بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز نہ آویں گے
جب تک محرومی، غربت، ذلت اور ارادے جیسی نعمتیں موجود ہیں تب تک یہ دنیا عظیم کرداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔
دنیا میرا ڈونا سے پہلے بھی رواں تھی۔اس کے بغیر بھی رواں ہے اور رہے گی۔میراڈونا سے پہلے بھی فٹ بال کے بہت ستارے ابھرے، اس کے ہوتے ہوئے بھی عالمی معیار کے کھلاڑیوں کی کمی نہیں تھی ، آیندہ بھی نہیں ہوگی۔
کروڑوں لوگ میراڈونا کے لیے جتنے افسردہ ہیں میں اتنا ہی پرامید ہوں۔جب تک محرومی، غربت، ذلت اور ارادے جیسی نعمتیں موجود ہیں تب تک یہ دنیا عظیم کرداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔
پچھلے سات ہزار برس کے تمام اولیا، اہلِ سخاوت، انقلابیوں، باغیوں ، شعلہ بیانوں ، نثرنگاروں، شاعروں، فلسفیوں ، مورخوں ، وقایع نگاروں ، اساتذہ ، سورماؤں، محققین ، سائنسدانوں ، موجدوں، تاجروں، ارب پتی صنعت کاروں، بینکاروں، کھلاڑیوں ، مہم جوؤں ، جہاز رانوں، سیاحوں ، تعمیراتی ماہرین ، موسیقاروں ، اداکاروں سمیت کسی بھی شعبے کی فہرست اٹھا لیں۔ننانوے فیصد نے غربت میں آنکھ کھولی ، محرومیوں کی گھٹی پی، ذلتوں کا وزن اٹھایا اور ارادوں پر سواری کرتے ہوئے عظمت کی سیڑھیوں پر درجہ وار جا کر بیٹھ گئے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں ایسے لوگوں کے احسانات نظرانداز کروں کہ جنھوں نے متمول ماحول میں آنکھ کھولی ، سونے کا نوالہ دیکھا ، آسودگی کے پروں تلے پرورش پا کر اعلیٰ مقام تک پہنچے اور دنیا کو اور بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا اور اپنے ارد گرد سے نکل کے باقی انسانوں کے لیے بھی سوچا۔اس کی سب سے درخشاں مثال گوتم بودھ ہے۔
مگر آسودگی کی گود میں پرورش پانے والے عظیم دنیا بدل لوگوں کی تعداد غربت اور محرومی سے نکلنے والے عظام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔اس کی بنیادی وجہ شائد یہ ہو کہ اہلِ ثروت اگر آگے بڑھنے میں ناکام بھی رہیں تو انھیں سنبھالنے کے لیے کئی مددگار ہاتھ اور چند مضبوط کندھے میسر رہتے ہیں۔اگر نا بھی ہوں تو وہ اپنی ناکامی وضع داری کے پلو میں چھپا لیتے ہیں۔
مگر کچی بستیوں کے گلیاروں پلنے والا یا بند گھٹن زدہ سماجی و معاشی ناہمواری کی فضا میں سانس لینے والا کوئی بچہ یا بچی اونچائیاں چھونے کے خواب دیکھتا ہے تو ابتدا میں اس کا ہاتھ پکڑنے والا وہ خود ہی ہوتا ہے۔ اسے گھر میں اور گھر کے باہر تمسخر و طعنہ زنی کا راتب ملتا ہے۔اسے سنکی سمجھا جاتا ہے۔اس پر ترس کھایا جاتا ہے۔اس کے بارے میں پیش گوئیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں کہ یہ گھر کو تو خیر کیا سنبھالے گا خود کو ہی سنبھال لے تو بڑی بات ہے۔
اسے ہر آن زندگی کا رندہ چھیلتا رہتا ہے۔اس کے اردگرد ناکامیوں، ناامیدوں، گریہ بازوں اور کم نظروں کی ایک فوجِ ظفر موج ہمہ وقت رہتی ہے۔وہ تنہائی گزیدہ اپنے ارادے، منصوبے، خدشات اور امیدوں کا رازداں ایک آدھ کو ہی بنا سکتا ہے۔ وہ ایک آدھ جو اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے سرگوشی کرتا رہتا ہے '' ہارنا نہیں ایک نہ ایک دن تیرا بھی آئے گا بس تو لگا رہ ''۔
میں ایک بار اسکردو سے خپلو جانے والے تنگ اور خطرناک راستے پر سفر کر رہا تھا۔اچانک ایک موڑ پر ایک بورڈ نظر آیا '' یہاں غلطی کا موقع صرف آخری بار ملتا ہے ''۔سوچیے اپنی مدد آپ پر مجبور جو بچے یا بچیاں عظیم خوابوں پر سوار ہو کر اندھے مستقبل میں چھلانگ مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے ذہن پر کیساکیسا بوجھ ہوتا ہوگا۔کیسے کیسے خدشاتی اژدھے ان کو لپیٹے رہتے ہوں گے۔خبردار ذرا سی لغزش اور پلٹنے کا ایک بھی موقع نہیں۔
