈ منی کی وصولی کے بعد کم مالیت کی ڈیوٹی وصولی کے ساتھ کلیئرنس کررہے ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے کو اب تک تقریبا7 کروڑ روپے مالیت کا نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اکانومی فورم نے ایف بی آر حکام کو اس کسٹم پول کے بارے میں پہلے ہی بذریعہ خط آگاہ کردیا ہے لیکن تاحال ایف بی آر کی جانب سے کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
شرجیل جمال نے بتایا کہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے بدعنوان افسران کا منظم کسٹم پول چین سے درآمد ہونے والے جوتوں کے کنسائنمنٹس میں ایف ٹی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے مقررہ 25 فیصد کسٹم ڈیوٹی وصول کرنے کے بجائے صرف5 فیصد ڈیوٹی وصول کرکے کلیئرنس دے رہا ہے جبکہ اس کے برعکس کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور ایسٹ کراچی میں آنے والے چینی جوتوں کے درآمدکنندگان مقررہ25 فیصد ڈیوٹی کی ادائیگیوں کے بعد کلیئرنس حاصل کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں چینی جوتوں کے فی کنٹینر پر مبینہ طور پر35 تا40 ہزار روپے کی اسپیڈ منی وصول کی جارہی ہے اور جب اس حوالے سے متعلقہ اعلیٰ کسٹم افسر کو شکایت کی جاتی ہے تو درآمدکنندگان کو سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں لہٰذا پاکستان اکانومی فورم کا چیئرمین ایف بی آر سے مطالبہ ہے کہ وہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں گزشتہ 6ماہ کے دوران کلیئر ہونیوالے درآمدی کنسائنمنٹس کی تحقیقات کرنے کیلیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کرے جس میں کسٹمزایجنٹس ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے علاوہ اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ پاکستان کسٹم کوڈ6403.9900 اور6403.1200 کے تحت کلیئر ہونے والے کنسائنمنٹس پر صرف5 فیصد کسٹم ڈیوٹی وصولیاں کی جارہی ہے جس سے نہ صرف قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا جارہا ہے بلکہ وہ درآمدکنندگان بھی متاثرہورہے ہیں جو مقررہ شرح کے مطابق کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگیاں کررہے ہیں۔
پاکستان اکانومی فورم کے وائس چیئرمین شرجیل جمال نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ پورٹ قاسم کسٹمز کلکٹریٹ میں گزشتہ 6ماہ سے منظم انداز میں رشوت ستانی کا بازار گرم ہے اور کلکٹریٹ میں اس حوالے سے کسٹمز افسران پر مشتمل باقاعدہ ایک پول قائم ہے جو جوتوں سمیت دیگر مصنوعات کی مخصوص اسپیڈ منی کی وصولی کے بعد کم مالیت کی ڈیوٹی وصولی کے ساتھ کلیئرنس کررہے ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے کو اب تک تقریبا7 کروڑ روپے مالیت کا نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اکانومی فورم نے ایف بی آر حکام کو اس کسٹم پول کے بارے میں پہلے ہی بذریعہ خط آگاہ کردیا ہے لیکن تاحال ایف بی آر کی جانب سے کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
شرجیل جمال نے بتایا کہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے بدعنوان افسران کا منظم کسٹم پول چین سے درآمد ہونے والے جوتوں کے کنسائنمنٹس میں ایف ٹی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے مقررہ 25 فیصد کسٹم ڈیوٹی وصول کرنے کے بجائے صرف5 فیصد ڈیوٹی وصول کرکے کلیئرنس دے رہا ہے جبکہ اس کے برعکس کسٹمز کلکٹریٹ اپریزمنٹ ویسٹ اور ایسٹ کراچی میں آنے والے چینی جوتوں کے درآمدکنندگان مقررہ25 فیصد ڈیوٹی کی ادائیگیوں کے بعد کلیئرنس حاصل کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں چینی جوتوں کے فی کنٹینر پر مبینہ طور پر35 تا40 ہزار روپے کی اسپیڈ منی وصول کی جارہی ہے اور جب اس حوالے سے متعلقہ اعلیٰ کسٹم افسر کو شکایت کی جاتی ہے تو درآمدکنندگان کو سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں لہٰذا پاکستان اکانومی فورم کا چیئرمین ایف بی آر سے مطالبہ ہے کہ وہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں گزشتہ 6ماہ کے دوران کلیئر ہونیوالے درآمدی کنسائنمنٹس کی تحقیقات کرنے کیلیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کرے جس میں کسٹمزایجنٹس ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے علاوہ اسٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ پاکستان کسٹم کوڈ6403.9900 اور6403.1200 کے تحت کلیئر ہونے والے کنسائنمنٹس پر صرف5 فیصد کسٹم ڈیوٹی وصولیاں کی جارہی ہے جس سے نہ صرف قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا جارہا ہے بلکہ وہ درآمدکنندگان بھی متاثرہورہے ہیں جو مقررہ شرح کے مطابق کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگیاں کررہے ہیں۔