ملتان جلسہ اور حکومت کی غیر ضروری کارروائیاں

ملتان میں ہونے والے جلسے کو روکنے کےلیے حکومت اپنی پوری طاقت صرف کررہی ہے

اپوزیشن جماعتیں کسی صورت جلسہ ملتوی کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپوزیشن جماعتیں جلسوں کے موجودہ تسلسل کو برقرار رکھنے کےلیے ملتان میں جلسہ کرنے پر بضد ہیں۔ انہوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے چند شہروں میں بڑے جلسے کیے اور عوام کی بڑی تعداد ان جلسوں میں امڈ آئی، جس سے اپوزیشن رہنماؤں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حکومت کی طرف سے ہر جلسے کو روکنے کی کوشش کی جاتی رہی، کبھی کوئی بہانہ تو کبھی کوئی۔ وزیراعظم سمیت تمام وزرا یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے جلسوں بلکہ جلسیوں سے کچھ نہیں ہونے والا اور ساتھ ہی ساتھ ان جلسوں سے روکنے کی بھی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔

یہ تو اپوزیشن رہنما ہیں جو اب کسی حد تک بلکہ جلسوں کی حد تک ڈٹے ہوئے ہیں، حکومت کی طرف سے تمام تر مخالفت اور رکاوٹوں کے باوجود جلسے کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن کے جلسوں کی تشہیر وفاقی حکومت خود کرتی ہے اور وفاقی وزرا بلاجواز بیان بازی کے ذریعے عوام کو بتاتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں فلاں جگہ ایک اچھا جلسہ کرنے لگی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اتنے بڑے پیمانے پر ان کے خلاف بیان بازی ہوگی تو عوام میں تجسس تو پیدا ہوگا کہ آخر کوئی بات تو ہے جو وزرا تمام تر مسائل بلکہ اپنے اپنے کاموں کو چھوڑ کر اپوزیشن کے اس جلسے کے خلاف صبح و شام بیانات داغ رہے ہیں۔

تادم تحریر ملتان میں ہونے والے جلسے کو روکنے کےلیے حکومت اپنی پوری طاقت صرف کررہی ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں کسی صورت جلسہ ملتوی کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے ملتان میں قاسم باغ اسٹیڈیم کو تالے لگادیے گئے اور رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں لیکن اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں نے رکاوٹیں ہٹاکر اسٹیڈیم کے تالے توڑ ڈالے۔ جس کی وجہ سے پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھگڑا اور تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اس ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے بہت سے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کا جوش و ولولہ بڑھ چکا ہے، اس قسم کی تحریکوں کو گرفتاریوں اور دباؤ کے ذریعے کبھی بھی دبایا نہیں جاسکا، بلکہ انہیں جتنا دبانے کی کوشش کی جائے وہ مزید ابھرتی ہیں۔ اس قسم کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن حکومت کو تاریخ پڑھائے کون؟

حکومت اگر اس جلسے کو روکنے کی کوشش نہ کرتی تو بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں ہونا تھا کہ کوئی جلسہ بھی ہونا ہے یا ہوچکا ہے۔ لیکن حکومت کی بلاجواز کارروائیوں اور وزرا کی بے موقع بیان بازی کے شوق نے اپوزیشن کی تحریک کو مزید جان بخشی اور یہ تحریک اس حد تک زور پکڑ چکی ہے کہ اب بے دھڑک تالے توڑے جارہے ہیں اور رکاوٹیں ہٹائی جارہی ہیں۔


حکومت اگر واقعی اپوزیشن کی تحریک کو ناکام کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو بلا روک ٹوک جلسے کرنے کی اجازت دے اور ان کے جلسوں کے بارے میں وزیراعظم اور دیگر تمام وزرا کسی قسم کی بیان بازی نہ کریں، تو ان جلسوں کو اتنی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی جتنی کہ حکومت کے ان غیر ضروری اقدامات کی وجہ سے ہورہی ہے۔ جلسے کی تاریخ طے ہونے کے ساتھ ہی حکومتی اراکین کی بیان بازی کی وجہ سے جلسے خبروں کی زینت بن جاتے ہیں اور عوام کی توجہ ان کی طرف مرکوز ہوجاتی ہے۔ جلسوں میں بھی عوام بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور گھروں میں بیٹھ کر بھی میڈیا کے ذریعے ان سے باخبر رہتے ہیں۔

اگر حکومت ملتان والا جلسہ کورونا وائرس کی وجہ سے روکنا چاہتی ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی ایسی بڑی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں اسے جواز بناکر کسی جلسے کو روکا جائے۔ یہ حکومت کے پاس فقط بہانہ ہے، جس کا کوئی جواز نہیں۔ میں اس لیے اسے غیر ضروری نہیں قرار دے رہا کہ میرے نزدیک یہ وائرس کوئی خطرناک چیز نہیں ہے بلکہ میں حکومت کے ان اقدامات کو اس لیے غیر ضروری سمجھ رہا ہوں کہ ملک میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن نہیں ہے، بلکہ روزانہ کی بنیاد پر پورے ملک میں مختلف قسم کے اجتماعات ہوتے ہیں، جن میں سیکڑوں اور بسا اوقات ہزاروں کی تعداد میں بھی لوگ جمع ہوتے ہیں۔ ان میں شادی بیاہ کی تقریبات کے علاوہ کئی طرح کے جلسے وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے شادی ہالز پر کچھ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن گھروں اور کھلے مقامات پر بڑی تعداد میں یہ اجتماعات ہورہے ہیں، اگر ان سب سے کورونا وائرس نہیں پھیلتا تو وائرس کیا صرف اسی جلسے سے پھیلے گا؟

پھر اگر حکومت یہ مؤقف اختیار کرتی ہے کہ اپوزیشن کے جلسے بڑے ہوتے ہیں تو بھی ان کے بیانات میں تضاد ہے۔ ایک طرف تو آپ انہیں جلسی قرار دیتے ہیں، دوسری طرف کہتے ہیں کہ بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے سے وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا حکومت ایک واضح مؤقف اختیار کرے اور پورے ملک میں ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کرے یا پھر اپوزیشن کے جلسوں میں بھی رکاوٹ نہ ڈالے اور وہ کہیں بھی جلسہ کرنا چاہیں، انہیں اجازت دے تاکہ کسی قسم کا تصادم کا ماحول پیدا نہ ہو اور ملک میں امن کی فضا قائم رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story