شکستگی نے یہ دی گواہی بجا ہے اپنی یہ کج کلاہی
سنو کہ اپنا کوئی نہیں ہے ہم اپنے سائے میں پل رہے ہیں
( احمد نوید )
اور جب وہ اندھے مستقبل میں چھلانگ مار کر گمنامی و صدمے کی کھائی میں گرنے کے بجائے خود کو سنہرے مستقبل کی گود میں پاتے ہیں تو سب سے پہلے ان کی زندگی کے تمام ولن و حاسد و ریاکار ان کی جانب یہ کہہ کر دوڑ پڑتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے تو ایک نہ ایک دن یہ کمال کر دکھائے گا، دراصل ہمارا یہ بچہ شروع سے ہی باقی بچوں سے الگ تھا، ہماری گودوں میں کھیلا ہے نا۔ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا وغیرہ وغیرہ۔
جولیس سیزر سے ہوچی منہہ تک، ایڈیسن، ہنری فورڈ ، عبدالسلام سے بل گیٹس تک ، دلیپ کمار سے شاہ رخ خان تک ، نور جہاں سے ریشماں تک، کالی داس سے منٹو تک ، موزارٹ سے اے آر رحمان تک، وان گاف سے شاہد رسام تک ، جانی واکر سے معین اختر تک، میر صاحب سے سبطِ علی صبا تک، ڈاکٹر قدیر سے اے پی جے عبدالکلام تک ، محمد علی سے پیلے اور میرا ڈونا تک اگر میں ہر شعبے میں نام لیتا چلا جاؤں تو کئی جلدیں درکار ہیں۔
مگر میں نوحہ گر ہوں ان لاکھوں بچوں کے لیے جن میں بے شمار بڑے لوگوں کے ہم پلہ ہونے کے تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے ، ہیں اور رہیں گے لیکن وہ اور ان کے خواب برابری کے مواقع نہ ملنے اور ہوش سنبھالتے ہی حوصلہ کچل دیے جانے کے سبب تاریک راہوں پر دھکیل دیے گئے اور دھکیلے جاتے رہیں گے۔
اور میں سلام کرتا ہوں ان بچوں کے والدین اور بھائیوں بہنوں کو جنھوں نے اپنا مستقبل سنوارنے کے بجائے اپنے کسی ایک بچے اور بچی کی اصل صلاحیتیں پہچان کر تمام پونجی اور توانائی اس بچے پر لگا دی اور اس کے شاندار مستقبل کی بنیاد کا پتھر بن گئے اور بچے نے بھی اپنے محسنوں کا سر فخر سے بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
یہی زندگی ہے۔ نہ نظام بدلے گا نہ بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز آویں گے۔اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
کروڑوں لوگ میراڈونا کے لیے جتنے افسردہ ہیں میں اتنا ہی پرامید ہوں۔جب تک محرومی، غربت، ذلت اور ارادے جیسی نعمتیں موجود ہیں تب تک یہ دنیا عظیم کرداروں سے خالی نہیں ہو سکتی۔
پچھلے سات ہزار برس کے تمام اولیا، اہلِ سخاوت، انقلابیوں، باغیوں ، شعلہ بیانوں ، نثرنگاروں، شاعروں، فلسفیوں ، مورخوں ، وقایع نگاروں ، اساتذہ ، سورماؤں، محققین ، سائنسدانوں ، موجدوں، تاجروں، ارب پتی صنعت کاروں، بینکاروں، کھلاڑیوں ، مہم جوؤں ، جہاز رانوں، سیاحوں ، تعمیراتی ماہرین ، موسیقاروں ، اداکاروں سمیت کسی بھی شعبے کی فہرست اٹھا لیں۔ننانوے فیصد نے غربت میں آنکھ کھولی ، محرومیوں کی گھٹی پی، ذلتوں کا وزن اٹھایا اور ارادوں پر سواری کرتے ہوئے عظمت کی سیڑھیوں پر درجہ وار جا کر بیٹھ گئے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں ایسے لوگوں کے احسانات نظرانداز کروں کہ جنھوں نے متمول ماحول میں آنکھ کھولی ، سونے کا نوالہ دیکھا ، آسودگی کے پروں تلے پرورش پا کر اعلیٰ مقام تک پہنچے اور دنیا کو اور بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا اور اپنے ارد گرد سے نکل کے باقی انسانوں کے لیے بھی سوچا۔اس کی سب سے درخشاں مثال گوتم بودھ ہے۔
مگر آسودگی کی گود میں پرورش پانے والے عظیم دنیا بدل لوگوں کی تعداد غربت اور محرومی سے نکلنے والے عظام کے مقابلے میں بہت کم ہے۔اس کی بنیادی وجہ شائد یہ ہو کہ اہلِ ثروت اگر آگے بڑھنے میں ناکام بھی رہیں تو انھیں سنبھالنے کے لیے کئی مددگار ہاتھ اور چند مضبوط کندھے میسر رہتے ہیں۔اگر نا بھی ہوں تو وہ اپنی ناکامی وضع داری کے پلو میں چھپا لیتے ہیں۔
