وہ شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا
مجھے اکثر ’’اِنا للہ ِ و انا الیہ ِ راجعوُن ‘‘ کا ورد کرنے سے کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
انسان بعض اوقات کسی اہم چیز کو بے حد احتیاط سے اور سنبھال کر گھر کے اندر رکھتا ہے لیکن مدت گزرنے کے بعد بوقت ضرورت اسے تلاش کرتا ہے تو اپنی الماریاں، درازیں اور باکس چھان مارتا ہے اور یادداشت پر زور دینے کے باوجود اسے ڈھونڈ نہیں پاتا۔ کئی دن تک بار بار کوشش میں ناکام رہتا ہے ۔ پھر ایک دن اچانک پہلے سے دیکھی ایک جگہ پر اسے وہ چیز مل جاتی ہے اور اس کی ہفتہ دس دن کی Tension رفع ہو جاتی ہے ۔
مجھے اکثر ''اِنا للہ ِ و انا الیہ ِ راجعوُن '' کا ورد کرنے سے کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اس بار مجھے کچھ celebrities کے خطوط کی تلاش تھی جو پچاس ساٹھ سال قبل میرے ''مر ے کالج'' کے زمانے میں، میرے پہلے خط کے جواب میں آئے تھے۔ سب سے پرانا خط کرشن چندر کا 06-09-1958 کا بمبئی سے لکھا ہوا تھا ۔ ان کے ایک صفحے کے جوابی خط کی چار سطور یوں ہیں ''جب کبھی پاکستان سے اپنے کسی بھائی کا خط آ جاتا ہے ، روح محبت سے لبریز ہو جاتی ہے۔ سالک صاحب میرے مرُبی ہیں ۔ زندہ دل پنجابیوں کی چند مخصوص روایات ان کے دم قدم سے زندہ ہیں۔
میں شعر نہیں کہتا ورنہ ان کا قصیدہ پنجابی زبان میں لکھتا ''۔ دوسرا خط 19 نومبر 1960میں لکھا ڈاکٹر سید عبداللہ کا ہے۔ تیسرا خط 11-06-1957 کو میرے نام قتیل شفائی کا ہے۔ قتیل شفائی کے گھر پر جاوید اقبال کارٹونسٹ کے ہمراہ کئی محفلوں میں شرکت کی۔ ہر بار پر تکلف کھانا کھایا ۔ انھی کے مشورے پر شاعری چھوڑ کر سول سروس کی تیاری شروع کی اور ان کے ساتھ ان کی رحلت تک گہرا تعلق رہا۔
چوتھا خط 18 جون 1960 کو لکھا میرے نام احمد ندیم قاسمی کا ہے جن سے خلوص و محبت کا تعلق ان کی حیات تک رہا اور ان سے کتنی بار ملاقات ہوئی، ان کی تعداد ان گنت ہے۔ قاسمی صاحب، قتیل شفائی صاحب اور سالک صاحب کے درجنوں میرے نام لکھے جوابی خطوط تا حیات میرے لیے محبت کا سرمایہ رہیں گے۔ مجھے گوجرانوالہ اور ساہیوال میں تعیناتی کے دنوں میں وہاں قاسمی صاحب اور قتیل صاحب کو دعوت پر بلا کر مشاعرے کرانا اور انھیں اپنے گھر ٹھہرانا بھی کبھی نہیں بھولے گا۔
میری قربت لاہور تبادلے کے بعد احمد ندیم قاسمی صاحب سے اتنی زیادہ رہی کہ اپنے دفتر اور عدالت سے واپسی پر میں ان کے پاس رک کر گھر آتا۔ وہاں میری ملاقات یونس جاوید اور منصورہ احمد سے بھی ہو جاتی ۔ یہ دونوں بھی مجلس ترقی ادب کے دفتر میں قاسمی صاحب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ منصورہ احمد قاسمی صاحب کی منہ بولی بیٹی اور اچھی شاعرہ تھی جس نے میری بیٹی مہر النساء کی NCA کی گریجویشن کے وقت بنائی Thesis Painting کے لیے نظم لکھ کر پینٹنگ میں سمویا۔ یونس جاوید معروف شاعر ہونے کے علاوہ ڈرامہ نویس ہیں ۔
قتیل شفائی کے علاوہ احمد ندیم قاسمی اردو شاعری میں اس وقت تک میرے اُستاد رہے جب تک میں نے قتیل شفائی صاحب کے مشورے پر شعر گوئی ترک نہ کر دی۔ کالم نویسی کی ابتدا کا ذمے دار جاوید اقبال ہے۔ قاسمی صاحب باوجود شاعری ترک کرنے کے طویل عرصہ میرے استاد رہے اور پھر عقیدت اور دوستی کا تعلق قائم ہوا جو اُن کی رحلت تک قائم رہا۔ آتے جاتے بھی میں اکثر ان سے مل کر گزرتا، چائے پئے بغیر تو ملاقات ادھوری رہتی۔ کبھی لنچ بھی ہو جاتا ۔ کبھی اپنے گھر سے کھانا بھی ان کے دفتر منگوا لیتا اور منصورہ احمد کھانا لگانے کا اہتمام کرتی۔ اس دوران قاسمی صاحب کے ملاقاتی بھی شامل ہو جاتے۔اپنی زندگی کے بارے ان کا یہ شعر قابل فکر و تقلید ہے جو ان کی حقیقی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے بیان کیا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جائو ں گا، مگر صبح تو کر جائوں گا
اُن کے دفتر اور ہمراہ بیٹی کی طرح رہنے والی منصورہ احمد جو قاسمی صاحب کی رحلت کے کچھ ہی عرصہ بعد ملک ِ عدم کو سدھار گئی۔ اپنے بابا کے بارے میں لکھتی ہے '' یہ کیسا اسم ِ اعظم ہے۔ یہ کیسی خواب سی دنیا کا جادُو ہے۔ مرے بابا کے ہونٹوں پر مری بیٹی ابھرتا ہے۔ تو میرا سر فلک کو چھونے لگتا ہے ''۔ ہاجرہ مسرور قاسمی صاحب کو ''میرے بھیا میرے لالہ'' کہتی تھی۔ وہ ان کا لکھا ایک خط Quote کرتی ہے ''خوش رہا کرو، یہ زندگی بڑی ہی مختصر ہے۔ اپنی زندگی کے 49 ویں برس میں سوچتا ہوں اس نصف صدی میں کون سا تیر مارا ہے اور وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے۔ پھر اس مختصر مدت کو حسن و مسرت، نیکی اور طمانیت کی نذر کیوںنہ کریں''۔ قاسمی صاحب کے ذکر کے ساتھ چند اشعار ان کے کلام میں سے جو انھیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے :
دشمن بھی جو چاہے تو مر ی چھائوں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ سرِ راہ گزر ہوں
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں، سمندر میں اُتر جائوں گا
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
دستگیری مری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں تو شامل ہوں محبت کے گنہگاروں میں
مجھے اکثر ''اِنا للہ ِ و انا الیہ ِ راجعوُن '' کا ورد کرنے سے کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ اس بار مجھے کچھ celebrities کے خطوط کی تلاش تھی جو پچاس ساٹھ سال قبل میرے ''مر ے کالج'' کے زمانے میں، میرے پہلے خط کے جواب میں آئے تھے۔ سب سے پرانا خط کرشن چندر کا 06-09-1958 کا بمبئی سے لکھا ہوا تھا ۔ ان کے ایک صفحے کے جوابی خط کی چار سطور یوں ہیں ''جب کبھی پاکستان سے اپنے کسی بھائی کا خط آ جاتا ہے ، روح محبت سے لبریز ہو جاتی ہے۔ سالک صاحب میرے مرُبی ہیں ۔ زندہ دل پنجابیوں کی چند مخصوص روایات ان کے دم قدم سے زندہ ہیں۔
میں شعر نہیں کہتا ورنہ ان کا قصیدہ پنجابی زبان میں لکھتا ''۔ دوسرا خط 19 نومبر 1960میں لکھا ڈاکٹر سید عبداللہ کا ہے۔ تیسرا خط 11-06-1957 کو میرے نام قتیل شفائی کا ہے۔ قتیل شفائی کے گھر پر جاوید اقبال کارٹونسٹ کے ہمراہ کئی محفلوں میں شرکت کی۔ ہر بار پر تکلف کھانا کھایا ۔ انھی کے مشورے پر شاعری چھوڑ کر سول سروس کی تیاری شروع کی اور ان کے ساتھ ان کی رحلت تک گہرا تعلق رہا۔