مگر کچی بستیوں کے گلیاروں پلنے والا یا بند گھٹن زدہ سماجی و معاشی ناہمواری کی فضا میں سانس لینے والا کوئی بچہ یا بچی اونچائیاں چھونے کے خواب دیکھتا ہے تو ابتدا میں اس کا ہاتھ پکڑنے والا وہ خود ہی ہوتا ہے۔ اسے گھر میں اور گھر کے باہر تمسخر و طعنہ زنی کا راتب ملتا ہے۔اسے سنکی سمجھا جاتا ہے۔اس پر ترس کھایا جاتا ہے۔اس کے بارے میں پیش گوئیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں کہ یہ گھر کو تو خیر کیا سنبھالے گا خود کو ہی سنبھال لے تو بڑی بات ہے۔
اسے ہر آن زندگی کا رندہ چھیلتا رہتا ہے۔اس کے اردگرد ناکامیوں، ناامیدوں، گریہ بازوں اور کم نظروں کی ایک فوجِ ظفر موج ہمہ وقت رہتی ہے۔وہ تنہائی گزیدہ اپنے ارادے، منصوبے، خدشات اور امیدوں کا رازداں ایک آدھ کو ہی بنا سکتا ہے۔ وہ ایک آدھ جو اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے سرگوشی کرتا رہتا ہے '' ہارنا نہیں ایک نہ ایک دن تیرا بھی آئے گا بس تو لگا رہ ''۔
میں ایک بار اسکردو سے خپلو جانے والے تنگ اور خطرناک راستے پر سفر کر رہا تھا۔اچانک ایک موڑ پر ایک بورڈ نظر آیا '' یہاں غلطی کا موقع صرف آخری بار ملتا ہے ''۔سوچیے اپنی مدد آپ پر مجبور جو بچے یا بچیاں عظیم خوابوں پر سوار ہو کر اندھے مستقبل میں چھلانگ مارنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے ذہن پر کیساکیسا بوجھ ہوتا ہوگا۔کیسے کیسے خدشاتی اژدھے ان کو لپیٹے رہتے ہوں گے۔خبردار ذرا سی لغزش اور پلٹنے کا ایک بھی موقع نہیں۔
شکستگی نے یہ دی گواہی بجا ہے اپنی یہ کج کلاہی
سنو کہ اپنا کوئی نہیں ہے ہم اپنے سائے میں پل رہے ہیں
( احمد نوید )
اور جب وہ اندھے مستقبل میں چھلانگ مار کر گمنامی و صدمے کی کھائی میں گرنے کے بجائے خود کو سنہرے مستقبل کی گود میں پاتے ہیں تو سب سے پہلے ان کی زندگی کے تمام ولن و حاسد و ریاکار ان کی جانب یہ کہہ کر دوڑ پڑتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے تو ایک نہ ایک دن یہ کمال کر دکھائے گا، دراصل ہمارا یہ بچہ شروع سے ہی باقی بچوں سے الگ تھا، ہماری گودوں میں کھیلا ہے نا۔ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا وغیرہ وغیرہ۔
جولیس سیزر سے ہوچی منہہ تک، ایڈیسن، ہنری فورڈ ، عبدالسلام سے بل گیٹس تک ، دلیپ کمار سے شاہ رخ خان تک ، نور جہاں سے ریشماں تک، کالی داس سے منٹو تک ، موزارٹ سے اے آر رحمان تک، وان گاف سے شاہد رسام تک ، جانی واکر سے معین اختر تک، میر صاحب سے سبطِ علی صبا تک، ڈاکٹر قدیر سے اے پی جے عبدالکلام تک ، محمد علی سے پیلے اور میرا ڈونا تک اگر میں ہر شعبے میں نام لیتا چلا جاؤں تو کئی جلدیں درکار ہیں۔
مگر میں نوحہ گر ہوں ان لاکھوں بچوں کے لیے جن میں بے شمار بڑے لوگوں کے ہم پلہ ہونے کے تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے ، ہیں اور رہیں گے لیکن وہ اور ان کے خواب برابری کے مواقع نہ ملنے اور ہوش سنبھالتے ہی حوصلہ کچل دیے جانے کے سبب تاریک راہوں پر دھکیل دیے گئے اور دھکیلے جاتے رہیں گے۔
اور میں سلام کرتا ہوں ان بچوں کے والدین اور بھائیوں بہنوں کو جنھوں نے اپنا مستقبل سنوارنے کے بجائے اپنے کسی ایک بچے اور بچی کی اصل صلاحیتیں پہچان کر تمام پونجی اور توانائی اس بچے پر لگا دی اور اس کے شاندار مستقبل کی بنیاد کا پتھر بن گئے اور بچے نے بھی اپنے محسنوں کا سر فخر سے بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
یہی زندگی ہے۔ نہ نظام بدلے گا نہ بڑے لوگ پیدا ہونے سے باز آویں گے۔اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)