چوتھا خط 18 جون 1960 کو لکھا میرے نام احمد ندیم قاسمی کا ہے جن سے خلوص و محبت کا تعلق ان کی حیات تک رہا اور ان سے کتنی بار ملاقات ہوئی، ان کی تعداد ان گنت ہے۔ قاسمی صاحب، قتیل شفائی صاحب اور سالک صاحب کے درجنوں میرے نام لکھے جوابی خطوط تا حیات میرے لیے محبت کا سرمایہ رہیں گے۔ مجھے گوجرانوالہ اور ساہیوال میں تعیناتی کے دنوں میں وہاں قاسمی صاحب اور قتیل صاحب کو دعوت پر بلا کر مشاعرے کرانا اور انھیں اپنے گھر ٹھہرانا بھی کبھی نہیں بھولے گا۔
میری قربت لاہور تبادلے کے بعد احمد ندیم قاسمی صاحب سے اتنی زیادہ رہی کہ اپنے دفتر اور عدالت سے واپسی پر میں ان کے پاس رک کر گھر آتا۔ وہاں میری ملاقات یونس جاوید اور منصورہ احمد سے بھی ہو جاتی ۔ یہ دونوں بھی مجلس ترقی ادب کے دفتر میں قاسمی صاحب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ منصورہ احمد قاسمی صاحب کی منہ بولی بیٹی اور اچھی شاعرہ تھی جس نے میری بیٹی مہر النساء کی NCA کی گریجویشن کے وقت بنائی Thesis Painting کے لیے نظم لکھ کر پینٹنگ میں سمویا۔ یونس جاوید معروف شاعر ہونے کے علاوہ ڈرامہ نویس ہیں ۔
قتیل شفائی کے علاوہ احمد ندیم قاسمی اردو شاعری میں اس وقت تک میرے اُستاد رہے جب تک میں نے قتیل شفائی صاحب کے مشورے پر شعر گوئی ترک نہ کر دی۔ کالم نویسی کی ابتدا کا ذمے دار جاوید اقبال ہے۔ قاسمی صاحب باوجود شاعری ترک کرنے کے طویل عرصہ میرے استاد رہے اور پھر عقیدت اور دوستی کا تعلق قائم ہوا جو اُن کی رحلت تک قائم رہا۔ آتے جاتے بھی میں اکثر ان سے مل کر گزرتا، چائے پئے بغیر تو ملاقات ادھوری رہتی۔ کبھی لنچ بھی ہو جاتا ۔ کبھی اپنے گھر سے کھانا بھی ان کے دفتر منگوا لیتا اور منصورہ احمد کھانا لگانے کا اہتمام کرتی۔ اس دوران قاسمی صاحب کے ملاقاتی بھی شامل ہو جاتے۔اپنی زندگی کے بارے ان کا یہ شعر قابل فکر و تقلید ہے جو ان کی حقیقی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے بیان کیا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جائو ں گا، مگر صبح تو کر جائوں گا
اُن کے دفتر اور ہمراہ بیٹی کی طرح رہنے والی منصورہ احمد جو قاسمی صاحب کی رحلت کے کچھ ہی عرصہ بعد ملک ِ عدم کو سدھار گئی۔ اپنے بابا کے بارے میں لکھتی ہے '' یہ کیسا اسم ِ اعظم ہے۔ یہ کیسی خواب سی دنیا کا جادُو ہے۔ مرے بابا کے ہونٹوں پر مری بیٹی ابھرتا ہے۔ تو میرا سر فلک کو چھونے لگتا ہے ''۔ ہاجرہ مسرور قاسمی صاحب کو ''میرے بھیا میرے لالہ'' کہتی تھی۔ وہ ان کا لکھا ایک خط Quote کرتی ہے ''خوش رہا کرو، یہ زندگی بڑی ہی مختصر ہے۔ اپنی زندگی کے 49 ویں برس میں سوچتا ہوں اس نصف صدی میں کون سا تیر مارا ہے اور وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے۔ پھر اس مختصر مدت کو حسن و مسرت، نیکی اور طمانیت کی نذر کیوںنہ کریں''۔ قاسمی صاحب کے ذکر کے ساتھ چند اشعار ان کے کلام میں سے جو انھیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے :
دشمن بھی جو چاہے تو مر ی چھائوں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ سرِ راہ گزر ہوں
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں، سمندر میں اُتر جائوں گا
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
دستگیری مری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں تو شامل ہوں محبت کے گنہگاروں میں